ح خ جھنجھٹ اکولوی
حسن کا ہے زور پر بیوپار تیرے شہر میں
خود مسیحا بن گئے بیمار تیرے شہر میں
تیر نظریں، بھوں کٹاری، توپ خانہ ہے ادا
کتنے بے لائسنس ہیں ہتھیار تیرے شہر میں
پوچھتا کوئی نہیں تم کون ہو کیوں آئے ہو
ہم پڑے ہیں صورت بھنگار٭ تیرے شہر میں
ہے کہاوت ایڑے ٭ بن کر پیڑے کھانا چاہئے
ہم ادا کرتے ہیں یہ کردار تیرے شہر میں
لگتا ہے اب چیونٹیوں کے بھی نکل آئے ہیں پر
مفلسی بھی کر رہی ہے پیار تیرے شہر میں
یوں تو جھنجھٹؔ کی ہزل میں کچھ شگفتہ پن نہیں
ہو گئے رنگین یہ اشعار تیرے شہر میں
۲۔
ملے نجات مجھے ذیل کی بلاؤں سے
سکوں حرام ہے بچوں کی کاؤں کاؤں سے
ہے شہر بھر میں ترا حسن ٹارگٹ سب کا
اتار دوں میں نظر تیری آ بلاؤں سے
مری ہزل کو ہضم کر کے چین آ جائے
شکم کا درد بڑھاتا ہے کیوں دواؤں سے
سنا ہے شہر کو ریلی چلی ہے بھانڈوں کی
ہوئے ہیں جمع سبھی بھانڈ گاؤں گاؤں سے
یہ کم سنی میں مِری وسعتِ سخن دیکھو
کہ داد پائی ہے میں نے مرے چچاؤں سے
فدا ہے اس لیے جھنجھٹ بھی آج ٹن ٹن پر
سنے ہیں تذکرے ٹن ٹن کے پارساؤں سے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
٭ بھنگار۔ Scrap ردّی سامان، ایڑے۔ دیوانے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
(ماہنامہ شگوفہ جولائی ۹۴)