آپ کیابات کر رہے ہے بابا شادی اور میں نہیں کبھی نہیں مجھے نفرت ہے لڑکی ذات سے۔ بھی شادی تو دور کی بات ہے ۔۔۔۔
جب ارسلان سکندر نے حنان سے شادی کی بات کی تو اس نے صاف منا کردیا۔۔
میں تم سے پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہو کے ہم آج شام کو لڑکی والوں کے گھر جا رہے ہے اور تم چپ چاپ تیار ہوجانا ورنہ اس کی سزا تمھاری ماں کو بھگتنی پرےگی ۔
اگر تم نے یہ شادی نا کی تو میں تمھاری ماں کو طلاق دے دونگا اور اس کے زیمدار تم خود ہوگے سمجھے۔۔
ارسلان سکندر اپنی بات منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔۔۔
حنان نے کچھ جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
میں تم سے نفرت کرتا ہو ہانیہ تم نے میری پوری زندگی خراب کردی ہے۔
کیو میری زندگی کے ساتھ کھیل کھیلا کیو میرا تماشا بنا کر رکھ دیا تم نے۔اس کی سزا تمھیں ملے گی اورمیں خود تمھیں یہ سزا دونگا۔
حنان نے ششے ہر زور دار موکآ مارتے ہوئے کہا ۔
حنان بیٹا۔ہائے اللہ میرا بچہ یہ کیا کردیا تم نے میرے لال۔
جب سونیا بیگم حنان کو بلانے کے لئے آئی تو اس کے ہاتھ سے بہتا خون دیکھ کر وہ پریشان ہوگئ۔۔
انہوں نے حنان کے ہاتھ پر دوائی لگائی۔
دیکھو بیٹا بھول جاؤ ہانیہ کو اور جہاں تمھارے پاپا چاہتے ہے تم وہاں شادی کرلو۔۔
سونیا نے حنا کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا جو انکی طرف دیکھ رہا تھا تو کچھ سوچ کر بولا۔۔
میں تیار ہوموم آپ ڈیڈ کو بول دے وہ جہاں کہے گے میں شادی کرنے کے لئے تیار یو۔
جیتے رہو بیٹے اللہ تمھیں خوش رکھے۔۔
انہوں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہااور وہاں سے چلی گئ۔۔۔
حنان شادی کا فیصلہ تو کر چکا تھا لیکن کیا وہ اپنی بیوی کو اپنی زندگی میں شامل کر پائے گا کیا اس کے دل سے کبھی ہانیہ کی محبت نکل پائے گی کیا ہونے والا تھا ہانیہ اور حنان کی زندگی میں ۔۔۔۔۔
،۔۔۔۔۔۔
ہیلو ہانیہ کسی ہو امید کرتا ہو تم ٹھیک ہی ہوگی اور کوئی پیسے والا ملا یا نہیں کہو تومیں تلاش کردو۔۔۔۔۔
جب ہانیہ نے دروازہ کھولا تو حنان دروازے پر موجود تھا اور اس نے آتے ہی ہانیہ کو جلی جلی سنانے لگا۔۔۔
میرے پاس اپکے سوالوں کا جواب دینے کا ٹائم نہیں اور گھر پر انکل انتی نہیں ہے جب آجاے تو آپ پھر آجاے۔۔۔۔۔۔
ہانیہ نے حنان کو دروازے پر ہی کہا ۔۔۔
تو تمھیں کس نے کہا کے میں ان سے ملنے آیا ہو میں تو تم سے ملنے آیا ہو۔۔
حنان نے اندر آتے ہوئے کہا۔۔
لیکن ہانیہ ایک دم گھبرا کر پیچھے ہتی۔۔
ل ل لیکن مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی آپ یہاں سے جا سکتے ہے۔۔
ہانیہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔
ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے مجھ سے بات نہیں کروگی اور ہاں آج تو میں تمھارے لئے پیسے بھی لے کر آیا ہو۔۔۔
حنان نے ہانیہ کے قریب جاکر اسے پیسوں کا بیگ دیکھاتے ہوئے کہا۔۔
آآآپ یہاں سے چلے جائے م م مجھے کچھ نہیں چاہئے۔۔
ہانیہ نے اپنے سامنے کھڑے حنان سے کہا جو اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔
حنان نے ہانیہ کا بازو پکرا اور اسے اپنی طرف کھینچا۔۔
ی ی یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑے میرا ہاتھ۔۔
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا وہ بہت گھبرایی ہوئی لگ رہی تھی۔۔
مجھے کچھ شوق بھی نہیں تمھارے جیسی نیچ لڑکی کو ہاتھ لگانے کا۔۔
