ہار موتی کا جو اس کے گلے سے ٹوٹ جائے
قطرۂ شبنم زمیں پر گر کے گل چھوٹ جائے
اپنی لیلیٰ کو نہ دیکھے ایک لحظہ گر کوئی
بن کے مجنوں واسطے لیلیٰ کے وہ چوکھوٹ جائے
مار کر فرہاد تیشہ غم میں شیریں کے موا
سر ہوا ٹکڑے گویا پتھر سے کوئی کوٹ جائے
گل سے بلبل گر جدا ہو جائے تو یہ جان لو
پارہ پارہ ہو جگر گل سے اگر وہ چھوٹ جائے
گر کوئی بولے مرے کو یاد جاناں نے کیا
دوڑ سر سے جائے طرفہؔ بول کر کوئی جھوٹ جائے
دل شکستہ نہ جڑے کرتے رہو تم توڑ توڑ
جوڑ دیکھا تو بھلا لعلِ بدخشاں پھوڑ کر