غلام صوفی حیدری
غلام صوفی حیدری ۱۹۱۴ میں بالا پور میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا بڑا حصہ ملازمت کے سلسلے میں ممبئی میں گز را تھا۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’بکواس‘‘ ۱۹۸۳ میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ ان کی ظریفانہ تحریروں میں زبان کا چٹخارہ اور روزمرہ زندگی کے واقعات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مضامین کی زبان اور طرزِ تحریر کو کتاب میں شامل پیش لفظ میں مشہور ادیبہ عصمت چغتائی نے سراہا ہے۔ ۱۹۹۳ میں ممبئی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
کلام برائے کلام
غلام صوفی حیدری
ہمارا خاندانی شجرہ ساتویں پشت میں میر تقی میر سے ملتا ہے اور مزید یہ کہ ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔ اس لیے ہمیں اہلِ زبان ہونے کا آبائی اعزاز حاصل ہے اور مدنی شرف بھی۔ اسی اعزاز اور شرف کی بنیاد پر اگر ہم زبان کی غلطیوں کے مرتکب بھی ہوں تب بھی ہمارے اہلِ زبان ہونے کے جملہ حقوق محفوظ ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ خاندانی آبرو پر حرف آ سکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو شاعر بھی ہیں۔ خیر شاعر ہونا اتنی خاص بات نہیں، ہم بھی شاعر ہیں۔ ہمارے والد بزرگوار بھی شاعر تھے ہمارے صاحبزادے بلند اقبال بھی شاعر ہیں۔ ہمارے برادر بزرگ بھی شاعر ہیں۔ سچ پوچھئے تو ملک کی جملہ آبادی کا ہر دوسرا آدمی شاعر ہے۔ اگر مردم شماری کے وقت شاعر شماری کی گئی تو یقین مانئے شعراء کی ٹوٹل آبادی ملک کی بادی کے گرانڈ ٹوٹل کے تقریباً نصف سے کچھ ہی کم ہو گی۔ پتہ نہیں سیاست والوں کو شعراء کرام سے بیر ہے یا ان کی ذہانت سے خوف، کہ شعراء کی اتنی کثیر تعداد کے باوجود بھی نہ تو انھیں اسمبلی میں نمائندگی دی جاتی ہے نہ پارلیمنٹ میں۔ جبکہ شعراء کی تعداد گریجویٹس کی تعداد سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
معاف کیجئے! مسجد کا تذکرہ کرتے کرتے بات میکدہ تک پہنچ گئی، اور ہم شترِ بے مہار اور اشہب بے لگام کی طرح ایک ہی جست میں کوئے یار سے کوئے رقیب میں منتقل ہو گئے۔ آمدم بر سر مطلب، ہمارا ایک جگری دوست شاعر ہے وہ نہ صرف جگر مراد آبادی پر واری واری جاتا ہے بلکہ ایک زمانے سے شعر و شاعری کا اتنا دیوانہ ہے کہ صاحبِ دیوان ہو گیا ہے۔ لیکن اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ میرؔ کے اُجڑے دیار (دلّی) کا باشندہ نہیں بلکہ عروس البلاد(بمبئی) کا باسی ہے۔ اس کی دوستی سر آنکھوں پر، لیکن ہم نے ایک نہیں دس مرتبہ بہ یک جنبشِ کام و دہن غیر مبہم الفاظ میں اسے اہلِ زبان تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایک دو مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ اس نے اپنی پوری طاقت سے اپنا دہنِ مبارک وا کر کے ہمیں اپنی گز بھر کی زبان بھی بتائی۔ تب بھی ہم اسے اہلِ زبان خانے میں جگہ نہ دے سکے۔ دلّی کی بلّی بھی اہل زبان کہلائی جا سکتی ہے۔ لکھنؤ کی مرغی بھی اہلِ زبان تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن بمبئی کی بلبل کو بھی اس شرف سے مشرف نہیں کیا جا سکتا۔
تم کو مسجد ہے ہم کو بت خانہ
