رحمت اللہ خاں مالوی
رحمت اللہ خاں مالوی، یکم جولائی ۱۹۴۴ کو پیپل گاؤں راجہ
(ضلع بلڈانہ) میں پیدا ہوئے۔ اردو انگریزی اور معاشیات میں ایم اے بھی کیا اور اکوکہ کے ایک تعلیمی ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’کتاب نا شناسی‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد میں گاہے بگاہے ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
رابطہ: 9422619133
نوٹ
رحمت اللہ خاں مالوی
نوٹ نوٹ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں جب انگریز ہندستان سے بھاگا تو اپنے ساتھ کئی ضروری چیزیں لے کر گیا تھا۔ اور جتنی غیر ضروری چیزیں تھیں وہ پیچھے چھوڑ گیا۔ ان پسماندہ باقی ماندہ اور واماندہ اشیاء میں بالترتیب کتے، نوٹ اور پتلون زیادہ اہم سمجھے گئے۔ اور ہم ہندوستانیوں نے انھیں مال بیش قیمت سمجھ کر خوشی خوشی سر آنکھوں سے لگا لیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ان اشیاء کو دیکھ کر بعض کی بانچھیں اتنی کھلیں کہ بتیسیاں باہر نکل آئیں اور بعض نے صرف رال ٹپکانے پر ہی اکتفا کیا۔
دولت مند خواتین نے کتوں کو گلے لگایا کہ شوہر کا بدل ہوتا ہے۔ وفاداری انکساری اور اطاعت گذاری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پیچھے پیچھے دم ہلاتے پھرنے سے لے کر تلوے چاٹنے تک کی تمام خوبیاں بھی اسی جانور میں پائی جاتی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری حکام نے پتلون اور نوٹ دونوں پر ہاتھ صاف کیا۔ دونوں بھی جامہ زیبی کے لیے ضروری ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی۔
تیسرا طبقہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ جسے عرف عام میں سعادت مند سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سعادت مندی کا یہ عالم واحسرتا پتلون یا حسرتا نوٹ کہہ کر رہ گئے۔ پھٹی پرانی نوٹ دیکھ کر تھوڑی دیر خوش ہولیے۔ اور ہلکی پھلکی پتلون پہن کر دل کو سمجھایا کہ یہ پتلونیں یا تو اترن کی تھیں یا پھٹے پرانے نوٹوں سے خریدی ہوئیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس قسم کی پتلونوں پر دو آنکھیں کمر سے ذرا نیچے رانوں سے ذرا اوپر اُگ آتی ہیں۔ تاکہ سعادت مند عوام ہمیشہ پیچھے ہی دیکھتے رہیں۔ آگے نہ دیکھ سکیں۔ دوسری دو آنکھیں گھٹنے کے پاس ہوتی ہیں۔ اور پہننے والوں کو ہمیشہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تمھاری عقل کا صحیح مقام یہی ہے۔ اس لیے ایسے لوگ جب کبھی کسی گمبھیر مسئلے پر سوچتے ہیں یا سوچنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے گھٹنوں میں درد ہونے لگتا ہے۔
وقت کے ساتھ معیار اور میزان بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ شرفا کی نقل عوام کیا کرتے تھے لیکن مساوات کی نعرہ بازی کے صدقے گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ انداز حسن ضرور بدلا لیکن غرور حسن باقی ہے۔ آنکھوں کی پیوند کاری کے اس عیب کو چار گول ڈیزائنوں کی شکل میں چھپایا گیا۔ دو گول گول تھگل کمر کے عین نیچے پشت کی طرف سے اور دو تھگلیاں گھٹنوں پر۔ انھیں دیکھ کر عجب سرور حاصل ہوتا ہے۔ دیکھنے والوں کو بھی اور پہننے والوں کو بھی۔ یہ پیوند کاری اب ملوں سے ہونے لگی ہے۔ گویا نیا کپڑا پہننے سے پہلے ہی پیوند کار ہوتا ہے۔ یہ بھی نوٹ ہی کمال ہے۔ ٹاٹ میں مخمل یا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگوا لے۔ ہم آپ کر ہی کیا سکتے ہیں۔
