مجھے شرم آتی ہے آپکو اپنا باپ کہتے ہوئے۔ آپ نے اتنی ذلیل حرکت کی اتنا پریشان کیا میری ہانیہ کو۔ آپ جسا باپ ہونے سے بہتر ہے بندا دشمن کو اپنا دوست بنا لے۔
لیکن اپ جسا باپ اللہ کسی کو نا دے۔۔ میں اپکو کھبی معاف نہیں کرونگا ڈیڈ آپ نے میرا بھروسہ توڑا ہے میری محبت کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کے وہ اب زندگی اور موت سے لر رہی ہے لیکن میں حنان سکندر اپنی محبت کو خود سے دور نہیں جانے دونگا کچھ نہیں ہونے دونگا اسے ۔۔
میری ہانیہ کو بچانے کے لئے مجھے موت سے بھی لرنا پرے تو میں لرونگا۔۔
لیکن ڈیڈ میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں میں اگر اس گھر میں رہے رہا ہو تو وہ میری ماں ہے ..
۔
اگر میں نے اپنی ماں سے وعدہ نا کیا ہوتا تو یہاں سے کب کا جا چکا ہوتا...
لیکن مجھے اپنی ماں کے لئے اپکو برداشت کرنا ہوگا۔۔۔۔حنان نے غصے بڑھی نگاہ سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔۔..
۔۔۔۔۔۔
حنان آج تین دنوں بعد گھر آیا تھا اور آتے ہی ارسلان سکندر نے حنان سے سوال کیا....
کے تم کہا سے آرہے ہو تین دنوں بعد جب کے تم اچھی طرح جانتے ہو کے ہمیں لڑکی والوں سے ملنے جانا تھا تو تم گھر سے ہی غائب ہوگئے تو حنان نے پھر غصے سے انہیں سب بتایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر حنان۔۔۔۔جب حنان کل کی ہونے والی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا تو ڈاکٹر صاحب نے اسے آواز دی اور اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔.
جی ڈاکٹرکہئے کیا بات ہے آپ نے اتنا ارجنٹلی کیو بلایا۔۔۔
حنان نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے مسٹر حنان ہم معذرت چاہتے ہے کے اپکو اتنی پریشانی ہوئی۔۔.
دراصل اپکی بیوی کی رپورٹ ہمارے دوسرے پیشن سے مل گئ تھی جس وجہ سے ہمیں کنفوزن ہوگئ ۔۔۔۔.
کیا مطلب ڈاکٹر۔۔۔حنان نے نا سمجھنے والے انداز سے پوچھا۔۔۔
دراصل حنان آپ کی بیوی کو برین ٹیومر نہیں ہے انکی رپورٹ بلکل صاف ہے,
بس ستریس کی وجہ سے بے ہوش ہوگئ تھی, اکچلی ہماری دوسری پیشن کا نام بھی سیم تھا اس لئے ہمیں پتا نہیں چلا۔۔۔.
یہ کیا بات کر رہے ہے آپ ۔۔اااپ سچ کہے رہے ہے ہانیہ کو کچھ نہیں ہے۔۔۔
ٹھینک یو ڈاکٹر ٹھینک یو سو مچچچچ ۔۔آپ نہیں جانتے ڈاکٹر اپ نے کتنی بری خوشی دی ہے مجھے میں اپکا احسان کبھی نہیں بھولونگا۔۔۔۔
حنان نے انکا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔اور رپورٹ لے کر سیدھا ہانیہ کے گھر کی طرف نکلا,
۔۔۔۔۔
حنان آج بہت خوش تھا اللہ نے اس کی سن لی تھی اللہ نے اسکی محبت اسے واپس لوٹا دی تھی,
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اوڑھ کر ہانیہ کے پاس پہنچ جائے اور اسے گلے لگا کر کہے کے لو ہانیہ تم ٹھیک ہو تم اب ساری زندگی میرے ساتھ رہوگی تمھیں مجھ سے کوئی نہیں چورا سکتا۔۔۔.
حنان نے رپورٹ کو گاڑی کی سیٹ پر رکھا اور خود گاڑی ڈرائیو کرنے لگا گاری کا رخ اب ہانیہ کے گھر کی طرف تھا ۔۔۔..
