دیگر اصناف کی طرح افسانے کا بھی ایک فنی ڈھانچہ متعین ہے جس پر تمام ناقدین کا اتفاق ہے۔ افسانہ ایک مختصر کہانی ہے اس لیے اس کے فنی اصول بھی اس کے اختصار کو مدِ نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ سب سے پہلے افسانے میں وحدتِ تأثر کا ہونا لازمی ہے کہ ایک افسانہ پڑھتے وقت زمانہ کا علم ہو کہ یہ کس معاشرے اور کس دور کی عکاسی کرتا ہے اس طرح اس میں جگہ کا تعین ہو جائے کہ یہ کس ملک ، کس صوبے یا کس علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کہانی ہے۔ اس کے علاوہ وحدتِ تأثر میں جو تیسرا جز ہے وہ وحدتِ عمل کا ہے کہ کہانی میں کونسے اعمال اُجاگر کیے گئے ہیں۔ وحدتِ تأثر پر بات کرتے ہوئے رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
‘‘فنی لحاظ سے ایک افسانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ وحدتِ تأثر کا حامل ہو۔ وحدتِ تأثر پیدا کرنے کے لیے ایک معیاری افسانے میں صرف ایک مقصد پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر مقاصد ایک سے زیادہ ہوں تو افسانے میں بہت سی فنی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، افسانے میں تأثر کی وحدت اور اتحاد قائم رہے تو اس کی طوالت بھی گراں نہیں گزرتی ورنہ قاری افسانے میں دلچسپی محسوس نہیں کرتا۔’’ (۱)
افسانے کے لیے دلچسپ ہونا ضروری ہے کہ اس کے واقعات اور کردار ایسے انداز سے پیش کیے جائیں جس میں پڑھنے والا دلچسپی لے۔ افسانہ اگر فنی لحاظ سے کمزور ہو تو اس میں دلچسپی باقی نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ ہر ادیب اپنا فن پارہ تخلیق کرتے وقت اس کا معیار متعین کرنا قاری پر چھوڑ دیتا ہے ۔قاری کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ افسانے کے فنی مدارج سے خوب واقف ہو اگر ایسا نہ ہو تو وہ کسی بھی افسانے کو اعلیٰ افسانہ قرار دے سکتا ہے اور ایک اعلیٰ افسانے کو (جو اس کی نظر سے نہیں گزرا یا اعلیٰ افسانے کو نہیں سمجھ سکا) کمتر قرار دے سکتا ہے۔ اس لیے تخلیق کار اور ادب کے طالب علم دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ افسانے کے فن سے آگاہی رکھتے ہوں اس حوالے سے پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں:
‘‘جو شخص افسانے کے فنی مدارج کا پوری طرح تصور نہیں رکھتا جو شخص افسانے میں ان خصوصیات کو اور ان معیاروں کو پیش نظر نہیں رکھتا جو عالمی ادب پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے ایک افسانے اور دوسرے افسانے میں جو چیز مابہ الامتیاز ہو گی، جو چیز فرق پیدا کرنے والی ہوگی وہ صرف اس لمحے کی لذت ہوگی جس لمحے میں پڑھنے والے نے وہ افسانہ پڑھا ہے، اس کے پڑھنے سے اس کے جسم میں جو جھرجھری پیدا ہوئی، جو لطف پیدا ہوا، جو تفریح کا عنصر حاصل ہوا اور تھوڑی دیر کے لیے اس نے اس میں وہ خوبیاں محسوس کیں جو ایک اچھے افسانے میں ہونی چاہیے ۔ ان کی بناء پر اس کا جو میلان ادھر ہوگا یا اس کی ہم یا آپ یا کوئی نقاد بحث کرکے یہ نتیجہ نکالے گا کہ یہ اس کے پسندیدہ افسانے سے بہتر افسانے ہیں۔’’ (۲)
مندرجہ بالا اقتباس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افسانے کے معیار کو متعین کرنے کے لیے اس کے فن کو جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے ایک معیاری افسانہ فنی لحاظ سے ہر طرح کی غلطیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اگر اس کے فنی لوازمات پوری مہارت سے ادا کیے گئے ہوں تب ہی یہ افسانہ اعلیٰ پائے کا افسانہ کہلائے گا۔ افسانہ زندگی کے ایک جز کی کہانی ہوتی ہے جس میں ایک خاص واقعے یا کسی خاص کردار کے ارتقائی مدارج کو پیش کیا جاتا ہے اس کے لیے اس کی ساخت اور فنی اصولوں کو مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ افسانے کے فنی لوازمات میں پلاٹ، کردار نگاری، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، تجسس و جستجو اور اسلوب شامل ہیں۔
پلاٹ میں افسانے کے واقعات کے ربط کو دیکھا جاتا ہے کہ آیا کہانی میں پیش کیے جانے والے واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یا نہیں ان واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس افسانے کا پلاٹ ہر طرح سے مربوط اور سلجھا ہوا ہے اور اگر واقعات آپس میں مربوط نہیں ہیں تو پلاٹ کو ڈھیلا ڈھالا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ افسانے میں کردار کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی بھی واقعہ کسی کردار کے بغیر رونما نہیں ہو سکتا۔ کردار کی دو قسمیں ہیں ایک مرکزی کردار اور دوسرا ضمنی کردار۔ افسانے کی کہانی زیادہ تر مرکزی کردار کے گردگھومتی ہے اس میں ضمنی کرداروں کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ضمنی کردار کہانی کو آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں لیکن افسانہ نگار زیادہ تر مرکزی کردار پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
منظر نگاری بھی افسانے کی فنی خوبیوں میں سے ایک ہے ۔افسانہ نگار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ منظر نگاری سے افسانے کو ایک سکرین پر پیش کی جانے والی فلم کی طرح پیش کریں۔ اس لیے وہ قدرتی مناظر اور مذکورہ ماحول کا منظر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس سے پڑھنے والا اس ماحول سے پوری طرح آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ منظر نگاری کے ساتھ ساتھ تجسس و جستجو افسانے کے فنی محاسن میں سے ایک ہے ۔ افسانے کے لیے تجسس بہت اہم ہے جس کی وجہ سے افسانہ نگار پڑھنے والے کو اپنا ہم خیال بناتا ہے اور وہ شروع سے لے کر آخر تک افسانے سے پوری طرح لطف اندوز ہو کر افسانے میں خود کو شامل پاتا ہے۔
ان تمام فنی محاسن کے علاوہ جو سب سے اہم ہے وہ افسانے کا اسلوب ہے۔ افسانے کا ایک خاص اسلوب پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تشبیہات و استعارات، محاورے، رمز و ایما ، مبالغہ آرائی اور سادہ لفظوں یا لفظوں کی رنگا رنگی میں بات کرنا اسلوب کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ افسانہ نگار کو ان تمام لوازمات کا علم ہو اور ان سے بخوبی واقف ہو۔
اردو افسانہ نگاری میں جہاں بے شمار لوگوں نے طبع آزمائی کی اور اس صنف کو بامِ عروج پر پہنچایا اور مختلف تحریکوں کے جنم لینے سے اس میں مختلف قسم کی موضوعاتی اور فنی تبدیلیاں کی گئیں اور جہاں ہر تخلیق کار نے اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کیں وہاں دورِ جدید کی خاتون افسانہ نگار زیب النسا ءزیبیؔ نے بھی فن افسانہ نگاری میں اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کو فن کی معراج تک پہنچانے کی اپنے طور پر سعی کرکے بے شمار افسانے تخلیق کیے ہیں ذیل میں ان کے افسانوں کے فنی محاسن کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
۱.۴ پلاٹ:
پلاٹ افسانے کا ڈھانچہ یا نقشہ ہوتا ہے جس پر کہانی تخلیق کی جاتی ہے۔ پلاٹ وہ ربط ہے جس کے تسلسل سے کہانی کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ اس ربط کا ہر حال میں برقرار رکھنا لازمی ہوتا ہے اور اگر کہیں پر بھی یہ ربط ٹوٹ جائے تو افسانے کا پلاٹ بے ربط ، ڈھیلا ڈھالا گردانا جاتا ہے۔ افسانے کی بہ نسبت ناول میں کئی پلاٹ ہوتے ہیں۔ کہانی کے اندر کہانی جنم لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن افسانہ جو کہ ایک مختصر صنف ہے اس لیے اس میں صرف ایک ہی پلاٹ ہوتا ہے اور اس میں صرف ایک مرکزی کردار یا کسی ایک واقعے کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ اس لیے افسانہ نگار کو پلاٹ کے حوالے سے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ بقول محمد افتخار شفیع:
‘‘افسانہ ایک مختصر صنف ہے ۔ اس لیے اس میں کیا لکھنا ہے سے زیادہ کیا نہیں لکھنا اہم ہے۔ افسانہ نگار ایک ناول نگار سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ اسے ایک ایک لفظ کو تراشنا پڑتا ہے۔ غیر ضروری تفصیل سے اجتناب کرنا افسانہ نگار کی بنیادی ضروری ہے۔ ’’ (۳)
افسانے میں پلاٹ ایک دائرہ کی صورت میں کام کرتا ہے جس کی حدود میں واقعات اور کردار کو پیش کیا جاتا ہے۔ افسانہ نگار کسی بھی حال میں ان حدود سے خود کو نہیں نکال سکتا۔ بعض افسانے ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی پلاٹ نہیں ہوتا اس قسم کے افسانے جدید ترین دور کے افسانوں میں شامل ہیں۔ لیکن اس کی تعداد نہایت کم ہے، بہر حال پلاٹ کہانی کی بنت اور کردار کے حدود کا نام ہے ۔اس حوالے سےڈاکٹر فردوس انور قاضی کا خیال ہے:
‘‘افسانے میں پلاٹ وہ بیرونی حدود ہیں جو مرکزی خیال کے گرد قائم کی جائیں۔ وہ حدود کسی چہرے، کسی جسم، کسی ذہن اور بعض اوقات مکمل انسان کی شبیہ اور کبھی کبھی نازک احساس کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ اس تصویر میں کردار، مکالمہ، مناظر و فضاء، کہانی تمام چیزیں مل کر ایسی رنگ آمیزی کرتی ہیں کہ تصویریں حقیقت بن کر متحرک دکھائی دینے لگتی ہیں گویا افسانے میں پوری زندگی خود حرکت کرتی نظر آتی ہے۔ ’’ (۴)
