کوئی ہے پلیز مجھے یہاں سے نکالو خدا کے لئے مجھے جانے دو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔
ہانیہ بند کمرے میں موجود تھی جہاں بس چاروں دیواریں تھی اور ہر طرف اندھیرا تھا جہاں بس مدہم سی روشنی کمرے کے روشن دان سے آرہی تھی ۔۔۔
ہانیہ کو اس بند کمرے سے بہت خوف آرہا تھا ۔۔وہ نہیں جانتی تھی کے وہ کہا موجود ہے کیونکہ جب اسے یہاں لایا جارہا تھا تو اسکی آنکھوں پر ایک پٹی بندھ دی گئ تھی تاکہ وہ نا جان سکے کے اسے کہا لایا جا رہا ہے ۔۔
بس اسے جب کمرے میں لایا گیا تو اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹی تو اس نے خود کو ایک اندھیرے کمرے میں موجود پایا وہ چلا رہی تھی رو رہی تھی لیکن کوئی نہیں تھا جو اسے یہاں سے نکالتا۔۔
اے لڑکی کیا مسلہ ہے کیو چلا رہی ہو۔۔اسے ہی چلانے یا رونے کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ کوئی موجود نہیں ہے جو تمھاری آواز سن کر تمھیں بچانے آئے گا۔۔
جب ہانیہ رو رہی تھی تو ایک ادمی دروازہ کھول کر اندر آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر ہانیہ پر چلانے لگا۔۔۔
تم کون ہو کیا بیگارا ہے میں نے اپکا کیو مجھے اس طرح یہاں قید کر رکھا ہے۔۔
میں آپکے آگے ہاتھ جورتی ہو خدا کے لئے مجھے یہاں سے جانے دو۔۔
ہانیہ نے اس ادمی کے اگے ہاتھ جور کر گیرگراتے ہوئے کہا۔۔
تم نے میرا تو کچھ نہیں بیگارا لیکن میرے بوس کا بہت کچھ بیگارا ہے اور جب تک وہ اجازت نہیں دیگا تم کہی نہیں جا سکتی۔۔
ہاہاہاہاہا۔اس ادمی نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔
ک ک کون ہے تمہارا بوس کس کے کہنے پر تم نے مجھے اغوا کیا۔۔
ہانیہ نے گھبراتے ہوئے اس سے پوچھا جو اسکی طرف دیکھ کر اسکی بے بسی پر ہنس رہا تھا۔۔
تم صبر رکھو لڑکی تمھاری یہ خواہش بھی پوری کردونگا۔اس ادمی نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو بوس جیسا آپ نے کہا تھا ویسا کر دیا ہے لیکن سر وہ لڑکی آپ کا نام پوچھ رہی تھی کے کس نے میرے ساتھ یہ سب کیا لیکن میں نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔
اس ادمی نے موبائل پر کسی سے بات کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہاہاہاہا تم بس اسے کچھ مت بتانا تھوڑا ترپنے دو اسے جب ترپے گی نا تو پھر اسے اپنا دیدار کرواونگا۔۔۔۔
جب اس آدمی نے ہانیہ کے بارے میں بتایا تو دوسری جگہ کال پر دوسرے ادمی نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے سمجھا رہا تھا ۔۔۔
نا جانے کون تھا جو ہانیہ کو ترپتا دیکھ کر خوش ہو ہو رہا تھا۔۔
اس آدمی کے جانے کے بعد ہانیہ کتنی دیر تک اسی سوچ میں رہی کے آخر ایسا کون ہو سکتا ہے جس نے یہ سب کروایا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
یااللہ مجھے بچا لے مجھے اپنے گھر حانے کا کوئی راستہ دیکھا دے میں بہت مصیبت میں ہو ۔۔اے میرے اللہ مجھے اس مصیبت سے نکال تجھے میری عبادت کا واسطہ مجھے اس دلدل سے نکال دے کچھ کرکے میرے حنان کو بھیج دے۔۔
ہانیہ دیوار سے ٹیک لگائے رو رو کر اللہ کو اپنی عبادت کا واسطہ دے رہی تھی کے اللہ اس کی سن لے اس کو یہاں سے نکال دے۔۔۔
اور کتنے امتحانات تھے جن سے اسے گزرنا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
اے لڑکی اٹھو جب ہانیہ روتے روتے سوگئ تھی تو اس گوندے نے اس پر پانی دالتے ہوئے اسے جگایا۔۔
ہانیہ ایک دم گھبرا کر اٹھی تھی لیکن جو اس نے دیکھا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔
