شکیل اعجاز
شکیل اعجاز ۲؍ جولائی ۵۴ ۱۹ کو اکولہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غنی اعجاز کہنہ مشق شاعر تھے۔ شکیل اعجاز طنز و مزاح نگار اور مصور کے طور پر مشہور ہوئے۔ ’’در اصل‘‘(۱۹۸۳) اور ’’چھٹی حس‘‘ (۱۹۹۴) ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ اسی رنگ میں ایک ناول ’’تیری قربت کے لمحے‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی کتابیں ’’اوراق مصور‘‘ اور ’’سورج کی تلاش میں‘‘ علاقائی فنکاروں کے تعارف پر مبنی ہیں۔ بارسی ٹاکلی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سبک دوش ہوئے۔ ان کی تحریریں معیاری ظرافت کا نمونہ ہیں۔ ان کا بے تکلف اسلوب اور واقعاتی مزاح قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد نے ان کے متعلق ایک خصوصی گوشہ شائع کیا تھا۔ شکیل اعجاز کا ایک مزاحیہ مضمون ’’لیٹر پیڈ‘‘ مہاراشٹر کی بارہویں جماعت کی درسی کتاب میں شامل ہے۔
لیٹر پیڈ
شکیل اعجاز
آپ جس جگہ تشریف رکھتے ہیں وہاں سے سامنے کی برتھ پر سیدھی طرف دیکھیے، وہ جو، کھڑکی کے پاس نوجوان بیٹھا ہے۔ کیسا معصوم صورت دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے دل میں بھی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے گنجے کے سر پر چپت رسید کرے اور واپس اسی بے نیازی سے بیٹھا رہے لیکن وہ گنجے کے صحت مند جسم کے آس پاس بیٹھے پہلوانوں سے ڈرتا ہے۔ جہاں دونوں نہیں ہوں گے وہ اپنی خواہش پوری کرے گا۔ شیطانی خواہشیں ہم میں موجود ہوتی ہیں۔ ہم انہیں رسیوں سے باندھ کر اندھیری کوٹھری میں ڈال دیتے ہیں تاہم جب کبھی موقع ملتا ہے رسیاں تڑانے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ کئی نامور ادیب و شعراء کے بارے میں پڑھا ہے کہ وہ مختلف شیطانی خواہشات دلوں میں پالتے تھے۔ چوری کرنے کے شوقین کوئی صاحب اگر جبراً تعلیم یافتہ بنا دیے گئے ہو تو کتابیں چرا کر تسکین پا لیتے ہیں کہ کسی نے پکڑ بھی لیا تو سزا دینے کی بجائے اور مزید کتابیں ہی دے دے گا۔ ذوق مطالعہ سے متاثر ہو کر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ شریف النفس نظر آنے والوں میں بیشتر کے دلوں میں مجرمانہ خیالات کبھی نہ نکلنے والے کرایہ داروں کی طرح مقیم ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے دماغ میں بھی یہ خیال سانپ کی طرح سرسرانے لگا ہو کہ کسی کے ساتھ دغا فریب کریں اور قانون سے بچے بھی رہیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیٹر پیڈ چھپوا لیجیے۔ فی الحال اس سے زیادہ دھوکہ باز چیز کوئی اور نہیں، یقین نہ ہو تو ایک خوبصورت لیٹر پیڈ والا خط نکالیے۔ اور صاحب لیٹر پیڈ سے ملنے جائیے۔ واپس لوٹیں گے تو جھنجھلاہٹ کے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ آپ کے تصورات کا شیش محل حقیقت کے ایک ہی پتھر سے پاش پاش ہو چکا ہو گا۔ اس لئے کہ لیٹر پیڈ جتنا چکنا تھا وہ اتنے ہی کھردرے نکلے۔ یہ جتنا نفیس، وہ اتنے ہیں گندے، یہ جتنا کشادہ، وہ اتنے ہی کوتاہ دل، پھر آپ نے ہمت کر کے سوال کا ایک چابک ان کے کانوں پر رسید بھی کر دیا کہ۔۔ ۔۔ ۔۔
آپ اسی طرح رہتے بستے ہیں تو ایسا دھو کے باز لیٹر پیڈ کیوں چھپوایا؟