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پلاٹ ہی کی وجہ سے افسانے کے واقعات ، کردار ، فضا، مناظر اور مکالمے وجود میں آتے ہیں۔ افسانہ نگار افسانہ تخلیق کرتے وقت ذہن میں ایک نقشہ کھینچتا ہے کہ اس کہانی کے واقعات کس نوعیت کے ہوں گے، کردار کی ذہنی سطح اور معاشرے میں اس کا مقام اور مرتبہ کیا ہوگا،فضا کس طرح بنائی جائے گی اور مناظر پیش کرنے کا طریقہ کیا ہوگا۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہن میں کچھ نقشہ بنائے بغیر افسانہ نگار بیٹھ کر لکھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر افسانہ لکھنے کے بعد اس کی نوک پلک سنوارتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ محنت پلاٹ پر کی جاتی ہے کیونکہ پلاٹ ہی کی وجہ سے افسانے کا قاری ایک ہی تسلسل میں کہانی سے مستفید ہوتا ہے۔
زیب النساء زیبیؔ کے افسانے پڑھتے ہوئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ انہوں نے جس قسم کے واقعات پیش کیے ہیں، جس انداز سے کردار تراشے ہیں اور پھر کہانی اور کردار کے لیے جو فضا اور ماحول بنایا گیا ہے وہ ایک مربوط اور ایک ہی تسلسلی برقرار رکھ کر انجام دیا گیا ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ نہایت مربوط ہیں۔ کہانی کے واقعات ایک دوسرے سے ایسے جوڑے گئے ہیں کہ اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا اس حوالے سے ان کے افسانوں میں ‘‘ دنیا کے روپ نرالے، راز، افلاس کے سائے ، لاٹری، انقلاب، طلاق یافتہ فانر، ادھوری عورت، وہ پھول تھی یا بھول ، گرداب، پونم کی رات، دیر ہے اندھیر نہین، خواہش، فیصلہ، خوف، روگ، تپتا سایہ، سزا، خلش، مرد، گرل فرینڈ، اتوار کی ڈیوٹی، بھگوان، گالی، گھومنی، موت کا سفر، شہ رگ پہ خنجر اور تماشہ کے واقعات ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ پڑھنے والے کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ کہانی کے واقعات کیسے ایک دوسرے سے جدا ہو کر بھی مل رہے ہیں۔ ان افسانوں میں ہر واقعہ دوسرے واقعے سے لنک کرتا ہے۔ ان افسانوں میں پلاٹ کے حوالے سے بہت محنت کی گئی ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باقی افسانوں کے پلاٹ مربوط نہیں ہیں لیکن ان افسانوں میں زندگی سے ملحقہ کرداروں کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے اور ان کرداروں کی مناسبت سے جو واقعات رونما کیے گئے ہیں وہ انتہائی مناسب اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ‘‘دنیا کے روپ نرالے’’میں زرتاب کی مجبوری اور بے بسی دکھائی گئی ہے غربت اور افلاس میں پلی یہ لڑکی جب شادی کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور اس کی شادی کی تاریخ طے ہو جاتی ہے تو سسرال سے جہیز کے سامان کا ایک لمبا چوڑا لسٹ آجاتا ہے۔ اور پھر اس جہیز کے سامان کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی سہیلی غزالہ کے ساتھ مختلف لوگوں سے ملتی ہے اور ان سے مدد طلب کرتی ہے۔ یہاں پر اگر دیکھا جائے تو غربت میں پلی لڑکی کے مسائل کومختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے ۔ محبت کے دکھ، جہیز کی لعنت اور امیروں کی بے حسی کسی بھی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ اس طرح ان کا افسانہ ‘‘راز’’ بھی ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ندا کا کردار اور ان کے شوہر کا کردار جو ندا کو کنیزوں کی طرح حویلی میں رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ندا کا شوہر سائیں میر بخش کاشازیہ کے ساتھ پہلے محبت اور پھر جبری طور پر ناجائز تعلقات استوار کرنا اور پھر اسے بلیک میل کرنا جیسے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے میں جب شازیہ یہ واقعہ بیان کرتی ہیں تو بالکل ایسا نہیں لگتا کہ افسانے کی کہانی میں کوئی دوسری کہانی در آئی ہے بلکہ یہ واقعہ بھی کہانی کے ساتھ جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:
‘‘میں اس وقت غالباً سترہ برس کی ہوں گی جب مجھے ایک لڑکے سے عشق ہو گیا۔ ہمارے خاندان میں پردہ انتہائی سخت تھا۔ لیکن عشق کسی رکاوٹ کو نہیں دیکھتامیں کسی نہ کسی طرح اس سے مل لیتی تھی ابتداء میں تو یہ سلسلہ ہوٹلوں، پارکوں اور صرف بوسوں تک محدود رہا لیکن پھر اچانک ایک روز وہ مجھے اپنے دوست کے گھر لے گیا اپنی ماں اور بہن سے ملوانے لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے اسے لاکھ واسطے دئیے، پیر پڑی، خدا سے مدد مانگی مگر وہ تمام اخلاقی حدود پھلانگ گیا۔۔۔۔۔۔ پہلی مرتبہ مجھے اپنے جسم کے ٹکڑے کو خاموشی سے جدا کرنا پڑا اور یہ کام اس کے ایک دوست ڈاکٹر نے انجام دیا دوسری مرتبہ وہ گاؤں چلا گیا اور جب لوٹا تو میری شادی ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ شخص اب بھی میرے گھر آتا ہے اور میرے شوہر کا گہرا دوست ہے۔ اس بچی کے توسط سے وہ مجھے اب بلیک میل کرتا ہے۔’’ (۵)
اور اس طرح اس واقعے کے بعد ندا کے موت کی خبر آتی ہے لیکن اس انداز سے دوسرا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ربط برقرار رہتا ہے۔ افسانے کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سب سے ضروری بات اس کے لیے پلاٹ اس حوالے سے ہے کہ کوئی بھی کہانی ہو لیکن اگر اس کہانی میں ربط موجود نہ ہو اور اس کا وحدتِ تأثر قائم نہ ہو تو افسانے کا رنگ پیکا پڑ جاتا ہے اور پھر اس افسانے کو اعلیٰ ادب میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔زیب النسا ءزیبیؔ کے افسانے پنجاب کے معاشرے کے افسانے ہیں جس میں محبتوں کے بلند بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور فریب دے کر رفو چکر ہونے والے کردار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ افسانے پڑھتے وقت پورا معاشرہ سامنے آجاتا ہے۔
ان افسانوں میں معاشرے کے اُصول، رسوم و رواج اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ افسانہ نگار اپنے دور کی تمام تر برائیوں اور اچھائیوں کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس میں بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے ہر ایک افسانہ اپنے زمان و مکان کی حدود کو پھلانگنے کی کوشش نہیں کرتا اور اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی رویوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسے افسانے بھی ہیں جن میں خواہ مخوا بعض ایسے کرداروں کے صرف نام گنوائے گئے ہیں کہ جن کا افسانے کی کہانی سے کوئی سروکار نہیں ۔ یہ کردار اگر فنی لحاظ سے دیکھے جائیں تو افسانے کے پلاٹ پر بوجھ ہیں۔ نہ تو کہانی میں ان کا کوئی کردار ہے اور نہ کسی واقعے کی رونمائی کا سبب بنتے ہیں۔ افسانے جیسے مختصر صنف میں ہر لحاظ سے یہ کوشش کرنی پڑتی ہے کہ کوئی غیر ضروری واقعہ یا غیر ضروری کردار کے پیش کرنے سے اجتناب کیا جائے اب اگر کسی کردار کی کہانی میں ضرورت نہیں تو اسے کہانی میں زبردستی سے صرف نام گنوا کر ٹھونسنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ غلطی افسانہ نگار زیب النساء زیبیؔ سے اکثر جگہوں پر سر زد ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ‘‘ڈبل ہیروئین’’ میں لکھتی ہے:
‘‘اب زینب کی زندگی میں مردوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ جو اس کی ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار رہتے۔ سلیم، اسلم، اظہر، ہارون، احمد، واحد، ہر قدم پر اس بہتی گنگا سے ہر فرد نے فیض اُٹھایا ہے۔’’ (۶)
‘‘افلاس کے سائے’’سے مثال ملاحظہ ہو:
‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے دو بچے موت کے منہ میں چلے گئے بڑا بھائی اکبر جو جوانی کی حدود کو چھو رہا تھا اس مفلسی میں باپ کا بازو بن سکتا تھا۔ بس کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ اور پھر اس برس چھوٹا بیٹا ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہو کر ختم ہو گیا۔ باقی طاہرہ، رقیہ، زہرہ اور چھوٹا صفدر بچ رہا۔’’ (۷)
‘‘مرد بچہ’’ میں دیکھیے:
‘‘اور یہ بات درست بھی تھی شمع کی زندگی میں اسلم، حمید، جمیل، اکرم، وحید، برکت، عنایت، مختار، علیم، اکبر، احمد اللہ، سخاوت جیسے بے شمار مردوں کو متعارف کرانے والے یہ وزیر عباس ہی تھے۔’’ (۸)
یہ اور ان جیسی کئی دیگر مثالیں زیب النساء زیبیؔ کے اکثر افسانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ افسانے کے اختصار کی وجہ سے کسی ایک واقعے کو پیش کرنا ہوتا ہے یا کسی ایک کردار کے ارتقائی مدارج کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں پر افسانہ نگار نے کسی کردار کی شخصیت کو داغدار ثابت کرنے کے لیے ایسے فرضی ناموں کی لسٹ پیش کی ہے کہ جن کا نہ کہانی کے پہلے حصے میں کوئی کردار رہا ہے اور نہ اس کے بعد ۔ تو جس کردار کا افسانے کی کہانی سے کوئی سروکار نہیں انہیں ایسے ہی پلاٹ میں گھسیڑنا چہ معنی دارد؟۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر زیب النساء زیبیؔ نے افسانہ لکھتے لکھتے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نگار نے تھکاوٹ کی وجہ سے یا افسانے کو مختصر کرنے کی وجہ سے یک دم سے افسانے میں کسی کردار کے مسئلے کا حل پیش کیا ہے یا کسی واقعے کو اختتام تک پہنچا دیا ہے۔ افسانہ لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ صرف ایک واقعے کو اختتام تک پہنچانا ہے۔ بعض اوقات ابہام سے بھی کام لینا پڑتا ہےاور اگر زیب النساء زیبیؔ تھوڑا سا بھی فراخدلی سے کام لیتی تو ان کے یہ چند افسانے بہترین افسانوں میں شمار ہوتے۔
