نثار اختر انصاری
نثار اختر انصاری بنیادی طور پر صحافی ہیں۔ ناگپور سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ اخبار ہمہ گیر کے ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس اخبار کے چیف ایڈیٹر ان کے والد رفیق انصاری تھے۔ یہ اخبار ۱۹۸۰ سے ۱۹۸۶ کے درمیان ناگپور سے پابندی سے نکلتا رہا۔ نثار اختر انصاری اب بھی گاہے بگاہے اردو اور ہندی کے اخبارات و رسائل میں مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے روزنامہ انقلاب ممبئی میںظ انصاری کی ادارت کے زمانے میں شائع ہونے والے کالم ’’خالی پیلی‘‘ میں چند مزاحیہ مضامین لکھے تھے۔ ان کی تحریروں میں سماجی کی زندگی کے عکاسی اور اس پر عمدہ طنز کے نمونے ملتے ہیں۔
قوالی
نثار اختر انصاری
جمّن میاں بچپن ہی سے قوالی کے دیوانے ہیں۔ دن بھر ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘‘ گنگناتے رہتے ہیں۔ ان کے دوست شیخو کو قوالی سے سخت نفرت ہے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ قوالی اسمٰعیل آزاد، عبد الرّحمٰن کانچ والے، صالح محمد، حبیب پینٹر، بندے حسن اور شنکر (شمبھو) کے ساتھ ختم ہو گئی۔ جبکہ جمّن میاں کا دعویٰ ہے کہ قوالی قومی یکجہتی کی علمبردار ہے۔ اور یوسف آزاد، عبد الرّب چاؤش، جانی بابو، عزیز نازاں، جعفر بدایونی اور مجید شعلہ قوالی کے روشن ستارے ہیں۔ شیخو کی رائے یہ ہے کہ قوالی اس دن سے فنا ہو گئی جب عورتوں نے اس دنیا میں قدم رکھا۔ جمّن میاں کا کہنا ہے کہ شیخو عورتوں کا دشمن ہے۔ آج کل دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ جب عورتیں گورنر، وزیر اعلیٰ اور منسٹر بن سکتی ہیں تو قوالی گانے میں کیا برائی ہے؟
جمّن میاں کی اس قوالی دوستی سے ان کی بیگم سخت نالاں ہے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی جمن میاں زور سے گانے لگتے ہیں۔
تیری زلفوں کے سائے میں بسیرا ہو گیا
مجھے نیند ایسی آئی کہ سویرا ہو گیا
ان کی بیوی جب میونسپل کارپوریشن کے نل سے پانی لے کر آتی ہے تو ان کی دوسری قوالی
گوری چھلکے نہ گگریا دھیرے
مجھ کو بد نام نہ کر عشق پہ تہمت نہ لگا
گانا شروع کر دیتے ہیں۔ مزہ اس وقت آتا ہے جب جمّن میاں
آنکھوں کا نور ہے دل کا سرور ہے
جانِ بہار تو تو کشمیری حور ہے
گانے لگتے ہیں اس وقت ان کی اہلیہ کا پارہ گرم ہو جاتا ہے اور نوبت بیلن تک پہنچ جاتی ہے جمن میاں دھیرے دھیرے
بڑے بدنصیب ہم تھے جو قرار تک نہ پہنچے
درِ یار تک تو پہنچے دلِ یار تک نہ پہنچے
گاتے ہوئے گھر سے باہر چلے آتے ہیں۔
ہوٹل پہنچ کر اپنے چند خاص دوستوں کے ہمراہ گپ شپ میں محو ہو جاتے ہیں۔ قوالی سننے کے لیے جمّن میاں میلوں پیدل سفر کرتے ہیں۔ اس سفر میں کلّو ملّو بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ کلو ملو قوالی کے پروگرام میں ۵ کا نوٹ رکھ کر۱۰ روپے اٹھا لینے میں کافی ماہر ہیں۔ لیڈیز قوالوں سے خاص لگاؤ ہے اس لگاؤ کی وجہ سے یہ تینوں قوالی نواز اکثر اسٹیج پر ہی بیٹھ کر قوالی کا لطف لیتے ہیں۔ تھیٹر پروگرام میں کسی نہ کسی وسیلے کے تحت انھیں پاس مل جاتا ہے۔ گھر میں بھلے ہی ایک مٹھی نمک نہ ہو لیکن تھیٹر پروگرام میں جمّن میاں سو پچاس روپے قوا لوں کو دیے بغیر نہیں لوٹتے۔ جمّن میاں کے محلے میں ایک درگاہ ہے۔ اس درگاہ کی عرس کمیٹی ہر سال قوالی کے پانچ روزہ پروگرام کی ساری ذمہ داری ان کے سپرد کر دیتی ہے۔ کلّو ملّو اور جمّن میاں سب کام کاج چھوڑ کر قوالوں کو طے کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ہر سال بڑے سے بڑے قوالوں کی آمد ہوتی ہے۔ کلو اور ملو لیڈیز قوالوں کی دعوت اپنے گھر دیتے ہیں۔ اس طرح ہر سال چار پانچ نئی قوالہ سے ان حضرات کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے! جمّن میاں کے دل میں بھی بڑا ارمان ہے کہ وہ قوالوں کی اپنے گھر میں ضیافت کریں جن میں خاص طور پر چند خواتین موجود ہوں۔
لیڈیز قوالوں کی دعوت اپنے غریب خانے پر رکھنے کی خواہش ہے لیکن ان کی بیوی ان کا ارمان پورا نہیں ہونے دیتی۔ جمن میاں نے کئی بار اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی ’’ارے پگلی‘‘ قوالی ایک فن ہے۔ اس کو گانے والے چاہے مرد ہوں یا خاتون فنکار ہیں۔ فن اور فنکار دونوں کی عزت کرنا چاہیے۔ قوالی روح کی غذا ہے بیگم۔ خدا کے لیے اس مسئلہ پر اتنی سنگ دل نہ بنو۔‘‘
لیکن ان کی بیگم بھی جھانسی کی رانی اور چاندی بی بی کی طرح ارادے کی بڑی پکی ہے۔ جمن میاں کی ساری بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہے۔ جمّن میاں بیوی کا سارا غصہ شیخو پر اتارتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک شیخو جیسے لوگ زندہ ہیں قوالی گھر گھر عام نہیں ہو سکتی ہے۔‘‘
شیخو ان حرکتوں کا عادی ہو چکا ہے۔ آج کل دونوں میں سلام کلام سب بند ہے۔ جمن میاں نے بھی بڑھاپے کی وجہ سے پروگرام میں آنا جانا کم کر دیا ہے۔ ایک لیڈیز قوال کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے کے جرم میں پولس کلّو اور ملّو کی کافی پٹائی کر چکی ہے۔
لیکن اُدھر شیخو نے کیسٹ کی دوکان لگا لی ہے جہاں ہر قوال اور قوالہ کے نئے پرانے تمام کیسٹ مناسب داموں میں دستیاب ہیں۔ جمن میاں اب شیخو سے بات چیت شروع کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
(خالی پیلی، روزنامہ انقلاب، ممبئی)