دو ٹوک جواب کے مضبوط ہاتھ آپ کو پوری طاقت سے شرمندگی کے کیچڑ میں اوندھے منہ گرا دیں گے۔
ہم میں جو نفاست اور دلکشی تھی اس پر صرف کر دی۔ آپ ہی بد ذوق اور نا سمجھ ہیں کہ لیٹر پیڈ دیکھ کر ملاقات کرنے چلے آئے۔ کل آپ یہ بھی کریں گے کہ اسٹیج پر کسی کو اکبر اعظم کا رول کرتے دیکھ کر فوراً جاگیر مانگنے چلے جائیں گے۔
آپ بے بس ہیں نہ پولیس میں رپورٹ لکھوا سکتے ہیں نہ ان کو پکڑ کر پیٹ سکتے ہیں۔ کہاں لکھا ہے اچھا لیٹر پیڈ چھپوانا جرم ہے۔
حالات زمانے کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ دستور تھا کہ گھوڑا رکھنا شان سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں چوری کرنے جیسا کچھ نہ ہو تب بھی دربان بِٹھانا وضع داری میں داخل تھا۔ اور لیٹر پیڈ چھپوانا باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔
دل کی سرزمین غلط فہمیوں کے درختوں کے لیے بڑی زرخیز ہوتی ہے اب یہ غلط فہمی بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے کہ لباس اور مکان کی طرح لیٹر پیڈ سے بھی شخصیت ابھرتی ہے۔ بعض لوگ اس مردم شناسی میں طاق ہوتے ہیں۔ لیٹر پیڈ سے شخصیت کے اظہار والی بات مشہور ہونے سے یہ نقصان ہوا کہ لوگ شخصیت کی بجائے صرف لیٹر پیڈ سنوارنے پر صلاحیتیں صرف کرنے لگے۔ ایک سے ایک خوش رنگ، خوش بو اور خوش قیمت لیٹر پیڈ چھپنے لگے اس سے سب کا تاثر ختم ہو گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے الفاظ کے مسلسل استعمال سے ہوتا ہے۔ سب واقف کہ السلام علیکم! کا مفہوم تم پر سلامتی ہوتا ہے تاہم دل میں صد فیصد نفرت رکھ کر سلام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ خود آپ نے کئی دفعہ کسی ناپسندیدہ شخص سے ہاتھ ملاتے ہوئے بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر کہا ہو گا اور مقابل نے بھی یقین کر لیا ہو گا کہ آپ کو قطعی خوشی نہیں ہوئی۔
گیارہویں جماعت میں ٹیچر نے ایک دن کہا کہ کل سے گیدرنگ شروع ہو رہی ہے یونیفارم کے بجائے عام لباس میں آ سکتے ہیں۔ دوسرے دن سے ہم میں قیمتی کپڑوں کے مقابلے شروع ہو گئے۔ ہر ایک کی یہی خواہش کہ سب سے منفرد دکھائی دے۔ ہمارے ایک دوست نے سوتی کپڑے کا پاجامہ کرتا اور مرزا غالبؔ ٹائپ ٹوپی سلوائی، شوز کے زمانے میں کہیں سے کھڑاوں لے آئے اور نہ صرف کلاس میں بلکہ پورے اسکول میں سب سے منفرد ٹھیرے۔ ایک سیدھے سادھے لباس نے قیمتی لباسوں کی چمک دمک ماند کر دی تھی۔ لیٹر پیڈ کا بھی یہی معاملہ ہوا۔ جب ساری شان و شوکت پیڈ پر سمٹ آنے لگی تو کسی نے سادے کاغذ پر مختصر سا نام پتہ لکھوا لیا اور ہزاروں کی بھیڑ سے الگ نظر آیا۔ آج کل پیڈ پہیلیوں کی شکل میں بھی آنے لگے ہیں۔ کسی پر صرف ایک چڑیا بنی ہے۔ آپ پہچانیے کہ یہ فلاں شاعر کا ہے۔ کسی پر چھری ہے آپ سوچیے کہ یہ تنقید نگار کا ہے۔ بعض پیشوں سے مناسبت رکھتے ہیں، چنانچہ کسی پر قینچی اور استرا بنا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ لیٹر پیڈ چھپوا کر مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور بادل ناخواستہ خطوط لکھتے رہتے ہیں۔ عموماً اس قسم کے لوگ اخبارات میں مراسلے اور ریڈیو فرمائشیں بھیجتے ہیں۔ ایک روپیہ بچانے کے لئے دس روپے خرچ کرنے والی بات آپ نے سنی ہو گی۔ اس کا عملی تجربہ کرنا ہو تو کسی کو لیٹر پیڈ چھپا کر دے دیجئے وہ اپنا سارا پیسہ بہت احتیاط سے ڈاک ٹکٹوں پر خرچ کرے گا۔ خطوط کے لیے موضوع کی تلاش کریں گے۔ کہیں بھیڑ دکھائی دی اور یہ اس امید پر وہاں لپکے کہ کسی کا قتل ہو گیا ہو گا پھر یہ دیکھ کر اداس ہو گئے کہ یہ تو ناقابل تحریر معمولی خراش والا معاملہ ہے۔ تھک ہار کر پڑوسیوں کو آپس میں لڑوا دیا اور فریقین کے رشتے داروں کو لیٹر پیڈ سے مطلع کر کے اطمینان کی سانس لی۔ یہ ساری بھاگ دوڑ صرف اس لئے کہ لیٹر پیڈ پڑے پڑے خراب نہ ہو جائے۔ یہ بھی کنجوسی کی ایک قسم ہے۔ ہم نے اپنے ایک کنجوس دوست کو سر درد کی دس ٹکیاں یہ کہہ کر دے دیں کہ ایک ماہ بعد بے کار ہو جائیں گی۔ دوسرے دن وہ دکانوں پر پوچھتے پھر رہے تھے کہ صاحب سر میں درد اٹھنے کی گولیاں ہوں تو دیجیے۔ مہینہ بھر تک سر میں درد اٹھنے کی دعا صدق دل سے کرتے رہے۔ کنجوس لوگ یوں بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ٹیلی گراف ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہوئے تو اور معاملوں کے علاوہ بات کرنے میں بھی کنجوس ہو گئے تھے۔ دس سوالوں کا ایک جواب دیتے، جیسے زیادہ بولیں گے تو چارج بڑھ جائے گا۔ بکواس کرنے والوں کو فضول خرچ کہا کرتے تھے۔
کوئی شخص رشتے داروں کی کوششوں سے میٹرک پاس ہو جائے تو سرٹیفکیٹ فریم کروا کر دیوار پر لگایا جاتا ہے۔ کسی کی ایک آدھ تصویر فوٹو گرافر کی لغزش سے اچھی نکل آئے تو اسے ڈرائنگ روم میں بارہ سینگھوں کے سینگ یا شیر کی کھال کی طرح سجاتا ہے۔ ایک کہنہ مشق لیکن بے تکے شاعر کے گھر میں ایک فریم اہتمام سے لگی دیکھ کر پوچھا تو پتہ چلا کہ کسی ایسے نقاد نے، جو اچھے اچھوں کو شاعر نہیں مانتا، ان پر ترس کھا کر دو تین تعریفی جملے لکھ دیے تھے۔ اسی طرح جو لوگ کافی تگ و دو اور منت سماجت سے دو ایک انجمنوں کی صدارت۔۔ ۔ یا سکریٹریٹ سے جھولی بھرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ لیٹر پیڈ میں اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ بلکہ ذکر کے لئے ہی پیڈ چھپاتے ہیں۔ برسوں بعد ایک دوست کا خط ملا تو ہم بہت حیران ہوئے۔ پیڈ پر ان کے نام کے نیچے جلی حروف میں یہ لکھا تھا۔
صدر اور سکریٹری انجمن نصیب ماراں اسکول لائف میں وہ بڑے مظلوم سے تھے۔ اچانک اتنے سرگرم کیسے ہو گئے کہ صدر اور سکریٹری بننے لگے۔ چھان بین پر پتہ چلا کہ یہ جس انجمن کے صدر ہیں اس میں دو ہی ممبر ہیں۔ ایک تو یہ خود ہیں اور دوسرے بھی یہی خود ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ لیٹر پیڈ پر جن کمیٹیوں اور انجمنوں کا ذکر ہوتا ہے ان میں سے بیشتر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایسے پیڈ عہدوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ خط لکھنے کے لیے ذرا سی جگہ بچ رہتی ہے۔ اور اگر عدم خود اعتمادی یا احساس کمتری کا آتش فشاں پھٹ نہ پڑا تو سابق عہدوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے جیسے
سابق اسکول کیپٹن پرائمری اسکول نمبر 3
ان میں سابق بہت چھوٹے قلم سے لکھا ہوتا ہے
ممکن ہے مستقبل میں ایسے پیڈ بھی چھپیں جن میں آئندہ عہدوں کا تذکرہ ہو۔
گورنر آف دی اسٹیٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ (مستقبل)
