جب حورعین کو ہوش آیا تو اس نے خود کو
ایک کمرے میں پایا تھا جو کافی سجایا گیا تھا ۔۔۔
سامنے کی جانب ایک بیڈ تھا جسے بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔۔جس کے بائیں جانب ایک سنگھار میز تھا جس پر کافی قیمتی میک آپ اور پرفیوم پرا تھا۔
بیڈ کے دائیں جانب دو صوفے پڑے تھے اور اس کے اگے ایک ششے کا میز تھا۔۔
سامنے کی طرف ایک برا سا بیالیس انچ کا ایل ای دی لگا تھا۔۔۔
زمین پر سرخ کلر کا کالین دالا گیا تھا کمرا بہت پر کش نظر آرہا تھا۔۔۔۔
جب حور نے انکھ کھولی تو پہلے تو اپنے سامنے کھڑے ریحان کو دیکھ کر حیران ہوئی اور پَھر کمرے کو جو ہر طرف سجا پرا تھا۔۔۔۔۔۔
تم اور میں کہا ہو۔۔حور نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
تم ریلکس رہو حور تم میرے گھر ہو اور محفوظ ہو۔
ریحان نے اس کے بالوں کو پیچھے کیا جو ماتھے پر آرہے تھے۔۔
ہاتھ مت لگاؤ مجھے ۔۔حور نے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔
تم مجھے یہاں کسے لائے میں تو گاڑی ڈرائیو کرکے گھر جارہی تھی لیکن یہاں ۔۔۔
اہہہہہہہ مجھے کچھ یاد نہں آرہا۔۔حور نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
جہاں چوٹ کی وجہ سے پٹی کی گئی تھی۔۔۔
بتاونگا سب بتاونگا پہلے تم کچھ کھالو کب سے بھوکی ہو۔۔۔
ریحان نے کھانے کا ٹرے اس کی طرف برھاتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے نہیں کھانا پہلے جو ہوچھا اسکا جواب دو۔حورعین نے کھانے کی پلیٹ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اچھا سنو۔۔تم جب گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی تو گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی جس وجہ سےمیں نے تّمھارا پیچھا کیا۔۔۔۔
تمھاری گاڑی کی بریک فیل ہوچکی تھی۔
اورتمھاری گاڑی کا اکسیڈینٹ ہوا اس لئے میں تمھیں وہاں سے یہاں لے آیا۔۔۔۔
ریحان نے دھیرے سے کہا۔۔۔
اوہ شکریہ ۔۔۔
کیا کیا ۔۔دوبارہ سے کہو کیا کہا تم نے شکریہ۔۔واوووووو پہلی بار ایک ہٹلر کے منہ سے شکریہ سن کر اچھا لگا۔۔
ریحان نے اسکی طرف مسکراہتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اوکے مجھے اب جانا ہے میرے گھر والے پریشان ہوگے۔۔حورعین نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
تم کہی نہیں جاسکتی ۔۔
ریحان نے اسکا راستہ روکتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن کیو میں کیوں نہیں جاسکتی تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔۔۔
حورعین نے ماتھے پر بل دالتے ہوئے کہا۔۔۔
میں کون ہوتا ہو تم اچھی طرح جانتی ہو میں تمھارا منگیتر ہو اور آج ہی میں تم سے شادی کرونگا۔۔۔۔۔
ریحان نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو لگتا ہے تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔
میں نہیں مانتی اس منگنی کو تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔
حورعین نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
شششششش آواز نہیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔ ریحان نے اسے دیوار کے ساتھ لگا کر اس کے لبو پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
جو پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تمہاری ہمت بھی کسے ہوئے مجھے یہاں لانے کی تم تو ہاتھ دوھوکر میرے پیچھے پر گئے ہو میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔۔۔۔۔
حورعین نے اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے کہا جو گیرنے والے انداز سے ہیچھے ہوا۔۔۔۔
پیچھا تو میں ساری زندگی نہیں چھورونگا تمھارا سمجھی اور چپ چاپ یہ کپرے پہنو اور تیار ہوجاؤ مولوی صاحب نکاح پروانے آتے ہی ہوگے۔۔۔۔
ریحان نے اس کے بازو سے پکر کر اسے اپنی طرف کھنچتے ہوئے بیڈ پر پرے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں یہ کپرے نہیں پہنوگی نا ہی شادی کرونگی سمجھے اور تم میرے ساتھ زبر دستی نہیں کر سکتے۔۔۔
حورعین نے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھوڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