پلاٹ کے حوالے سے یہ چند غلطیاں افسانہ نگار کے چند ایک افسانوں میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ ان کے تقریباً تمام افسانے ایک مربوط پلاٹ میں لکھی گئی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی محنت شاقہ کی داد دینی پڑتی ہے۔ ان کے افسانوں میں واقعات کی بنت، کرداروں کے حرکات و سکنات، مناظر کی جھلکیاں اور کہانی کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے وہ ایک مربوط پلاٹ کے حدود میں رہ کر انجام دیا گیا ہے اور زیب النساء زیبی اس کوشش میں کامیاب نظر آتی ہیں۔
۲.۴ کردار نگاری:
جدید دور کے افسانہ نگاروں نے جہاں مختلف نئے اور انوکھے موضوعات تراشے وہاں معاشرے کے بدلتے ہوئے رویوں کے لیے نئے کردار بھی پیش کیے ہیں۔ کردار نگاری افسانے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ موضوع۔ کیونکہ کردار واقعات کے رونما ہونے کا سبب بنتے ہیں اور یہی واقعات ان کرداروں کی وجہ سے آگے بڑھتے ہیں۔ اور پھر یہیں کردار زندہ و جاوید ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کردار ہمارے حقیقی زندگی کے افراد ہوتے ہیں اور کسی بھی کہانی میں کردار جتنا حقیقی ہوگا اتنا ہی اس کا اثر دیر پا ہوگا۔ یہ کردار ہمارے معاشرے سے اخذ شدہ ہوتے ہیں جو کہانی کی صورت میں سماج کے مختلف مسائل کا شکار نظر آتے ہوئے ہمارے تخیلات کے در وا کرتے جاتے ہیں۔ ناول اور افسانہ کے کرداروں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ناول میں اکثر کرداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور ان کی پوری زندگی کو احاطہ میں لیا جاتا ہے جبکہ افسانہ ایک خاص کردار کو اپنی ارتقائی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس ضمن میں محمد افتخار شفیع لکھتے ہیں:
‘‘ناول کے بڑے کینوس کے برعکس افسانے میں کردار نگاری کی گنجائش بہت کم ہے۔ ایک کردار کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے افسانہ نگار بے مائیگی کا شکار رہتا ہے۔ اسے کردار کا تانا بانا بننے میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ ’’ (۹)
ایک افسانہ نگار کسی بھی کردار کو لے کر ان کے معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ ایک حقیقی کردار اس معاشرے ہی کا فرد ہوتا ہے۔ معاشرے کے رسوم و رواج کی پابندی کرنا ان پر لازم ہوتا ہے اور بعض کردار ان تمام رسوم و رواج سے بغاوت کا علم بلند کرکے اپنے لیے خود اپنا راستہ متتعین کر لیتے ہیں ۔ ایسے کردار ہمارے افسانے کی روایت میں جا بجا نظر آتے ہیں جو زندگی سے محبت کرتے ہوئے بھی اپنی ثقافت اور معاشرے کی روایات سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ انحراف یا تو بہ امرِ مجبوری کیا جاتا ہے یا ضد کی بنا پر کیونکہ اکثر اردو کے افسانہ نگار ایسے کردار سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں جو زندگی اور زندگی کے تمام اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کبھی خود سے اور کبھی معاشرے سے لڑ پڑتے ہیں۔ تہذیب کے تقدس کی پاسداری کرنے والے کردار بھی سامنے آتے ہیں اور تہذیبی اقدار کو پائمال کرنے والے کردار بھی۔ چونکہ ادب زندگی کی عکاسی کرتا ہے اس لیے زندگی میں کرداروں کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور یہیں کردار معاشرے کی تلخیوں پر نوحہ کناں اپنے اور اپنے پیاروں کے دکھ میں آنسو کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور کبھی خوشیوں سے بغلگیر ہوکر بھی اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ انسانی زندگی خواہشات سے بھری پڑی ہیں ان میں سے چند ایک اگر پوری ہو بھی جائیں تو بہت سارے ادھورے رہ جاتے ہیں لیکن خواہشات کی عدم تکمیل کی وجہ سے تہذیبی اقدار کو پائمال کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ادب ان تمام تہذیبی اقدار کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہماری اندرون میں ایسے کئی در وا کر دیتا ہے جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ بقولِ وقار عظیم:
‘‘ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم و ادب میں بھی پابندیٔ رسوم ہے اور ان رسوم کو نئے سانچوں میں ڈھالنے اور نئے پیمانوں سے ناپنے کی خواہش رسوم کا تقدس، ان کا احترام ، ان کی عظمت اور پھر اس تقدس، احترام اور عظمت کے احساس کے باوجود اسے زمانہ کی روش کے مطابق بنانے اور اسے زندگی کی بدلتی ہوئی رو کا ہم رکاب اور ہم سفر رکھنے کی زبردست خواہش انہیں دونوں چیزوں نے مل کر ہزاروں سال کے تہذیبی سرمایہ کا عطر ہم تک منتقل کیا ہے۔’’ (۱۰)
تہذیب کا دامن برصغیر کے باسیوں نے ہمیشہ سے پکڑ رکھا ہے اور یہی تہذیبی اقدار ہی ہیں جن سے معاشرے کا وجود قائم ہے ورنہ بگڑے ہوئے معاشرے کا وجود تو نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں تک افسانے میں تہذیبی رچاؤ کا تعلق ہے تو پریم چند سے لے کر منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، دیوندر ستیارتھی، احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد، انتظار حسین، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، ممتاز شیریں، بانو قدسیہ، سیدہ حنا، انور سجاد، محمد منشا یاد، زاہدہ حنا اور دیگر کئی افسانہ نگاروں نے تہذیبی اقدار کو سامنے رکھ کر کرداروں کو تراشا ہے اور پھر انہی کرداروں سے مختلف واقعات اور موضوعات کو جنم دینے کی کوشش کی ہے۔
جدید دور میں جہاں مشینوں نے انسان کے ذہنوں پر ڈیرے ڈال دئیے ہیں وہاں انسان تنہائی، محرومی اور احساسِ کمتری کا شکارہوتا جا رہا ہے۔ زیب النساء زیبی کے افسانوں میں ایسے کردار جا بجا نظر آتے ہیں جو بظاہر تو ہجوم میں رہتے ہیں مگر ایک نامعلوم سا خوف اور تنہائی نے اسے ذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں زیادہ تر کردار تنہائی اور بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ غربت کی چکی میں پسے ہوئے کردار اور ان کا خون چوسنے والے جاگیردارانہ نظام کے پروردہ، محبت میں ناکامی کی وجہ سے غلط راستوں پر چلنے والے کردار اور جہیز کے نام پر بے بس لڑکیوں کی غربت کا مذاق اُڑانے والے کردار، محبت کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والے اور جنسی طور پر بیمار ذہنیت رکھنے والے حتیٰ کہ ہر حوالے سے زیب النساء زیبی نے اپنے کرداروں کو معاشرے کی حقائق سمیت پیش کیا ہے۔
زیب النساء زیبی چونکہ خود ایک عورت ہیں اور عورت ہی عورت کے دکھ درد کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں اس لیے ان کے کرداروں میں نسوانیت خوب کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے افسانوں میں زیادہ تر کردار بھی خواتین ہی ہیں اور جو مسائل بیان کیے گئے ہیں وہ بھی عورتوں کے مسائل ہیں۔ ان کے افسانوں میں عورتوں کے تمام مسائل سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ سب سے پہلے جب پیدا ہوتی ہے تو ان کی پیدائش پر اتنی خوشی نہیں منائی جاتی جتنی کہ ایک مرد کے پیدا ہونے پر منائی جاتی ہے۔ عورت جسے ہر کوئی اپنے کندھوں کا بوجھ سمجھتا ہے جو پرائے گھر کی امانت ہوتی ہےاس لیے معاشرے میں انہیں وہ مقام نہیں ملتا۔ جب جوان ہو جائے تو ان کی شادی ان کے والدین کی مرضی سے کی جاتی ہے اور اس معاملے میں ان سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی کی زندگی میں کتنے نشیب و فراز آتے ہیں اور وہ بے بس لڑکیاں چپ چاپ یہ تمام اذیتیں برداشت کرکے ہمہ وقت اپنے باپ کی پگڑی کی حفاظت کرتی ہے، اپنے بھائیوں کی عزت کا پاس رکھتی ہے، اپنے ماں کی دامن کو طعنوں سے داغدار کرنے سے بچانے کی کوشش کرتی ہے ۔ زیبی کے کردار یہ مصیبتیں اس لیے اُٹھاتی ہے کہ وہ ایک عورت ہے اور عورت کو ہمیشہ ہی سے معاشرے میں کم درجہ دیا گیا ہے۔ غربت و افلاس کی وجہ سے انسان بے حس ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان تمام آدابِ زندگی بھول جاتا ہے جو انسان کو دوسرے مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانہ سچائی میں ‘‘پاگل عورت ’’، دنیا کے روپ نرالے میں ‘‘زرتاب’’، افلاس کے سائے میں ‘‘زہرہ’’، مخمل میں ٹاٹ کا پیوند میں ‘‘افشاں’’، لاٹری میں ‘‘صمد علی ’’، طلاق یافتہ فارنر میں ‘‘صبا’’، نو ویکسنی میں ‘‘ایکسپرٹ مین ‘‘سراج’’، انقلاب انقلاب میں ‘‘محمد فقیر شاہ’’ اور ‘‘سلمیٰ’’ فقیر شاہ کی بہن، خانہ بدوش میں ‘‘صنوبر’’، بیوٹی کوئین میں ‘‘نیناں’’، پونم کی رات میں ‘‘پونم اور پونم کی ماں’’ دیر ہے اندھیر نہیں میں ‘‘عمیر’’، ہماری بے زبانی دیکھتے جاؤ میں ‘‘راحیلہ’’، تپتا سایہ میں‘‘شمع’’، ضرورت میں ‘‘ندا’’، ضمیر کا مجرم میں ‘‘حامد’’، مزدور میں ‘‘فیضی اور ان کے والد’’ اور ان جیسے سینکڑوں کردارہمارے معاشرے کی نا انصافیوں کے سبب غربت کے اندھیرے کنوئیں میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔
پاگل عورت ایک ایسے کردار کی صورت میں پیش کی گئی ہے جو پہلے تو اپنے بیٹے کو ہر وقت اپنے سینے سے چمٹائے رکھتی ہے لیکن زخم ہونے کے بعد جب اسے بھوک لگتی ہے تو بے حسی کے عالم میں بچے کے ہاتھ سے سوکھی روٹی چھین کر اسے پرے کر دیتی ہے ۔ زیب النساء زیبی ؔ پاگل عورت کے خدوخال کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں:
‘‘گندمی رنگت جاذب نظر خدوخال و چہرے پر اداسی عمر تقریباً پینتیس سال کے لگ بھگ، چھیتڑوں میں لپٹا ہوا نیم برہنہ جسم جس سے تند و مند خوبصورت جسم جھلکتا نظر آتا تھا۔ چھاتی سے وہ ایک کالے بچے کو چمٹائے گھومتی پھرتی نظر آ رہی تھی۔’’ (۱۱)