نوبل پرائز یافتہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ (مستقبل)
دنیا کا سب سے اچھا اور عقلمند آدمی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ (مستقبل)
تیسرے درجے کا عشق پیڈ کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ نامہ بر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
عشق جتنا سطحی ہو گا پیڈ اتنا قیمتی ہو گا۔ بیروزگار عاشق دکانوں پر پیڈ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ کامیاب تاجر وہی ہو گا جو گاہک کی دکھتی رگ پکڑ سکتا ہو۔ چنانچہ کمپنیاں خصوصی پیڈ تیار کرتی ہیں۔ جن میں عمر خیام، بیل باٹم پہنے، ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں خالی گلاس لئے (جو عمر خیام نے بے خودی میں الٹا پکڑ رکھا ہے۔) لڑکی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہاتھ میں ایک صراحی ہے جس کے ٹوٹی اور پیندا نہیں ہے۔ وہ فرط مسرت سے ایسی دیوانی ہو چکی ہے کہ الٹے گلاس کی بجائے سگریٹ میں انڈیل رہی ہے۔ سچا عشق وہی جو بس بھروسہ کر لیتا ہے۔ دلائل نہیں مانگتا۔ اس لئے عاشق و معشوق پر لازم ہے کہ وہ اس طرف توجہ نہ دے کہ عدم پیندگی کے باوجود صراحی سے گڑ کی چائے کیوں نکل رہی ہے۔ محبت سچی ہو تو صراحی کو پیندے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جنگل کے سارے پھول اڑ اڑ کر دونوں کے پاس آ گئے ہیں۔ پس منظر میں سورج کی روشنی پھیلی ہوتی ہے اور بادلوں سے چاند نکل رہا ہے۔ بارش زوروں سے ہو رہی ہے۔ کمپنیوں کے مالک بھلے ہی جاہل ہوں مگر اس راز سے واقف ہیں کہ اشعار میں جادو ہوتا ہے۔ وہ پڑھے لکھے کو بلا کر کسی بڑے شاعر کے شعر کی نمائش کرتے ہیں۔ پڑھا لکھا غور سے دیکھتا ہے کہ عمر خیام زمین پر بے چینی کے عالم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لڑکی کے گلے میں زنجیر لٹک رہی ہے۔ اور یہ شعر لکھ دیتا ہے
اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان
طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم
دونوں شعر پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔ (شعر سمجھ میں نہ آئے تو سر دھننے میں زیادہ لطف آتا ہے۔)
کوئی صاحب غلط فہمی کے مسحورکن بازوؤں میں سمٹے نہ رہیں کہ لیٹر پیڈ ترقی یافتہ دور کی دین ہے۔ یہ تو اسی وقت وجود میں آ گیا تھا جب انسان نے لکھنا شروع کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ آج کا لیٹر پیڈ کاغذ سے بنتا ہے، پرانے وقتوں میں چٹانوں اور پہاڑوں سے بنتا تھا۔ وہ زیادہ پائیدار ہوتا تھا۔ نہ پھٹنے جلنے کا خدشہ، نہ تحریریں مٹ جانے کا ڈر، ہزاروں سال پرانے یہ لیٹر پیڈ چٹانوں اور پہاڑوں کی صورت میں آج بھی محفوظ ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔
تاریخ نویسوں نے قدیم شہنشاہوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ انہیں عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ در اصل انہیں لیٹرپیڈ بنوانے کا شوق تھا۔ یقین نہ آئے تو لال قلعہ، اشوک کی لاٹ، تاج محل، قطب مینار اور دوسری عمارتیں دیکھ آئیے۔ وہاں جا بجا آپ کو تحریریں دکھائی دیں گی۔ تاج محل کو بھلے آپ مقبرہ کہیں ہم تو لیٹر پیڈ کہیں گے۔ دیکھیے کیسا خوبصورت خوب رنگت اور خوب قیمت لیٹر پیڈ ہے۔
(چھٹی حس۔ ۱۹۹۴)