شیخ جی اپنی اپنی قسمت ہے
اور بھئی اللہ واسطے کی بات تو یہ ہے کہ ’’کھائیلا ہے‘‘ ’’پئیلا ہے‘‘ اور ’’سوئیلا ہے‘‘ بولنے والوں کو اہل زبان کہنا نہ صرف منھ کا مزہ خراب کرنا ہے بلکہ ان افراد کی آبروریزی کرنا ہے جن کا پیشۂ آبا سو پشت سے سپہ گری اور جو شاعری ہی کو ذریعہ عزت نہیں سمجھتے بلکہ اپنے اہل زبان ہونے پر بھی ناز کرتے ہیں۔
مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے کہ زندگی میں ہمارا بمبئی کا یہ طواف پہلا تھا۔ ہم دل کی شہ پا کر نظاروں میں گم ہونے اور حسنِ سر رہگزر پر ششدر ہونے کے لیے تفریحاً نکلے تھے۔ راستے میں ہمیں ایک اجنبی ملا۔ پوچھنے لگا آپ کا ’’مولوک‘‘کون سا؟ ہم نے کہا ہمارا ملک بھارت ہے۔ پہلے ہم شرنارتھی ہیں، پھر بھارتی ہیں، پھر ودّیا بھارتی۔ کہنے لگا بھارتی تو ہم بھی ہیں۔ آپ کا ’’مولوک‘‘؟رہنے کامٹی؟ ہم نے کہا دلّی۔ مختصر یہ کہ اس ملاقات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے اس سے دادر کا پتہ پوچھا۔ کمبخت نے کہہ دیا ’’اگل جا‘‘ ہمارا رخ بوری بندر کی سمت تھا۔ ہم بجائے دادر کے بوری بندر کی سمت جانے لگے۔ اس نے اتنی بھی تکلیف گوارا نہ کی کہ کہہ دیتا آپ غلط سمت جا رہے ہیں۔ صرف بندر کی طرح ہماری طرف دیکھتا رہا۔
اخلاق کا جلتا ہوا گھر دیکھ رہا ہوں
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں (ماہر القادری)
ایسا لگتا ہے کہ بمبئی کے لوگ اینٹی خضر(Anti Khizar) ہیں اور تنوع پسند بھی۔ انھیں صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے میں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی۔ آپ کسی بھی بمبئی والے سے پتہ پوچھئے۔ خواہ آپ کا مقامِ مقصود شمال میں ہو اور آپ جنوب کی سمت جا رہے ہیں۔ ارشاد ہو گا ’’اگل جا‘‘(آگے تشریف لے جائیے) پھر اسے اس بات سے غرض نہیں کہ آپ جنّت میں جا رہے ہیں یا جہنّم میں۔
ہم پیسے کے بارے میں کنگال سہی لیکن عقل و شعور کے تعلق سے سرمایہ دار ہیں۔ عقل کا سر پلس اسٹاک بھی رکھتے ہیں۔ اچھا یاد ہے اپریل کی پہلی تاریخ تھی ہم پریل سے دھوبی تالاب جا رہے تھے۔ جیب کا وزن ذرا کم محسوس ہو رہا تھا اس لیے ہم اپنے قدوم میمنت لزوم ہی سے راستہ ناپ رہے تھے۔ اس میں ہمارا دوہرا فائدہ تھا۔ ایک تو یہ کہ راستے میں ہم در و بام کے جلوؤں سے بقدرِ تابِ نظر فیض یاب ہو سکتے تھے اور دوسرے کشمکشِ دست و جیب سے محفوظ۔
اگر آپ کا نوٹسنگ پاور بہتر ہے تو آپ اس بات سے متفق ہو سکتے ہیں کہ راہرو شوقِ منزل میں ہر چیز سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ ازمنۂ وسطی میں صحرا میں مسافر ستاروں سے سمت دریافت کرتے تھے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ آدمی میں کام پرُتی عقل(Work Ability)چاہیے۔
نگاہِ عقل میں ناچیز بھی ایک چیز ہوتا ہے
ہے خضر منزل مقصود گردِ کارواں میری (صوفیؔ)
حاصل مطلب یہ کہ اگر اللہ میاں نے آپ کو تھوڑی بہت عقل دی ہے تو آپ قافلے کی گرد سے قافلے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ ڈیڑھ اکل (عقل) کی ضرورت نہیں صرف ایک عقل سے ہی کام چلا سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دوکانوں کے نام کے تختوں (Name Boards)سے رہنمائی حاصل کرنی چاہی۔ ہر دوکان کے بورڈ کو آنکھیں بتائیں لیکن شدید جھنجھلاہٹ ہوئی کہ کسی دوکان پر دوکان کے نام کے ساتھ مقام یا محلہ کا(Locality) نام نہ تھا تاکہ آسانی سے پتہ چل سکے کہ مابدولت کس مقام پر قدم رنجہ فرما رہے ہیں اور کہاں سے گزر رہے ہیں۔