تھوڑی ہی دیر میں حنان نے گاڑی ہانیہ کے گھر کے پاس روکی اور بھاگتا ہوا گھر کے اندر گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ حور۔انکل انتی جلدی جلدی سب باہر آئے ایک گڈ نیوز ہے۔۔حنان نے اندر داخل ہوتے ہی سب کو آواز دی سب کمرے سے باہر ہال میں جمع ہوئے۔۔۔.
کیا بات ہے بیٹا۔۔۔بلال صاحب نے حنان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
انکل یہ ہانیہ کی رپورٹ ہانیہ بلکل ٹھیک ہے رپورٹ ایکسچینج ہوگئ تھی جس وجہ سے یہ سب ہوا۔۔۔۔ حنان نے ان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تم نے میری سن لی میری بچی کو بچا لیا۔۔۔.
حنان کی بات سن کر حنا بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا،.
اللہ تمھیں لمبی عمر دے بیٹا۔۔ حنا بیگم نے ہانیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا جو حیرانی سے سب کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
حور دیکھو تمھاری اپی بلکل ٹھیک ہے اسے کچھ نہیں ہوا۔۔۔
حنا بیگم نے حورعین کے پاس جا کر اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا، جو کھڑی بس آنسو بہا رہی تھی ،،،
۔۔۔۔۔۔۔
اس دن جب یہ رو رہی تھی تو حنا بیگم کمرے میں آئی اور اس سے رونے کی وجہ پوچھی جو نماز میں سجدے میں گیری اللہ سے رو رو کے دعائیں کر رہی تھی جس کی آواز سن کے حنا بیگم بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔۔حنا بیگم نے اسکو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔.
ماما کیو ہوا ایسا اپی کے ساتھ اتنی سی عمر میں اس بیماری کی شکار۔۔مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ماما میں نے بہت کنٹرول کیا کے اپ سب کو نا پتا لگے کے میں جان چکی ہو لیکن جب بھی اپی کو دیکھتی ہو تو میرے آنسو نہیں روکتے۔۔۔
حورعین نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔۔
جسے دیکھ کر حنا بیگم بھی رونے لگی،
کچھ نہیں ہوا مجھے آپ دونوں تو اسے رو رہی ہے کے مجھے ابھی موت کا فرشتہ لینے آرہا ہے۔۔۔
ہانیہ نے ان دونوں کے پاس اتے ہوئے خود کے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا،
لیکن وہ جانتی تھی کے اس کے دل میں اس وقت کتنا درد چھپا ہے،.
سب فیملی سے دور ہونے کا درد۔۔حنان سے دور ہونے کا درد۔۔لیکن سب کو حوصلہ دینے کے لئے اسکا حوصلہ کرنا ضروری تھا جو وہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
لیکن آج اللہ نے سب کی فریاد سن لی تھی ہانیہ بلکل ٹھیک تھی۔۔۔کہتے ہے نا کے کبھی دوا سے زیادہ دعا رنگ لاتی ہے اور ایسا ہی ہوا تھا سب کی دعائیں رنگ لے آئی تھی،
ہانیہ کو اللہ نے بچا لیا تھا ایک ایسی بیماری سے جس میں کتنے لوک مبتلا تھے اور کتنے اپنے پیاروں سے دور ہوکر اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ اپی آپکو کچھ نہیں ہوا اللہ نے اپکو کچھ نہیں کیا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔میں بہت خوش ہو اپی اتنی خوش کے بس دل کرتا ہے کے پوری دنیا سے چینخ چینخ کر کہو کے میری اپی بلکل ٹھیک ہے۔۔۔حورعین نے ہانیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔.
