حیدر بیابانی
حیدر بیابانی، یکم جولائی۱۹۴۸ کو کرج گاؤں (ضلع امراؤتی)میں پیدا ہوئے۔ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت مستحکم کروا چکے ہیں۔ ان کی ۳۳ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کی کئی منظومات مختلف درسی کتابوں میں شامل ہیں۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی تخلیقات میں روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے سماجی موضوعات پر بھی ظریفانہ نظمیں لکھی ہیں۔ ’حیدر بیابانی کی طفلی نظموں میں بھی ظرافت کی آمیزش موجود ہے۔ انھوں نے عصری زندگی کے مسائل کی عکاسی کرنے والی طنزیہ منظومات بھی قلم بند کی ہیں۔
’’چشم دید‘‘ (۱۹۹۰)ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے جس میں شامل چند نگارشات کے عنوانات سے ان کے موضوعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ با کمال شوہر، بد زبان بیوی، نمک کی چمک اور ہم صاحبِ کتاب ہوئے۔
داستان بیوی
حیدر بیا بانی
یہ داستان جادو بیان نہ تو داستان الف لیلیٰ ہے نہ ہی داستان طوطا مینا ہے یہ وہ زبان زد خاص و عام داستان ہے جو گھر گھر صبح و شام کہی سنی جاتی ہے اور اپنے رنگا رنگی سے کہیں گدگداتی ہے اور کہیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ آدم و حوّا سے لے کر ہم اور ہماری بیویوں تک شیطان کی آنت جیسی اس داستان میں توتو میں میں، گالی گلوچ، دھول دھپّا، سبھی کچھ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ لیکن اس داستان کو با قاعدہ ضبط تحریر میں لانے کا بیڑہ آج تک کوئی سر فروش شوہر نہیں اُٹھا سکا مگر آج ہم نے اوکھلی میں سر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے گویا خود اپنا سامان قتل مہر ادا کر لیا ہے۔
داستان بیوی کی داستان گو کوئی ہر ان زن مرید کسی ذاکرہ بیگم کا میاں ذاکر خان ہونا چاہیے تھا۔ ہم ٹھہرے شوہر نئے نویلے بھی اور تھوڑے بہت رنگیلے اور کٹیلے بھی، اس کا گریبان زیادہ رقت آمیز نہ ہو کر تلخ ہو جائے تو ہم روئے زمین کی تمام مرد مار بیویوں اور سارے ستم رسیدہ بیوی گزیدہ شوہروں سے معافی کے خواستگار ہیں اور ان کی ہمدردیوں کے طلبگار رہیں۔ ذکر بیوی کے ساتھ شوہر کا ذکر بھی لازم و ملزوم ہے اس لیے اس بے چارے ستم کے مارے کا عبرت ناک احوال جا بجا آئے گا اور ہر کسی کو آٹھ آٹھ آنسو رلائے گا۔ دنیا کے سروے پر نکلا جائے تو لاکھوں مردوں میں ایک آدھ مرد تیس مار خاں نکلے گا۔ لیکن ہر عورت ضرور ایک مرد مار عورت کہلائے جانے کی مستحق ہے۔ بیوی کے معاملے میں مرد سرد مزاج واقع ہوا ہے اس کے بر خلاف بیگم اپنے شوہر کے لیے انتہائی گرم مزاج ہوتی ہے۔ دنیا کی آدھی عورتیں اگر مرد مار (یعنی شادی شدہ ہو چکی ہیں تو) آدھی ضرور ہونے والی ہیں یعنی شوہر شکار ہوتا ہے اور بیگم (ضیغم نما) شکاری۔ ویسے بھی مرد ابتداء سے مردہ گردانا جاتا ہے۔ لیکن زن کو ہر دور میں زندوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ غالبؔ کی زبان میں دھول دھپّا اس سراپا ناز کا (یعنی بیوی کا) شیوہ نہیں ہوتا ہے۔ شامت اعمال ہی کسی نہ کسی صورت نہ پیش دستی کروا لیتی ہے۔ بیوی زبان چلانے کے ساتھ ساتھ بیلن چلا نے کا فن سیکھ کر بیلن اٹھائے شوہر کے پیچھے دوڑتی ہے اور شوہر بھاگ کر پلنگ کے نیچے پناہ لیتا ہے۔ وہ للکارتی ہے۔ اب نکلو باہر۔ شوہر وہیں دبکے دبکے دھاڑتا ہے۔ نہیں نکلوں گا میرا اپنا گھر ہے۔ جہاں چاہوں رہوں۔ کبھی کبھی وہ غصّہ میں باورچی خانے کے برتن اُٹھا اُٹھا کر کھینچ مارتی ہے۔ اور میاں بیوی دونوں خوش ہوتے۔ نشانہ ٹھیک لگا تو بیوی خوش ہو جاتی ہے اور خطا ہو گیا تو شوہر بغلیں بجاتا ہے اس طرح ہنسی خوشی دو پہیوں والی گرہستی کی یہ گاڑی چلتی رہتی ہے۔