معاف کیجیے قطع تسلسل ہوتا ہے۔ ہمیں ایک فلم ایکٹریس سے اس کی زندگی ہی میں شرف ملاقات حاصل ہوا تھا۔ اتفاق سے چمبور کے گورِ رئیساں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ خواہش ہوئی کہ اس کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھ دیں چنانچہ کتبوں کی مدد سے ہم نے مینا کماری کی مزار کا پتہ لگا لیا۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ دوکانوں کے نیم بورڈ قبروں کے کتبوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ ان سے مقام کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ رہے کارپوریشن کے بورڈس اور مقامات کی تختیاں تو وہ ایسی احتیاط سے لگائی گئی ہیں کہ اجنبیوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں۔ بہرحال ہیئر کٹنگ سیلون کے مالکانِ ذی وقار سے لے کر ان تاجرانِ نامدار تک جو دوائے دل بیچتے تھے اور کفن فروشوں تک ہر تاجر سے بلا تفریق ملت دست بستہ بلکہ کمر بستہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے نیم بورڈس پر اپنے نام کے ساتھ مقام اور روڈ کا نام بھی شریک تحریر کریں تاکہ نوواردان بساط بمبئی کو آٹومیٹک(خودکار)رہنمائی حاصل ہو سکے۔
وہ دیا بہتر ہے ان جھاڑوں سے اور اس لیمپ سے
روشنی محلوں ہی کے اندر رہے جن کی سدا (اسمٰعیل میرٹھی)
آخرکار ہمیں احتیاط سے ’’اگل جا‘‘ والوں کی رہنمائی کی مدد لینی پڑی اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم چلتے چلتے، پھرتے پھرتے، گھومتے گھامتے، پوچھتے پاچھتے منزل پر پہنچ ہی گئے۔
ارادہ شرط ہے تقدیر پہنچا دے گی منزل پر
اور جب ہم نے دریافت کیا کہ کون سا مقام ہے تو ایک راہ رونے بتایا کہ یہ ’’دھوبی تلاؤ‘‘ ہے۔ اپنی وسیع جنرل معلومات کے بوتے پر ہم یہ تو جانتے تھے کے بعض کرم فرما تالاب کو تلاؤ یا تلیّا بھی کہتے ہیں اس لیے ہم سمجھ گئے کہ وہ دھوبی تالاب کہہ رہا ہے۔ لیکن ہماری جنرل نالج کا دوسرا پارٹ معیار پر پورا نہیں اتر رہا تھا۔ اس لیے کہ تالاب میں پانی تھا نہ وانی۔ دھو بی تھانہ دھوبی کا کتا۔ اور گھاٹ تھانہ پاٹھ۔ بلکہ خوبصورت فیشن ایبل دوکانوں کا سلسلہ اجنتا کی کیو (Cave)کی طرح دور تک چلا گیا تھا، اور دوکانوں کی سیلس گرلس(Sales Girls) اجنتا کی پتھر کی جاندار موتیوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ دھوبی تالاب میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے غرقابی کا خطرہ نہ تھا پھر بھی ایک خطرہ لاحق تھا۔ اور وہ تھا خوبصورت دوکانوں کی حسین سیلس گرلس کی آنکھوں میں پھسل کر ڈوب جانے کا خطرہ، اور ایسا لگتا تھا جیسے: -
’’اور پھسلا تو پھسلتا ہی چلا جاؤں گا‘‘
یکایک ہماری چھٹی حِس ورکنگ آرڈر(جاگ اٹھی) میں آ گئی اور....ہمیں خیال آیا کہ آج فرسٹ اپریل ہے اور کہیں یہ لوگ اس مقام کو دھوبی تالاب کہہ کر ہمیں ’’اپریل فول‘‘ تو نہیں بنا رہے ہیں؟ لیکن پولیس کانسٹیبل نے تصدیق کر دی کے ہم دھوبی تالاب پر ہیں ورنہ گھر کے رہتے نہ گھاٹ کے۔۔ ۔۔!