ہانیہ نے اپنے سامنے اس ادمی کو پایا جس کے ذہین و گمان میں بھی نہیں تھا کے وہ اس تک پہنچے گا۔۔۔
ت ت تمممممم ہانیہ نے گھبرا کے پوچھا۔۔
تم یہاں کسے پہنچے تمھیں پتا کسے چلا کے میں یہاں ہو۔۔
ہانیہ نے حیرت سے کہا۔۔۔
جی میری پیاری ہونے والی بیوی ۔۔بہت ترپایا تم نےمجھے ۔۔
اس ادمی نے ہانیہ کے قریب جا کر اس کی ٹھوری پر چاقو کی نوک رکھتے ہوئے کہا۔۔
اہ چاقو کی نوک جسے ہی آسکی تھوڑی پر لگی تو اس کے منہ سے آہ نکلی۔۔۔۔
درد ہورہا ہے نا اسے ہی مجھے بھی درد ہوا تھا جب تم لاہور سے مجھے چھوڑ کر یہاں بھاگ آئی تھی۔۔۔
یہ تو اچھا ہوا کے جس ادمی نے مجھے تمھیں اٹھانے کی سپاری دی تو مجھے پتا لگ گیا کے تم یہاں ہو۔۔۔
اس ادمی نے ہانیہ کے بال کھنچتے ہوئے کہا جو حیران ہوتے ہوئے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کے ایسا کون تھا جو اسے جانتا تھا جس نے اسے اٹھانے کی سپاری دی۔۔۔۔
یہ ادمی دیکھنے میں تیس سال کا تھا ۔۔جس کی گھنی گھنی داڑھی تھی لمبے بال تھے جس کی اس نے پونی بنا رکھی تھی اور سفید کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔
یہ وہی آدمی تھا جسے اس کے باپ نے اسکا سودا کیا تھا ۔۔۔
اس کا نام عبدلقدیر تھا جو ایک دون تھا۔۔ہانیہ کو اغوا کروانے کے لئے کسی نے اسکی سپاری اسے دی تھی۔ جس کی تصویر دیکھ کر عبدلقدیر اسلام آباد پہنچا تھا اور اسے اغوا کیا تھا۔۔۔
ایسا کون شخص تھا جو اس سے دشمنی نکال رہا تھا۔ہانیہ بہت خوفزدہ تھی اسے عبدلقدیر سے بہت در لگ رہا تھا۔۔۔۔
تم اگر اپنی سلامتی چاہتی ہو نا تو چپ چاپ یہاں بیٹھی رہو ورنہ یہ گولی تمھارے بھیجے میں اورادونگا۔
عبدلقدیر۔نے بندوق اس کی کن پوتلی میں رکھتے ہوئے کہا جو بس بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اوےےے بہادر میرا کچھ ضروری کام ہے اس لئے میں شہر سے باہر جا رہا ہو تم اس پر نظر رکھنا۔۔
اور تم میری جان تب تک جو کرنا ہے کرلو کیونکہ واپس آکر میں تم سے نکاح کرونگا۔۔۔
عبدلقدیر نے پہلے اپنے ادمی کو سارا پروگرام سمجھایا اور ہانیہ کا چہرا دپوچتے ہوئے اسے کہا۔۔۔جو بس خوفزدہ تھی ۔۔۔
تم جو مرضی کرلو میں تم سے شادی نہیں کرونگی۔۔ہانیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
چتاخ۔۔ چپ اگر آواز بھی نکلی تو جان سے ماردالونگا۔۔۔
۔اس سے پہلے ہانیہ کچھ اور بولتی اس نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسیدہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پتا لگا بیٹا ہانیہ کا۔۔جب حنان اور بلال صاحب گھر واپس آئے تو حنا بیگم نے روتے ہوئے ہانیہ کا ہوچھا۔۔
نہیں انتی پولیس اسٹیشن کمپلین کروائی ہے کچھ بھی پتا چلتا یے تو وہ انفارم کرینگے۔۔
حنان نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اور یہ کیا ہوا ی یہ خون۔۔۔
حنا بیگم کی نظر جب حنان کی شرٹ پر پری تو اس نے پوچھا۔۔
انتی وہ راستے میں ایک ادمی کا اکسیدینٹ ہوگیا تھا اس لئے اسے ہسپتال لے کر گئے تھے تو اس وقت لگ گیا ہوگا۔۔۔
حنان نے اپنی شرٹ کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اللہ خیر زیادہ تو نہیں لگی نا۔۔۔حنا بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔۔
نہیں نہیں بس سر لگی تھی تو بے ہوش ہو گیا تھا تو ابھی وہاں سے آرہے ہے۔۔۔
اچھا انتی انکل میں چلتا ہو بہت رات ہوگئ ہے میں صبح اونگا۔۔
