سعید احمد خاں
یکم جولائی ۱۹۴۸ کو اکولہ میں پیدا ہوئے۔ اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ اکولہ میں لکچرر کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے۔ جاسوسی ناول نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کے تین جاسوسی ناول ’’نشہ اترتا ہے‘‘ ، ’’کھنڈروں کے قیدی‘‘ اور ’’وحشستان‘‘ منظر عام پر آ چکے ہیں۔ بید براری کے نام سے بھی ان کی ظریفانہ نگارشات شائع ہو چکی ہیں۔ ’’آپ کی یاد میں‘‘ ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔
۔ رابطہ: 9765164862
انقلاب، خیر آباد!
سعید احمد خان
میری اہلیہ نے جب وہ بات مجھ سے کہی تو میں جھوٹ موٹ سنجیدہ ہو گیا۔ اپنی آنکھوں میں فکر مندی پیدا کر کے چہرہ ایسے بنا لیا کہ، اب یہ مسئلہ حل کیسے ہو؟ میڈم سے بات کرتے وقت بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ باتیں کرتے کرتے کسی ماہرِ نفسیات کی طرح اس کی نظر میری حرکت پر رہتی ہے۔ کون سی بات پر میری آنکھ جھپکتی ہیں، اور کن باتوں پر میرے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور کس بات پر میں خود کھڑا ہو جاتا ہوں، یہ بخوبی جانتی تھی۔
یوں تو یہ معمولی سی بات تھی لیکن وہ عورت ہی کیا جو معمولی بات کو غیر معمولی نہ بنا دے۔ ہم نے اپنی چھوٹی بیٹی کے نام پر دو سو روپے مہینے کا ایک آرڈی اکاؤنٹ کھولا تھا۔ چند مہینوں تک تو یہ سلسلہ ٹھیک چلا لیکن معاملہ پھر ٹھپ پڑ گیا۔ اس مہینہ تو ایجنٹ کو واپس کر دیا گیا کہ اگلے ماہ دو قسطیں ادا کر دیں گے۔ لیکن آنے والے مہینے میں یہ پیسے آئیں گے کہاں سے یہی سوال کر کے وہ میرا چہرہ دیکھ رہی تھی اور میں فکر مند ہونے اور نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں مقامی کالج میں لکچرر ہوں تنخواہ خوب بلکہ بہت خوب ملتی ہے۔ مہینے کے آخر میں پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے کہ سارا بجٹ گڑ بڑا جاتا ہے۔ ویسے بیوی زیادہ کچھ نہیں کہتی کیوں کہ میں بیوی کا شروع سے ہی (مطلب جب سے شادی ہوئی ہے۔)فرماں بر دار ہوں۔ تنخواہ بھی بڑھتی ہے۔ اکثر GPFاور Arrearsوغیرہ بھی نکلتے رہتے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کن بزرگوں کی بد دعا ہے کہ بجٹ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہی نہیں۔
کالج میں اتنی کم محنت کر کے اتنی زیادہ تنخواہ لینے پر میں خود ہی شرمندہ تھا۔ لیکن ساتھیوں نے دلاسہ دیا کہ اور لوگ اتنی بھی محنت نہیں کرتے اس لیے زیادہ شرم محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ مضامین ایسے پڑھاتا تھا کہ کوئی ٹیوشن کے لیے گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ بلکہ مفت بھی پڑھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ میں نے کہا(کیوں کہ کچھ نہ کچھ بولنا ضروری ہو گیا تھا)گوشت کم کر دیں گے! میں نے گویا اپنی طرف سے ایک بڑی قربانی پیش کی۔
نہیں! میڈم کا جواب تھا۔ ہفتہ میں سات دن تو کھاتے ہیں۔
دودھ؟ میری زبان سے نکلا۔
کم از کم ڈیری کا دودھ تو رہنے دو بے چارے بچّوں کے لیے۔
سبزی، گیہوں، جوار، چاول، دالیں وغیرہ؟
نہیں ان میں کچھ بھی کم نہیں ہو سکتا۔
ایک بڑا بھیانک خیال میرے دل میں آیا۔ دوسرے شہروں سے اکثر جو ہر ماہ میرے سسرالی رشتہ دار ٹپک پڑتے ہیں ان پر اگر قید لگا دی جائے تو!؟ یہ بات کہنے کے لیے میں نے زبان کھولی لیکن میرے منہ سے نکلا صابن بیگم صابن! ہمارے یہاں صابن کا استعمال بہت زیادہ اور بے جا ہوتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ لکس انٹر نیشنل استعمال کیا جائے۔ دوسرا کوئی سا بھی۔
آپ کے صاحبزادے لکس کے علاوہ کسی اور صابن سے نہیں نہاتے۔ دوسرے صابن سے نہانے کے مقابلے میں جھاویں کا استعمال مناسب سمجھتے ہیں۔
اور ہماری پیاری بیٹا جس جس کی وجہ سے اتنا کچھ سوچنا پڑ رہا ہے؟
وہ تو بڑی ہوشیار ہے، صابن کے بچے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کر کے انہیں پیستی ہے اور پھر اس کا صابن بناتی ہے۔