یہ کردار ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار ہے جس کی جھلک ہمیں ہر دوسری تیسری گلی میں مل جاتی ہے۔ ایسے کردار اپنی زندگی سے بیزار غربت و افلاس کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتے ہیں جنہیں یہ تک پرواہ نہیں ہوتا کے اپنے جسم کو چھپائے لیکن اس کردار کے جسم کی یہ برہنگی ان ظالم سرمایہ داروں کی بے حسی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو غریب عوام کا خون چوس کر بڑے ٹھاٹ سے راج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کردار زیبی نے اپنے تمام تر خصوصیات کے ساتھ پیش کیا ہے جو ان کے فنی مہارت کا عین ثبوت ہے۔
افسانہ ‘‘دنیا کے روپ نرالے’’ میں ‘‘زرتاب’’ کے کردار کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں پر محبتوں سے زیادہ اپنے آپ کو اونچا دکھانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ زرتاب جو ہر وقت محبت کے گھن گاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ جن کی سانسیں محبت کے نام سے چلتی ہیں وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہو کر مایوسی کے ایک ایسے دلدل میں دھنس جاتی ہے جس سے ان کا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ صفدر جو ان کا منگیتر تھا اس کے گھر والوں نے جہیز کے لیے اسے ایک لمبی چوڑی لسٹ دے دی ۔ اب محبت کو پانے کے لیے جہیز کا سامان پورا کرنا زرتاب کی مجبوری بن چکی تھی۔ لہٰذا وہ اپنی سہیلی غزالہ کے توسط سے کبھی ہارون صاحب کے سامنے جھولی پھیلاتی ہیں تو کبھی نقوی صاحب سے مدد کی آس لے کر ان کے در پر دستک دیتی ہے، کبھی زبیر صاحب سے بھیک مانگتی ہے تو کبھی سوشل ورکرز سے منت سماجت کرتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ ہر طرح سے ان بڑے لوگوں سے نا امید ہو کر تھک جاتی ہے۔ امید اور نا امیدی کے درمیان اس تھوڑے سے وقفے میں زرتاب اپنے آپ کو اپنی ہی نظروں میں اتنا گرا دیتی ہے کہ معاشرے کے دستور پر انسانیت انگلیاں اُٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ زیبیؔ کے اس کردار نے ان کے پورے افسانے میں عورتوں کی مجبوری و بے بسی کی نشاندہی کی ہے۔ یہ کردار سماج کے ظالمانہ رویوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ایک ایسا کردار ہے جو اپنے دور کے رسوم و رواج کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک ادیب منیر جمال سے مدد لینے کے لیے جاتی ہے تو منیر جمال انہیں اپنی اوقات کچھ اس طرح یاد دلاتا ہے:
‘‘بی بی میں تو ادیب ہوں حساس دل بس لوگوں کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا۔ تو ان کی مدد کر دیتا ہوں کہیے آپ کی کیا مدد کرنی ہے اور کتنی؟ اب دیکھیں ایک شادی پانچ ہزار میں ہوتی ہے ایک پانچ لاکھ میں آپ کی کیا ضرورت ہے؟ میں پورے کا تتو انتظام نہیں کر سکتا ہاں پانچ سو والی شادی ہو تو میں سو پچاس کا بندوبست کر سکتا ہوں۔ ایسے آج کل میں پہلے ہی کئی لوگوں کو زکوٰۃ خیرات میں بہت کچھ دے چکا ہوں لیکن اب آپ آگئیں ہیں تو مجھے وقت دے میں اپنی بیوی سے مشورہ کرکے انہیں کچھ زکوٰۃ وغیرہ نکالنی ہوگی تو لے کر آپ کو دے دوں گا،آپ کل آکر معلوم کرلیں۔’’ (۱۲)
زرتاب اور زرتاب جیسی کئی لڑکیاں سماج کے انہی غلط رویوں کی بھینٹ چڑھ کر ماں باپ ہی کے گھر میں بوڑھی ہو جاتی ہیں اور اگر حالات سے سمجھوتہ کی طاقت نہ ہو تو غلط اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کی جوانی داغدار ہوتی ہے بلکہ اپنے پورے خاندان کی عزت کو بھی خاک میں ملا دیتی ہے اور پوری زندگی انہی غلط راستوں میں گزار کر اپنی زندگی کی تمام راستے اندھیروں کی نذر کر دیتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ‘‘افشاں’’ کا کردار بھی امیری اور غریبی کے نام نہاد طبقوں کی عکاسی کرتی ہے جو ایک امیر شخص سے شادی تو کر لیتی ہے لیکن ایک نوکرانی کی طرح وہاں زندگی گزارتی ہے اور سلمیٰ کا کردار بھی اس طرح کا ایک کردار ہے جو غریبی کی وجہ سے اپنے بھائی فقیر محمد شاہ کی جنسی حیوانیت کا شکار ہو کر خودکشی کر لیتی ہے۔ فقیر محمد شاہ جو اپنی نوکری بچانے کی وجہ سے یہ حرکت کر بیٹھتا ہے لیکن اسے قطعاً یہ معلوم ہی نہ تھا کہ وہ جن سے اپنی جنسی پیاس بجھا رہا ہے وہ کون ہے ؟ وہ تو اس کی اپنی سگی بہن ہے جس نے ان ہی کی ماں کی کھوک سے جنم لیا ہے ۔ زیب النساء زیبیؔ اپنے کرداروں کو اس انداز سے پیش کرتی ہے کہ قاری کو چونکا کر رکھ دیتی ہے۔ اور ان کے دل میں ایک ہلکا سا درد اُٹھنے لگتا ہے اور یہ درد سماج کے ان ظالمانہ رویوں کے خلاف نفرت اُبھارنے کا سبب بنتا ہے جو غریبوں سے روارکھے جاتے ہیں۔ اس طرح‘‘بیوٹی کوئین’’ افسانے کا کردار ‘‘نیناں’’ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار ہے جو اپنی ماں کے منگیتر سے باپ کی مرضی سے شادی کرتی ہے اور اپنی پوری جوانی بے بسی کے دلدل میں گزارنے پر مجبوری ہوتی ہے۔ اس کے شوہر کی بے غیرتی اور نیناں کی برداشت اس افسانے میں اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ ہر ماں باپ کو اپنی بیٹی کی شادی کے وقت سوچ لینا چاہیے کہ اس کی بیٹی کی بیاہ کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈے نہ کہ ان کی خوبصورت جوانی کو بھڑکتی ہوئی آگ میں دھکیل دے۔ بیٹیوں کی شادی کرتے وقت ان کی مرضی دریافت کرنا لڑکیوں کا شرعی و قانونی حق ہے جو نیناں کو نہیں ملا اور جب وہ کسسی کو اپنے دکھڑے سنانے کی کوشش کرتی ہے تو بجائے اس کے کہ کوئی اس کی مدد کریں ان کی نظریں نیناں کی جوانی پر جم جاتی ہیں حتیٰ کہ اس کا شوہر بھی اسے بد چلن اور بد کردار جیسے القابات سے نوازتا ہے۔ افسانے سے ایک مثال ملاحظہ ہو:
‘‘نیناں اپنی بے بسی کی داستان سب کو سناتی رہی لیکن سب کی نظریں اس کے حسن اور جوانی سے آگے نہ بڑھیں، کوئی اس کی مجبوری دیکھنے کو تیار نہ تھا سب اسے ہی موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔ عمران اسے مسلسل پورے خاندان کے سامنے آوارہ اور بد چلن کے خطابات سے نوازے جا رہا تھا۔ اکثر ہی خاندان کے لوگ جمع کیے جاتے اور نیناں کو اس طرح ذلیل کیا جاتا کہ نیناں بار ہاں سوچتی وہ اس شخص کو چھوڑ کر کہیں دفعاں ہو جائے لیکن کہاں؟ ہر طرف ایسے ہی انسان نما درندے اسے کھانے، نوچنے اور مفت کا مال سمجھ کر ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے تھے وہ جس سے بھی اپنی مجبوری کا ذکر کرتی وہ اسے فوراً پیسے دینے پر راضی ہو جاتا۔’’ (۱۳)
اس طرح کی اذیتیں صرف نیناں نے نہیں بلکہ زیبی کے ہر دوسرے تیسرے افسانے کے مجبور کرداروں نے برداشت کیں ہیں۔ اور اس طرح کے سینکڑوں کردار زیبی کے افسانوں میں موجود ہیں جو معاشرے کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھی کسمپرسی اور اذیت بھری زندگی سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔یہ کردار سماج کی تلخ حقیقتوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے زیبی کے افسانے کو چار چاند لگادیتے ہیں اور یہ انہی کا کمالِ فن ہے جنہوں غریب اور پسے ہوئے طبقے کی عکاسی کرکے اپنے دور کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
اس کے علاوہ زیبی کے افسانوں میں ایسے ہمدرد کردار بھی موجود ہیں جو معاشرے کی تمام برائیوں کو دیکھ کر یا تو علمِ بغاوت بلند کر دیتے ہیں یا اپنے ہی دل میں ہمدردی کا جذبہ لیے تن تنہا غریبوں اور بے کسوں کی مدد کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ ان کرداروں میں بھی عورتوں کی تعداد زیادہ ہیں۔ کیونکہ ایک عورت ہی عورت کی زندگی کو سمجھ سکتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ عورت کہلانے کی لائق نہیں۔ ان کرداروں میں اگر ایک طرف صائمہ، غزالہ، امجد علی، ڈاکٹر ارشد، شہلا اور صنوبر جیسے کردار ہیں جو دوسروں کے دکھوں میں شریک ہو کر ان کی داد رسی کرتے ہیں اور ان کے گھر میں خوشیوں کے لیے اپنا چین تک برباد کر دیتے ہیں تو دوسری طرف انسپکٹر شان ملک جیسے کردار بھی موجود ہیں جو ظالم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گھناونے چہروں سے نقاب ہٹانے اور انہیں دنیا کے سامنے لانے کی کوشش میں اپنی نوکری تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ کرپشن کے اس دور میں شان ملک جیسے کردار ان پسے ہوئے طبقے کی آنکھوں کا تارا ہوتے ہیں جو بھوک سے اپنے بچوں کو مرتے ہوئے تو دیکھ سکتے ہیں لیکن انہیں ایک نوالہ تک نہیں کھلا سکتے۔ لیکن اگر انسپکٹر شان ملک بغاوت پر اُتر بھی آئے تو کیا حاصل؟ ان کو نوکری سے نکلانے کی دھمکیاں ملتی ہیں اور ان سے ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے جو ایک چپڑاسی سے بھی روا نہیں رکھا جاتا۔ مثال ملاحظہ ہو:
