یہ لو حنا لے آیا ہو بچی کو اب سمبھالو اسے کتنا رو رہی ہے بیچاری،
بلال نے ایک دن کی روتی ہوئی بچی کو حنا کے ہاتھ میں دیا۔
بلال سے اسکا رونا برداشت نہیں رو رہا تھا ۔اس نے اسے حنا کو دیا اور اس کو کچھ بولےبغیر کمرے میں چلا گیا۔
حنا بلال کی ناراضگی سمجھ گئ تھی۔لیکن اس نے اسکا غصہ اس بچی پر نکالا اور اس روتی ہوئی بچی کو بیڈ پر لیتایا ۔۔
بچی چینخ چینخ کر رو رہی تھی لیکن حنا کو اس بچی کے رونے پر ترس نہیں آرہا تھا وہ تو بس بدلے کی آگ میں جل رہی تھی۔۔۔
اس بچی کی رونے کی آواز سن کر آسمان اور زمین لرز اٹھے تھے ۔
کتنا ظلم ہے اس دنیا میں جسے دیکھ کر زمین بھی روتی ہے۔۔ پہلے اسی زمین پر ایک بھائی نے بھائی کا قتل کیا تھا اور اسی زمین میں دفن کردیا گیا تھا ۔
پھر فرعون کے زمانے میں زندہ۔ بچیوں کو زمین میں زندہ درگو کردیا جاتا تھا۔۔ تب زمین ترپ ترپ کے روئی تھی ۔۔زمین ایک ماں ہوتی ہے جو پوری دنیا کو سمبھال کر رکھتی ہے جب یہ ہی انسان زمین پر ظلم فتنا کرتا ہے ۔
تو یہ سب دیکھ کر زمین کے آنسو بہتے ہے۔ جب اس ماں جسی زمین پر ظلم کا بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے نا تو تب زمین لرزتی ہے زلزلہ آتا ہے۔
لوگ کہتے ہے یہ زمین کسے رو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے زمین کے بھی آنسو ہہتے ہے لیکن کوئی انسان نہیں سمجھتا ۔۔۔۔
😢😢😢😢😞😞😞😞😞
کیا ہوا بچی کو کیو اتنا رو رہی ہے ۔۔بچی کے رونے سے بلال کمرے سے کہتا ہوا باہر آگیا۔ لیکن حنا کو تو کچھ فرق نہیں پر رہا تھا ۔
وہ تو بس اس بچی کو روتا دیکھتی رہی لیکن گود میں نا اٹھایا۔۔۔
شرم آنی چاہئے تمہیں حنا بچی اتنا رو رہی ہے تم اسے چپ کروانے کے بجائے بس آرام سے بیٹھی دیکھ رہی ہو۔
مجھے تم سے اس حرکت کی امید نہیں تھی تم اتنی بے رحم تو نہیں تھی۔۔۔
بلال نے بچی کو گود میں اٹھایا اور غصے سے چلاتا ہوا بچی کو لے کر کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
پھینکو اس منحوس کو باہر جس کے آتے ہی تم نے مجھ سے اس طرح بات کی ۔۔
حنا کمرے میں آئی اور غصے سے بولی۔
منحوس یہ بچی نہیں تمھاری سوچ ہے اور کان کھول کر میری بات سن لو اب میں پالو گا اس بچی کو یہ اب میری بیٹی ہے اور تمھیں بھی اسے ماں کا پیار دینا ہوگا سمجھی۔۔
بلال نے اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
تم منحوس ہو پہلے تمھاری ماں کی وجہ سے میرا باپ مجھ سے دور ہوا اور اب تمھاری وجہ سے میرا شوہر مجھ سے دور ہوتا جا رہا یے۔۔
میں کبھی تمھیں اپنی بیٹی تصور نہیں کرونگی میں نفرت کرتی ہو تم سے نفرت اور ایک دن میں تمہیں بھی یہاں سے نکلوا کر رہو گی۔۔
حنا نے اس بچی کو نفرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا اور اس کمرے میں اکیلا چھوڑ کر کمرے سے باہر چلی گئ ۔۔۔۔
وہ بچی روتی رہی یہاں تک کے روتے روتے اس بچی کے رونے کی آواز آنا بند ہوگئی ۔۔
اتنی ہی دیر میں بلال آفس سے گھر آیا اور آتے ہی حورعین کا ہوچھا۔۔۔
حور کسی ہے حنا اسے کچھ کھلایا۔۔
بلال نے اس بچی کا نام حورعین رکھا تھا اور اسکی عادت تھی آتے ہی حورعین کا پوچھتا تھا آج بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔۔۔
کمرے میں ہی ہے سو رہی ہے۔۔
حنا نے لاپرواہی سے کہا۔۔۔
کیا سو رہی ہے کیو اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا وہ ایسے تو نہیں سوتی۔ میں دیکھتا ہو اسے ۔۔
۔بلال نے پریشان ہوتے ہوئے کہا اور بھاگ کر کمرے میں گیا جب اس نے دیکھا تو بچی سویی ہوئی تھی ۔
۔بلال بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسے چیک کیا لیکن بچی بے ہوش تھی۔۔۔
