اِے بے خودی اِے شوق یہ کیا ہو گیا ہوں میں پایا اُسے تو خود سے جُدا ہو گیا ہوں میں
جاتا ہوں پُر اُمید پلٹتا ہوں نامراد مجبور آدمی کی دُعا ہو گیا ہوں میں
لٹکا ہوا ہوں اَپنے بدن کی صلیب پر عیسیٰ تیرے جنوں کی سزا ہو گیا ہوں میں
جو تجھ کو دیکھتے تھے مجھے دیکھنے لگے بس اِتنی بات ہے کہ تیرا ہو گیا ہوں میں
کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے
ہم تو دِیوانے ہی تھے لیکن تم ناحق بدنام ہوئے
میری خاک سے گھر چمکایا میرے لہو سے مانگ بھری عشق میں میری جان گئی پر آپ کے کتنے کام ہوئے
کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے ہم تو دِیوانے ہی تھے لیکن تم ناحق بدنام ہوئے
سر نہ کہیں جُھک جائے تمھارا اِس دُنیا کی نگری میں جان کے ہم نے بازی ہاری دَانستہ ناکام ہوئے
کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے ہم تو دِیوانے ہی تھے لیکن تم ناحق بدنام ہوئے
تیرے خالی آنچل کو ہیروں کی ضرورت تھی ورنہ کس کو تمنا تھی بکنے کی تیرے لیے نیلام ہوئے
کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے ہم تو دِیوانے ہی تھے لیکن تم ناحق بدنام ہوئے
ہم تو ظفرؔ بدبخت تھے لیکن قبر کی قسمت اچھی تھی لوگ بھی آئے پھول بھی برسے میلے صبح و شام
کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے ہم تو دِیوانے ہی تھے لیکن تم ناحق بدنام ہوئے