ڈاکٹر عمران علی خاں عمران
آج ہم زیرِ عتاب وقت وقت کی بات ہے
آپ اور عزت مآب وقت وقت کی بات ہے
جھوٹ مکاری فریب اور دکھاوے کا چلن
اب یہی سب کامیاب وقت وقت کی بات ہے
بے لباسی جب تمدن کی علامت بن گئی
کیسا پردہ کیسا حجاب وقت وقت کی بات ہے
یاد جب وعدے دلائے ہنس کے لیڈر نے کہا
ہو چکا اب انتخاب وقت وقت کی بات ہے
اب نہ چھیڑو دوستو باتیں لب و رخسار کی
ڈھل چکا ہے اب شباب وقت وقت کی بات ہے
کل تلک کوڑی نہ تھی آج جب کرسی ملی
کھا رہا ہے بے حساب وقت وقت کی بات ہے
خیر و شر کا ذکر تم عمرانؔ کرنا چھوڑ دو
اب کسے فکر حساب وقت وقت کی بات ہے
۲
میں بے خودی میں سر کو کھجاتا چلا گیا
خفّت کچھ اس طرح سے مٹاتا چلا گیا
جوتے پڑے تو شوق سے کھاتا چلا گیا
یوں عاشقی کا فرض نبھاتا چلا گیا
پتلی گلی سے بھاگنا شیوہ رہا مرا
دامن ہمیشہ ایسے بچاتا چلا گیا
چورن کی پڑیا جیب میں رکھی رہی سدا
دعوت میں بے دریغ بھڑاتا چلا گیا
دامن ہمیشہ ایسے بچاتا چلا گیا
عمران لیڈری میں سدا سرخ رو رہا
پبلک کو سبز باغ دکھاتا چلا گیا