‘‘سر۔۔۔۔! میں نہ صرف پورے یقین ، ایمان اور ثبوت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ یہ زیادہ تر موتیں فاقہ کشی سے ہوئی ہیں۔ آپ خود ان مقامات پر جا کر دریافت کر سکتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ان پر کیسی قیامت ٹوٹ پڑی ہیں۔۔۔۔ وہ کس عذاب میں مبتلا ہیں۔۔۔ میں نے اس جگہ کا ایک مکان میں جس کا محاصرہ کیا تھا دو عورتوں کو بھوک سے نڈھال پایا وہ تقریباً بے ہوش ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اناج اور رقم متاثرین کی امداد کے لیے تھا اس سے سرکاری عہدیداروں نے خوب فائدہ اُٹھایا انہوں نے غلہ، لحاف، کمبل، کپڑے بازاروں میں فروخت کر دئیے اور رقم بینکوں میں جمع کرادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شٹ اپ۔۔۔۔ ہوم سیکرٹری کے کان ایسی باتوں کو سننے کے عادی نہیں تھےاس نے بڑے زور سے میز پر مکا مارا۔اور کتے کی طرح غرایا پھر پوری قوت سے میز پر مکا مارا۔ تم ہماری حکومت کے خلاف زہر اُگل رہے ہو، نفرت کا بیج بو رہے ہو۔۔۔۔۔ انتظامیہ کو بدنام کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ بہتتر ہے تم کسی اخبار کے نامہ نگار بن جاؤ یا ٹی وی پر جا کر ڈراموں میں حصہ لو۔۔۔۔ تم جھوٹے ہو۔’’ (۱۴)
ایک ایماندار افسر سب کچھ کر سکتا ہے مگر اپنے پیشے سے غداری نہیں کر سکتا اور ملک شان نے سچ کہہ کر یہ ثابت کر دیا تھا اس طرح کا کردار صائمہ بھی ہے جو پاگل عورت کو دیکھ کر خون کے آنسو روتی ہے اور شہر کے امیروں اور سرمایہ داروں کو کوستی ہے ۔ اس کے دل میں اس پاگل بھوکی عورت کے لیے ہمدردی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے تبھی تتو وہ جب بھی اسے دیکھتی تھی تو اسے معاشرے کے اس رخ سے گھن آنے لگتا۔ نہ صرف یہ کہ غزالہ کا کردار بھی انسانیت سے بھرپور کردار ہےجو زرتاب کی مجبوری میں اس کی مدد کے لیے ہر اس دروازے پر دستک دیتی ہیں جن سے امید کی کرن نظر آتی ہے۔
اسی طرح امجد علی کا کردار ایک گھر کو تباہ ہونے سے بچا لیتا ہے اور واجد علی کو کہتا ہے کہ اپنی بیوی کو نماز کی ترغیب دو کیونکہ نماز میں ہی دین و دنیا کی کامیابی ہے اور اس طرح واجد علی کی بیوی نمازی بن جاتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی بد مزاجی کو ترک کرکے پرہیز گار بن جاتی ہے اور واجد علی جو ہر روز گھر کے جھگڑوں اور بیوی کے گالم گلوچ سے تنگ آچکا تھا سکھ کا سانس لے لیتا ہے، امجد علی کی طرح کا ایک کردار ڈاکٹر ارشد بھی ہے جو ایک ڈاکو کو موت جیسے حقیقت کا آئینہ دکھا دیتا ہے اور ان کی اصلاح کی خاطر اس سے جھوٹ بول لیتا ہے کہ تین مہینے کے اندر اندر تمہاری موت ہوگی۔ اس طرح وہ موت کے خوف سے چوری، راہزنی اور دوسرے برے کام چھوڑ کر توبہ تائب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک کردار افسانہ ‘‘سپنوں کی رات’’ میں جاوید بھی ہے جو اپنی ہونے والی دُلہن کی گناہ کو معاف کرتا ہے اور پھر سے اسے زندگی کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ یہ کردار ان مرد کرداروں کے لیے ایک مثال کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو بیوی کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر اسے اتنی بڑی سزا دیتے ہیں کہ ان کی پوری زندگی پشیمانی کی نذر ہو جاتی ہے۔
زیبیؔ نے اپنے افسانوں میں جہاں ہمدرد اور دردِ دل رکھنے والے کردار پیش کیے ہیں وہاں فیضی جیسی لڑکی کا کردار بھی سب کے سامنے ہے جو ایک استانی کا کردار ہے اور اس کا باپ جب خراب مشینوں کی زد میں آکر مر جاتا ہے تو مل کے دوسرے مزدوروں کے شانہ بشانہ نہ صرف اپنے باپ بلکہ اُن تمام مزدوروں کے حقوق کے لیے اُٹھتی ہے جو مل کے مالک کے ظلم کی وجہ سے نالاں تھے اور فیضی کے باپ کے بعد انہیں بھی کسی نہ کسی وقت ان ہی خراب مشینوں کی زد میں آکر مرنا تھا۔ فیضی نہ صرف انہیں ان کا حق دلاتی ہے بلکہ مل کے مالک کو بھی گناہِ عظیم کا احساس دلا کر انہیں مزید گناہ کے دلدل میں دھنسنے سے بچا لیتی ہے۔
زیبیؔ کے افسانوں میں ہر طرح کے کردار موجود ہیں انہوں نے اپنے کرداروں میں ضمنی کرداروں سے بھی وہ کام لیا ہے کہ پورے افسانے میں ان کے قدموں کی چھاپ سنائی دیتی ہے۔ فنِ کردار نگاری میں زیبیؔ کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ جس معاشرے میں پلی بڑھی ہے ان کے کردار بھی اسی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں غریب ، بے بس، مجبور، ہمدرد، ظالم، بے حس، سرمایہ دار، دولت کے گھمنڈی، جنسی بے راہ رو اور محبت کے پیاسے کردار جا بجا نظر آتے ہیں اور یہی کرداران کے افسانوں کو رنگ و نور سے بھر دیتے ہیں۔ یہ تمام کردار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں حتیٰ کہ رشتوں میں جڑے ہوئے کردار بھی ان کے ہاں موجود ہیں۔ ان کے ہاں فرمانبردار بیویاں، فرمانبردار شوہر، ظالم شہوہر، بیٹیاں، بیٹے، چچی، باپ، ماں، دادی حتیٰ کہ تمام رشتوں سے منسلک کردار نظر آتے ہیں۔ جنہیں انہوں نے پوری مہارت سے اپنے افسانوں میں پیش کیے ہیں۔
دولت کے پجاری اور دولت کے بل بوتے پر ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کرداروں میں رحمان صاحب، ہارون صاحب، نقوی صاحب، منیر جمال، سائیں میر بخش، اعظم، نمرین، ڈاکو سردار شاہ، ہوم سیکرٹری، وزیر عباس، شمع، نسرین، چوہدری سجاد حسین، صابرہ بیگم، حبیب سیٹھ اور دیگر بیسیوں کردار شامل ہیں جو حصولِ دولت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان جیسے کردار ہمارے معاشرے کے سفید دامن پر ایک بدنما داغ کی صورت میں موجود ہیں۔ جو دولت اور ہوس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے گھر اُجاڑنا ان کا شوق بن جاتے ہیں۔ ایک طرف رحمان صاحب، ہارون صاحب، نقوی صاحب اور منیر جمال زرتاب کی مدد کرنے کے بجائے ان کو مزید مایوسیوں میں گرا دیتی ہیں تو دوسری طرف سائیں میر بخش شازیہ کو بلیک میل کرکے اپنی جنسی تسکین کے لیے اس کے شوہر سے دوستی کر لیتا ہے اور شازیہ اس کے اس ظالمانہ فعل سے پریشان ہو کر بے ہوش ہو جاتی ہے۔اسی طرح سیاسی حوالے سے ہوم سیکرٹری کا کردار نہایت اہم ہے جو انسپکٹر شان کی تحقیقات کے باوجود ان سے سخت برتاؤ روا رکھتا ہے اور متاثرین کا مال لوٹ کو خود عیش کرتا ہے۔ یہ کرداری ہمارے سیاستدانوں کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چوہدری سجاد حسین بھی ایک ظالم اور وحشی کردار ہے جو دولت کے گھمنڈ کی وجہ سے غریب عورتوں کے ساتھ جنسی ارتکاب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے بہن ک ی بیٹی اور اپنے بیٹے نوید حسن کی محبت سیما کو بھی زیادتی کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ یہ بے حس کردار نہ تو رشتوں کا پاس رکھتا ہے اور نہ اپنی ڈھلتی عمر کا خیال کرتا ہے۔ بھلا ایسا بھی کوئی باپ ہوگا جو اپنے بیٹے کی معشوق کو جنسی طور پر زیادتی کا شکار کرکے حیوان بن جائے۔ اور جب سیما یہ راز پورے خاندان کے سامنے فاش کرتی ہے تو اس وقت زیب النساء زیبیؔ کی کمال فن کی داد دینی پڑتی ہے کہ کس طرح یہ کردار مرتے وقت سچائیوں کا پردہ فاش کے پورے خاندان کے سامنے اپنا بدلہ لے لیتی ہے۔ یہ منظر ملاحظہ ہو:
‘‘سجاد حسین کیا تم اپنے بیٹے کو وہ راز بتانا پسند کرو گے جس نے میری پوری زندگی عذاب بنا دی یا میں خود ہی تمہارے بیٹے کو بتا ڈالوں۔ ‘‘سجاد حسین تم اپنی زندگی میں صرف اپنوں سے کھیلتے رہے ہو لیکن یہ بھول گئے کہ ہوس کے اس اندھے کھیل میں خود تم نے اپنے گھر کو آگ لگا دی ہے اس سے بڑا تمہارا گناہ کیا ہوگا کہ جو تمہارے بیٹے کی بیٹی کہلاتی ہے وہ تمہاری غلاظت کا حصہ ہے اور جو تمہارے بیٹے کی بیوی ہے وہ کبھی تمہارے ہاتھوں بے حرمت کی گئی تھی اور تم نے اسے خاموشی سے اپنے بیٹے کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ صرف اپنے گناہ کو چھپانے اور اپنے بیٹے ک ی نظروں میں اچھا ہونے کے لیے تمہارا گناہ تمہارے ساتھ ساتھ جوان ہو گیا ہے۔ یہ سامنے کھڑی ہوئی لڑکی تمہاری اپنی بیٹی ہے جو تمہیں ساری زندگی اپنا دادا سمجھتی رہی عزت و احترام کرتی رہی۔’’ (۱۵)
یہ کردار زیبیؔ کے افسانے کا ایسا کردار ہے جو احساسِ گناہ سے عاری ہوتا ہے اور جنہیں اگر احساس دلایا بھی جائے تو عمر کے آخرے حصے میں وہ خاک سدھر جائیں گے اور یہ اس لیے بھی نہیں سدھر سکتے کہ اسے مظلوموں، مجبوروں اور بے بسوں کی بد دعا لگی ہوتی ہے۔ مرد کرداروں کے ساتھ ساتھ ایسے خواتین کردار بھی زیبی کے افسانوں میں موجود ہیں جو دولت کے حصول کے لیے لوگوں کے گھر تباہ کر دیتی ہیں ،مردوں کو بلیک میل کرکے ان سے پیسے، بنگلے اور موٹر کاریں وصول کرتی ہیں اور یہاں تک کہ اپنا جسم بھی انہیں پیش کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ اور یہ صرف دولت کی خاطر، یہ کردار دولت کے پجاری ہونے کے ساتھ ساتھ شہرت کے دلدادہ بھی ہیں انہیں صرف دولت و شہرت حاصل کرنا ہےچا ہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ کبھی ناز وادا اور نخرے دکھا کر دولت بٹورتی ہیں اور کبھی بڑے بڑے نوابزادوں کے بستر گرم کرکے اپنے خواہشات کی تکمیل کو ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے زیبیؔ کے ہاں، شمع، نسرین ،نادرہ اور نمرین جیسے کردار موجود ہیں جو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر ان سے پیسے اور جائیدادیں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے نادرہ اور شہزا کے کردار نہایت اہم ہیں جو مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرکے انہیں لوٹی ہیں اور ان کے گھر برباد کرکے چھوڑ جاتی ہیں اور اپنے لیے عیش و آرام کی زندگی ڈھونڈنے کی کوشش میں ہمہ وقت لگی رہتی ہیں۔ شہزا ایسا ہی ایک کردار ہے جو پہلے تو عام لڑکوں کو محبت کے جال میں پھانستی ہے اور بعد میں کلرکوں، افسروں ، ڈائریکٹرز اور سیکرٹری تک سے تعلقات قائم کرکے اپنا اسٹیٹس اونچا کرنے کی جدوجد میں لگی رہتی ہیں اس حوالے سے افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہوں:
