نادرؔ بالاپوری
ڈھوتا ہی رہوں بار میں امی کی بہو کا
اتنا ہوں وفا دار میں امی کی بہو کا
سینے میں بساؤں کبھی پلکوں پہ سجاؤں
ایسا ہوں جاں نثار میں امی کی بہو کا
مل جائے الیکشن میں ٹکٹ جو کسی دَل کا
کرتا رہوں پر چار میں امی کی بہو کا
ہوتا ہوں شب و روز ہر اک حکم کے تابع
محکوم ہوں سر کار میں امی کی بہو کا
آتے ہی مرے گھر وہ چلی جاتی ہے پکنک
جیسے ہوا اتوار میں امی کی بہو کا
بنتی ہیں بنیں، چاہے مقدر مرا ڈانٹیں
چھوڑوں گا نہ گھر دار میں امی کی بہو کا
آنکھیں وہ دکھائے، کبھی انگلی وہ نچائے
شوہر ہوا لاچار میں امی کی بہو کا
دل میں یہ خیال آئے گلا گھونٹ کے نادرؔ
قصہ ہی کروں پار میں امی کی بہو کا
اترا اترا کے پھرو گی مجھے معلوم نہ تھا
مونگ چھاتی پہ دلو گی مجھے معلوم نہ تھا
ہو کے رہ جائے گی ارمانوں کی ایسی تیسی
وصل کی شب ہی لڑو گی مجھے معلوم نہ تھا
جینس بھی پہنو گی، کٹواؤ گی چوٹی
سوانگ ایسے رچو گی مجھے معلوم نہ تھا
بے حیائی کے دکھاؤ گی مناظر مجھ کو
تیر کی طرح چبھو گی مجھے معلوم نہ تھا
ہیں فدا اس پہ اگر ہوں یہ زمانے والے
تم بھی نادر پہ مرو گی مجھے معلوم نہ تھا