شکیل شاہجہاں
شکیل شاہجہاں کا تعلق کامٹی سے تھا۔ وہ کوکن کے ایک اسکول میں برسر روز گار تھے وہیں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اپنے ڈراموں کے لئے مشہور تھے۔ انھوں نے کئی ڈرامے لکھ کر اسٹیج پر کامیابی کے ساتھ پیش کیے اور اس سلسلے میں انھیں انعامات سے بھی نوازا گیا تھا۔
شکیل شاہجہاں کے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ’’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ کافی مقبول ہوا۔ ان کی جو تحریریں ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوا کرتی تھیں ان میں مزاح قدرے زیادہ تھا۔ شکیل شاہجہاں نے اپنے ڈراموں میں ظرافت کے پردے میں سماج کی کمزوریوں پر طنز کیا یہی خوبی ان کی مزاحیہ تحریروں میں نمایاں ہے۔
زوجہ گزیدہ
شکیل شاہجہاں
آپ بازار جاتے ہیں۔ اچھی طرح دیکھ پرکھ کر دوکان سے ایک پپیتا خریدتے ہیں۔ گھر لانے کے بعد اسے کاٹتے ہیں۔ اچھا نکل گیا تو ہنسی خوشی کھا لیتے ہیں اور اگر اچھا نہیں نکلا تب بھی اسے پھینکتے نہیں، بلکہ دوا سمجھ کے کھا لیتے ہیں۔ عورت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ اچھی طرح دیکھ پرکھ کر ایک عدد عورت کو بیوی بنا کر گھر لاتے ہیں۔ وہ اچھی نکلی تو گھر کو جنت بنا دیتی ہے ور اگر اچھی نہیں نکلی تب بھی آپ اسے خود سے الگ نہیں کرتے۔ بلکہ قسمت کی دین سمجھ کر سب کچھ بر داشت کر لیتے ہیں۔
کتے کا کاٹا بھونکتا ہے، سانپ کا ڈسا مر جاتا ہے، لیکن عورت (بیوی) کا کاٹا نہ بھونکتا ہے نہ مرتا ہے، بس تڑپتا رہتا ہے۔ ایسے ہی شخص کو ’’زوجہ گزیدہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس شخص کے پاس الفاظ کا زبردست ذخیرہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ استعمال نہیں کر پاتا۔ (خاص طور پر اپنی بیوی کے سامنے)ملنساری، عاجزی اور انکساری اس میں کوٹ کوٹ کا بھری ہوتی ہے۔ غصہ کم آتا ہے۔ بلند آواز میں بات نہیں کرتا۔ قوتِ برداشت زبردست ہوتی ہے اور سمجھوتے کی بے پناہ طاقت۔ یہ شخص جب تک چار دیواری میں ہوتا ہے، بھیگی بلی بنا رہتا ہے، جیسے ہی باہر نکلتا ہے شیر بن جاتا ہے۔ ہم بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں۔ اجی حضور! ڈرنا پڑتا ہے۔ خوش حال ازدواجی زندگی کے اصولوں میں یہ بھی شامل ہے۔
جب بیوی بہت زیادہ پیار جتائے تو سمجھ لو کہ وہ کوئی راز چھپا رہی ہے اور جب بہت خوش نظر آئے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی جیب کی خیر نہیں، یعنی کوئی فرمائش ہونے والی ہے۔ ایک دن ہماری بیگم بہت خوش نظر آئیں۔ ہم سمجھ گئے کہ کوئی ’’مانگ‘‘ ہے۔ کیونکہ مانگ بھر نے کے بعد مانگوں کو پوری کرنے کی زحمت شوہر کو تا عمر اٹھانی پڑتی ہے۔ بیگم قریب آتے ہی کہنے لگیں۔ ’’اجی! وہ بغل والے نسیم ماسٹر اپنے بچے کے لیے ’لو اسٹوری ‘برانڈ بنیان لائے ہیں۔ آپ بھی منے کے لیے وہ بنیان لا دیجئے نا!‘‘
’’بیگم! اس بنیان کی بات کر رہی ہو، ایک مرتبہ دھلنے کے بعد جس کی ’’لو‘‘ الگ اور ’’اسٹوری‘‘ الگ ہو جاتی ہے۔ ہم نے بنیان کو اپنی زندگی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا۔