حکام بالا (سرکاری و غیر سرکاری)نے نوٹ کا اتنا استعمال کیا کہ دفاتر میں ہر جگہ بجز نوٹ کچھ نظر نہیں آتا۔ نوٹ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ کاغذی گھوڑے بھی نوٹ دیکھ کر ہی دوڑتے ہیں۔ آخر سکۂ رائج الوقت جو ہے۔ اگر محض سکہ رائج الوقت ہوتا تو ایک بات تھی مگر یہاں تو یہ عالم ہے کہ حاکم وقت، ابو الوقت اور ابن الوقت سب کچھ خوبیاں اسی ایک کاغذ کے ٹکڑے میں موجود ہیں۔ ایک طرف قوت خرید بھی رکھتا ہے اور تو دوسری طرف قوت برید بھی۔ بیک وقت پیر بھی ہے اور مرید بھی۔ اس کی مریدی کی بھی عجب شان ہے۔ جسے دیکھو وہ اس کا پیر بننے کا خواہشمند ہے۔
سرکاری دفتروں میں نوٹ کا چلن مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ جو نوٹ بطور کرنسی رائج ہے، اس کی اہمیت مسلم ہے۔ نچلے درجہ کے چپراسیوں سے لے کر اعلیٰ کوالٹی کے افسران بالا تک اس قسم کی نوٹ کے پیچھے گشتی مراسلہ Circular کی طرح پھرتے ہیں۔ اور ہر ایک کو اس سے رغبت ہے۔ ہر ایک بڑی محبت سے اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔ آخر کار بڑی حسرت سے کہنا پڑتا ہے،
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
جہاں تک لین دین کا تعلق ہے، نوٹ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ جب کسی کو دینے کی بات آتی ہے تو بہرے بھی چونک پڑتے ہیں۔ جب کسی سے لینے کا معاملہ ہوتا ہے اس کے خلاف ہوتا ہے۔ یعنی لین دین کے معاملات میں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
اس لینے دینے سے استاد خاص فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کالجوں میں پڑھانے والے استاد زیادہ ہی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گویا نوٹس دینے کے بہانے ہرنوں کی پیٹھ پر گھاس لاد دیتے ہیں۔ ہرن اپنی چوکڑی بھول جاتے ہیں تعلیم کی بات چل نکلی تو امتحانات اس سے کیسے دور رہیں امتحانات میں نوٹس کا مرکزی رول ہوتا ہے۔ امتحان کی فیس، سوالنامے اور امتحان کے نتائج تک سب نوٹ کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ہر سوال نامہ میں کچھ نہ کچھ نوٹ تحریر ہوتے ہیں۔ طلبہ انھیں بڑی فکر سے پڑھتے ہیں (بھلے ہی پرچہ نہ حل کر سکیں) بعض بھلے آدمی امتحانات ہونے سے قبل ہی نوٹ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور کامیاب کہلاتے ہیں۔
کوٹ ووٹ اور نوٹ یہ تینوں رشتہ دار لگتے ہیں، یا تینوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن یہاں نوٹ ہی چلتا پرزہ ہے۔ چاہے تو کوٹ پہنا دے چاہے اتر وا دے۔ یہی سلوک ووٹ کے ساتھ بھی ہے۔ جدھر نوٹ ادھر ووٹ۔
عجب متضاد خوبیاں ہیں نوٹ میں۔ چھَپائے بھی جاتے ہیں اور چھُپائے بھی جاتے ہیں۔ جب چھپوائے جاتے ہیں تو وھائٹ کہلاتے ہیں۔ اور چھپانے کی صورت میں بلیک۔ وھائٹ اور بلیک کے علاوہ یہ اصلی اور نقلی بھی ہوتے ہیں۔ اصلیت سے سب آگاہ ہوتے ہیں لیکن نقلی کی پہچان مشکل ہے۔ یوں بھی نقلی اشیاء اصلی میں مل کر کھپ جاتی ہیں۔ یہ تو نوٹ ہیں۔ اول الذکر حالت میں چھاپہ خانہ استعمال ہوتا ہے۔ آخر الذکر حالت میں خانہ نوٹوں سمیت غائب ہو جاتا ہے۔ صرف چھاپہ رہ جاتا ہے۔ جسے پولس اور انکم ٹیکس والے پوری پوری ناکامی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اس ناکامی میں بھی قصور نہ تو پولس والوں کا ہے، اور نہ ہی چھپانے والوں کا، در اصل قصور تو نوٹ ہی کا ہے۔ جو رنگ بدلتا رہتا ہے۔ بلیک اینڈ وھائٹ تو اکثر ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن لال پیلے ہرے پیراہن پہن لیتا ہے۔ اس کے علاوہ مصیبت کے وقت ایک نمبر اس کا پسندیدہ ہے۔ خود بھی محفوظ رہتا ہے اپنی حفاظت کرنے والوں کو بھی بچا لیتا ہے۔ وہ ہے، دو کا عدد۔
ہرے رنگ کی نوٹ کو گرانی کے اس دور میں بہت سے تارک الدنیا، قناعت پسند سادھو، سنت پیر فقیر پسند کرتے ہیں۔ دکشنا اور ہدیہ میں اسی رنگ کی نوٹ کو فوقیت دیتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔ نہیں شاید اس لیے کہ
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
(کتاب نا شناسی)