بابو آر کے
بابو رحمت اللہ خاں، اردو ادب میں بابو آر کے کے نام سے مشہور ہیں، ان کے مزاحیہ مضامین اور بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیاں کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ’’خطا معاف‘‘ اور ’’ہو بہو‘‘ ان کے مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ تدریسی پیشے سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود اردو زبان و ادب کا ذوق اور تخلیقی شوق قابلِ داد ہے۔
بابو آر کے کی تحریریں مزاح کی فراوانی اور علاقائی زبان کے پر لطف استعمال کے لیے مشہور ہیں۔ یکم جولائی ۱۹۴۸ کو اچلپور میں پیدا ہوئے۔ ایک عارضی ملازمت کے بعد تجارت کو اپنا لیا تھا۔ ان کی تحریریں ماہنامہ شگوفہ اور بچوں کے رسائل میں شائع ہوتی ہیں۔
شکنتلا
بابو آر کے
آئیے، ہم آپ کو اپنی شکنتلا کے چہرے بشرے اور حلیے سراپے کا کچا چٹّھا بتا دیں۔ دبلی پتلی، نازک نازک چھوئی موئی سی بوٹا قد، چال خراماں، اٹھلاتی بل کھاتی، بے وقت آتی، بے وقت جاتی..... اس لیے اگر ہم یہ کہیں کہ اردو شعراء کے روایتی محبوب کے تمام ناز و انداز ہماری شکنتلا میں پائے جاتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ تو آئیے اس راز سے پردہ ہٹاتے ہیں آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر یہ شکنتلا ہے کون؟ تو عزیزانِ جانِ من.....شکنتلا..... یہ کوئی نازنین ہے نہ مہ جبین..... اور نہ ہی یہ کالیداس کی شکنتلا ہے یہ تو ہمارے تاریخی شہر اچل پور کی تاریخی ٹرین کا نام ہے۔ لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہمارے علاقے میں کالیداس کی شکنتلا نے کم اور اس شکنتلا نے زیادہ شہرت پائی ہے۔ سینہ بہ سینہ چلی آ رہی روایتوں اور حکایتوں کے مطابق یہ خبر ہم تک پہنچی ہے کہ اس کی پیدائش انیسویں صدی کی آخری ساعتوں میں ہوئی تھی۔ یہ واقعہ ہے کہ اس دن سے آج تک قسم لے لو...... جو اس کا کوئی پرزہ یا ایک آدھ اسکرو بھی بدلا گیا ہو۔ مرگی کے مریض کی طرح بے سدھ پڑی ننھی منی پٹریوں پر سن رسیدہ بزرگ کی طرح تھکا تھکا سا انجن.....جب.....عرق النساء کے مریض کی طرح درد سے کراہتے ہوئے ڈبوں کو لے کر نکلتا ہے ..... تو ریلوے اسٹیشن پہ ہر طرف سے خدا حافظ، الامان الحفیظ کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ شکنتلا..... جب اپنے اسٹیشن سے ڈگ ڈگ کرتی نکلتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹی بی کا کوئی مریض ایک طویل علاج معالجہ کے بعد اسپتال سے ڈسچارج لے کر نکلا ہو اور قدم جما جما کر چلنے کی کوشش کر رہا ہو۔ انجن کی چھک چھک پٹریوں کی کھٹ پٹ اور ڈبوں سے نکلتی چرچوں کی آوازوں کے بیچ...... انجن کی سیٹی کو الگ کرنا، مسافروں کی سماعت کے لیے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ ہماری شکنتلا کا مائیکہ اچل پور اور سسرال مرتضیٰ پور ہے اسے میکے سے سسرال اور سسرال سے میکے کے دن بھر میں دو چکر لگانے ہوتے ہیں۔ شکنتلا کے معدے کو الیکٹرک اور ڈیزل کی بجائے کوئلہ مرغوب ہے۔ برسات کے دنوں میں جب کوئلہ بھیگ جاتا ہے تب شکنتلا بھیگی بلی بن کر ٹانگیں پسارے دو چار دن اسٹیشن پر اَن فٹ(Unfit) پڑی رہتی ہے اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو شعراء ادباء کی طرح اس کا مزاج بھی بلغمی واقع ہوا ہے۔ چونکہ یہ خود کوئلہ خور ہے اس لیے یہ اپنے مسافروں کو بھی کوئلہ کھلاتی ہے۔ اپنے مسافروں کے ساتھ اس کا برتاؤ یکساں رہتا ہے۔ سب کو ایک ہی رنگ میں رنگتی ہے۔ خود بھی دھوئیں سے سانولی سلونی رہتی ہے اپنے مسافروں کو بھی کاجل بناتی ہے۔ اسی لیے شکنتلا کے مسافروں کے سفر کا اندازہ بجائے ٹکٹ کے مسافروں کے جسم اور کپڑوں پہ پتی کا لک سے با آسانی لگا لیا جاتا ہے۔
