منگرول پیر (ضلع واشم)
دیارِ حسن میں چرچے بہت ہیں
مرے محبوب کے نخرے بہت ہیں
ترقی کیسے مل پائے گی ان کو
سنا ہے یہ کہ وہ سچے بہت ہیں
شجر ہو تم مگر بے فیض بھی ہو
تمہاری ذات سے خدشے بہت ہیں
سنبھل کر راز دل ان کو بتانا
سنا وہ کان کے کچے بہت ہیں
جو تم کہہ دو وہی دہراتے جائیں
تمہاری بزم میں توتے بہت ہیں
ترے حلقے میں آصف میں بتاؤں
کھرے کم ہیں مگر کھوٹے بہت ہیں
پکّا عاشق ہوں سر پھرا ہوں میں
یہ نہ سمجھو کہ بیوڑا ہوں میں
مجھ کو مت ڈھونڈ میری ٹیرِس پر
تیرے آنگن ہی میں کھڑا ہوں میں
تو نے پِٹوایا تھا جہاں مجھ کو
پی کے اوندھا وہیں پڑا ہوں میں
چَل ہی جاؤں گا عشق نگری میں
کھوٹا سکہ نہیں کھَرا ہوں میں
تیری چیخوں سے بجھ نہ جاؤں کہیں
’’رات کا آخری دیا ہوں میں‘‘
عشق میں کی ہے میں نے پی ایچ ڈی
قیس و فرہاد سے بڑا ہوں میں
کھوٹا سکہ ہی ڈال کاسے میں
در پہ آصف کھڑا ہوا ہوں میں