جوتیاں کرتے ہیں سیدھی رات دن سرکار کی
تاکہ حاصل ہوں اُنھیں بھی کرسیاں دربار کی
سات پھیرے کیا لگے سب ہیکڑی جاتی رہی
انگلیوں پر ناچتا پھرتا ہے اب دِل دار کی
کل صحافی اور مدیر و منتظم تھا جس کا میں
ردّیاں اب بیچتا پھرتا ہوں اُس اخبار کی
بے خودی میں غیر کو ہسبنڈؔ سمجھ کر لڑ پڑے
ان کو عادت پڑ گئی ہے ہر گھڑی تکرار کی
ہر گھڑی دھڑکا لگا رہتا ہے چپّل کا اُنھیں
کاش کر سکتے شکایت اِس انوکھی مار کی
کالی چوٹی، موٹی عینک، نقلی بتیسی لیے
وہ نشانی ڈھونڈتے پھِرتے ہیں اپنے پیار کی
فکر ہم پر اے ضیاؔ لازم مرمّت کی ہوئی
کافی اینٹیں گِر چکی ہیں قوم کی دیوار کی
۔۔۔۔
ؔ Husband
پہلے پاپا کو میرے پِلا ساقیا
دیکھ پھر زندگی کا مزہ ساقیا
خواب میں بڑبڑاتی تھیں اُن کی ماں
میرے بُڈھے کو مجھ سے مِلا ساقیا
سب زَنانوں کو ملنے لگیں کُرسیاں
کوئی سرکاری عہدہ بچا ساقیا
اُن کے بیلن سے زخمی ہوا میرا سر
ہو گئی ظلم کی انتہا ساقیا
ہے مرے پیٹ میں درد اُن کی طرح
گھُس گئی پیٹ میں کیا بَلا ساقیا
اِک منسٹر نے پرمِٹ دیا ہے مجھے
مئے کدہ ہے میرے باپ کا ساقیا
مئے کدے میں ضیاؔ شیخ جی آ گئے
اُن کو پیپسی کی بوتل پِلا ساقیا