انکل اپکی اجازت ہو تو میں ہانیہ کو باہر لے جاؤ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہو اکیلے میں۔۔۔
حنان نے بلال صاحب سے اجازت لیتے ہوئے کہا۔۔
جی بیٹا کیو نہیں ۔۔بلال صاحب نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اور سب کمرے میں چلے گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔
چلے حنان سیدھا ہانیہ کے پاس آیا اور اسکی طرف اپنا ہاتھ برھاتے ہوئے بولا۔۔۔جو شرما کر ادھر اودھر دیکھنے لگی۔۔۔
چلو میدم جی کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔حنان نے مسکراہتے ہوئے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے باہر لے گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں آج بہت خوش ہو ہانیہ اللہ نے ہمیں پھر سے ایک کردیا، اب ہمیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ،دنیا کی کوئی طاقت ہمیں الگ نہیں کر سکتی تم بس میری ہو اور ہمیشہ میری ہی رہو گی حنان نے ہانیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔
جس وجہ سے ہانیہ کے دل کی دھرکن تیز دھڑک رہی تھی۔۔آج حنان نے پہلی بار اسے گلے لگایا تھا۔۔
دونوں اس وقت ایک پارک میں موجود تھے جہاں اس وقت کوئی موجود نہیں تھا۔۔
یہاں بہت کم ہی کوئی ہوتا تھا۔۔بس دور دور کچھ لوگ تھے جو اپنی باتوں میں مگن تھے،
شام ڈھلنے والی تھی بس ہر طرف پرندوں کے چہچانے کی آوازوں تھی مارچ کا موسم تھا اور موسم بھی خشگوار تھا ہوائیں فضا کے گرد گھوم رہی تھی ہر طرف پر سکون ماحول تھا شام کے سات بجنے والے تھے۔۔۔
اور اس پر سکون ماحول میں یہ دونوں بس اپنے پیار کے گیت گا رہے تھے۔۔۔
حنان گھر چلےرات ہونے والی ہے۔۔ہانیہ نے دھیرے سے کہا۔۔۔
جی چلتے ہے چلو۔۔حنان نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔اس بار ہانیہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں میں رکھ دیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کتنا حسین احساس ہوتا ہے نا محبت کا پہلے یہ دونوں انجان اجنی تھے جو ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں تھے اور اب ایک دوسرے پر مر متنے کی قسمیں کھا رہے تھے۔۔
پہلی بار اسی جگہ پر ہانیہ کی ملاقات حنان سے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ تم ایسکریم کھاوگی ۔۔جب حنان اور ہانیہ پارک سے باہر نکلے تو سامنے ایسکریم والے کو دیکھ کر حنان نے ہانیہ سے پوچھا جس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
تم یہاں رکو میں لے کر آتا ہو۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
حناننننن۔۔۔۔مجھے بچاؤ۔۔۔
جسے ہی حنان سامنے ایسکریم لینے گیا تو۔۔۔
ایک بری سی گاڑی اکر ہانیہ کے سامنے روکی اور اس میں سے دو آدمی نکلے جنہوں نے چہرے کو کپرے سے دھانپ رکھا تھا،
انہوں نے ہانیہ کو پکرا اور گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔۔۔
ہانیہ کی آواز سن کر حنان نے کھڑی گاڑی کو دیکھا۔۔حنان نے ایسکریم وہاں ہی پھینکی اور گاڑی کے پیچے بھاگا۔۔۔
ہانیہ ہانیہ۔۔گاڑی روکو سالو میں تم لوگوں کو جان سے ماردالونگا،
حنان چلاتا رہا بھاگتا رہا لیکن وہ لوگ گاڑی لے کر بھاگ چکے تھے۔۔۔
۔۔۔۔
کتنے خوش تھے یہ دونوں ابھی تو ان کی دوری ختم ہوئی تھی ابھی تو ان کے پیار کی منزل اگے بھرنے لگی تھی کے نئی مصیبت انکی منتظر تھی اور ان دونوں کی خوشیوں کو اپنے ساتھ لے گئ تھی۔۔۔۔..
۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال انکل حنان چلاتا ہوا گھر آیا۔۔۔
جی بیٹا کیا ہوا۔۔حنان کو اس طرح پریشان دیکھ کر بلال صاحب حنان کے پاس آئے۔۔
انکل وہ ہانیہ کو کچھ لوگ اغوا کرکے لے گئے یے۔۔
میں نے ہیچھا بھی کیا لیکن وہ لوگ جا چکے تھے ہمیں پولس اسٹیشن جانا ہوگا،
