کامٹی
بیگم نے آج کوئی تقاضا نہیں کیا
اور ہم نے خرچ ایک بھی پیسا نہیں کیا
مہمان بن کے جیل بھی جاتے رہے ہیں ہم
پر اس کو پرمننٹ ٹھکانا نہیں کیا
دیکھی رقم جہیز کی اور کہہ دیا قبول
زوجہ کے رخ کا ہم نے نظارہ نہیں کیا
ہر ایک سوچتا ہے اسے دیکھتی ہے وہ
ترچھی نظر نے کس کو دوانہ نہیں کیا
دل میں چھپا کے راز کیا عقد دوسرا
پہلے نکاح کا بھی خلاصہ نہیں کیا
حصہ نہیں دیا ہمیں چوری کے مال میں
انجمؔ میاں یہ آپ نے اچھا نہیں کیا
۲۔
منھ کھولنے کی ہم کبھی ہمت نہ کر سکے
بیگم ترے ستم کی شکایت نہ کر سکے
مرنے کے بعد بھی ہے سسر جی سے یہ گلا
کیوں میرے نام پر وہ وصیّت نہ کر سکے
اف کاروبار بال اگانے کے تیل کا
ہم اپنے گنجے سر کی بدولت نہ کر سکے
ان سے رکھوں میں مرغِ مسلم کی کیا امید
جو پیش میرے سامنے شربت نہ کر کے
انجمؔ نے تین بار کہا تھا قبول اور
پھر اس کے بعد کوئی حماقت نہ کر سکے