جیسا کہ ہم پہلے ہی یہ راز منکشف کر چکے ہیں کہ بمبئی کی مقدس و مونث سر زمین کی پابوسی کا ہمارا یہ پہلا ہی موقع تھا اور پھر ہم برائے تفریح نکلے تھے، ابھی سیر سے ہی طبیعت سیر ہوئی تھی نہ تفریح سے چھٹانک بھر فرحت ملی تھی، اس لیے ہم نے پھر چہل قدمی شروع کر دی۔ لیکن جب ہم بھینڈی بازار پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہم چہل قدمی کی بجائے اَلِف قدمی کر چکے ہیں۔ بھینڈی بازار میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا صرف بھینڈیوں کو چھوڑ کر۔ ہم اس بات کی تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ اس بازار کا نام بھینڈی بازار کیوں پڑا۔ تلاش بسیار کے بعد کسی دوکان پر بھینڈیاں نظر نہ آئیں لیکن کیلے کی بڑی بڑی دکانیں نظر آئیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ بھینڈی بازار کا نام کیلا بازار رکھتے تو اچھا تھا۔
گھومتے گھامتے جب ہم آگے بڑھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہم بہ نفس نفیس چور بازار میں ہیں۔ بازار کے نام پر ہم پر اتنا نفسیاتی اثر ہوا کہ فرسٹ ہینڈ تفتیش ہی میں بازار کا ٹوٹل اسٹاک سیکنڈ ہینڈ معلوم ہوا۔ خصوصاً دکانوں میں استعمال کئے ہوئے پرانے جوتے اور مستعمل شدہ پرانے کوٹوں اور پتلونوں کے انبار نے ہمیں یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگنے دی کہ جملہ مال چوری کا ہو سکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم سوچتے رہ گئے کہ یہ مال کیسے اور کہاں سے چرایا گیا ہو گا اور دن دہاڑے کیسے فروخت ہوتا ہے؟ ہمارے سوچنے کا اتنا ہی فلسفیانہ انداز تھا جتنا کہ اس فلسفی کا، جس نے ایک بلند دیوار پر بھینس کا گوبر چسپاں دیکھ کر اس بات کی پوچھ پاچھ شروع کر دی کہ بھینس اس دیوار پر کیسے اور کہاں سے چڑھی ہو گی؟ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ بازار تو ایک ہے لیکن اس کے اسمائے شریف ’’آنولے جاؤنلے‘‘ ہیں۔ ایک چور بازار دوسرا نل بازار۔
زندہ دلان بمبئی کو نہ جانے ایسے بے تکے نام کیوں پسند ہیں۔ ایسی طبیعت چاہتی ہے کہ محلوں کے سڑک چھاپ نام اور سڑکوں کے محلہ چھاپ نام تبدیل کرانے کی مہم چلائیں اور بمبئی میں ملازمت کی تلاش میں ’’مولوک‘‘ سے آئے ہوئے دو چار بے کار نوجوانوں کو بھینڈی بازار اور چور بازار کی گلیوں میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھمائیں اور راتوں رات(Over night) لیڈر بن جائیں۔
