دردِ جدائی
ناراض ہوکے چھوڑ گیا گھر تٗو لوٹ آ
کانٹا لگے ہے مخملی بستر تٗو لوٹ آ
کھو کھو کبڈّی کھیل رہے ہیں رسوئی میں
کیڑے مکوڑے چوہے چھچھندر تٗو لوٹ آ
سبزی بنائی میں نے تو کچھ اور بن گئی
روٹی بھی کوئلہ ہوئی جل کر تٗو لوٹ آ
دروازہ ٹوٹا دیکھ کے خستہ مکان میں
کھاتے ہیں کھانا کتّے بھی گھس کر تٗو لوٹ آ
تنخواہ پوری ہوٹل و دھوبی میں بٹ گئی
میں ہو گیا فقیر و فٹیچر تٗو لوٹ آ
دیتا ہوں وارننگ میں ہڑتال کی تجھے
حد ہو گئی ستم کی ستم گر تٗو لوٹ آ
ہو جائے گم نہ ہوش ہی دردِ جدائی سے
میں ہو نہ جاؤں مست قلندر تٗو لوٹ آ
ظالم زمانے والے مرا حلیہ دیکھ کے
مجنوں سمجھ کے ماریں نہ پتھر تٗو لوٹ آ
کھا کر قسم جدائی کی کہتا ہے عمر بھر
کاملؔ پڑھے گا بس یہی منتر تٗو لوٹ آ
ہزل
کل نشے میں کام وہ سب آڑا ٹیڑھا کر گیا
اپنے گھر بھیجا کسی کو خود کسی کے گھر گیا
تھوبڑا اُن کا سناتا ہے کہانی رات کی
لے کے گورے گال کے بوسے کوئی مچھر گیا
دل میں لڈّو پھوٹتے تھے خوب شادی کے لئے
مار مُسّل کی پڑی جو اوکھلی میں سر گیا
جو سناتا تھا ہمیں رُستم گری کی داستاں
سامنا ہوتے ہی بیوی سے وہ رُستم ڈر گیا
دیکھ لے انجام رشتہ توڑنے کا دیکھ لے
ساتھ بیگم کے تِری کھٹیا گئی بستر گیا
کس لئے ماتم کناں ہے آج کوؤں کا ہجوم
کیا محلے کی گلی میں اُن کا نیتا مر گیا
فائدہ کاملؔ نہیں کچھ موسمِ برسات سے
چار قطرے آپ نے ڈالے سمندر بھر گیا