ملیریا
ودھیارتھی نہ جا سکا شاڑا ملیریا
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
پکّے مکان کی، کہیں کچّے کی لی خبر
سایہ بُرے پہ ڈال کے، اچّھے کی لی خبر
جھوٹا جو مات کھا گیا، سچّے کی لی خبر
پوچھا پتہ بزرگ کا، بچّے کی لی خبر
تو نے کہیں جوان کو تاڑا ملیریا!
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
لہرایا تیرے خوف کا سایا نگر نگر
منزل اداس اداس ہے، سونی ڈگر ڈگر
لیٹا ہوا مریض کے بستر پہ ڈاکٹر
موٹر کو چھوڑ چھاڑ کے بیٹھا ڈرائیور
تیرا شکار باڑا کا باڑا ملیریا
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
تھی دور، پاس تو نے بلایا ہے موت کو
دکھلا کے رنگِ خون لبھایا ہے موت کو
جی بھر کے چکھ چکا تو چکھایا ہے موت کو
تو نے ہی دل کا خون پلایا ہے موت کو
تو نے ورق حیات کا پھاڑا ملیریا
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
رہ رو کا خون راہ میں، رہبر نے لے لیا
باقی بچا کھچا تھا جو، مچھر نے لے لیا
عشرہ جنابِ شیخ کا، بستر نے لے لیا
یو ٹرن آج شہر کے افسر نے لے لیا
پربت کا سلسلہ ہے کہ آڑا ملیریا
تو نے پڑھایا خوب پہاڑا ملیریا
اپنے مطب میں روز بلاتا ہے ڈاکٹر
اے چشمِ انتظار! لے آتا ہے ڈاکٹر
پچکارتی ہے نرس، ڈراتا ہے ڈاکٹر
لے لے کے فیس، ہوش اڑاتا ہے ڈاکٹر
جیتے جی تو نے قبر میں گاڑا ملیریا
بھینس
کہا ہم نے اُٹھا کر فون ہیلو
جواب آیا، سنو میں ہوں بفیلو
کہا جھنجلا کے ہم نے ’رانگ نمبر‘
صدا آئی۔ نہ رکھنا فون مسٹر
مجھے ایک بات ہے تم سے یہ کہنا
جب اک ماحول میں ہم کو ہے رہنا
نظر جس رہگذر میں آپ آتے
میاں کیوں ناک بھوں مجھ سے چڑھاتے؟
خدا نے آپ کو اشرف بنایا
قرینہ زندگانی کا سکھایا
مروّت چاہیئے ہر اک شجر سے
محبت ہو تمھیں ہر جانور سے
بجا ہوں بدنما کالی کلوٹی
ہیں تم پہ بار یہ سینگ اور سنگوٹی
فقط تم شکل و صورت کو نہ دیکھو
سیاہ مٹی کی مورت کو نہ دیکھو
یہ دیکھو مجھ سے پایا فائدہ کیا
بنایا ہے خدا نے قاعدہ کیا
نہ ہوتی میں اگر، زحمت اُٹھاتے
نہ ایسے دودھ تم سیروں سے پاتے
یہ قوت بخش مکھن اور ملائی
دہی اور چاچھ میں ہے جو بھلائی
فراغت سے نہ یوں کر پاتے حاصل
ادیب، اُستاد، عالم اور فاضل
نہ یوں سیراب ہوتے بچے بالے
یہ محنت کش، یہ گبرو، یہ جیالے
یہ سُن کے ہو گئے ہم پانی پانی
گئے سب بھول اپنی لن ترانی