اوہ! وہ سموسہ کی شکل کا صابن اسی طرح کا بنایا ہوا تھا؟
اور کیا۔ آپ کیا سمجھتے تھے۔
میں سمجھا لکس والوں نے اب سموسہ لکس نکالا ہے۔ میرا یہ لطیفہ اس کے اوپر سے خالی وار گزر گیا۔
پانی والے بند کر دیں! میں نے رائے دی۔
پھر کون بھرے گا؟
میں بھروں گا اور کون؟ ڈیڑھ سو روپے ماہانہ سیدھے بچ جائیں گے۔
آپ پانی بھریں گے! وہ میرے ململ کے قمیص اور علی گڑھ پاجامے میں ملبوس دھان پان سے سراپا کو دیکھتے ہوئے کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ ابھی تک کی گفتگو میں وہ پہلی مرتبہ ہنسی تھی اس لیے اس کے ساتھ میں بھی ہنسنے لگا۔ پھر خیال آیا کہ اس میں تو میری ہی تضحیک کا پہلو نکلتا ہے۔ اپنی مصنوعی ہنسی کو بریک لگائے اور حقیقی غصّہ میں کہا۔
تو پھر تم ہی بتاؤ کوئی ترکیب جس میں تمھاری لاڈلی کا یہ اکاؤنٹ جاری رہے۔
بیگم کے چہرے پر بدلتے تاثرات دیکھ کر میں چونک گیا۔ یہ تاثرات اس کے چہرے پر اس وقت پیدا ہوتے تھے جب قطعی طور پر کسی فیصلہ پر پہنچ جاتی تھی اور اس فیصلہ کو رد کرنا کم از کم میرے لیے نا ممکن ہو جاتا تھا۔
اپنے یہاں انقلاب نہ آئے تو اچھا ہے!
کیسا انقلاب؟ تم تو اس طرح کہہ رہی ہو جیسے اپنے یہاں روزانہ انقلاب آتا ہے!؟
ہمارے یہاں روزانہ ڈیلی انقلاب آتا ہے! وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی۔
’’تو پھر؟‘‘، میں نے گھبرا کر پوچھا۔
اسے ہی بند کر دیتے ہیں! وہ اطمینان سے بولی میں تو کچھ اسے ہاتھ میں لیتی نہیں، بچّے میرے انگریزی اسکولوں کے پڑھنے والے، ایک آپ ہی پڑھتے ہیں۔
نہیں! میں اپنا انتہائی غصّہ ضبط کر کے بولا اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے ایک پان کی قیمت میں اتنا عمدہ اخبار ہم کو مل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سنڈے ایڈیشن ہے، پھر فیمیلی انقلاب بھی!
اس کے ساتھ دوسری الّم غُلّم کتابیں بھی ہیں، رسائل بھی ہیں، وہ میرے لہجے کو نقل اتارتی ہوئی بولی سب بند! دو سو روپے آسانی سے بچ جائیں گے۔
بیگم ذرا تو خیال کرو، میں کلاسیز میں بچّوں کو اردو کے اخبارات اور رسائل خریدنے کی تلقین کیا کرتا ہوں۔
اس سے آپ کو کس نے روکا، تلقین کرتے رہیے، لیکن کام کاج، کیجیے اپنے فائدے کا۔
کیوں میری امیج خراب کرنے پر تُلی ہو، دہلی کے ایک اخبار والے سے یہاں کے بک سیلر نے میرا تعارف جانتی ہو کس طرح کرایا تھا؟(وہ استفہامیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے کہا۔)
اس نے کہا تھا کہ میں ان بہت کم اردو کی روٹی کھانے والے اساتذہ میں سے ہوں جو اردو کے اخبارات، رسائل اور کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں اور تم جانتی ہو اس کے جواب میں، میں نے کیا کہا تھا، بلکہ کون سے تاریخی جملے کہے تھے؟
ایسا کیا کہہ دیا تھا آپ نے؟ وہ اُکتا کر بولی۔
میں نے کہا تھا کہ میں بنیائین خریدتا ہوں تو اپنی ضرورت کے لیے، جوتا، موزہ سب کچھ اپنی ضرورت کے لیے خریدتا ہوں۔ یہ کسی پر احسان نہیں اور نہ ہی کوئی فخر کی بات ہے۔ اس لیے اخبارات اور کتابیں خریدتا ہوں تو اس میں قابل تعریف بات کیا؟
میری بیوی نے فوراً تو کچھ نہیں کہا، پھر کچھ سوچ کر بولی۔
لیکن اس پر خرچ کیے بغیر بھی ہماری یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے، اخبار پڑوسی سے مانگ کر لائیں گے اور کتابیں دوستوں سے، سمجھے!
میں نے اپنے سیدھے ہاتھ کی مٹھّی سختی سے بند کی اور اسے فضا میں لہراتا ہوا بولا۔
جب ہم مانگ کر کھاتے نہیں۔ مانگ کر پہنتے نہیں تو مانگ کر پڑھتے کیوں ہیں؟
یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا ہے وہ مجھے کسی بچّے کی طرح پچکارتی ہوئی بولی۔ جن سے آپ مانگ کر لائیں گے وہ بھی کہیں اور سے مانگ کر لاتے ہیں!
اب میرے پاس سوائے ہتھیار ڈالنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ انجام کار! انقلاب کے لیے ہمارے گھر کے دروازے بند ہو گئے۔