حنان نے ہانیہ کو پیچھے دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔
میں تمھیں یہ بتانے آیا تھا کے تم اس خیال میں مت رہینا کے میں ساری زندگی تمھارے لئے گزاردونگا ۔۔۔
بلکہ میں آج شام کو اپنے لئے لڑکی دیکھنے جا رہا ہو اور ان شااللہ بہت جلد تمھیں اپنی شادی کا کارڈ بھی دینے آؤنگا۔۔۔ اور تمھیں آنا ہوگا سمجھی۔۔۔
حنان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
اسے ایسا لگ رہا تھا کے جسے اس کے قدموں سے جسے زمین نکل گئی ہو ۔۔۔۔۔مبارک ہو میں ضرور آؤنگی ۔۔
ہانیہ نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔
حنان نے ایک نظر اس پر دالی اور وہاں سے چلا گیا جسے ہی اس نے جانے کے لئے قدم بڑھائے تو اسے کچھ گیرنے کی آواز آئی اس نے پیچھے دیکھا تو ہانیہ زمین پر گیری پری تھی۔۔
ہانیہ۔۔۔۔۔حنان بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور ااسے اپنی گود میں اٹھایا اور باہر اکر گاڑی میں بٹھایا ۔۔خود گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔۔۔
اٹھو ہانیہ کیا ہوا تمھیں اٹھو پلیز۔۔
حنان نے بے ہوش پری ہانیہ کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔۔۔
حنان کے دل میں ابھی بھی محبت باقی تھی جسے وہ نفرت کا نام دے رہا تھا۔۔۔
حنان نے گاڑی ہسپتال کے پاس روکی اور ہانیہ کو گود میں اٹھا کر اندر لے کر گیا۔۔۔۔
ڈاکٹر ڈاکٹر دیکھیے اسے کیا ہوا اچانک سے بے ہوش ہوگئ۔۔
حنان نے گھبراتے ہوئے کا اور اسے سٹریچر پر لیتایا۔۔۔۔
آپ ان کے کیا لگتے ہے۔۔ڈاکٹر نے حنان سے پوچھا۔۔حنان سوچ میں پرگیا کے وہ کیا کہے۔۔
سر پلیز بتائے کے ہم فارم فل کرواے۔۔ڈاکٹر نے پھر حنان سے پوچھا۔۔
ج ج جی بیوی ہے میری۔۔۔۔
اوکے آپ فکر مت کرے ہم دیکھیتے ہے۔۔۔ڈاکٹر نے حنان کو کہا اور اندر چلے گئے۔۔۔۔
ڈاکٹر کسی ہے وہ۔ جب ڈاکٹر باہر آئے تو حنان نے ان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو بہت افسوس سے کہنا پر رہا ہے کے اپکی وائف کو برین ٹیومر ہے جس وجہ سے کسی ٹینشن کی وجہ سے ان کے دماغ پر ڈباؤں کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوگئی۔۔۔
جسے ہی حنان نے سنا وہ گیرنے والے انداز سے پیچھے ہوا ۔
اسے اپنا دل دوبتہ ہوا لگ رہا تھا کے ناجانے وہ کب سے اتنی بڑی تکلیف میں ہے۔۔
حنان دھاڑے مار کے رونے لگا پورا ہپستال اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔
حنان پہلی دفعہ اتنا ترپا تھا۔۔
حنان کیا ہوا ہانیہ کو بولو پلیز۔۔جب ثناء کو حنان نے کال کرکے بتایا تھا کے ہانیہ ہسپتال میں ہے تو وہ بھاگتی ہوئی ہسپتال میں آئی۔
لیکن حنان کو اس طرح زمین پر بیٹھے روتا دیکھ کر ثناء اس کے پاس آئی۔۔
ثنا کچھ دنوں میں ہانیہ کی بھی اچھی دوست بن گئ تھی حورعین کے جانے کے بعد ثناء ہانیہ کے زیادہ قریب ہوگئ تھی۔۔۔
بتاؤ نا حنان کیا ہوا ہانیہ کو۔۔
ثناء نے حنان سے پوچھا جو ابھی تک رو رہا تھا۔۔۔
وہ ہانیہ کو برین ٹیومر ۔۔حنان بس اتنا ہی بول سکا تھا۔
حنان کچھ پل میں بھول ہی گیا تھا کے اس کے اور ہانیہ کے درمیان کچھ اختلافات چل رہے تھے ۔
اس وقت تو بس اسے ہانیہ کی فکر تھی جو ناجانے کب سے اس بیماری کا شکار تھی۔
حنان یہ سب تمھارے بابا کی وجہ سے ہوا ہے نا اس دن تمھارے بابا آکر ہانیہ کو زلیل کرتے نا اب ہانیہ اس تکلیف میں ہوتی۔۔۔۔
ثناء نے روتے ہوئے حنان سے کہا جو حیرانی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔میرے بابا۔۔حنان نے حیرانی سے کہا۔۔