دوستوں کی محفل میں ہر شوہر بیوی کو باندی اور خود کو شہنشاہ پوز کرتا ہے۔ دوسری طرف سہیلیوں کی انجمن میں بیوی اپنے آپ کو پاشا اور شوہر کو شاگرد پیشہ سے متعلق گردانتی ہے۔ دونوں باتوں میں ایک ہی بات پچ سکتی ہے اور سارے ووٹ بیوی کے حق میں جاتے ہیں۔ بیوی اپنے شوہر کا نصف بہتر کہلاتی ہے اور بچا ہوا نصف بدتر شوہر رہ جاتا ہے۔
عورتیں فطرتاً باتونی ہوتی ہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ دنیا کا سب سے تعجب خیز واقعہ وہ ہو گا جب کچھ عورتیں کہیں مل بیٹھی ہوں اور وہاں مکمل خاموشی چھائی رہے کسی شخص نے اپنے ساتھی سے سوال کیا کہ عورت زیادہ بول سکتی ہے یا گیدڑ؟ تو اس جہاں دیدہ کا جواب تھا۔ عورت اگر موضوع بولنے کا مقابلہ ہو!
شادی سے پہلے اگر کسی لڑکی کی کم سخنی کے چرچے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ وہ یہ کسر کسی نہ کسی کی بیوی ہونے کے بعد نکال لے گی۔ مسلسل بولنے والی بیوی کی ایسی ہی فطرت سے عاجز آئے ایک شوہر کو ڈاکٹر نے خبردار کیا اگر آپ نے شراب نوشی جاری رکھی تو آپ بالکل بہرے ہو سکتے ہیں۔ شوہر نے جواب دیا۔ دیکھیے ڈاکٹر! جو کچھ میں پیتا ہوں وہ اس سے یقیناً بہتر ہے جو میں سنتا ہوں۔
بیوی کو رام کرنے کا آسان طریقہ اس کی کوئی فرمائش پوری کر دینا یا پوری کر دینے کا محض وعدہ کر لینا ہے۔ نئی ساڑیاں اور زیورات بیوی کی کمزوری ہیں۔ اپنی آرائشی چیزوں کے سامنے اُسے کسی بات کی فکر نہیں ہوتی ہے حتیٰ کہ اپنے شوہر کی بھی نہیں۔ ایک عورت سے گھبرائی ہوئی ملازمہ نے بتلایا۔ صاحب دروازے کے پاس بے ہوش پڑے ہیں۔ اُن کے نزدیک ایک بڑا سا پیکیٹ بھی پڑا ہے۔ عورت چہک کر بولی خوب! میری نئی ساڑیاں آ گئی ہیں۔ ایک دوسری عورت نے قیمتی جَڑاؤ ہار خریدتے وقت جوہری سے کہا اگر خدا نہ خواستہ یہ ہار میرے شوہر کو پسند نہ آیا تو وعدہ کیجیے آپ اسے واپس لینے سے انکار کر دیں گے۔
دوسری طرف وہ اپنے شوہر کے لیے بے حد کنجوس ہو جاتی ہے پوری تنخواہ ہاتھ لیتی ہے اور پائی پائی کا حساب لے کر غریب شوہر کو پسینہ پسینہ کر دیتی ہے۔ ایک عورت روزانہ اپنے شوہر کو بس کی ٹکٹ کے لیے ایک روپیہ دیتی تھی۔ ایک دن دفتر سے واپسی پر شوہر خوشی سے پاگل بنا گھر میں داخل ہوا اور بیوی کو پکار کے کہنے لگا۔ بیگم سنو تو سہی بہت بڑی خوشخبری ہے، میں نے لاٹری میں ایک لاکھ کا انعام حاصل کیا ہے۔ بیوی نے سرد لہجے میں دریافت کیا، ’ پہلے یہ بتاؤ لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے لیے تمھارے پاس روپے آئے کہاں سے؟‘