حنااااا ادھر آؤ۔۔بلال نے چلاتے ہوئے کہا۔۔
بچی بے حوش پری ہے اور تم باہر ارام سے بیٹھی ہو۔۔۔
بلال نے اس کے منہ پر تھپر رسیدہ کیا اور حور کو اٹھا کر ہپستال لے کر گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ڈاکٹر دیکھیے میری بچی کو کیا ہوا ہے اچانک بے ہوش ہوگئ ہے۔۔
بلال نے حور کو ڈاکٹر کی گود میں دیتےہوئے کہا ۔
آپ باہر جائے ہم بچی کو چیک کرتے ہے ڈاکٹر نے اسے چیک کیا اور باہر آئے۔۔۔
کیا ہوا میری بچی کو ڈاکٹر۔۔بلال نے پریشانی سے کہا۔۔۔
بچی کے زیادہ دیر رونے کی وجہ سے اس کی سانس بند ہوگئ تھی۔ جس وجہ سے وہ بے ہوش ہوگی ۔۔
پلیز بچی کو زیادہ رونے نا دے ّخیال رکھے اس کا۔۔
ڈاکٹر نے بلال کو سختی سے کہا۔۔
ابھی کسی ہے میری بچی ۔بلال نے اس کا پوچھا۔۔
ابھی ٹھیک ہے گھبرانے کی بات نہیں یے بس اس بچی کو اکیلا ناچھرے۔۔۔
بلال سمجھ گیا تھا کے یہ حنا کی وجہ سے ہوا ہے بچی روتی رہی اور اس نے اسکو اکیلے چھوڑے رکھا۔۔۔۔۔۔بلال کو حنا کی اس بےوقوفی پر بہت غصہ آریا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اتنی گیر سکتی ہو حنا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تمھاری لاپرواہی کی وجہ سے حور موت کے منہ سے باہر آئی ہے۔۔
اگر اسے کچھ ہوجاتا تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرتا ۔۔
بلال نے روتے ہوئے کہا۔ جسے دیکھ کر حنا کا دل دکھا۔
اس نے بلال کو اسطرح پہلی بار روتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔
حنا کو خود پر شرم آرہی تھی کے وہ بھول چکی تھی کے انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی یے اور وہ اپنے بدلے کی آگ میں بچی کو تکلیف دے رہی تھی۔
اسے بہت برا لگا یہ کمرے میں بلال کے پاس گئی اور اس کے قدموں میں گیر کر رونے لگی۔۔۔۔
بلال مجھے معاف کردے میں اتنی بری کسے بن گئ کے بچی پر بھی رحم نا کھایا وہ بھی میری اپنی بھانجی ۔۔
شائد اسی لئےاللہ نے مجھے بے اولاد رکھا مجھے معاف کردے۔۔
اٹھو تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا نا کافی ہے ۔۔لو اپنی بچی کو سمبھالو۔
بلال نے حور کو اس کی گود میں دالتے ہوئے کہا۔۔۔
بلال اب میں اس بچی کا پورا خیال رکھونگی ماں کی طرح پالونگی اسے ۔۔
ماں کی طرح کیوں چلے اسے اس کی ماں کو دے آتے ہے۔۔۔
حنا نے حور کو چومتے ہوئے کہا۔۔۔
کوئی فائدہ نہیں حنا۔۔اگر ہم نے اسے واپس دے دیا تو وہ شیخ اسے کسی اور کے حوالے کر دے گا اور میں نہیں چاہتا کے حور کسی غلط ہاتھوں چرے۔۔۔۔
بلال نے اس ایک دو مہینے کی بچی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
آخر حنا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور اب وہ حور کو ماں کی طرح پالنے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشااللہ بہت پیاری بیٹی ہے تمھاری۔۔
سونیا بیگم نے اس پانچ سال کی حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
جس نے بلو کلر کی نیکر پر سفید کلر کی شرٹ پہن رکھی تھی اور بالوں کی دو پونیا بنا رکھی تھی ۔
جس کے کچھ بال ماتھے پر ارہے تھے ۔۔۔
اس کا سفید رنگ گول چہرا کالی سیاہ آنکھیں حور دیکھنے میں بہت پیاری تھی۔۔۔
حورعین یہ اپکی انتی ہے اور یہ اپکا کزن ہے سونیا اور اس کے دس سال کے حنان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
ہیلو حنان نے حور کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جو حور کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہیلو۔۔حورعین نے بھی اسے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔۔
