بدنیرہ (امراؤتی)
وہ شہر کے چمچے ہوں کہ ہوں گاؤں کے چمچے
آتے ہیں سیاست میں تمناؤں کے چمچے
بزدل ہوئے اس قوم کی نیّا کے کھویّا
طوفانوں سے ڈر جاتے ہیں دریاؤں کے چمچے
نادان مسلمانو! کبھی غور کیا ہے
لوگوں کو لڑاتے ہیں ملّاؤں کے چمچے
لاتے ہیں مریضوں کو کرامات سنا کر
چلتے ہیں کمیشن پہ یہ باواؤں کے چمچے
ہم نے بھی فلاں بھاؤ کے جوتے کئے سیدھے
نازاں ہیں اسی بات پہ نیتاؤں کے چمچے
سیٹنگ میں لگے صاحبہ کی محترمہ کی
لگتے ہو بشرؔ تم بھی حسیناؤں کے چمچے
۲
نہ ہی تُکّا نہ تیر وھاٹ از دھس
شہر کا ہے امیر وھاٹ از دھس
قیس رانجھا کو مل گیا گانجا
کوئی لیلیٰ نہ ہیر وھاٹ از دھس
پانچ سو ایک ووٹ کے بدلے
بیچ ڈالا ضمیر وھاٹ از دھس
ڈالتا ہے دہی کو بیسن میں
اور بناتا ہے کھیر وھاٹ از دھس
موٹی بیوی ہے پتلا شوہر ہے
دائرے پر لکیر وھاٹ از دھس
جو بھی شاعر ہے وہ قلندر ہے
ہر بھکاری فقیر وھاٹ از دھس
لوگ غزلیں چرا کے غالب ہیں
تو بشرؔ ہی بشیر وھاٹ از دھس