دیکھو حورعین میں پیار سے سمجھا رہا ہو ورنہ میرے پاس اور بھی طریقے ہے۔۔۔
ریحان نے اسکی طرف شہادت کی انگلی کے اشارے سے کہا۔۔۔
تم جو مرضی کرلو مسٹر ریحان۔ میں مرجاونگی لیکن یہ شادی نہیں کرونگی۔
حورعین نے چینختے ہوئے کہا۔۔۔
تو ٹھیک ہے حور اپنے گھر والوں کی بربادی کی زیمدار تم خود ہوگی ۔۔
میری ایک کال کرنے کی ضرورت ہے میرا ادمی تمھارے گھر درگز رکھ کر پولیس بھیج دیگا اور تمَھاری پوری فیملی جیل کی چکی پیسے گی۔۔۔۔
کیا کہتی ہو ملاؤ کال۔۔۔
ریحان نے اپنے موبائل پر نمبر ڈائیل کرتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔تم جیسا کہوگے میں کرونگی م میں یہ کپرے پہنوگی تم سے شادی بھی کرونگی۔ تم کچھ مت کرنا۔۔۔۔
حورعین نے بیڈ پر پرے سرخ جوڑے کو اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔
گد گرل چلو جلدی سے ریڈی ہوجاؤ۔۔۔
ریحان نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔۔اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرونگی مسٹر ریحان تم مجھ سے شادی تو کرلو گے ۔
لیکن میں تمھارا جینا حرام کردونگی۔
تم پل پل ترپاونگے کے تم تنگ اکر مجھے خود یہاں سےنکالو گے یہ حورعین بلال کا وعدہ ہے تم سے وعدہ۔۔۔۔۔۔
حورعین نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین بلال اپکا نکاح ریحان راشد سے رائج الوقت ایک لاکھ حق مہر تے کیا جاتا ہے کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔
حورعین سرخ جوڑے میں دلہن بنی چہرے پر میک کئیے آنکھوں میں آنسو لئے چہرے تک گھونگھٹ کیے بیٹھی تھی۔۔۔
اس وقت اس کے کانوں میں مولوی کے نکاح پروانے کی آواز کسی زہر سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔
اسے مولوی کی آواز سن کر ایسا لگ رہا تھا کے جسے کسی نے اس کے کان میں اوبلتا سیسہ دال دیا ہو۔۔۔۔۔۔
حورین نے اس کا جواب نہیں دیا تومولوی دوبارہ بولا۔۔۔
حورعین بلال اپکا نکاح ریحان راشد سے رائج الوقت ایک لاکھ حق میر تے کیا جاتا ہے کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔۔۔
ج ج جی ۔۔حورین بمشکل بول پائی آنسو تھے کے اس کے گلے میں پھندا بنے تھے جو باہر انے کے لئے اپنا راستہ دھوند رہے تھے۔۔۔
مولوی نکاح پروا چکا تھا ۔۔۔
لیکن حورعین وہاں ہی بیٹھی بے آواز روتی جا رہی تھی۔۔
آج اسکی مرضی کے بغیر اسکا نکاح ہوگیا تھا۔
وہ اب حورعین بلال سے حورعین ریحان بن چکی تھی۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کے اس کے ساتھ کیا ہوگیا تھا۔
وہ آنسو بہا رہی تھی کے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا تھا اور وہ وہاں ہی بیٹھی بے ہوش ہوگئ تھی ۔۔
ریحان اس کے پاس آیا اور گود میں اٹھا کر کمرے میں چلا گیا اور بید پر اسے لیتایا۔۔۔۔۔۔۔
ریحان کتنی دیر اسکے پاس بیٹھا اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اس بے ہوش پری نئی نویلی دلحن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
کے حورعین نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔اور اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑایا۔۔۔
ہاتھ بھی مت لگانا مجھے مسٹر ریحان تم نے زبر دستی تو مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔۔
لیکن میں کبھی تمھیں اپنا شوہر تسلیم نہیں کرونگی میں نفرت کرتی ہو تم سے نفرت۔۔۔۔حورعین نے روتے ہوئے کہا لیکن ریحان وہاں سے آٹھ کے جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ریحان بیٹا کیا ہوا ایسے کیو پریشان ہو کیو رو رہے ہو۔۔۔
ریحان جب باہر گارڈن میں بیٹھا تھا تو ایک بوڑھی عورت اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔
ماں مجھ سے اس کی نفرت برداشت نہیں ہوتی۔
وہ کچھ نہیں جانتی کے میں نے جو بھی کیا اسکی بھلائی کے لئے کیا ۔۔
وہ تو مجھ سے اتنی نفرت کر رہی ہے ماں وہ بہت رو رہی تھی میرا تو یہ ہی دل چاہا رہا ہے کے میں اس شخص کو ہی ختم کردو جس وجہ سے میری محبت کو اتنی تکلیف ہورہی ہے لیکن مجبور ہو ۔۔۔