حنان نے بلال صاحب کے کاندھوں پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا جو بلکل رو دینے والے انداز میں تھے۔۔۔۔
ایک بات بیٹا تم حور اور حنا کو فلحال کچھ مت بتانا اکر بتائے نگے،بلال صاحب نے منا کیا لیکن انھیں پتا چل ہی گیا تھا کیونکہ حنان کی آواز پر وہ دونوں بھی آگئی تھی اور کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا اپی کو کہا گئ کون لے گیا۔۔
حور نے روتے ہوئے کہا۔اس کے ساتھ حنا بیگم بھی کھڑی رو رہی تھی۔۔۔
کچھ لوگ اسے اغوا کرکے لے گیے ہے آپ لوگ فکر مت کرے میں ہانیہ کو کچھ نہیں ہونے دونگا،
حنان حور کو کہے کر چلا گیا،۔
۔۔۔۔۔۔۔
ماما یہ کیا ہوا رہا ہے ہمارے ساتھ ایک پریشانی جاتی ہے دوسری اجاتی ہے ۔۔۔
حورعین نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھو بیٹا اسی میں اللہ کی بہتری ہوگی اس میں ضرور کوئی راز پوشیدہ ہوگا،
تم بس اللہ پر بھروسہ رکھو کیونکہ جو اللہ سے امیدیں باندھتے ہے انہیں اللہ کبھی رسوا نہیں یونے دیتا اور انشاءاللہ سب ٹھیک کردے گا اللہ سب جاننے والا ہے۔۔۔
حنا بیگم نے حورعین کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو سر میں حنان سکندر ہمیں کمپلین لکھوانی ہے۔۔حنان نے پولیس اسٹیشن داخل ہوتے ہی پولیس انسپکٹر سے کہا۔۔۔
جی کہے کیا مسئلہ ہے۔۔انسپکٹر نے پین اور رجیسٹر کھولتے ہوئے کہا۔۔
سر میری منگیتر کو کچھ لوگ اغوا کرکے لے گئے ۔۔حنان نے انسپکٹر سے کہا۔۔
کونسی گاڑی تھی اور نمبر کلر یاد ہے۔۔
انسپکٹر نے حنان سے پوچھا۔۔
جی کالے کلر کا کیری دبہ تھا۔۔اور نمبر یاد نہیں حنان نے جھت سے کہا۔۔
اور یہ حادثہ کس وقت اور کہا ہوا۔۔۔
انسپکٹر نے حادثے والی جگہ کا پوچھا۔۔
جی فیملی پارک کے روڈ پر ۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے ہم اپنا کام شروع کرتے ہے کچھ خبر ملی تو بتا دینگے ہمیں لڑکی کی تصویر دیکھآ دے۔۔۔
انسپکٹر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔
جی سر یہ تصویر ہے۔۔حنان نے ہانیہ کی تصویر انہیں دیتے ہوئے کہا۔۔۔
اور مسٹر حنان اپکی یا اپکے گھر والوں کی کسی سے دشمنی ۔۔۔ انسپکٹر نے حنان سے اپنے زاتی طالقات کے بارے میں پوچھا۔۔
نہیں سر کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔۔
حنان نے دھیرے سے کہا۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے ہم چلتے ہے پھر کچھ بھی انفارمیشن ملی تو اپکو بتادےنگے۔ انسپکٹر نے اپنی ٹوپی سر پر پہنتے ہوئے کہا۔۔۔
پلیز جلدی کچھ کرے سر بلال صاحب نے انسپکٹر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔۔۔..
ناجانے زندگی کیا کھیل کھیل رہی تھی ان کے ساتھ ایک ہی پل میں ان کو خوشیاں ملتی بھی تھی اور دوسرے پل میں چلی بھی جاتی تھی لیکن حنان ہمت ہارنے والا نہیں تھا اس نے ہر جگہ تلاش جاری رکھی اور ہر جگہ ہانیہ کہ طلاش کرتا رہا ۔۔۔۔
۔۔
اخر کون دشمن ہوسکتا ہو۔۔حنان نے پولیس اسٹیشن سے باہر اتے ہی بلال صاحب سے کہا۔۔۔
کچھ نہیں پتا بیٹا آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی دشمنیوں کا بدلہ بھی لیتے ہے جنہیں ہم اکثر نظر انداز کر جاتے ہے۔۔لیکن تم فکر مت کرو کچھ نا کچھ پتا چل ہی جائے گا۔۔۔
بلال صاحب نے حنان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا جو ناجانے کیا سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔
دونوں گاڑی میں بیٹھے اور گھر کی طرف مرے کے ایک ادمی ان کی گاڑی سے ٹکرایا اور بے ہوش ہوگیا۔۔۔۔۔
حنان اور بلال صاحب جلدی گاڑی سے نکلے اور اس ادمی کے پاس گئے آس پاس لوگوں کا ہجوم کھڑا ہوگیا تھا۔۔
حنان نے انھیں سیدھا کیا تو دیکھا کے یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو نا جانے کسی نشے کی حالت میں تھا ۔۔حنان نے انہیں اٹھایا اور گاری میں بٹھا کر گاڑی ہسپتال کی طرف گھمایی اور اسے ہسپتال لے کر چلے گئے۔۔