دھوکے باز عورت تم نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اس لڑکی کو بھاگا دیا نا۔
اب دیکھو میں کیا حال کرتا ہو تمھاری اس منہ بولی بیٹی کا بہت پیار ہے نا تمھیں اس سے اب میں اسکی لاش تمھارے پاس بھجواؤ گا تو پھر پتا چلے گا۔۔
نہیں نہیں خدا کے لیے راشد صاحب ایسا مت کرے میں قسم کھا کر کہتی ہو کے میں نے نہیں بھگایا حورعین کو وہ تو خود بھاگی ہے ۔۔
عائشہ ان کے قدموں میں گیری اپنی بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی ۔۔
کیونکہ وہ عائشہ کی دوست مریم کی بیٹی تھی ۔جسے مریم نے اس کے حوالے کر دیا تھا۔۔۔
جب راشد صاحب کو جیل میں گئے ہوئے پانچ سال گزر گئے تھے تو ایک دن عائشہ کو مریم کی کال آئی تھی۔۔۔تو عائشہ نے کال اٹھائی اور سلام کیا۔۔۔۔
اسلام علیکم مریم کسی ہو یار کہا تھی اتنا ٹائم جانتی ہو کتنا مس کیا تمھیں۔۔۔
عائشہ نے کال اٹھاتے ہی کہا۔۔۔۔
وعلیکم سلام ع ع عائشہ میری بات سنو پلیز تم سٹی ہسپتال آجاو۔۔۔۔
مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔
کیا ہوا مریم تم کیو رو رہی ہو۔۔عائشہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں سب بتاتی ہو عائشہ تم بس اجاو۔۔
مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
اوکے اوکے میں آرہی یو تم رونا بند کرو۔۔
عائشہ نے کال بند کی ریحان کو لیا اور ہسپتال کے لئے نکلی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا مریم تم ٹھیک ہو۔۔عائشہ نے آتے ہی کہا۔۔۔۔
عائشہ میری دوست مریم نے عائشہ کے گلے لگتے ہی رونا شروع کردیا۔۔۔
کیو رو رہی ہو۔۔عائشہ نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عائشہ تم میری بات دھیان سے سنو یہ میری بیٹی ہے جس کی تھوڑی دیر پہلے پیدائش ہوئی ہے۔
تم پلیز اسکو اپنے پاس رکھ لو تم اسکو اپنی بیٹی بنالو، کیونکہ جس طرح میرے اس ظالم شوہر نے میری پہلی دونو بیٹیوں کو بیچ دیا، وہ اسے بھی بیچ دیگا اور اب میری برداشت ختم ہوگئ یے ،
خدا کے لئے تم میری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا لو میں تمہارے سامنے ہاتھ جورتی ہو۔۔۔
مریم نے اپنی ایک دن کی بیٹی کو عائشہ کی گود میں دالتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن مریم تو کیو برداشت کر رہی ہو اس ظالم شخص کے ظلم ۔تم اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتی پولیس کے حوالے کرو اس شیخ کو۔۔۔
عائشہ نے غصے سے کہا۔۔
نہیں نہیں عائشہ میں ایسا نہیں کر سکتی وہ جیسا بھی ہے میرا شوہر ہے میرا مزاج خدا ہے اور میں اسے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی،
تم بس اسے یہاں سے بہت دور لے جاؤ جہاں شیخ کا سایا بھی اس پر نا پرے۔۔
مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔
عائشہ تم چلی جاؤ وہ شیخ آتا ہی ہوگا کیونکہ اسے پتا چل گیا ہے کے تیسری بار بیٹی ہوئی ہے تو وہ اسے تو اس۔ بار ماردالے گا اور میں دوری تو برداشت کر سکتی ہو لیکن موت نہیں تم جاؤ ۔۔۔۔
مریم نے عائشہ کو جانے کا کہا اور عائشہ اس چھوٹی سی بچی کو اپنے گھر لے کر آگئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
عائشہ نے اس بچی کو ایک ماں کی طرح پالا لیکن ہر وقت اسی خوف میں بھی تھی کے جب راشد جیل سے باہر اگیا تو کیا ہوگا ۔۔۔
اور ریحان بھی برا ہو رہا تھا ان پانچ سالوں میں پتا ہی نہیں چلا تھا اور ریحان پندرہ سال کا ہوگیا تھا ۔۔ریحان نے بھی پندرہ سال کی عمر میں اپنی اس ایک سال کی بہین کے ساتھ بہت خوش تھا ۔۔
عائشہ نے اس بچی کا نام شانزے رکھا تھا۔۔