بیوی انسان کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے۔ لیکن بیویوں کی ایسی مردم آزاریاں دیکھ کر آج کل بیوی بیزاری کی لہر زوروں پر ہے۔ ایک شخص نے بات چیت کے دوران اپنے دوست سے کہا یار سگریٹ کی عادت تو چھوٹ گئی لیکن شراب نہیں چھوٹ پا رہی ہے۔ دوست نے پوچھا۔ ایسی کون سی بات ہے؟ جواب ملا۔ سگریٹ کے لیے تو بیوی نے بچّے کی قسم دی تھی لیکن شراب کے لیے اپنی۔ ایک اور بیوی بیزار شوہر سے ڈاکٹر نے کہا آپ کی بیوی کی حالت بہت نازک ہے۔ بمشکل وہ دس پندرہ دن ہی جی پائیں گی۔ شوہر نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کوئی بات نہیں جہاں پچیس سال کاٹ لیے وہاں دس پندرہ دن اور سہی۔ لیکن کہیں کہیں شوہر بڑے خطر ناک قدم اُٹھا لیتے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی بیوی کی سال گرہ پر اُسے دفتر سے چپراسی کے ہاتھوں ایک تحفہ بھجوایا خوش قسمتی سے بیوی اس وقت گھر میں موجود نہ تھی جب پیکٹ دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑا۔
بہت ساری بیویاں ایسی ہوتی ہے جن سے شیطان نما شوہر بھی پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔ خدا اس کام کا جی بیوی سے بچائے جو سوئے ہوئے شوہر کو نیند کی گولی کھلانے کے لیے گہری نیند سے جگاتی ہے اور اُس جاہل بیوی سے ہر خاص و عام محفوظ رہے جس نے اپنے لیڈر شوہر کی زبانی جب کسی بھاشن میں سن لیا تھا کہ ہمیں امیر اور غریب بیچ کی کھائی کو بھرنا ہے تو وہ میکہ نواز بضد ہو گئی کہ کھائی بھرنے کا ٹھیکہ اس کے بھائی کو ہی ملنا چاہیے۔
بیوی اور پڑوسن کا رشتہ (ساس بہو کے رشتہ کے بعد)بڑا خطر ناک ہوتا ہے اگر خدا کا کرنا دونوں دوست بن جائیں تو ہر گھڑی آؤ پڑوسن باتیں کرتیں بیٹھنے سے بیگار بھلی والا کلائمیکس اسکرین پر لہراتا رہتا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ دونوں دشمن بن جائیں تو پھر آؤ پڑوسن جھگڑا کریں، بیٹھنے سے بیکار بھلی والی سچویشن بنی رہتی ہے اور دونوں ہی حالتوں میں غریب شوہر کا دم ناک میں آتا جاتا رہتا ہے۔
پرانے وقتوں میں بیوی پیر کی جوتی اور خاوند خداوند ہوتا تھا لیکن آج کل خاوند کی قیمت دو کوڑی کی رہ گئی ہے اور بیوی کے نزدیک گھر کی مرغی دال برابر ہو گئی ہے۔ مرد بے چارہ بیوی کے حسن جہاں سوز کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔ چہرے کو چاند، زلفوں کو گھٹا اور جسم کو تاج محل تک کہہ اٹھتا ہے لیکن بیوی چلو ہٹو جھوٹے کہیں کے کہہ کر تمام کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے ایک شوہر نا مراد نئی نویلی بیوی کی زلفوں کی تعریف کرتے کرتے کہہ اُٹھے: ’’تم نے مجھے اپنی زلفوں میں گرفتار کر لیا ہے۔‘‘ یہ سن کر بیوی نے جھٹ اپنی وگ اتار کر یہ کہتے ہوئے شوہر کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ’’جاؤ تمھیں آزاد کیا۔‘‘
زمانے کے ساتھ ساتھ بیوی کے رہنے، پہننے، اوڑھنے حتیٰ کہ سوچنے سمجھنے کے انداز میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے پچھلے دنوں اگر شوہر پر دیس گیا ہوتا تو بے چاری بیوی ہر نئے دن رین برہ کی آگ میں جلتی رہتی تھی لیکن آج کی بیوی ایسی کچھ نہیں ہے۔ شوہر دورے پر گئے ہیں۔ بیوی سوچتی ہیں ادھر بنارسی ساڑیاں سستی اور اچھی ملتی ہیں دیکھیں انھیں لانا یاد بھی ہے یا نہیں۔ یا پھر پہلی تاریخ ہے تنخواہ کا دن بیوی راہ میں آنکھیں بچھائے راہ نہارتے نہارتے گھبرا اٹھتی ہے، ہائے اللہ شام ہو گئی نہ جانے کب آئیں گے۔ کب بازار جائیں گے اور کب سودا سلف آئے گا کہیں پیسہ ادھر اُدھر نہ کر دیں۔ مہینہ بھر تنگی رہے گی۔
موجودہ دور ملاوٹ کا دور ہے۔ بیوی بھی خالص نہیں ملتی۔ اب نہ شیام کی جو گنیں ہیں، نہ پر دیس کی برہنیں۔ نہ ہجر کا لطف ہے نہ وصل کی لذتیں۔ زمانے کی الٹ پھیر نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ (چشم دید ۱۹۹۰)