محمد طارق
محمد طارق ۱۷؍ مارچ ۱۹۵۳ کو کھولاپور (ضلع امراؤتی) میں پیدا ہوئے۔ پیشۂ تدریس سے وابستہ رہے اور سبک دوش ہوئے۔ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانیاں اور افسانچے اردو کے مقتدر رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں اور کتابی شکل میں بھی منظرِ عام پر
آ چکے ہیں۔ انھوں نے طنزیہ مضامین، بچوں کے لیے کہانیاں اور تنقیدی مضامین بھی تحریر کئے ہیں۔ کانٹے دار فصل اور عینی شاہد ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
’’چوزے کی حمایت میں‘‘ ان کی فکاہیہ تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے افسانوں ہی کی طرح سماج کو بے نقاب کرنے کی کوشش نمایاں ہے مگر یہاں انداز ظریفانہ ہے۔ انھوں نے بچوں کے لئے بھی دلچسپ کہانیاں لکھی ہیں۔ رابطہ: 8055503366
مولانا مد ظلہ العالی
محمد طارق
دائرے چھوٹے بڑے قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے لوگ اس دائرے میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل داخلہ ممنوع ہے صرف خارج کرتے ہیں۔ چل نکل اسلام کے دائرے سے ...
معروف مزاح نگار ابن انشاء کی اس بات پر مولانا مد ظلہ العالی عمل پیرا ہی نہیں بلکہ ثابت قدم بھی ہیں۔ ہر جمعہ کو خطبہ سے پہلے عدالت الٰہی کے جج بن جاتے ہیں۔ اپنے بیان میں مصلیان ہی نہیں بلکہ گاوں کے سارے مسلمانوں کا حساب کتاب کر کے اپنے حمایتیوں کو جنت کی بشارت اور مخالفین کو جہنم کی رسید عنایت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو کافر فاسق فاجر اور منافق بنا دینا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
نماز جمعہ کے بعد ایک منچلا ان سے بولا، ’’مولی (مولوی)صاحب آپ نے اللہ میاں کا کام کتنا آسان کر دیا! گاؤں کے سارے مسلمانوں کا حساب کتاب پورا کر دیا۔ اب میدان حشر میں اللہ میاں کے ذمہ صرف یہاں کے ہندوؤں کا حساب کتاب باقی ہے۔‘‘
منچلے کی بات سن کر مولانا مد ظلہ العالی اسے گھور کر دیکھنے لگے۔ منچلا مسکین صورت بنا کر مولانا مد ظلہ العالی کو تکنے لگا۔ کچھ دیر ماہر ہپناٹسٹ کی طرح گھورنے کے بعد گرجدار آواز ان کے منھ سے نکلی۔ استغفر اللہ۔ آواز اتنی گرجدار تھی کہ مسجد کی دیوار کی منڈیر پر بیٹھا کالا کوا اڑ گیا۔ شاید کسی جھوٹے کو کاٹنے کے لیے۔ مگر سماج میں جھوٹے اتنے ہو گئے ہیں کہ کالا کوا کاٹے تو کس کس کو کاٹے۔ بیچارہ صرف گانے کے مکھڑے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔ جھوٹ بولے کوا کاٹے کالے کوے سے ڈریو۔ خیر
استغفر اللہ کہنے کے بعد مولانا مد ظلہ العالی نے منچلے کو ڈانٹا۔ ’’مذاق اڑاتے ہو ہمارے بیان کا؟ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔ اللہ دل سے ایمان سلب کر لے گا۔ موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہو گا۔‘‘ مولانا مد ظلہ العالی نے کسی دل جلی عورت کی طرح کوسا، منچلے نے ادھر ادھر دیکھا، مولانا کا کوئی حمایتی آس پاس نہیں تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور سر جھکا کر نکل پڑا۔
اس واقعہ کے بعد جب جمعہ آیا تب من چلے کی بات کو موضوع بنا کر مولانا مد ظلہ العالی نے لچھے دار بیان دیا۔ ایک عادت موصوف دامت برکاتہ میں بڑی اچھی ہے کہ وہ بیان میں ڈائرکٹ حملہ نہیں کرتے۔ اِن ڈایرکٹ میں دل کھول کر غبار اڑا دیتے ہیں۔
اس جمعہ کی تقریر میں انھوں نے علماء کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ فرما دیا تھا کہ، ’’علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنا بھی ثواب ہے۔‘‘ پھر کیا تھا، گاوں کے کم و بیش سارے مسلمان مولانا مد ظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ کوئی آنکھیں سکیڑ کر محبت کی نظر سے دیکھ رہا تھا تو کوئی آنکھیں پھاڑ کر۔ جن لوگوں کو بعید النظری یا قریب النظری کی شکایت تھی وہ بے چارے چشمہ لگا لگا کر مولانا مد ظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کی کوشش میں اپنی توانائی صرف کرنے لگے تھے۔ ایک معتقد نے تو ارجنٹ میں اپنا موتیا بند کا آپریشن اسی لیے کروایا تھا کہ وہ جلد از جلد مولانا مد ظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھ سکے۔ محبت کی نظر سے دیکھنے میں ثواب کی بات جب مسلمانوں کے گھروں میں پہنچی تو ثواب کمانے کے لیے گھروں کی عورتیں، کیا بوڑھی کیا ادھیڑ، کیا جوان کیا کنواریاں، شادی شدہ ساری عورتیں مولانا مد ظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے بیتاب ہو گئیں۔