سونیا حنا کی بری بہین تھی اور اتفاق سے بلال صاحب سونیا کے شوہر ارسلان سکندر کے بزنس پارٹنر تھے ۔۔
جو آج گھر کھانے پر آئے تھے جسے ہی سونیا گھر میں داخل ہوئی تو حنا کو دیکھ کر حیران ہی رہے گئ ۔۔۔
اپی آپ حنا اپنی بری بہین کے گلے لگتی ہوئی بولی ۔۔
تم جانتی ہو کتنا دھوندا تمھیں لیکن کچھ پتا نہیں چلا سونیا نے روتے ہوئے کہا۔
سب دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کے یہ دونوں بہنیں نکلی۔۔۔
اب سب باتیں یہاں ہی کروگی ۔۔بلال نے حنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
مریم اپی کسی ہے سونیا اپی۔۔
حنا نے سونیا سے مریم کا پوچھا۔۔۔یار کیا بتاؤ بہت ظلم ہوا ہے اس بیچاری کے ساتھ اس ظالم شیخ نے مریم کی دونوں بیٹیوں کو بیچ دیا بیچاری ہر ٹائم روتی یے ترپتی ہے۔۔۔ اور نا نجانے اب وہ شیخ مریم کو لے کر کہا غائب ہوگیا ہے ۔۔
آج دو سال ہوگئے یے ہم مریم کی تلاش میں ہے۔
لیکن کچھ اطلاع نہیں ملی بس اللہ کرے وہ جہاں بھی ہو ٹھیک ہو اور ہماری دونوں بھانجیاں پتا نہیں کہاہوگی۔۔۔
سونیا نے روتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ویسے حنا ایک بات ہے حورعین بلکل ہماری مریم کی طرح لگتی ہے۔۔
سونیا نے حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو حنان کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔۔۔
حنا نے بلال کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
حنا نے سونیا نے کو حور کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ سونیا کی نظروں میں نہیں گیرنا چاہتی تھی اس لیے اس نا بتانا بہتر سمجھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک ہو بلال صاحب بہت خوشی ہو اپکی یہ ترقی دیکھ کر اپکو اسے ہی کامیابی ملتی رہے۔۔۔
آج بلال صاحب کو نیا کانٹریکٹ ملا تھا جس کی مبارک باد اسکا بہنوئی راشد اسے دے رہا تھا ۔۔۔
راشد اس کی بہین کا شوہر تھا جو اسکے افس میں اس کا منیجر تھا۔۔۔
اور سناو عائشہ تم کسی ہو اور ہمارے چھوٹے ریحان صاحب اپ ٹھیک ہے ۔۔
بلال نے پہلے اپنی بہین عائشہ کو گلے لگایا اور پھر اس کے گیارہ سال کے بیٹےریحان کی طرف جھکتے ہوئے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔۔۔
بہت شرارتی ہوگیا ہے اپکا بھانجا بھائی بہت تنگ کرتا ہے۔۔
عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
کوئی بات نہیں ماموں کی جان ہے نا بیٹا ریحان اسے اور بھی تنگ کرنا اوکے۔۔
بلال نے مسکراہٹے ہوئے کہا ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ۔۔۔
آج بلال بھی بہت خوش تھا ج اتنے سالوں بعد اس کی بہن اس سے ملی تھی جو شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ آؤٹ اف کنٹری ترکی چلے گئے تھے ۔۔
اس کے ماں باپ کی بچپن میں ہی کسی حادثے میں موت ہوگئ تھی۔۔۔۔
تو بلال نے ہی اپنی بہین کو پالا تھا ۔۔
کسی حالات کی وجہ سے باہر عائشہ کے شوہر کا کوئی مسئلہ چل رہا تھا جس وجہ سے وہ کچھ دن کے لئے پاکستان رہنے آگئے تھے اور بلال نے اپنے ہی آفس میں اسے مینجر کی پوست دی تھی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
بلال میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہو۔۔
راشد نے بلال سے کہا۔۔
جی کہے نا راشد بھائی کیا بات ہے۔
بلال میں تمھاری بیٹی کو اپنی بہوبنانا چاہتا ہو تم اجازت دو تو۔۔
راشد صاحب نے اپنے بیٹے ریحان کے لئے بلال سے حورعین کا ہاتھ مانگا۔۔۔
بھائی لیکن ابھی تو دونوں بچے بہت چھوٹے ہے۔۔.
