انصاری اصغر جمیل
انصاری اصغر جمیل ودربھ میں ابھرنے والے ان مزاح نگاروں میں اس لحاظ سے الگ ہیں کہ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے آبائی کاروبار کتابوں کی تجارت کو اپنایا یعنی بک ڈپو کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنے اطراف موجود کاغذات کے انبار سے وہ قلم تک آئے۔ انھوں نے ناگپور سے ایک مزاحیہ رسالہ ’’مزاح نامہ‘‘ بھی جاری کیا تھا، اس کے بعد وہ ایک مدت تک ماہنامہ ’’اردو میلہ‘‘ شائع کرتے رہے۔ ان کی کتاب لگی ۱۹۹۴ میں شائع ہوئی جس میں مزاحیہ مضامین اور ناگپور کی معروف شخصیات کے خاکے ہیں۔ ’’ہوم منسٹر، ہم خادمِ قوم، ٹی وی سسرال کا‘‘، وغیرہ میں ان کے طنز کا ہدف ان کی نصف بہتر ہیں۔
انصاری اصغر جمیل کو مزاح نگاری کا شوق ان کے چچا مشہور مزاحیہ شاعر ناظم انصاری سے وراثت میں ملا ہے، ناظم انصاری کی تحریروں میں بقول ڈاکٹر مدحت الاختر غصے اور جھنجھلاہٹ کی فراوانی ہے۔ ان کے مشاہدے نے انھیں آج کے سماج کی ترجمانی پر مجبور کر دیا ہے جو مختلف خرابیوں کا گہوارا ہے۔
میں کہاں کہاں نہ بھٹکا
انصاری اصغر جمیل
خدا کو کسی کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے تو وہ اسے مکان کی تلاش میں الجھا دیتا ہے۔ فی زمانہ وفا شعار بیوی تلاش کر لینا آسان ہے مگر کشادہ اور سستا مکان تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ حال ہی میں ہمیں اس کا تجربہ ہوا۔ ہم اپنے والدین سے دور شہر میں مقامی کالج میں زیر تعلیم ہیں اور ایک دوست کے ساتھ مشترک کمرے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ والد صاحب کا حکم نازل ہوا کہ ہمارے گھر کے لوگ گاؤں کی زندگی سے اکتا کر شہر آنا چاہتے ہیں۔ اس لیے فوراً ایک عدد مکان تلاش کیا جائے۔ ہمیں والد صاحب سے اس حکم کی قطعی امید نہ تھی۔ کیونکہ ہماری عمر خوبصورت لڑکی تلاش کرنے کی ہے مکان تلاش کرنے کی نہیں۔ انھیں یہ حکم دینا چاہئے تھا کہ، بیٹا! تم اپنے لیے شہر میں ایک عدد شریک حیات تلاش کر لو، باقی کام ہم سنبھال لیں گے۔ لیکن جو کام ہمیں انجام دینا تھا وہ انھوں نے سنبھال لیا اور اپنا کام ہمیں سونپ دیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے مکان ڈھونڈنا کون سی بڑی بات ہے؟ اخباروں میں ’’ضرورت ہے‘‘ کا اشتہار دے دیجئے مکان خود بخود آپ کے قدموں میں آ جائے گا۔ اس قسم کے اشتہاروں سے شادی کے لیے مناسب جوڑے تو مل سکتے ہیں مگر ایسا مکان نہیں مل سکتا جو شہر کے قلب میں واقع ہو، آس پاس کا ماحول شریفانہ ہو اور ہر ضرورت کی چیز بھی قریب ہو۔ ہم نے طے کر لیا کہ اب روزانہ کالج سے لوٹنے کے بعد مکان کی تلاش میں خاک چھانتے پھریں گے۔ اٹھتے بیٹھتے ہر کسی سے اس کا تذکرہ کریں گے۔
مکان کا پتہ بتانے میں ہماری چند منہ بولی بہنوں نے کافی تعاون دیا جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ہم روزانہ اپنی تفریحات کو تلاشِ مکان کی بھینٹ چڑھا کر گلی گلی مارے مارے پھر نے لگے۔ ہماری نظریں ہر مکان پر ’’مکان بیچنا ہے‘‘ کی تختیاں تلاش کرتیں۔ ہم ہر عمارت کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے۔ بعض جگہ ان کی بالکونیوں پر موجود حسیناؤں سے نظریں ملتیں جو ہمیں دیکھتے ہی نفرت سے منہ پھیر لیتیں۔ کوئی ہمیں دیکھتا تو چور اچکا یا در یتیم سمجھتا۔ الجھے ہوئے بال، بڑھا ہوا شیو، کپڑے دھول میں اٹے ہوئے۔ یعنی ہماری حالت ایک نا مراد عاشق سے زیادہ خستہ ہو چکی تھی۔ اس دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ چند آپ کو بھی گوش گزار کروا دیں تاکہ اگر آپ نے مکان خرید نے یا کرائے پر لینے کا قصد کیا ہو تو فوراً ترک کر دیں۔
