یہ اشتہار اے مرے خم خوار چھاپنا
اے ساکنانِ کوچۂ اخبار چھاپنا
بیوی کی بے شمار ضرورت ہے اب مجھے
ٹی بی ہو یا بخار ضرورت ہے اب مجھے
کالی بھی ہو اگر تو گوارا لگے مجھے
تاکہ بری نظر سے ہمیشہ وہ بچ رہے
ہو بڑبڑی اگر تو مجھے کوئی غم نہیں
کیونکہ حضور میری سماعت میں دم نہیں
ساری پڑوسنوں کو جولڑنے میں مات دے
میرے حریف کے بھی مقابل کمر کسے
گر جاؤں ضعف سے تو مجھے گھر میں لا سکے
چھ سات من کا بوجھ جو تنہا اٹھا سکے
انگلی پکڑ کے جاؤں میں اس کی ہر ایک جا
بیوی کے روپ میں ہو جہاں دیدہ رہنما
اک شرط یہ بھی ہے کہ ملے اتنا کچھ جہیز
تا عمر میں کمائی سے کرتا رہوں گریز
دس سال ہو جسے بھی گرہستی کا تجربہ
شادی کا پیش آئے جسے پہلے حادثہ
ترجیح اس کو دوں گا ہر امید وار پر
ہووے نہ اس کا حسن اگر چہ بہار پر
بچپن میں میں پلا ہوں بڑے لاڈ و پیار سے
تھا دور کا نہ واسطہ جھڑکی سے مار سے
مرکز تھا ماں کے پیار کا بابا کی جان میں
پی پی کے ’’نو نہال‘‘ ہوا ہوں جوان میں
اک پیر چھوٹا ہے مرا ایک پیر ہے بڑا
چلتا ہوں تو لگے ہے کہ کرتا ہوں بھانگڑا
قبضہ جما چکی ہے مرے گھر میں مفلسی
لیکن ہے میرے پاس تو دولت خلوص کی
ایک بار اتفاق سے شادی ہوئی مری
کُڑھ کُڑھ کے لوگ کہتے ہیں بیوی وہ مر گئی
روتی تھی میری شکل کو وہ دیکھ دیکھ کے
کس قدر با وفا تھی خدا مغفرت کرے
اب جو بھی خوش نصیب مرا گھر بسائے گی
کچھ بچیوں کی پہلے سے ماں کہلوائے گی
(ماہنامہ شگوفہ، فروری ۱۹۸۳)
خوشامد
ہر سمت لگا رہتا ہے بازارِ خوشامد
ہر کوئی جہاں میں ہے طلب گارِ خوشامد
ہاریں وہ الکشن میں تو اس بات پہ روئیں
ہو گا نہیں برسوں انھیں دیدارِ خوشامد
بن جائے گا سسرال بھی گھر آپ کا ایک دن
ہے ساس اگر آپ کی بیمارِ خوشامد
روٹھی ہوئی بیوی کو منانے کے وظیفے
کچھ اور نہیں صرف ہیں اوزارِ خوشامد
حیدر!ؔہیں خوشامد کے پرستار سبھی لوگ
اٹھتا ہی نہیں تم سے فقط بارِ خوشامد
(ماہنامہ شگوفہ، ستمبر ۱۹۸۸)