بلال نے دھیرے سے کہا۔۔
تو کیا ہوا بلال ہم کونسا اب شادی کرینگے بس منگنی کردینگے پھر جب بچے جوان ہوگے تو انکا نکاح کردےنگے۔۔۔
راشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی لیکن دونوں ماؤں سے بات کرلے انکا کیا ردعمل ہے۔۔ تم عائشہ کی فکر مت کرو وہ راضی ہے تم بس حنا سے پوچھ لو۔۔۔
راشد نے بلال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا بات کر رہے ہے بلال اتنے چھوٹے بچوں کی منگنی نہیں بلال اتنا جزباتی فیصلہ میں نہیں کر سکتی۔۔۔
لیکن حنا بات پکی کر لیتے ہے پھر شادی بچوں کی مرضی سے ہی کرینگے۔۔۔
بلال نے حنا کو سمجھاتے ہوئے کہا جو اس فیصلے سے راضی نہیں تھی۔۔۔
جی ٹھیک ہے جیسا اپ بہتر سمجھے۔۔۔۔
حنا نے کچھ سوچ کر ہاں کہا۔۔
شکریہ تم نے مجھے بہت بری خوشی دی ہے میں بھائی کو بتا دیتا ہو۔۔
بلال نے خوشی سے کہا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو بھائی عائشہ نے بلال کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔
دونوں بچوں کی بات پکی ہو چکی تھی ۔۔دونوں فیملی نے منگنی کی رسم پوری کی اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
تم اتنا گیر سکتے ہو میں جانتی بھی نہیں تھی یہ تو اچھا ہواکے مجھے بھائی نے سب بتا دیا تم نے بس ان کی جائداد ہتیانے کے لیے اپنے بچے کا سودا کیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی راشد کبھی نہیں۔۔۔۔
جب عائشہ کو راشد کے کارنامے کے بارےمیں پتا چلا تو اس نے اس پر غصہ کیا۔۔۔
راشد باہر دو نمبر کام کر رہا تھا جس وجہ سے وہ بھاگ کر یہاں آیا تھا جس کی نظر اب اپنے سالے کی جائیداد پر تھی اس لئے اس نے حورعین سے رشتہ جورا تھا کے ساری جایداد کا مالک بن سکے لیکن اسکی کوشش ناکام پر گئ تھی۔۔ جس کی خبر عائشہ کو نہیں تھی لیکن ترکی میں جس کے ساتھ اس نے یہ ہیرا پھیری کی تَھی وہ بلال کا دوست تھا جس نے اسے اس کے بارے میں بتایا اور وہ اب پولیس لے کر اس کے گھر میں کھرا تھا۔۔۔
اور روکو راشد یہ لو انگوٹھی بلال بھائی نے رشتہ ختم کردیا ہے ۔۔عائشہ نے انگوٹھی اس کو دیتے ہوئے کہا۔۔
تو میرا بھی وعدہ ہے عائشہ تمھاری بھتیجی حورعین کی شادی میرے ریحان سے ہی ہوگی مجھے ایک بار جیل سے باہر آنے دو پھر ہر چیز کا بدلا میرا بیٹا لے گا سمجھی میرا بیٹا ۔۔۔
چلو بدلے تم جیل میں لینا ۔۔ جب راشد نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔تو پولیس نے اسے کہا اور اسے کے گئے۔۔۔۔