کون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
اوّل تو اس جد و جہد کے لیے ہمیں بمبئی میں کچھ ’’بھوک پیاس‘‘ کے دن گزارنا پڑیں گے اور اس سلسلے میں ہمیں کانگریس کی چڑوڑ کا تجربہ ہے نہ مسلم لیگ کی تحریک کا۔ ہم تو تیغوں کے سائے کی بجائے انگریزوں کے سایہ میں ہی پل کر جوان ہوئے ہیں۔ ہمیں جی حضوری کر کے پیٹ پالنا تو آتا ہے لیکن بھوکا رہنا ہمارے بس کی چیز نہیں۔
پھر یہ بھی خیال آیا کہ بمبئی میں آئے دن جو راستوں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں اس سے بجائے راستہ پانے کے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم جیسے ’’نوواردانِ بساط بمبئی‘‘ کو اس بات کا شدید احساس ہے اور تلخ تجربہ بھی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ اپنے منے کا نام پانچ سال کی عمر تک قاسم رہنے دیں۔ پانچ سال کے بعد کاظم کر دیں۔ پھر دس سال بعد ہاشم۔ مزید پانچ سال کے بعد صاحب زادہ بلند اقبال کا اسم گرامی ناظم کر دیں۔ شاید ایسے موقع کے لیے ہی غالبؔ نے کہا ہے: -
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اور کیا صاحب زادہ موصوف کی مضحکہ خیز پوزیشن نہیں ہو جائے گی جب ہر نام ٹمپریری (عارضی) ٹھہرا۔ وہ خود کو قاسم سمجھے کہ کاظم۔ ہاشم سمجھے کہ ناظم۔۔ ۔۔!
بے تکے ناموں کے سلسلے میں ہم صرف بمبئی والوں کی پگڑی نہیں اچھال سکتے جب پورا ملک اس میں ملوث ہے۔ مثال کے طور پر ضلع بلڈانہ(ودربھ) کے دیہاتوں کے نام لیجئے۔ چانگے پھل، مانگے پھل، جانے پھل ہم نے اپنی عمرِ عزیز کا حصۂ ثلاثہ اسی بات کی تحقیق میں صرف کر دیا کہ یہ فروٹ اب نہیں تو پراچین کال میں ضرور ہوں گے، اور شاید سیتا پھل، رام پھل، کاشی پھل کی نسل سے ہوں گے لیکن ہماری تحقیق پھل آور نہ ہو سکی۔ خان بھائیوں کا دیس خاندیش بھی اس سلسلہ میں ودربھ سے پیچھے نہیں۔ ملاحظہ کیجئے بھساول، بیاول، چناول وغیرہ وغیرہ۔ ہر شہر اپنی جگہ ول ول کرتا معلوم ہوتا ہے۔ خاندیش میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے کہ گاؤں ہے ایک اور نام ہے چالیس گاؤں!