مسافر کا حلیہ دیکھ کر ہی ٹکٹ چیکر صاحب تاڑ لیتے ہے کہ کس نے کتنا سفر کیا ہے؟ جس طرح شکنتلا کو تیز رفتاری سے چڑ ہے اسی طرح اس کے مسافروں کو ٹکٹ نہ لینے کی ضد ہے۔ ملک کی دیگر ریلوں میں بلا ٹکٹ مسافر، ٹکٹ چیکر صاحب سے بھلے ہی چھپتے پھر یں لیکن یہ واقعہ ہے کہ ہماری شکنتلا کے چیکر صاحب، بلا ٹکٹ مسافروں سے بذات خود نظریں چراتے ہیں۔ ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ شکنتلا میں عرس اور میلے اور شادی بیاہ کے بھیڑ بھرے دنوں میں ٹکٹوں کی جگہ چھٹیاں بھی چلنے لگتی ہیں اور کبھی کبھی تو سر گنتی بھی رواج پاتی ہے۔ بھیڑ بھاڑ والے دنوں میں جب اس کی چھت بالکونی بن جایا کرتی ہے تو اس کی کھڑکیوں کو دروازے اور دروازوں کو جھولوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کبھی کبھی تو شکنتلا کے مسافر انجن کیبن میں گھس کر فائر مین کو Assist کرتے ہیں اور کچھ تو ڈرائیونگ میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ شکنتلا کا سارا عملہ اپنی سروس اس انداز میں کرتا ہے گویا بیمار کی تیمار داری کی جا رہی ہو۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر شکنتلا کے ڈرائیور اور ٹکٹ چیکر صاحب کو بڑے روٹ کی ٹرین میں با عزت مسافر کے طور پر سوار کرا دیا جائے تو یہ بات ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں حضرات بالترتیب کوئلہ چرانے اور بلا ٹکٹ سفر کرنے کے جرم میں دھر لیے جائیں۔
ایک مرتبہ ہماری شامت آئی جو......حیدرؔ بیابانی اور ہم اچل پور سے مرتضیٰ پور تک شکنتلا سے سفر کرنے کا ارادہ کر بیٹھے۔ ہم لوگ ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ اسٹیشن پر محترمہ شکنتلا بیگم محوِ استراحت تھیں۔ ڈرائیور میکنک، فائر مین، سگنل مین..... سب کے سب اس کی نوک پلک درست کرنے میں دیوانہ وار جٹے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اس کے اندر باہر دائیں بائیں اوپر نیچے اوزار ہتھوڑے ہاتھ میں لیے گھوم رہا تھا۔ ہم شکنتلا کی روانگی کے متعلق جاننے کے لیے اسٹیشن ماسٹر کے پاس گئے وہ ٹیبل پر بکھری ریز گاری گننے میں مصروف تھے ہمیں دیکھ کر وہ کچھ بڑبڑائے کہ... کہاں ہم شکنتلا کے تعلق سے انکوائری کرتے ہیں؟ وہ ہمیں نظر انداز کر کے چلائے ....ارے او لچھو کے بچے یونہی بیٹھے بیٹھے بیڑیاں پھونکتا رہے گا یا ڈیوٹی بھی کرے گا؟ شام ہونے کو آئی جا مٹی کا تیل لا۔ قندیلوں کے گلاس صاف کر۔ ان میں تیل بھر....... کیا آج بھی اندھیرے میں مسافروں کو ٹھوکریں اور مجھے گالیاں کھلوائے گا۔ پھر تھوڑی دیر بعد لچھو مٹی کے تیل کا ڈبہ ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا۔ لچھو کو چلر پیسے دیتے ہوئے اسٹیشن ماسٹر بولے ......جا جلدی اور اندھیرا ہونے سے پہلے لوٹ آ۔ کل بھی اندھیرے میں کیا کیا نہیں ہوا؟ اندھیرے میں آفس سمجھ کر میں شوچالیہ چلا گیا اور وہ اپنا ٹیبل ٹٹولتا رہا ادھر مسافر شوچالیہ سمجھ کر میری آفس میں گھس آئے اور فراغت بھی پائے۔ اندھیرے میں بیچارے مسافروں کی جیبیں بھی کٹیں کتنا دھول دھپہ ہوا چیکر صاحب کی دھلائی ہوئی بیچارے نے لاکھ قسمیں کھائیں تب کہیں جا کر مسافروں نے چھوڑا۔ آج اندھیرے میں کیا میری بوٹیاں نچوائے گا؟ لچھو بیڑی کا دم مار کر بولا.......جاؤ استاد جاؤ کسی اور کو بنانا......لچھو کو سب پتہ ہے قندیلیں کون بجھاتا ہے۔ جیبیں کون کاٹتا ہے دھلائی کس کی ہوتی ہے اور اکاؤنٹ کس کا بڑھتا ہے؟ اسٹیشن ماسٹر اپنا اکاؤنٹ سمیٹ کر دیدے نکالتے ہوئے دوڑے ہی تھے کہ بیچارہ لچھو وہاں سے نکل بھاگا۔ اگر آپ اسٹیشن ماسٹر سے دریافت کریں کہ شکنتلا، مرتضیٰ پور میں بمبئی جانے والی ہاوڑا، گیتانجلی یا سپر ایکسپریس کو Connect کرے گی........ تو وہ بیچارے بغلیں جھانکنے لگیں گے اور مسافر کی حالت پر رحم کھا کر خاموش رہیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شکنتلا اپنے مسافروں کو بڑی ٹرین سے Connect کرنے کی بجائے Disconnect کرتی ہے اور سب سے اہم بات تو یہ کہ شکنتلا، مرتضیٰ پور پہنچنے کی پابندی بھی نہیں ہے۔ وہ تو کبھی بھی اور کہیں بھی طبیعت خراب کر کے Sick میں جا سکتی ہے۔ اسی لیے شکنتلا کے مسافر......چلنے کی تمنا تھی پہنچنے کی نہیں تھی..... اس مصرعہ کو ذہن میں رکھ کر سفر کرتے ہیں اس کی رفتار میں غضب کا رکھ رکھاؤ بلکہ ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ اسی لیے کبھی کبھی اچل پور سے مرتضیٰ پور گھنٹوں کا سفر دنوں میں بدل جاتا ہے۔ دوسرے مقام پر اس کے ذریعے بھیجے گئے انگور، کشمش میں اور آم کی کیری، امچور میں بدل جاتی ہے۔ منگنی میں جانے والے مسافر کو شادی ہاتھ لگتی ہے اور سیریس مریض کو دیکھنے جائیں تو میت ٹھکانے لگا کر لوگ گھر لوٹتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ اپنی دھیمی رفتار سے مسافروں کو فائدے اور ریلوے لائن کے بسنے والوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چلتی ہوئی شکنتلا سے اتر کر فصل بھی کاٹی جا سکتی ہے اور گوالے کی بھینس کا دودھ نکال کر آسانی سے شکنتلا میں سوار بھی ہوا جا سکتا ہے شکنتلا کے روڈ کراسنگ(Road Crossing) پر آہنی پھاٹک لگے ہوئے ہیں۔ تو وہ سڑک پر چلنے والے راہ گیروں کو اس سے بچانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ راہ گیروں کے شر سے شکنتلا کو بچانے کے لیے ہیں۔ کیونکہ شکنتلا کے دھان پان سے وجود کو معمولی ٹھیس بھی کئی دنوں تک بستر علالت پر ڈال سکتی ہے۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں سگنل کا اہم رول رہتا ہے۔ لیکن ہماری شکنتلا کے سگنل کا رویہ عجیب ہی نوعیت کا ہے اسے اٹھائیں تو گرتا ہے اور گرائیں تو اٹھتا ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ اسے گرانے کے لیے سگنل مین کو سگنل پول پر چڑھنا ہوتا ہے جس سے سگنل کم اور سگنل مین زیادہ گرتا ہے۔ اسی لیے شکنتلا کا شاطر ڈرائیور سگنل کی بجائے سگنل مین کو دیکھتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دوسری تمام ٹرینوں میں سگنل مین بھلے ہی سگنل کا استعمال کرتا ہو لیکن ہماری شکنتلا دنیا کی وہ واحد ٹرین ہے جس کا سگنل خود اپنے سگنل مین کا استعمال کرتا ہے۔ اور ٹرینوں کی طرح زنجیر (Chain)کی لگام تو اس کے منہ میں بھی ہے لیکن جس ٹرین کو چلانے کے لیے منتیں مرادیں مانگی جائے تو پھر اس ٹرین کو زنجیر کھینچ کر روکنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ ریلوں کی تاریخ میں شاید شکنتلا ہی وہ واحد ریل ہو گی جس میں شاید ہی کبھی زنجیر کا استعمال ہوا ہو۔ اسی خوبی کے باعث بک آف ورلڈ ریکارڈس میں شکنتلا کا نام شامل کیا جا سکتا ہے۔
(ہو بہو۔ ۱۹۹۲)