حنان نے اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہانیہ یار کہا ہو تم کہا چلی گئی ہو مجھے چھوڑ کر تم جانتی ہو نا کے میں تمہارے بغیر نہیں رہے سکتا پھر بھی تم چلی گئی ہو ۔۔پلیز واپس اجاو آئی میس ہو ۔۔۔
حنان کمرے کی کھڑکی میں کھڑا اپنے موبائیل میں ہانیہ کی تصویر سے باتیں کر رہا تھا کے اس کی نظر نیچے ارسلان سکندر پر پری جو باہر کی طرف گاڑی لے کر جا رہے تھے۔۔
ڈیڈ رات کے دو بجے کہا جا رہے ہے۔۔حنان نے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔اور بھاگ کر نیچے کی طرف گیا۔۔۔۔
چاچا ڈیڈ کہا گئے ہے۔۔حنان نے چوکیدار سے پوچھا جو اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
۔جی حنان بابا وہ صاحب کو کسی کی کال آئی تھی تو ان سے ملنے گئے ہے۔۔۔
تم نے سنا کے کہا گئےہے۔۔۔
حنان نے بے تابی سے ہوچھا۔۔
نہیں بابا میں نہیں جانتا۔۔
چوکیدار نے اسے جواب دیا۔۔
اوکے ٹھیک ہے گیٹ کھولو اور اگر کوئی بھی میرا پوچھے تو بولنا کے کسی کام سے گیا ہے ۔۔۔
حنان گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا اور گاڑی کو آب ہائی وے کی طرف گھمایا۔۔کیونکہ یہ اتنا جانتا تھا کے ڈیڈ جہاں بھی جاتے یے ہائی وے کی سائڈ سے ہوکر جاتے ہے اس لئے اس نے بھی انکا پیچھا کرنے کے لئے گاڑی گھمایی کے سامنے کی طرف اسے ارسلان سکندر کی گاری دیکھائی دی تو حنان نے گاڑی کی رفتار تیز کی اور انکا پیچھا کیا۔۔۔۔۔۔
ارسلان صاحب نے گاڑی ایک سنسان جگہ پر روکی حنان نے بھی پیچھے ایک گلی میں گاڑی روکی اور انکو ایک سائڈ پر کھڑا ہوکر دیکھنے لگا۔۔
ارسلان صاحب ایک گھر میں داخل ہوئے ۔اور
یہ دیڈ کس کے گھر آئے یے کون ہوسکتا ہے اس گھر میں جا کر دیکھونگا تو پتا چلے گا ۔حنان نے انکا پیچھا کرتے ہوئے کہا ۔۔وہ دروازے کے پاس گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا اور خود سائڈ پر ہوگیا ۔۔
جسے ہی دروازہ کھولا تو حنان حیران ہوتے ہوئے دیکھنے لگا۔۔
یہ یہاں۔۔یہ تو وہی آدمی ہے جس کا اکسیدینٹ ہوا تھا۔۔۔
حنان نے اس آدمی کو گھور سے دیکھا وہ ادھر اودھر نظر گھما رہا تھا کے آخر کون ہوسکتا ہے جس نے دروازے پر دستک دی۔۔۔ سلیم کون ہے۔۔۔جی صاحب کوئی نہیں ایسے ہی کوئی آواز تھی۔۔جب اندر سے ارسلان نے پوچھا تو اس اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔
حنان سلیم کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس راز کو پتا لگانے کی کوشش کی جسے ہی دروازہ بند ہوا تو حنان کھڑکی کے پاس گیا جہاں سے سلیم اور ارسلان سکندر دونوں دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔۔
آخر ہمارا پلین کامیاب ہو ہی گیا ۔۔یہ لو اپنا مال۔۔
ارسلان نے کچھ پیسے اسے دیتے ہوئے کہا۔۔
میری بات کان کھول کر سنو دوبارہ یہاں نظر مت آنا سمجھے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ارسلان سکندر نے انہیں وارننگ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
جی جی صاحب نہیں آؤنگا بس آپ وقت پر میرے پیسے دیتے رہنا۔۔
سلیم نے مسکراہتے ہوئے کہا۔اوکے میں چلتا ہو پھر جب میں کال کرونگا تو یہاں سے نکل جانا اور باقی کے پیسے تمھیں مل جائے گے بس کسی کو کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے۔۔
۔۔۔۔۔
حنان نے ارسلان سکندر کو باہر اتے دیکھا تو بھاگتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھا۔۔۔
اخر کیا راز ہے اور ڈیڈ کون سے پلین کی بات کر رہے تھے ۔یہ تو اس سلیم سے مل کر ہی پتا چلے گا۔۔
حنان نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے ایک سائڈ پر ہوگیا..