‘‘پہلے شہزا معمولی کھانے، تفریح اور کپڑوں کے لالچ میں لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی تھی پھر انداز بدلے اس نے خود بھی گاڑی خریدی اور اب اس کی دوستی کلرکوں افسروں سے بڑھ کر ڈائریکٹروں اور سیکرٹری لیول تک جا پہنچی اب اس کی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی اب وہ زیورات پلاٹوں اور فلیٹوں کے چکر میں رہنے لگی اب وہ کافی مصروف ہو گئی تھی اب اس کے دن نہیں گھنٹے قیمتی ہوتے تھے پھر اس سرکل میں اتنی مشہور ہوئی کہ اس کی رسائی شہر کے باہر تک ہو گئی۔’’ (۱۶)
اس کردار سے زیب النساء زیبی نے ان عورتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو اپنے جسم کی نمائش اور استعمال کرکے ترقی کرتی ہیں اور پھر بڑھاپے میں ذہنی مریض بن جاتی ہیں کیونکہ شہوت پرست لوگ تو جوانیوں پر دولت لُٹاتے ہیں اور جوانی کی مستیاں بڑھاپے میں کہاں۔ اس لیے ان جیسے کردار بعد میں پچھتانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کے گھر اُجاڑ کر آج تک کسی نے بھی اپنا گھر سلامت نہیں پایا ہے۔
یہ کردار ہمارے معاشرے کا ایک ایسا اہم کردار ہے جو یہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حقائق کو آئینہ دکھاتی ہے لیکن شہزا کی سیرت کشی ہو یا شمع کی، نسرین کی فریب کاری ہوں یا نادرہ کا گھمنڈ ایک عورت کے لیے اتنی تڑپ ہی کافی ہے کہ وہ ممتا کے حسین اور دلکش جذبے سے محروم رہے ۔ ماں کی محبت تب ہی ممکن ہے کہ جب وہ عزت کی زندگی گزار کر اپنے بچوں کی پرورش کریں۔ اگر ایسا نہ ہو تو بے تحاشا مردوں سے دوستیاں اور جنسی رقابتیں کسی بھی عورت کو ماں نہیں بنا سکتی۔
زیب النساء زیبی کے ہاں جہاں دوسرے ہر قسم کے کردار ملتے ہیں وہاں محبتوں کے نغمے الاپنے والے کرداروں کی بھی ان کے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ کردار محبتوں سے اپنی زندگی کو ہمہ وقت منور رکھتے ہیں۔ محبت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ یہ کردار بھی کوئی تخیلاتی کردار نہیں بلکہ گوشت پوست کے زندہ اور حقیقی دنیا کے کردار ہیں جن کی آنکھیں محبت کی ٹھنڈک سے پر نور ہیں۔ جن کی خواہشات محبت کو پانے تک محدود ہیں یہ کردار محبتوں کی بے پناہ وسعتوں میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سماج سے بھی بندھے ہوئے ہیں۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہیں جو اپنی محبت کو پا لیتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اپنی محبت پاتے ہوئے کئئی دشوار گزار راستوں سے گزرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ غربت و افلاس کے مارے کردار اکثر جہیز جیسی لعنت کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پھر زرتاب کی طرح بے حس لوگوں کی چھوکٹ پر بھکاریوں کی طرح مدد کے لیے جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ محبت کا جذبہ اس کردار میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس محبت میں محبوب کے علاوہ اپنے باپ، بھائی اور دوسرے گھر والوں سے محبت بھی شامل ہے کیونکہ انہی کی وجہ سے وہ غزالہ کے ساتھ لوگوں سے مدد مانگتی پھرتی ہے کہ اس کے خاندان کے بوجھ کو تھوڑا کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ عامر عزیز، نرگس، شانو، افشاں، نادیہ، رخسانہ، شاہد ، صادق، ہیمی، زیبا، یاسمین، اعجاز، زیبا، ندا، ندا اُفق اور دیگر ایسے کئی بے شمار کردار ہیں جو محبتوں کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں چند ایسے کردار ہیں جو میاں بیوی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جن میں رخسانہ اور شاہد کے کردار بڑے جاندار ہیں۔ ان کرداروں سے زیبی ؔ نے زندگی کی تمام حقائق سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے کہ خواہ میاں بیوی کی محبت کتنی ہی گہری ہو لیکن ممتا کی خواہش اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد انسان کی سب سے بڑی خواہش اولاد کی ہوتی ہے۔ خواہ اس میں کتنی ہی سختیاں اور تکالیف برداشت کرنی پڑے لیکن اس پھل کو حاصل کرنے کے لیے بڑے جتن کیے جاتے ہیں۔اس رشتے کے بغیر زندگی ایک ادھورے پن کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ عامر عزیز اور نرگس کے کردار ایک دوسرے سے محبت میں اتنے آگے نکل گئے کہ لمس سے ہوتے ہوئے جنسی عمل کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جس پر انہیں بے حد پشیمانی ہوتی ہے۔ عامر عزیز اور نرگس جو ایک دوسرے پر مرتے ہیں اور غلطی کی اس احساس نے ان کی زندگی کے رنگوں کو پھیکا کر دیا تھا۔ لیکن یہ احساسات ایک زندہ اور حقیقی کردار کے احساسات ہیں جو خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ کردار ہر طرح سے حقیقی معاشرے کے کردار ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر مر تو سکتے ہیں لیکن جیتے جی جدا نہیں ہو سکتے اور یہی احساس زیبیؔ کے فن میں سمٹ کر پورے افسانے پر چھا گیا ہے۔
محبت کے جذبے سے سرشار کردار پیش کرتے ہوئے اکثر اوقات زیب النساء زیبی خود بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتیں وہ خود اس کردار سے ہمدردی کرنے لگ جاتی ہیں۔ ان کرداروں میں افشاں، نادیہ، صادق اور ندا کے کردار بہت اہم ہیں۔ان کرداروں کی معصوم محبت اور ان محبت کی مجبوریوں کے ہاتھوں قتل انہیں حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
فنِ افسانہ نگاری میں کردار نگاری ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کردار ہی معاشرے کے تلخ حقیقتوں کو آشکارا کرتی ہیں۔ مختلف حالات میں بدلتے ہوئے رویوں اور ان رویوں کے زیر اثر پروان چڑھنے والی محرومیوں کا احساس دلاتے ہیں۔ زیبیؔ کے افسانوں میں محبت کے سائے میں پلے ہوئے کردار کبھی کبھی نفرت کے تلخ تجربات سے آشنا ہوتے ہیں۔ اور یہ نفرت ان کے تخیلات سے شروع ہو کر ان کی حقیقی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ نفرت، محبت، حقارت، بد عنوانی اور تمام معاشرتی خوبیوں اور خامیوں سمیت یہ کردار زیبیؔ کا افسانہ پیش کرتے ہوئے ہماری ذہنوں میں امر ہو جاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ پر ان کرداروں کی حرکات و سکنات ، اچھائی اور برائی، شائستگی اور بد تمیزی، سرمایہ داری ،غربت اور جنسی تشنگی سے ہوتے ہوئے پچھتاوے کی دہلیز تک تمام مراحل ثبت ہو جاتے ہیں اور یہی زیب النساء زیبی کا کمالِ فن ہے جسے انہوں نے اپنے افسانوں میں پورےآب و تاب کے ساتھ برتا ہے۔
۳.۴ مکالمہ نگاری:
فنِ افسانہ نگاری میں مکالمے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مکالمے کے بغیر افسانہ ادھورا ہے تو بے جا نہ ہوگا کوئی بھی افسانہ نگار مکالمہ نگاری سے افسانے میں جان ڈالنے کے ساتھ ساتھ کرداروں کی نفسیات کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بولنے سے ہی انسان کی شخصیت آشکارا ہوتی ہے اور بات کرنے سے ہی مہذب اور غیر مہذب ہونے کا پتا چلتا ہے۔ زیب النساء زیبی ؔ کے افسانوں میں بعض جگہوإ پر مکالمے بڑے شستہ اور مختصر ملتے ہیں مگر بعض جگہوں پر یہ مکالمے اتنے طویل ہو جاتے ہیں کہ خود کلامی کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ بعض کردار ان کے افسانوں میں خود سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ان کے نصف افسانوں سے زیادہ افسانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہر حال زیبی نے افسانوں میں ہر قسم کے مکالمے پیش کیے ہیں اور ان مکالموں سے مختلف کرداروں سے ان کے مافی الضمیر کو بیان کیا گیا ہے۔ مکالمہ کسی دو انسانوں کا آپس میں تبادلۂ خیال کو کہا جاتا ہے۔ اس میں کبھی کبھی دو سے زیادہ اور کبھی بہت زیادہ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں لیکن صنفِ افسانہ اتنا طویل نہیں ہوتا ، اختصار ہی افسانے کی خوبصورتی ہے اور اس بنا پر افسانے میں مکالمے بھی مختصر ہوا کرتے ہیں۔ زیبی کے افسانوں میں مردوں اور عورتوں کے مکالمے، بچوں کے مکالمے ، امیروں اور سرمایہ داروں کے مکالمے ، بے بس اور لاچاروں کے مکالمے، غنڈوں کے مکالمے اور نوجوانوں کے مکالمے پیش کیے گئے ہیں۔ ان مکالموں کا اسلوب انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔ جہاں پر زیب النساء زیبی کسی کردار سے کوئی بات کہلوانا چاہتی ہے تو سیدھی طرح سے اس کردار کے خیالات کو قاری تک پہنچا دیتی ہے۔ افسانہ ‘‘یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے’’ میں جب رحمت اور خلیفہ شبن کبوتروں کے متعلق بات کرتے ہیں وہ مکالمے زیب النساء زیبی نے کچھ یوں پیش کیے ہیں:
‘‘ خلیفہ شبن ،ہاں ابھی ابھی ابو کے یہ دونوں مار لیے ہیں ایک ‘‘جو گیا ’’ ہے اور ایک ‘‘لال بند’’۔
رحمت، (کبوتروں کو غور سے دیکھتے ہوئے) یار یہ تو بہت قیمتی ہیں کم سے کم سو دو سو روپے کی تمہاری پکڑ ضرور ہو جائے گی۔’’ (۱۷)
اور جب خلیفہ شبن رحمت کو اعلیٰ نسل کے کبوتر دکھاتا ہے تو وہ مکالمہ بھی بہت جاندار ہے ملاحظہ ہوں:
‘‘رحمت، بھئی واہ کمال ہے خلیفہ مگر یہ تمہارے ہاتھ کیسے آیا؟
خلیفہ شبن، ایک پٹھان سے پچیس روپے میں خریدا تھا۔
رحمت، نایاب کبوتر ہے، کسی رئیس کو دو گے تو کافی رقم مل جائے گی۔
خلیفہ شبن۔۔۔۔، ہاں جی اپنا کاروبار بھی یہی ٹھہرا۔’’ (۱۸)