کیونکہ اسکی بہت خواہش تھی کے جب بھی اسکی بیٹی ہو وہ اسکا نام شانزے رکھے لیکن قدرت نے اسے اپنی نا سہی لیکن دوست کی بیٹی دی تھی جسکا نام اس نے شانزے ہی رکھا تھا ۔۔۔
یہ تینوں بہت سکون کی زندگی گزار رہے تھے ایک دن ان کی خوشیوں کو نظر لگ گئ اور دس سال پورے ہونے کے بعد راشد واپس گھر اگیا اور جب وہ آیا تو ریحان کی بیسوی سالگرہ تھی۔۔
ہیپی برتھ دے ٹو یو ریحان بیٹا میرا بیٹا اتنا برا ہوگیا اپنے بابا سے نہیں ملو گے۔۔
راشد نے اسکو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاتھ مت لگائے مجھے پاپا آپ گندے ہے مجھے آپ بلکل پسند نہیں ہے۔۔ریحان نے راشد کو پیچھے کرتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔۔۔
راشد نے غصے سے عائشہ کی طرف دیکھا کے اسکی نظر پانچ سال کی بچی کی طرف پری جو گلابی کلر کے فراک میں مبلوس جس کا سفید رنگ گول چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھی چھوٹے چھوٹے بال جو کاندھوں تک آرہے تھے ان پر ہیربیند لگا رکھا تھا۔۔
وہ عائشہ کے پیچھے چپ رہی تھی اسے راشد سے خوف آرہا تھا جس کی بری بری داڑھی بڑھی ہوئی تھی آنکھیں سرخ تھی کالا سیاہ رنگ ان دس سالوں میں اس کی حالت بہت خراب تھی۔۔۔
یہ بچی کون ہے عائشہ۔۔۔راشد نے اس بچی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
میری بیٹی ہے اور اس سے دور رہے اپکا کوئی رشتہ نہیں مجھ سے اور میرے بچوں سے۔۔۔
عائشہ نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روکا جو ان دونوں کی طرف بھر رہے تھے۔۔۔
عائشہ تمھاری بیٹی کہا سے آگئی کہا سے اٹھا کے لائی ہو یا میرے جانے کے بعد کہی گلچارے اراتی رہی ہو اور یہ اسی کی ناجائز اولاد ہے۔۔۔
راشد نے نفرت بھری نگاہ سے عائشہ کے بال کھنچتے ہوئے کہا۔۔۔
چیچیچی شرم آتی ہے مجھے اپکی سوچ پر آپ میرے بارے میں ایسا سوچ رہے ہے یہ میری دوست کی بیٹی ہے جسے میں نے اپنی بیٹی بنایا ہے اور آپ اتنی گھٹیا بات کر رہے ہے۔۔۔
عائشہ نے اپنے بال اسکی گرفت سے چھوڑاتے ہوئے کہا۔۔۔
اوہ اچھا تو تم اب لوگوں کے بچے بھی پالنے لگی ہو تو میں بتا دو عائشہ جس طرح تم نے میرے بیٹے کو مجھ سے دور کیا ہے نا اسی طرح میں تمہاری اس منہ بولی بیٹی کو دور کرونگا۔۔۔
راشد نے عائشہ کو دھکا دیا اور پانچ سال کی شانزے کو اٹھا کر لے گیا عائشہ روتی رہی چلاتی رہی لیکن راشد نے اسکی ایک بھی نا سنی اور تب سے لے کر اب تک راشد عائشہ کو شانزے کے لئے ترپا رہا تھا ۔۔۔
اور آج شانزے کو عائشہ سے دور ہوئے تیرا سال گزر چکے تھے لیکن راشد نے عائشہ کو اسکا پتا نا دیا اور آج حور کے بھاگنے کا زیمدار راشد ریحان اور عائشہ کو ٹھہرا رہا تھا جس وجہ سے راشد شانزے کو مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنا بیگم کے کمرے سے جاتے ہی حور نے لیپ ٹاپ کھولا اور پھر سے اس فولد کو آن کیا جس کو دیکھ کر حیران کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہے گئ۔۔۔
سکرین پر ایک تصویر تھی جس میں راشد۔۔عائشہ۔۔حنا اور بلال کی تصویر تھی جہاں چاروں کھڑے تھے اور بہت خوش تھے م م ماما پاپا وہ بھی انتی اور انکل کے ساتھ حورعین نے حیرانی سے زیر لب کہا۔۔۔۔
یہ کسے ہوسکتا ہے کیا واقعی ریحان سچ کہے رہا تھا۔۔ریحان کا خیال آنے پر حورعین نے کہا۔
حورعین نے جلدی سے اگلی تصویر نکالی جو پوری فیملی پیکچر تھی جس میں حنا بیگم ریحان کو اور عائشہ بیگم حورعین کو انگوتھی پیہنا رہی تھی جسے دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کے یہ اسکی منگنی کی تصویر تھی۔۔م م مطلب ریحان سچ بول رہا تھا ۔۔
