خواجہ سعید الدین اکولوی، سر خاب
نہ کیوں ہو جائے دل اس بات سے جل کر کباب آدھا
مرے پورے سوالِ وصل پر ان کا جواب آدھا
جو دیکھی اس کی کالی آنکھ تو غش آ گیا مجھ کو
ابھی رخ سے ہٹایا بھی نہ تھا اس نے نقاب آدھا
یہ قسمت ہے نہ نکلی نیند میں بھی وصل کی حسرت
بغیر عینک کے سویا تھا دیکھا میں نے خواب آدھا
بالآخر ہو گئے ہم بھی تو چپراسی منسٹر کے
خدا نے بعد مدت کے کیا عزت مآب آدھا
کچھ اس انداز سے بدلا ہے رنگ و روپ کڑ کی نے
کہ اب سرخابؔ کو کوئی بھی کہتا ہے عقاب آدھا