درجہ بالا مکالمے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ زیبی اپنے تجربات اور مشاہدات کے زور پر ہر قسم کے کردار سے اس کے فیلڈ کے مکالمے اور بات چیت کر ا سکتی ہے۔ کبوتروں کے نام گننا اور اعلیٰ نسل کے کبوتروں کی پہچان ایک کبوتر باز ہی کر سکتا ہے لیکن زیبی نے اتنی خوبصورتی سے اسے پیش کیا ہے کہ ان کی معاشرتی علمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ افسانہ ‘‘انقلاب’’ میں جب واجد علی اپنی بیگم کی گالم گلوچ سے تنگ آکر اپنے دوست امجد کے گھر جاتا ہے اور ان سے سارا ماجرا بیان کرتا ہے تو اس وقت کے مکالمے نہایت سنجیدہ اور مثبت ہوتے ہیں ۔ امجد اپنے دوست واجد کو بیوی کے راہِ راست پر لانے کی ترکیبیں بتانے لگتا ہے اور ان سے بیوی کی شخصیت کے متعلق چند سوالات کرتا ہے۔ ملاحظہ ہوں:
‘‘ وہ ایسی حسین و جمیل بھی نہیں ہے ذرا چمڑی سفید ہے تو خود کو ابلا پری سمجھتی ہے۔ اور اپنے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔
امجد، کچھ پڑھی لکھی بھی ہے۔
واجد، ہاں اردو میں کچھ یونہی شد بد ہے اٹک اٹک کر پڑھ ہی لیتی ہے۔
امجد،قرآن شریف تو ضرور پڑھا ہوگا۔
واجد، قرآن پڑھا ہوتا تو چہرے پر نور ہوتا۔ نماز پڑھی تو گھر میں برکت ہوتی، پاک صاف رہتی تو گھر کی ہر چیز صاف سھتری ہوتی۔ ’’ (۱۹)
اس مکالمے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ زیب النساء زیبیؔ کے خیال میں مرد اپنی بیویوں کی تعریف کے بجائے ان کی غیبت کرتے ہیں۔ لیکن اصل معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے کہ واجد کی بیوی جو نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی قرآن پڑھا ہوا تھا اور اوپر سے زبان بھی اتنی تیز ہو کہ جس سے شوہر تنگ آجائے تو ایک شوہر اس کی غیبت نہ کرے تو اور کیا کرے۔ لیکن اس کے باوجود امجد اسے سمجھاتا ہے کہ اپنی بیوی سے کہو کہ جب تک تم نماز پڑھنا شروع نہیں کرتی تب تک آپ کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاؤں گا۔ اور یہی واجد کے لیے سود مند ثابت ہو گیا اور جب وہ نماز پڑھنا شروع کر دیتی ہے تو اس وقت کا مکالمہ ملاحظہ ہو:
‘‘ دوسرے کمرے میں بچے اودھم مچارہے ہیں، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ انہوں نے ڈانٹا اور بڑے لڑکے ساجد کو آواز دی بیٹا ادھر آؤ اور پانچ روپے کے قلاقند لے آؤ۔
ساجد نے کہا، کس خوشی میں؟
واجد، تمہاری اماں نے نماز شروع کر دی ہے۔
ساجد، تو کیا ہم بھی نماز شروع کردیں پھر پانچ روپے کی اور مٹھائی کھانے میں آئے گی۔
واجد، ہاں ہاں تم بھی نماز شروع کرو تو میں کل ہی پانچ روپے اور دوں گا۔’’ (۲۰)
گھر کے حالات ٹھیک ہونے پر بچوں کی خوشی اور شرارت بھرے مکالمے میں زیب النساء زیبی نے بچوں کے نفسیات بیان کرکے مکالمے کو اور بھی جاندار بنا دیا ہے۔ مکالمے کو پڑھتے ہی خوشی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس زیب النساء زیبی کے اسلوب کی مہارت پر دلالت کرتی ہے۔
زیب النساء زیبی کے ہاں خوشی اور غم، شوخی و شرارت، محبت اور نفرت اور اس کے ساتھ ساتھ خوف اور کرب سے ادا کیے گئے مکالمے بھی ملتے ہیں۔ ان کے مکالمے نہ صرف عام باتیں ہیں بلکہ ان باتوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جس سے افسانہ نگار قاری کو چونکا دیتا ہے۔ اور چونکا دینے والی یہ خفیف سی لرزش قاری کے اعصاب کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے۔ اس کے بعد قاری کو ان باتوں کا احساس تک نہیں رہتا لیکن وہ ایک ایسے کھوج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ افسانہ کے اختتام پذیر ہونے پر وہ گہرے سوچ میں خود کو پاتا ہے اور اپنے ارد گرد ماحول پر نظر ڈال کر اپنے پورے معاشرے کو سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر مزاج اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے افسانوں میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یہ چہ میگوئیاں بعد میں وہ طوفان برپا کر دیتی ہیں کہ جن کا تصور کرنا محال ہے۔ افسانہ ‘‘تشکر کے آنسو’’ سے مکالمے کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
‘‘فوراً باہر نکل آؤ۔۔۔۔ کوئی ہشیاری یا چالاکی نہ دکھانا۔۔۔۔ ورنہ زندہ نہیں بچو گے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔؟ گاڑی اور رقم لے جاؤ مجھے جانے دو۔
پھر ایک اور بد معاش نے اس کی پشت پر بندوق کی نالی رکھ کر کڑکتے ہوئے لہجے میں کہا۔
‘‘سنو ڈاکٹر۔۔۔۔ اگر تم نے ہم سے تعاؤن کیا تو زندہ سلامت رہو گے۔’’(۲۱)
اور جب ڈاکٹر ارشد کو گاڑی میں بٹھا کر زخمی بد معاش کے پاس لے جاتے ہیں تو اس وقت کے مکالمے ایک ڈاکٹر اور اس کے مریض نہیں بلکہ بالکل ایک بدمعاش اور اغوا شدہ انسان کے مکالمے ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
‘‘ڈاکٹر۔۔۔۔۔! زخمی کسی شکاری کتے کے انداز میں غرایا۔ ‘‘میرے بازو میں گولی گھس گئی ہے اسے جلدی سے باہر نکالو۔’’
‘‘گولی جلدی نکالنا بہت مشکل ہے۔’’ ڈاکٹر ارشد نے اس کے پاس جا کر اس کا زخم دیکھنے لگا۔
‘‘وہ کس لیے۔۔۔۔!’’ اس بد معاش نے اسے قہر آلود نظروں سے گھورا۔
‘‘تم ڈاکٹر ہو ہم نے تمہاری بڑی تعریف سنی تھی۔ کہ تم بڑے ماہر سرجن ہو ۔۔۔۔آپریشن کرنے میں بڑی مہارت ہے۔’’
‘‘میں نے جلدی کی تو اس میں تمہاری جان کا خطرہ ہے۔۔۔۔۔ کیا تم خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو؟’’ ڈاکٹر ارشد نے کہا۔’’ (۲۲)
زیب النساء زیبی نے ایک ڈاکٹر اور مریض کے رشتے کو سمجھتے ہوئے یہ مکالمہ پیش کیا ہے کہ اگر بد معاش ڈاکٹر ارشد کو زبردستی لے کر آئے تھے لیکن اسے ایک مریض کی جان بچانے کی فکر ہوتی ہے اور وہ بد معاش کو تنبیہہ کرتا ہے اور اسے ہر قسم کے نقصان کے لیے تیار رہنے کو کہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیب النساء زیبیؔ نے ‘‘ادھوری عورت’’ میں بھی رخسانہ اور اس کے شوہر شاہد کا مکالمہ پیش کیا ہے کہ جب ان کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں رخسانہ کے پیٹ میں پلنے والا بچہ ضائع ہو جاتا ہے اور وہ ممتا کے جذبے سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس وقت کا مکالمہ ملاحظہ ہو:
‘‘رخسانہ جانی۔۔۔۔ اب کیسی ہو۔۔۔۔ تم بہت ڈرپوک نکلیں۔۔۔ یہ تو معمولی ایکسی ڈنٹ تھا۔ دیکھو تم اچھی بھلی ہو۔’’
‘‘یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟’’ رخسانہ نے اُٹھنے کی کوشش کی۔
‘‘کچھ نہیں۔۔۔ معمولی سی چوٹ ہے۔ کچھ دن میں ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ تم آرام سے لیٹی رہو۔۔۔۔ آرام بہت ضروری ہے۔ بہت کمزور ہو گئی ہو۔۔ شاہد نے اسے لٹاتے ہوئے کہا۔
‘‘ سچ کہیے’’؟ میں بالکل ٹھیک ہوں نا۔۔۔ میرا چہرہ، میری شکل، میرا جسم؟ اس نے رک رک کر پوچھا۔
‘‘کیا میری بات کا یقین نہیں آیا ہے۔۔۔؟ میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لو ۔۔۔ تم اب بھی وہی ہو، سویٹ ہارٹ۔’’
‘‘ایک پر سکون ۔۔۔۔ مسرت بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھر آئی۔ اس نے مطمئن ہو کر آنکھیں بند کرلیں۔’’ (۲۳)
ایک عورت کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی حسن ماند پڑ جائے کیونکہ وہ اپنے شوہر کے دل میں محبت کے جذبات زندہ رکھنا چاہتی ہے اس لیے تو رخسانہ نے کہا تھا کہ ‘‘میرا چہرہ، میری شکل، میرا جسم’’۔ اسے یہ فکر تھی کہ کہیں میرے حسن کی شادابی کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ اور زیبی جو خود ایک عورت ہے عورت کے نفسیات پر اسے خاصی گرفت ہے اس لیے صرف انہیں ہی یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ ایک عورت کی زبانی اُس کے ذہن کی تراش کر سکے۔ اس طرح ‘‘ایک بہن اور نیٹ’’ پورا افسانہ ہی مکالمہ نگاری کی ایک مثال ہے۔ جس میں ایک لڑکی سیما اور نبیل کے خیالات کے اُتار چڑھاؤ اور نفسیاتی کشمکش اور ذہنی پستی کو پیش کیا گیا ہے۔ زیبی کے بہترین مکالمہ نگاری ان کے تقریباً تمام افسانوں میں ان کی مہارت کا ثبوت دیتی ہے جن میں ‘‘تپتا سایہ، واہ ری قسمت، خود فریبی، گل جانہ، گدھے اور گھوڑے، پیاری آپی، بھگوان، موت کا سفر اور دیس پر دیس ہوا ’’کے مکالمے ان افسانوں کے کرداروں کی عمر، رتبے اور نفسیات کے مطابق ہیں۔ ان میں سے دو افسانوں ‘‘ایک بہن اور نیٹ’’ اور ‘‘گدھے اور گھوڑے’’ کے مکالمے براہِ راست نہیں ہیں بلکہ اے ایس ایل (برقی مکالمہ) کے ذریعے کیے گئے ہیں جو ایک نیا تجربہ ہے۔ عام طور پر تو مکالمے براہِ راست ہی کیے جاتے ہیں لیکن جدید دور میں جہاں انسان ایک دوسرے کے قریب ہو کر بھی تنہا رہ گئے ہیں اور قربتوں میں بھی جدائی اور تنہائی سہنی پڑتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت دور ہوتے ہوئے بھی انسان ایک دوسرے کے اتنا قریب آگیا ہے کہ جیسے کان میں سرگوشیاں کر رہا ہو۔ جدید مشینی دور نے افسانہ نگاری کو بھی متاثر کیا اور انہوں نے اس رجحان کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کرکے ایک نئے طرز کی طرح ڈالی ہے۔