حورعین نے کانپتے ہوئے روندھی آواز میں کہا۔۔کتنی دیر تک ایسے ہی حور تصویریں دیکھتی رہی پھر اس نے دوسرا فولدر کھولا جس میں کوئی ویڈیو تھی حورعین نے وہ کھولی جس میں ریحان بول رہا تھا کے۔۔۔
اسلام علیکم حور کسی ہو امید کرتا ہوں کے تمھیں یقین آگیا ہوگا کے میں سچ بول رہا تھا۔۔اوردوسری بات یہ ہے کے میں تمھارا پھوپی ذاد کزن ہو جس سے تمھاری منگنی ہوگئ تھی اور تب سے میں تمھیں دیوانوں کی طرح چاہتا ہو۔۔ہماری منگنی ہماری فیملی نے اپنی خوشی سے کی تھی لیکن میرے پاپا کی وجہ سے یہ رشتہ ختم ہوگیا تھا کیو کے میرا باپ ایک درگز دیلر تھا ۔۔جو ترکی میں بیچا کرتا تھا اور بھی بہت سے کام تھے جو وہ ناجائز کرتا تھا جس وجہ سے انہیں جیل ہوئی ۔۔اور میری ایک منہ بولی بہین ہے جسے میرے باپ نے اغوا کر رکھا ہے اور مجھے اور میری ماں کو بلیک میل کر رہا ہے کے وہ بلال ماموں سے بدلا لے اور جسکا نشانہ وہ میرے ذریعے تمھیں بنانا چاہتے ہے جو میں نا چاہتے ہوئے بھی تمھیں پریشان کر رہا ہو انکا مقصد ہے کے میں تمھیں اپنے پیار میں پھانسو اور تم سے زبردستی نکاح کرکے تم پر ظلم کرو تاکہ تمھیں تکلیف میں دیکھ کر بلال ماموں کو تکلیف ہو ، جو میں نہیں کرنا چاہتا میں تم سے سچی محبت کرتا ہو اور تمہاری مرضی سے میں تم سے شادی کرونگا۔۔
میرا یہ سب بتانے کا مطلب یہ ہے کے تم میرا ساتھ دو اور مجھ سے شادی کا ڈرامہ کرو تاکہ میں اپنی بہن کا پتا لگا سکو۔۔بس یہ ہی چاہتا ہو۔۔تمھارا کزن آر ایچRH...
جسے ہی حورعین نے یہ ویڈیو دیکھی تو اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کے کسے کوئی اتنا ظالم ہوسکتا ہے اور میں نے اسے شخص کو دھوکا دیا جو مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے ۔۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔کہی انکل کچھ غلط نا کردے جس وجہ سے ریحان اور پھوپھو کو تکلیف ہو نہیں میں ایسا نہیں ہونے دونگی میں واپس جاونگی وہ میرا شوہر ہے میراکزن ہے میں کسے اتنی مطلبی ہوسکتی ہو مجھے پاپا ماما کو سب بتانا ہوگا۔۔۔حورعین اٹھی اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور لیپ ٹاپ کو ایک الماری میں رکھا اور اپنے والدین کے کمرے میں داخل ہونے لگی ہی تھی کے اس کے قدم وہا ہی رک گئے۔۔۔۔
دیکھو حنا صبر رکھو ہماری ہانیہ کو کچھ نہیں ہوگا اللہ سب ٹھیک کردیگا۔جب حنا بیگم ہانیہ کے لئے آنسو بہا رہی تھی تو بلال صاحب نے انہیں حوصلہ دیا۔۔۔
نہیں بلال مجھے سمجھ نہیں آرہی کے ہم کب تک حور سے ہانیہ کے برین ٹیومر کی بات چھپائے گے اخر اسے بتانا تو ہوگا نا۔۔۔
حنا بیگم نے جسے ہی یہ کہا تو حور ساخت کھڑی نا سمجھی والی انداز سے واپس مری اسکا دل اندر سے بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔۔
حور کمرے میں گئ اور زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چینخے مار کر رونے لگی۔۔۔نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا کسے میری اپی اتنی تکلیف میں ہے یااللہ میری عمر بھی میری اپی کو دیے دے لیکن میری اپی کو ٹھیک کردے پلیز میری سن لے۔۔۔
حور تھی کے بس رو رو کر اللہ سے ہانیہ کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی وہ ٹوٹ چکی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کرے ۔۔۔
آپ کیا چاہتی ہے اپی مجھے کچھ پتا نا چلے ٹھیک ہے مجھے کچھ پتا نہیں چلے گا جب تک اپ نہیں بتا دیتی ۔۔حور نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور واش روم میں منہ ہاتھ دھونے چلی گئ۔۔۔