جب ارسلان سکندر وہاں سے چلا گیا تو اس نے گاڑی سلیم کے گھر کے پاس روکی اور اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
جب دروازہ کھولا تو سلیم نے حنان کو دیکھ کر فٹ سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن حنان اندر جا چکا تھا۔۔۔۔
بتا کسے جانتا ہے میرے ڈیڈ کو اور کس چیز کے پیسے لئے تم نے ان سے۔۔۔حنان نے سلیم کا گریباں پکر کر کہا۔۔۔
م م میں نے کچھ نہیں کیا سب تمھارے باپ نے کیا ہے۔۔
سلیم نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔
کیآ کیا ہے بول ایک ایک بات بتاؤ ورنہ کل کا سورج نہیں دیکھ پاوگے۔م
حنان نے چھری اس کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا۔۔
ب ب بتاتا ہو ۔۔بتاتا ہو۔۔و وہ میں ہانیہ کا باپ ہو جس نے اسکا سودا کیا تھا لیکن وہ بھاگ کر یہاں آگئی تھی ۔
۔میں بھی اسکی طلاش میں یہاں آیا تو م م میں نے کچھ دن پہلے تمھیں ہانیہ کے ساتھ دیکھا تھا تو میں تم لوگوں کا پیچھا کیا تو پتا چلا کے تم ہانیہ کو پسند کرتے ہو لیکن تمہارا باپ راضی نہیں ہے تو میں تمھارے باپ کے پاس گیا اور اسے لالچ دیا کے تم مجھے پیسے دو میں ہانیہ کو اغوا کروا کر تمھارے راستے سے ہٹا دونگا تو تمھارا باپ مان گیا تھا ۔تو پھر میں نے عبدالقدیر کو کال کی اور بتایا کے ہانیہ یہاں ہے تو اسے اغوا کرکے تم یہاں سے لے جاؤ تو اس وجہ سے تمھارا باپ مجھے پیسے دینے آیا تھا۔۔۔۔سلیم نے جھٹ سے سارا سچ اوگل دیا۔۔۔
شرم آنی چاہیے تمھیں تم نے اپنی ہی بیٹی کا سودا کرلیا کیسے باپ ہو تم۔۔
حنان نے غصے سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ میری اپنی بیٹی نہیں ہے اس کا باپ شیخ تھا جس کو بیٹیاں پسند نہیں تھی تو اس نے اپنی پہلی بیٹی کو مجھ پر بیچا جو ہانیہ ہے۔۔۔۔
سلیم نے سب کچھ اسے بتا دیا۔۔۔۔
اوہ تو اچھا تو اسکا اپنا باپ ہی شیطان یے ایسے لوگوں کو تو پولیس کے حوالے کر دینا چاہے۔ کہا رہتا ہے یہ شیخ اور کیا ہانیہ کی ماں زندہ ہے۔۔
حنان نے بےتابی سے ہوچھا۔۔
جی وہ زندہ ہے اور وہ لاہور میں رہتے ہے۔۔
سلیم نے مریم اور شیخ کا پتہ بتایا۔۔
تو ٹھیک ہے پہلے تم مجھے ہانیہ تک لے کر چلو گے اور پھر لاہور اس شیخ کے گھر۔۔۔
حنان نے سلیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور میری بات کان کھول کر سن لو اگر تم نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا سمجھے۔۔۔حنان نے اسے وارننگ دی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