ایک رات ڈیڑھ بجے جب ہم خوابِ خر گوش کے مزے لوٹ رہے تھے اچانک ہمارے کمرے پر دھاوا بول دیا گیا۔ ہمارے دوست کرائے کے مکان کا پتہ لائے تھے۔ علیٰ الصبح ان کے ہمراہ ہم مکان دیکھنے گئے جو ایک گنجان آبادی میں تھا۔ مکان دو مختصر کمروں، ایک دیوان خانہ اور چھوٹے سے دالان پر مشتمل تھا۔ مکان کے باب الداخلے کا چوکھٹا نہایت چھوٹا تھا۔ وہ اس لئے تاکہ کوئی بھی کرایہ دار مالکِ مکان کے سامنے سر اٹھا کر نہ چلے۔ کمروں کی چھتیں انگریزی حرف ’’وی‘‘ کی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ دونوں کمرے اس قدر مختصر کہ ان میں سجدۂ شکر بہ مشکل بجا لایا جس سکتا تھا اور نہ کرایہ دار پیر پسار کر غفلت کی نیند سو سکتا تھا۔ ہاں بارش کے موسم میں ضرور کسی پیڑ کے نیچے کھڑے ہونے کا مزا لیا جا سکتا تھا۔ سوچا اسی کو کرائے سے لے لیں، کرایہ دریافت کیا تو جواب ملا ’’تین سو روپئے‘‘ حالانکہ مکان کے لحاظ سے زیادہ تھا پھر بھی ہم راضی ہو گئے لیکن جب مالکِ مکان نے پچیس ہزار روپئے پگڑی مانگی تو ہم نے گھر لوٹنے ہی میں عافیت سمجھی۔
ہماری ایک ہم جماعت نے خبر دی کہ اس کی سہیلی جس عمارت میں رہتی ہے اس میں اوپر کی منزل کرائے کے لیے خالی ہے۔ ہماری ہم جماعت کی وہ سہیلی اس قدر نک چڑھی ہے کہ ہم اس سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے مگر ضرورت کیا نہیں کرواتی۔ ہم نے مکان دیکھنے کے لیے حامی بھر لی۔ وہاں پہنچے، گھنٹی بجائی۔ ایک محترمہ نے دروازہ کھولا۔ ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ ہم اس حسین ڈرائینگ روم کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے بلی چوہے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب دروازے سے نمودار ہوئے جو صورت سے پیشہ ور غنڈے نظر آرہے تھے۔ انھیں دیکھتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ انھوں نے ہمیں اشارے سے اوپر کی منزل کے معائنے کا حکم دیا۔ اوپر کی منزل پوری طرح خالی تھی۔ مکان ہمیں پسند ہی نہیں، بے حد پسند آیا۔ نیچے اتر نے کے بعد جب ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا جنہیں ہم پیشہ ور غنڈہ سمجھ رہے تھے وہ اسی نک چڑھی کے والدِ ماجد تھے۔ چند لمحوں تک وہ ہمیں تنقیدی نظروں سے دیکھتے رہے پھر کڑک دار آواز میں مخاطب ہوئے۔ ’’میری بیٹی سے تمہارا کیا تعلق ہے؟‘‘
ہم نے جواب دیا، ’’کچھ بھی نہیں، ہم ایک ہی کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔‘‘
’’کیا تم دونوں ایک ہی جماعت میں ہو؟‘‘
ہم نے بڑے ادب سے کہا ’’جی نہیں، آپ کی بیٹی ہم سے ایک سال جونیئر ہے۔‘‘
’’تم سے جونیئر ہے تو تم دونوں کی ملاقات کیونکر ہوتی ہے؟ کالج میں اور بھی تو لڑکیاں ہیں، تم اس سے ہی کیوں ملے؟‘‘
ہم خاموش رہے۔ (اب انھیں کون سمجھاتا کہ ہمیں لڑکی کی نہیں مکان کی ضرورت ہے) ہماری خاموشی سے انھیں اور شہ ملی۔ ہمیں حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا، ’’مجھے تو تمہاری نیت پر شک ہے، صورت سے بھی تم فراڈ لگتے ہو، اس لیے میں مکان نہیں دے سکتا۔ آئندہ میری بیٹی کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو خبر دار!‘‘
ہم نے لاکھ صفائی پیش کی مگر انھوں نے ایک نہ سنی، رہی سہی عزت بھی گئی۔
چند دنوں بعد خبر ملی کہ شہر کے کنارے ایک مکان کرائے کے لیے خالی ہے اور ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ مالک مکان صورت سے شریف انسان نظر آرہے تھے۔ ان کے با رعب چہرے پر تقریباً دو فٹ لمبی گھنی ڈاڑھی ان کی شخصیت کو پر کشش بنا رہی تھی۔ انھوں نے ہمارے چہرے کا بغور معائنہ فرمایا، ہم نے جھٹ سے سلام ٹھونک دیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انھوں نے گھوم پھر کر ہمیں دیکھا، کسی قصاب کی طرح ٹٹولا پھر نحیف آواز میں دریافت کیا۔ ’’کیا آپ گوشت کھاتے ہیں؟‘‘
ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا اور گوشت کے فوائد پر اچھا خاصا لکچر دے ڈالا کہ شاید ہمارے خیالات سے متاثر ہو کر وہ مکان کی کنجی ہمارے حوالے کر دیں مگر انھوں نے دوسرا سوال داغ دیا۔ ’’کیا آپ روزانہ اشنان کرتے ہیں؟‘‘
ہم نے سوچا شاید پانی کی قلت کی وجہ سے یہ سوال کیا گیا ہے۔ نہایت احترام سے جواب دیا۔ ’’حضرت! مسلمانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ہفتہ میں ایک بار جمعہ ہی کو نہاتے ہیں۔ اگر آپ کو اس پر اعتراض ہو تو ہم رمضان اور بقر عید پر ہی اکتفا کریں گے۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ موصوف میں نہ جانے کہاں سے توانائی آ گئی۔ ان کی نحیف آواز گرجدار ہو گئی اور ہمارے خاندان کو بہترین گالیوں سے نوازنے لگے۔ پتہ چلا کہ جنھیں ہم مسلمان سمجھ رہے تھے وہ خالص برہمن تھے۔ ہم وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگے۔
اس سلسلے میں ہم تقریباً مایوس ہو چکے تھے کہ ایک دن خبر ملی ایک تین کمروں والا مکان خالی ہے۔ غسل کئے بغیر ہی ہم نے علی الصبح ہی ان کے دولت کدے پر حاضری دے دی۔ تھوڑی دیر بعد مالکِ مکان تشریف لائے۔ یقین جانئے اس وقت اِس فقیر کی حالت واقعی کسی فقیر سے کم نہ تھی۔ انھوں نے ہماری طرف اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور اپنے خادم کے ذریعے شام میں آنے کا حکم دیا۔ ہم شام کو پھر وہاں پہنچ گئے۔ ان کے خادم نے ہماری آمد کی اطلاع دی۔ ہم دروازے پر کھڑے ہی تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے اس کے ذریعے پانچ روپئے یہ کہہ کر بھجوا دئے کہ ابھی اتنے میں ہی کام چلا لیں آئندہ اضافہ کر دیں گے۔ ہم کبھی اس خادم کی صورت دیکھتے اور کبھی پانچ روپئے کا کرارا نوٹ۔ ہماری آنکھوں سے آنسو رواں دیکھ کر وہ غریب بھی ہمارے غم میں برابر کا شریک ہو گیا اور مشورہ دینے لگا۔ ’’جوان ہو، ہٹے کٹے ہو، کہیں کوئی نوکری کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ ہم کسی نا مراد عاشق کی طرح وہاں سے لوٹ آئے۔
گزشتہ ہفتے ایک مکان کے سلسلے میں ایک ویران محلے میں پہنچے صاحبِ خانہ کے ماتھے پر کالا نشان اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ موصوف صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں ہم نے ان کے روبرو اپنا مدعا بیان کیا۔ حضرت نے ہماری بیگم کے متعلق دریافت کیا، ہم نے حیرت سے کہا، حضرت ابھی تو ہمارے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے، شادی کہاں سے ہو گی۔ حضرت یکلخت بھڑک اٹھے اور کہنے لگے۔ ’’پھر تو آپ کو مکان نہیں مل سکتا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ٹھیک ورنہ۔۔ ۔‘‘
ہم نے جواب دیا۔ ’’یہ مکان ہمارے والدین کو چاہئے وہ خیر سے شادی شدہ ہیں۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’والدین کے ساتھ آپ بھی رہیں گے۔ آپ کنوارے ہیں۔ اس مکان میں میری اہلیہ کے علاوہ میری جوان بیٹی بھی رہتی ہے۔ خدانخواستہ۔۔ ۔۔ ۔، اس لئے معاف کرنا میں مکان آپ کو نہیں دے سکتا۔‘‘
ایک محترمہ نے ہمیں مکان دینے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ ہم ایک ایسے کالج میں زیرِ تعلیم ہیں جس میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ بقول ان کے ’’ہم میں شرم و حیا باقی نہیں رہی۔‘‘
اس تلاش مکان نے ہمیں اس قدر اذیتیں دی ہیں، اتنی بے عزتی کی ہے کہ جی چاہتا ہے زندگی سے فرار حاصل کر لیں۔ پھر سوچتے ہیں ہم نہ رہے تو اس ملک کا کیا بنے گا۔ ہمیں اس وقت تک زندہ رہنا چاہئے جب تک مکان دستیاب نہیں ہو جاتا۔ ہم نے والد صاحب کو لکھ بھیجا کہ ہم اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکے یعنی مکان تلاش نہیں کر سکے۔ ہما ری اس نالائقی کی وجہ سے وہ ہم سے سخت ناراض ہیں۔ بقول ان کے ہم ایک عدد مکان تلاش نہیں کر سکے تو بڑھاپے میں ان کی خدمت کیا کریں گے۔
(لگی۔ ۱۹۹۴)