ہاں حنان تمھارے بابا اس دن تّمھارے بابا ہانیہ سے ملنے آئے تھے اور اسے اتنا زلیل کیا اور تمھیں وہ سب کہنے کو کہا جو ہانیہ نے دل پر پٹھر رکھ کر تم سے کہا۔۔۔
وہ تو تم سے پاگلوں کی طرح پیار کرتی ہے ۔۔
وہ تو کبھی تمھیں دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
لیکن تمھارے بابا نے ہانیہ کو اتنا مجبور کردیا اس لئے اس نے ایسا کیا کیونکہ اگر وہ تمھارے بابا کی بات نا مانتی تو تمھارے بابا تمھیں جان سے مروادیتے اس لئے تمھاری جان بچانے کے لئے ہانیہ نے ایسا کیا۔۔
اس دن میں اور حورعین تمھیں سب بتانے والے تھے کے ہانیہ نے ہمیں منا کردیا ۔۔
اور وہ اکیلی تمھاری نفرت اور بے وفائی کا الزام سہتی رہی اور آج وہ اس حالت میں زندگی اور موت کے درمیان کھڑی ہے۔۔۔۔
ثناء نے ایک ایک کرکے سب کچھ حنان کو بتا دیا تھا جو ساخت آگ بگولا ہوا کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا ۔۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کے یہ کیا ہوگیا اس کے ساتھ اس کے اپنے باپ نے ہی اتنا برا دھوکا کیا۔۔
اس کے سر پر اس وقت بجلی گیری تھی کے اس نے کسے اپنے باپ کی باتوں میں آکر اپنی محبت پر شک کیا۔۔
۔اسے خود پر شرم ارہی تھی۔۔۔
وہ اٹھا اور کمرے میں گیا جہاں ہانیہ بے ہوش پری تھی۔۔۔
اس کے چہرے پر اکسیجن لگا تھا وہ نیلے کلر کے پیشن دریس میں ملبوس آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے ۔۔۔
ان کچھ مہنوں میں ہانیہ نے بہت تکلیفیں سہی تھی۔۔۔
جس کا کچھ زمیدار حنان خود کو بھی سمجھتا تھا۔۔۔
حنان اس کے پاس کرسی پر بیٹھا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔۔
مجھے معاف کردو ہانیہ میں تمھاری اس حالت کا زیمدار ہو ۔۔۔۔
کیسا پیار ہے میرا کے میں سہی غلط کی پہچان بھی نہیں کر سکا اتنا بھی نہیں جان سکا کے جو تم کر رہی ہو بس ایک مجبوری کے تحت ۔۔۔۔۔
بہت سہے لیا تم نے ہانیہ بس اور نہیں اب ان سب کو سزا ملے گی جس جس نے تمھیں تکلیف دی میں کبھی معاف نہیں کرونگا ان سب کو بس اب میں تمھیں کبھی نہیں چھورنگا اب تم بس میری ہو اور میری ہی دلہن بنو گی۔۔۔
حنان ہانیہ کا ہاتھ پکرے آنکھوں میں آنسو لئے بول رہا تھا۔۔۔۔
کے ہانیہ کو ہوش آیا اور اس نے اپنے سامنے حنان کو پایا۔۔۔۔
آپ۔۔ہانیہ نے دھیرے سے کہا۔۔۔
ہاں میں تم کسی ہو اب۔۔حنان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
وہ میں۔۔۔چپ کچھ مت کہو بس جو بولنا ہے بعد میں بولنا میں سب جان چکا ہو کے تم نے جو بھی کیا میرے لئے کیا۔۔۔۔۔
حنان نے ہانیہ کے لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اب تم پر کوئی آنچ بھی نہیں آنے دونگا۔۔
مجھے معاف کردو میں تمھارا گناہ گار ہو بہت درد دیا ہے نا میں نے تمھیں۔۔۔
حنان نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے سامنے کھڑی ثناء کو دیکھا جو اسے اشارہ کر رہی تھی کے حنان سب جان چکا ہے۔۔۔۔
ل ل لیکن حنان انکل تمھیں تکلیف دیں گے۔۔۔
ہانیہ نے اپنا اکسجن ماکس ہٹاتے ہوئے دھیرے سے کہا جس کی آنکھوں میں ابھی آنسو بہے رہے تھے۔۔۔
نہیں میری جان کوئی میرا کچھ نہیں بگار سکتا تم فکر مت کرو بس اپنا خیال رکھو۔۔۔
حنان نے ہانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اسے گلے لگایا۔۔
آخر کار ہانیہ کی قربانی رد نہیں ہوئی تھی اللہ نے سب ٹھیک کردیا تھا۔لیکن اس کی بیماری کیا اس سے ہانیہ لر پائے گی یہ اس کے آگے اپنی جان کی بازی ہارے گی ۔