’’کچھ بھی ہو بنیان ضرور لانا۔‘‘ بیگم بولیں اور مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ بیوی مصنوعی غصہ اس لیے دکھاتی ہے کہ اس کو روٹھنا بھی شوہر سے ہوتا ہے اور منوانا بھی شوہر ہی سے ہوتا ہے۔ خیر صاحب۔ بیوی کی فرمائش شوہر پوری نہ کرے، ہماری دانست میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ شوہر کو بھی آخر کار بیوی ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ بیوی کے کہنے کے مطابق ہم نے لو اسٹوری برانڈ بنیان تلاش کی لیکن نہیں ملی۔ پھر ہم نے ’’ہمت والا‘‘ برانڈ بنیان منے لے لیے خرید لی۔ بیگم خوش، منا خوش اور ہم بھی خوش۔ خوشی کی وجہ سے رات کے دو بجے تک نیند نہیں آئی۔ اس طرح کے پر مسرت موقعوں پر اکثر جاگنے کو جی چاہتا ہے۔
ایک رات بیگم نے شکایت کی ’’اجی! جب سے آپ ’’ہمت والا‘‘ برانڈ بنیان لائے ہیں تب سے منّے کی بہت شکایتیں آ رہی ہیں۔ پڑوس کے لڑکوں کو بہت مار پیٹ کر رہا ہے۔‘‘
’’مار رہا ہے یا مار کھا رہا ہے؟‘‘
’’مار رہا ہے، جب ہی تو شکایتیں آ رہی ہیں اور بچے اس سے بہت ڈرنے لگے ہیں۔‘‘
دوسرے دن ہم بھی ’’ہمت والا‘‘ برانڈ بنیان خرید لائے اور پہن لی کہ بیگم صاحبہ بھی ہم سے ڈریں۔ لیکن بیگم پر اس بنیان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہم حیران کہ آخر بات کیا ہے؟ کئی دنوں بعد یہ راز کھلا کہ بیگم جو ساڑی استعمال کرنے لگی ہیں وہ ’ ’ ہنٹر والی‘‘ برانڈ تھی۔
شہر میں جب کوئی بہت بڑا نیتا آنے ولا ہوتا ہے تو شہر کی صفائی، سڑ کوں کی مرمت، پلوں کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے تاکہ نیتاجی کو شہر کے انتظامیہ پراعتماد ہو جائے۔ ٹھیک اسی طرح جب اس خاکسار کی ساس صاحبہ گھر آنے والی ہوتی ہیں تو بیگم بڑی لگن سے گھر کی صفائی سفیدی اور مرمت وغیرہ کرنے میں جٹ جاتی ہیں۔ ساس کے علاوہ ہم پربھی زور زبردستی کم ہو جاتی ہے۔ بیگم ہر لمحہ ہم پر مہربان رہتی ہیں۔ ادھر منھ سے بات نکلی اورادھرپوری ہوئی۔ زندگی کے ان ہی سنہرے دنوں کو ہم برے وقتوں میں یاد کر کے خوش ہوتے ہیں۔ ہماری ساس صاحبہ جب ہمارے گھر تشریف لاتی ہیں تو بیگم ہمارا گھر اور گھر کا بہت خیال رکھتی ہیں تاکہ ساس صاحبہ کو اپنی بیٹی کی انتظامی صلاحیتوں پر بھروسہ ہو جائے اور ہماری جانب سے کوئی شکایت ان تک نہ پہنچے۔ ساس صاحبہ دوچار دن رہتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ اس کے بعد پچھلا سبق دہرا یا جاتا ہے۔ وہی بیگم۔ وہی ہم۔۔ ۔۔ ۔۔، اور وہی ہمارے درمیان کے حالات۔ ہم تو مالک سے یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ ساس صاحبہ دو چار سال ہمارے ہی گھر میں رہ جائیں۔ کاش ایسا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
لوگ دیتے ہیں بہت زور کہ شادی کر لو
جانے کیا ان کو ملا ہے مجھے تنہا کر کے
(ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد۔ دسمبر ۱۹۸۹)