طرحی کاوش
مستقل ہو، عارضی اچھی نہیں
چار دن کی چاندنی اچھی نہیں
آؤ کچھ باتیں کریں رومان کی
وصل کی شب مسخری اچھی نہیں
عشق دو طرفہ اگر ہو تو بجا
بے سبب دیوانگی اچھی نہیں
ہر کسی کو کہہ رہے ہو ہینڈ سم
آپ کی یہ پالیسی اچھی نہیں
جلنے والوں سے کوئی کہہ دے ذرا
عاشقوں کی مخبری اچھی نہیں
انکساری عاجزی سے کام لے
یہ تری دادا گری اچھی نہیں
بے دھڑک گھس جا دیارِ شمس میں
جانِ من آوارگی اچھی نہیں
۲
گھومتا رہتا ہے اکثر شمس کوئے یار میں
مبتلا ہے ان دنوں وہ عشق کے آزار میں
اک خبر دلچسپ آئی آج کے اخبار میں
’’اب شفا خانے کھلیں گے حسن کے بازار میں‘‘
تیری خاطر لے رہا ہوں دشمنی ہر ایک سے
اتنی طاقت آ گئی ہے اب ترے بیمار میں
عشق جب حد سے گزر جاتا ہے تو عالم پناہ
فرق آتا ہے نظر کب پھول میں انگار میں
بس اسی اک بات سے قائم وفا کا ہے بھرم
سینکڑوں اقرار بھی ہیں اک ترے انکار میں
زن مریدوں سے ہے قائم رونقِ بزمِ جہاں
تذکرہ یہ ہو رہا ہے جاہل و ہشیار میں
حسن والوں کو ہے میرا مخلصانہ مشورہ
جو مزہ ہے سادگی میں وہ کہاں پندار میں