ریحان نے اپنی ماں عائشہ کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھو بیٹا تم نے کچھ برا نہیں کیا تم تو بہت اچھے ہو جب حورعین کو پتا چلے گا نا مجھے یقین ہے وہ تمھیں ضرور معاف کردیگی ۔۔۔
لیکن بیٹا بس تھوڑا صبر کرو میں خود اسے ساری سچائی بتاونگی ۔۔۔۔
عائشہ نے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ناجانے کیا راز تھا کیا وجہ تھی کیا مجبوری تھی کے ریحان چاہتے ہوئے بھی حورعین کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔۔
اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کے وہ اس طریقے سے اس سے سلوک کریگا۔
لیکن کہتے ہے نا کے مجبوری انسان کو کہا سے کہا تک لے جاتی ہے اور ریحان بھی مجبور تھا۔
اپنی ماں کے لئے اور اسکی ماں۔ بھی اپنے بیٹے کی بے بسی اداسی کو دیکھ کر پریشان تھی۔
لیکن ہوتو کچھ نہیں سکتا تھا۔
حورعین کے دل میں ریحان کے لئے نفرت بھڑ چکی تھی۔
جو ریحان نے کبھی نہیں چاہا تھا وہ تو بہت پیار اور عزت سے اسکو اپنی مرضی سے اپنی دلہن بنانا چاہتا تھا۔۔
لیکن حالات نے اسے مجبور کردیا تھا اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا اور اب وہ تڑپ ریا تھا۔
اپنی محبت کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت کی چنگاری دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کیا باتیں ہو رہی ہے دونوں ماں بیٹے میں۔۔
جب ریحان عائشہ سے باتیں کر رہا تھا تو راشد نے ان دونو سے کہا جو اسکی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔
راشد دیکھئے اب تو ریحان شادی بھی کر چکا ہے حورعین سے اب تو بتا دے کے میری بیٹی کہا ہے کہا رکھا ہے آپ نے اسے۔۔
جب راشد کرسی پر بیٹھا تو عائشہ نے راشد سے کہا جو اس کی بے بسی پر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو اور بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے بہت ترپایا تمھارے بھائی نے اب میں تمھیں اور اسے ترپاونگا تم لوگوں کی بچیوں کے لئے تم نے جسے میرے بیٹے کے دل میں میرے لئے نفرت پیدا کرکے اسے مجھ سے دور کیا نا ایسے ہی میں بھی کرونگا تب تک برداشت کرو اور اپنی بیٹی کی یادوں میں ہی رہو۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا مجھے تو بہت مزا آرہا یے تمھاری یہ ٹرپ دیکھ کر۔۔
راشد نے ایک بلند قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
بس راشد بہت ہوگیا۔۔۔۔مجھے تو شرم آتی ہے تمھیں اپنا باپ بھی کہتے ہوئے۔۔۔
ریحان نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
چتاخخ اس سے پہلے ریحان کچھ اور بولتا راشد نے اس کے منہ پر زور دار ٹھپر رسیدہ کیا۔۔
بدتمیز شرم نہیں آتی باپ کا نام لیتے ہوئے۔
عائشہ لگتا ہے تمہارے بیٹے کو تمھاری بیٹی کی فکر نہیں ہے میں ایسا کرتا ہو اسکا دی اینڈ ہی لگوا دیتا ہو۔۔۔
راشد نے عائشہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔نہیں نہیں خدا کے لئے ایسا مت کرے آپ کسے باپ یے اپنی ہی بیٹی کے دشمن بنے ہے اس بچی کا کیا قصور ہے خدا کے لئے ایسا مت کرے آپ جیسا کہے گے ویسا ہی ہوگا۔۔۔
عائشہ نے اسکے سامنے ہاتھ جورتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
جب راشد دس سال جیل میں رہا تو عائشہ نے ہر بات ریحان سے کہی تھی ۔۔
کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کے اسکا بیٹا بھی اپنے باپ کے راستے ہر چلے۔۔
جس وجہ سے ریحان کو اپنے باپ سے نفرت اور حورعین سے محبت ہوگئی تھی ۔۔
وہ دل ہی دل میں حورین سے محبت کرنے لگا تھا۔۔
ایک دن جب راشد جیل سے چھوٹ کر گھر آیا تو اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے آگے بھرا۔۔
لیکن ریحان اس سے نہیں ملا اور چلا گیا۔۔
یہ بات اس سے برداشت نہیں ہوئی۔۔
وہ غصے سے عائشہ کے پاس گیا اور اسکا گلا دباتے ہوئے بولا۔۔
تم نے اچھا نہیں کیا عائشہ تم نے میرے ہی بیٹے کو میرے سامنے کھڑا کردیا ۔۔۔
میرے خلاف کردیا اس کا حساب میں تم سے سوت سمیت واپس لونگا۔۔
اس نے اپنی پانچ سال کی بچی کو کیدنیپ کرلیا اور اس کے ذریعے اس نے عائشہ اور بلال سے بدلا لینا چاہا ۔۔۔
جس وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی ریحان نے حورعین سے زبردستی نکاح کیا۔۔۔۔۔۔۔