خوب انصاف تری انجمن ناز میں ہے
بھساول کے بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ علی بابا نے بھساول میں چالیس چوروں کے ٹھہرنے کے لیے چالیس دن میں ’’فورٹی بلاکس‘‘ تعمیر کیے تھے یہ فورٹی بلاکس آج بھی موجود ہیں اور ریلوے کے ملازم ان میں رہتے ہیں۔ واضح ہو کہ بھساول ملک کا ایک بہت بڑا ریلوے جنکشن ہے اور آج بھی اس کی لوکلیٹی(Locality)فورٹی بلاکس کے نام ہی سے پکارا جاتا ہے۔ اس سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ علی بابا کے زمانے میں انگریزی ثانوی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ خیر چھوڑیئے اس بحث کو۔ بھساول کے عمر رسیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں آج کل کی طرح جھونپڑپٹی نہیں تھی پھر بھی ان فورٹی بلاکس میں چالیس چوروں کو رہائش توہین آمیز معلوم ہوئی تو علی بابا نے بھساول سے بہت دور مغرب میں چالیس چوروں کے لیے ایک دوسرے سے متصل چالیس گاؤں بسا دیئے۔ اور ان سب کو ملا کر ایک نام چالیس گاؤں رکھا اور خود نے کوکن جا کر علی پور بسا لیا۔ چنانچہ علی پور آج بھی کوکن میں آباد ہے۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ علی بابا چالیس چور اور چندر گپت کا ایک زمانہ تھا۔ یہ بات آج کل کے چوروں کو بھی معلوم ہے کہ چندر گپت کے زمانے میں چوری نہیں ہوتی تھی۔ لوگ گھروں کو قفل نہیں لگاتے تھے۔ بعض چوروں کو تو ہم نے اپنے کانوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ اے کاش وہ چندر گپت کے زمانے میں پیدا ہوتے تو بغیر کسی تکلیف کے چوری کر سکتے۔ آج کل کی طرح نہیں کہ علی گڑھ اور گودریج کے قفل توڑنے کی سر توڑ کوشش کرنی پڑتی ہے اور پسینہ پھوڑ محنت۔۔!
تعجب ہوتا ہے کہ ایسے زمانے میں بھی علی بابا نے چالیس چور کہاں سے ریکروٹ کیے ہوں گے۔ لیکن بھائی صاحب ہر زمانے میں اچھے برے لوگوں نے اس دھرتی پر طبع آزمائی فرمائی ہے۔
ہم بمبئی کی باتیں کرتے کرتے خوامخواہ تحقیق و تبصرہ پر اتر آئے لیکن سچ پوچھئے تو تحقیق اتنا دلچسپ مشغلہ ہے کہ جس ایم۔ اے کو دیکھئے پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے لیے اتاؤلا ہو رہا ہے۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ صرف ایم۔ اے کے بعد ہی پی۔ ایچ۔ ڈی کر سکتے ہیں ورنہ ہم جیسے ترقی پسند مصنف میٹرک کے بعد ہی پی۔ ایچ۔ ڈی کر لیتے اور جس طرح آج بھی خاندیش میں میٹرک کے بعد ایل۔ ایل۔ بی کئے ہوئے وکیل اپنے گھر کے سامنے نام کی تختی پر صرف ایل۔ ایل۔ بی لکھتے ہیں اس طرح ہم بھی اپنے نام کی تختی پر صرف پی۔ ایچ۔ ڈی لکھتے۔
ہم جان توڑ کر اور سر جوڑ کر یہ بات اس لیے کر رہے ہیں کہ راقم الحروف نے بھی تاج محل پر تھیسس لکھی ہے۔ اس میں ہم نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ تاج محل کسی زمانے میں قطب مینار تھا۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قطب الدین ایبک نے دو قطب مینار بنوائے تھے۔ ایک دلّی میں دوسرا آگرہ میں۔ قطب الدین بادشاہ کے برسوں بعد جب شہنشاہ شاہجہاں آگرے میں مقیم تھا اس وقت اس نے آگرہ کے قطب مینار میں مزید تین مینار ایڈ کر کے اور درمیان میں گنبد اٹھا کر اس کو تاج محل کی موجودہ شکل دے دی تھی۔ ممتاز محل کی غیر متوقع موت کی وجہ سے شاہ جہاں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ کوئی بلڈنگ تعمیر کروا سکتا۔
تاریخی تحقیق کی طرح ادبی تحقیق بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہندوستان کے ایک مشہور شاعر نے اس سلسلے میں بہت دور کی کوڑی لائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شاہجہاں نے اپنی بے انتہا دولت کا سہارا لے کر ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں سسی پنوں وغیرہ کا بڑی بے ہودگی سے مذاق اڑایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
فکر ہر کس بقدر ہمت او ست