جب بھی مولانا مد ظلہ العالی راستے سے گذرتے ہیں، گھروں میں خبریں پہنچ جاتی ہیں اور عورتیں اپنا کام دھندا چھوڑ کر کوئی دروازوں کے پٹوں کے پیچھے، کوئی کھڑکیوں میں مولانا مد ظلہ العالی کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے کھڑی ہو جاتی۔ گاوں کی کچھ گلیاں ایسی تھیں جہاں مولانا مد ظلہ العالی کا گذر نہیں ہوتا تھا۔ وہاں کے گھروں کی عورتوں کو ثواب سے محرومی کا افسوس ہونے لگا۔ وہ مولانا مد ظلہ العالی کے گھر پہنچ گئیں۔
ان کی بیگم نے پوچھا، ’’آپ کیسے تشریف لائیں؟‘‘ عورتیں کہنے لگیں، ’’مولانا صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے لیے کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ علماء کو محبت کی نظر سے دیکھنا ثواب ہے۔‘‘
مولانا مد ظلہ العالی کی بیگم صاحبہ کے دل پر آرے چل گئے۔ وہ بھی کوئی معمولی عورت نہیں تھی۔ عالمہ تھیں عالمہ۔ موقع و محل دیکھ کر صبر و ضبط سے کام لیا۔ کہا، ’’مولوی صاحب نے جو کہا وہ مردوں کے لیے ہے۔ قرآن کی روشنی میں عورت کے لیے تو یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کو محبت کی نظر سے دیکھے۔‘‘
’’اماں کس کے پاس اتنی فرصت ہے؟‘‘ ایک ادھیڑ عمر کی عورت ہاتھ نچا کر کہنے لگی۔ ’’ہمارے گھر میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ کہاں قرآن و حدیث کی روشنی؟ ایک ٹمٹماتا بلب جلتا رہتا ہے۔ میں دن ڈوبے تک کھیت میں کام کرتی ہوں اور میرا میاں حمالی کرتا ہے۔ شام میں ہم گھر آتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔‘‘
مولانا مد ظلہ العالی کی بیگم صاحبہ نے اس عورت سے کچھ نہیں کہا۔ وہ چاہ رہی تھیں کہ کسی طرح جلد از جلد وہ عورتیں ان کے گھر سے نکل جائیں تاکہ مولانا مد ظلہ العالی کی اچھی طرح سے پریڈ لے سکیں۔
عورتیں کچھ دیر کھڑی رہیں پھر مایوس ہو کر چلی گئیں۔ مولانا مد ظلہ العالی کی بیگم صاحبہ نے فوراً دروازے کی کنڈی لگا دی۔ کمرے میں مولانا مد ظلہ العالی کرسی پر دم سادھے، سر جھکائے سہمے سہمے خاموش بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’کیوں جی! بیان میں یہ کہہ دیا آپ نے؟ علما کو محبت کی نظر سے دیکھنا ثواب کا کام بتا دیا۔ بہت ساری عورتیں آپ کا دیدار کرنے کے لیے گھر آ گئی تھیں۔‘‘
’’میں نے مردوں کے لیے کہا تھا۔ اپنی حیثیت ٹکائے رکھنے کے لیے ایسا کہنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’مجھے مت سمجھائیے۔ اگلے بیان میں اپنی بات کی وضاحت کیجیے یا بیان واپس لیجیے۔‘‘
’’نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ میں کوئی نیتا نہیں ہوں کہ اپوزیشن کے دباؤ میں بیان واپس لے لوں۔ مولانا ہوں مولانا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتا ہوں۔‘‘
’’بہت آئے قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرنے والے۔ گھر میں تو کبھی قرآن کھولتے ہیں نہ حدیث کی کتاب پڑھتے ہیں۔ جب بھی فرصت میں بیٹھتے ہیں اسمارٹ فون کی اسکرین پر انگلیاں چلاتے رہتے ہیں۔‘‘
مولانا مد ظلہ العالی بیگم صاحبہ کی ڈانٹ سر جھکائے خاموشی سے اس لیے سن رہے تھے کہ وہ غلط نہیں کہہ رہی تھیں۔ کالا کوا گھر کی منڈیر پر خاموش بیٹھا تھا۔ بیگم صاحبہ کی ہمت بڑھی وہ شہادت کی انگلی اٹھا کر بولیں، ’’دیکھیے اگر آپ نے اپنا بیان واپس نہ لیا یا اس کی وضاحت نہ کی تو میں بھی آپ کے دوست ہارون مولانا صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھنے لگوں گی۔‘‘
بیگم صاحبہ کے منھ سے یہ وارننگ سنتے ہی مولانا مد ظلہ العالی طیش کے مارے کرسی سے کھڑے ہو گئے۔ پھر جیسے ان کے اندر فلم، مغل اعظم کے کردار اکبر اعظم کی روح حلول کر گئی۔ وہ بالکل پرتھوی راج کپور کے انداز میں گرجے، ’’خاموش ہم تمھیں پردوں کی دیواروں میں قید کر دیں گے۔‘‘
جلال میں یہ کہہ کر مولانا مد ظلہ العالی دامت برکاتہ گھر سے نکل پڑے اور ذہن میں اپنے اس دوست سے قطع تعلق کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے جس پر محبت کی نظریں پھینکنے کی وارننگ بیگم صاحبہ انھیں دے چکی تھیں۔
(چوزے کی حمایت میں)