زیب النساء زیبی کے افسانوں کا اگر بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ براہِ راست مکالمے اور اے ایس ایل (برقی مکالمہ) مکالموں کے ساتھ ساتھ خود کلامی کی کیفیت بھی ان کے ہاں نظر آتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ایسے بے شمار مواقع نظر آتے ہیں جس میں کردار خود سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اور خود سے باتیں کرتے کرتے کبھی ہنستے ہیں، کبھی روتے ہیں اور کبھی اپنے ہی تخیلات میں محوِ پرواز دکھائی دینے لگتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب وہ مسلسل تنہائی کا شکار رہ جاتا ہے تو وہ خود ہی سے دوستی کرنے لگتا ہے۔ خود سے مشورے کرتا ہے، خود سے باتیں کرتے ہوئے اپنے دل کو ہلکا کر لیتا ہے ۔ یہی کیفیت ان کے افسانوں میں بھی نمیاں ہے۔ جن میں ‘‘احساس کے زخم، سچائی، جاگتے لمحے، اعتراف، ذرا سی بے وفائی، پتھر کا بت، خانہ بدوش، انتظار اور سپنوں کی رات ’’ میں خود کلامی کی کیفیات دیکھے جا سکتے ہیں۔ خود کلامی کا یہ انداز ان کے ہاں اتنی خوبصورتی سے ملتا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ کردار جو باتیں کر رہا ہے کسی دوسرے کردارے سے ہمکلام ہے لیکن آگے پڑھ کر قاری کو ایک زبردست سا جھٹکا لگ جاتا ہے کہ وہ باتیں جو زیب النساء زیبی نے اس کردار سے کہلوائیں وہ تو خود سے کہہ رہا تھا۔ خود کلامی کی یہ کیفیات ان کے اکثر افسانوں میں موجود ہیں جن سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
‘‘ اُف میرے خدا!۔۔۔ عامر عزیز نے بے چینی سے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا کیا انسان اس قدر جلد پستیوں میں گر سکتا ہے۔ کیا انسان کی حیثیت انسان کی عظمت یہی ہے نہیں وہ سب خواب ہوگا میں نرگس کو کبھی دکھ نہیں پہنچا سکتا۔ میں نے اسے ٹوٹ کر چاہا ہے وہ میری روح میں بسی ہوئی ہے میں اس سے جدائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ’’ (۲۴)
افسانہ‘‘ ذرا سی بے وفائی’’ سے خود کلامی کی مثال ملاحظہ ہوں:
‘‘ہاں ہاں عارف میں مانتی ہوں تم نے مجھے جینے کے نئے انداز سکھائے مجھے محبتوں کی وادیوں میں تیرنا سکھایا۔ مجھے چاہت کے رنگوں سے رنگین بنایا لیکن تمہاری ایک حرکت نے میرے من مندر کے دیوتا کو اپنی جگہ سے گرا دیا ہے۔ میں نے جہاں تمہارے لیے پھولوں کے گلستان سجائے تھے وہاں اب خاک ہی خاک ہے۔کاش عارف تم نے مجھے بلندیوں اور پستیوں کا فرق نہ بتایا ہوتا تو آج میں تمہاری ذرا سی خطا پر ملول نہ ہوتی۔ ذرا سی بے وفائی پر عمر بھر کی رفاقت کو بے اعتبار نہ کرتی کاش تم مجھے ایک عام آدمی کی طرح ہی ملے ہوتے تم خود ہی سوچو جب آسمان پر بسنے والا دیوتا خود ہی زمین پر آگرے تو اس کی مخلوق کا کیا انجام ہوگا۔’’ (۲۵)
‘‘پتھر کابت’’ میں خود کلامی کچھ اس طرح سے کی گئی ہے:
‘‘رانی۔۔۔۔ اب نیا زمانہ آگیا ہے۔۔۔۔ آج کل ایسے بے تکے نام رکھے جا رہے ہیں جس کا سر پیر کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی معنی نکلتے ہیں۔ ۔۔۔اسلامی نام رکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔۔۔۔ تو میاں بیوی کے معاملات میں دخل مت دے۔ اپنے کام سے کام رکھ۔۔۔۔ بس تو خاموش تماشا دیکھتی جا۔’’ (۲۶)
اس کے علاوہ تقریباً نصف سے زیادہ افسانوں میں زیب النساء زیبیؔ کے کردار خود سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ان کی تنہائی اور کم مائیگی کا احساس دلاتی ہے۔ احساسِ محرومی جس معاشرے کے افراد میں پروان چڑھنے لگے اس معاشرے کے افراد خود کو خود تک ہی محدود رکھتے ہیں اور دنیا کے دوسرے کاروبارِ زندگی اور دوسروں کے کام میں مداخلت کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہی کردار ان کے زیادہ تر افسانوں میں خود سے باتیں کرتے ہوئے ملیں گے۔ جو عقل و دانش میں بہت پختہ ہیں لیکن خود کو ایک حد تک رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
زیب النساء زیبی اپنے فن میں نہایت مہارت اور احتیاط کی متحمل ہیں۔ انہوں نے جہاں بہتر سمجھا کرداروں سے مکالمے کہلوائیں اور کہیں کہیں ان کے یہ مکالمے خود کلامی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ انسان کو حیوانِ ناطق اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ خاموش رہتے ہوئے بھی خود سے بول رہا ہوتا ہے یا اپنے ہی خیالوں میں کہیں پر کسی مسئلے کو سلجھانے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہتا ہے اور خود سے باتیں کرتے ہوئے چین محسوس کرتا ہے۔ جہاں اسے بات کرنے کا موقع ملے وہ چند الفاظ دوسروں کے گوش گزار بھی کر لیتا ہے لیکن اکثر مواقعوں پر چپ سادھ لے کر اپنے ہی من میں ڈوبنے میں بھلائی سمجھتا ہے۔ اس نفسیات کے حامل کردار زیبیؔ کے افسانوں کو چار چاند لگاتے ہیں۔ ان کے مکالمے نہایت سلیس اور برجستہ ہیں۔ کہیں کہیں پر تھوڑی بہت طوالت ان مکالموں میں آجاتی ہے لیکن وہ اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ قاری کو بوریت کا احساس بھی نہیں ہوتا اور افسانہ نگار کی تخلیقی کاوش بھی اپنا آپ منوا لیتی ہے۔
۴.۴ منظر نگاری:
افسانے کے فنی لوازمات میں جہاں پلاٹ کردار اور مکالمہ ضروری ہے وہاں منظر نگاری بھی افسانے کے فن کو تقویت بخشتی ہے۔افسانہ نگار افسانہ لکھتے وقت کہانی میں لفظوں کی مدد سے پورے منظر کی تصویر تراشنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قاری پڑھتے ہوئے کہانی کی پوری فضا میں گھل مل جائے اور اس کے آگے پورا منظر آنکھوں میں پھر جائے۔ اس سے ایک تو یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا کہانی کی سحر میں گرفتار ہو کر پورا افسانہ توجہ سے پڑھتا ہے دوسری بات یہ کہ منظر نگاری کی وجہ سے وہ پورے ماحول کی جانچ پرکھ کر سکتا ہے اور پڑھتے پڑھتے افسانہ نگار کا ہم خیال بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے محمد افتخار شفیع لکھتے ہیں:
‘‘ایک کامیاب افسانے کے لیے ارد گرد کے ماحول کی تصویر کشی اور فضا آفرینی کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ وہ اپنے الفاظ کی مدد سے ماحول کی ایسی عکاسی کرے کہ قاری افسانے کی مسحور کن فضا میں افسانہ نگار کی ہم خیال و ہم نوا بن جائے۔’’ (۲۷)
افسانہ نگار کے لیے سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کی توجہ حاصل کرے کہ وہ افسانہ ابتدا سے لے کر اخیر تک اس طرح پڑھے کہ کہانی کے ساتھ ساتھ پورے ماحول، ثقافت اور تہذیب سے روشناس ہو جائے۔ اردو افسانے میں ابتدا سے لے کر دورِ حاضر تک تمام افسانہ نگاروں نے اس حربے کو بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ پریم چند ، سجاد حیدر یلدرم، کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی، غلام عباس، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، زاہدہ حنا اور دیگر کئی ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی منظر نگاری کی وجہ سے افسانوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ فنی مہارت بھی افسانے کے لیے ایک لازمی امر ہے اور فنی مہارت کا ثبوت یہی ہے کہ افسانہ اپنے تمام تر فنی لوازمات کے ساتھ تخلیق کیا جائے۔ افسانہ تخلیق کرتے وقت کہانی کے لیے کردار اور ان کرداروں کو ان کا ماحول فراہم کرنا افسانہ نگار کا کام ہوتا ہے اور یہی کام زیب النساء زیبیؔ نے بھی بڑے فنکارانہ انداز سے انجام دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں لفظی تصویر کشی جا بجا ملتی ہے۔ یہ تصویریں کبھی ان کے تخیل کی پرواز سے جنم لیتی ہیں تو کبھی الفاظ سے پھوٹنے والی شعاعوں سے عکس در عکس ایک البم کی طرح نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ زیبیؔ افسانے میں جس ماحول کا ذکر کرتی ہے وہ خود اس ماحول سے واقف ہوتی ہے تبھی تو اتنی جزئیات کے ساتھ اسے پیش کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ ان تصویروں میں کبھی ویران سڑکوں کی جھلک نظر آتی ہے تو کبھی بام و در کے نظارے، کبھی کبوتروں کے جھنڈ تو کبھی کھیت کھلیان اور لہلہاتی ہوئی فصلیں، کبھی کمرے کی دیواروں پر چپکے ہوئے رنگ برنگے کاغذ تو کبھی کمرے کی آرائش کے لیے سجائے ہوئے گلدان، قالین، صوفے اور دیگر لوازمات، گھر کا باغیچہ ہو یا دفتر کی مصروف زندگی زیب النسا زیبیؔ ان تمام مناظر کو بڑے قرینے سے کہانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی نظر آتی ہے۔ افسانہ ‘‘یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے’’ میں کبوتروں کے لیے بنائے گئے اشیاء کا ذکر کس خوبی سے کرتی ہیں ملاحظہ ہو:
‘‘چھت کے شمال مغربی سمت بانس کی ایک چھتری لگی ہوئی ہے کچھ کبوتر چھتری پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کچھ چھت کی منڈیر پر کچھ صحن میں دانہ چگ رہے ہیں کچھ پانی کی کونڈی میں اپنی چونچیں ڈالے ہوئے ہیں۔خلیفہ کے ایک ہاتھ میں چھیپی ہے دوسرے میں چھپکا، یہ چھت کافی لمبی ہے اس کے ایک حصہ میں بانسوں کا ٹھاٹھر لگا کر جال سا بنا دیا ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے ہیں ہر ایک خانے میں ایک ایک یا دو دو کبوتر رہتے ہیں۔’’ (۲۸)
اس منظر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک کبوتر پالنے والا کبوتر کو پکڑنے اور ان کے رہنے کے لیے کس قسم کی چیزیں اور جگہیں بناتا ہے۔ درج بالا اقتباس پڑھتے ہوئے پورا منظر قاری کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور وہ ایک فلم کے سین کی طرح اس پورے منظر سے محظوظ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب کسی افسانے میں کوئی جذباتی منظر کے بیان کرنے پر آجائے تو قاری کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ اور وہ افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ خود بھی جذباتی ہو کر اس پورے منظر کو اپنے اوپر حاوی کر دیتا ہے۔ افسانہ ‘‘ذرا سی بے وفائی’’ میں نادیہ کے جذباتی ہونے کا منظر کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہیں:
‘‘بظاہر نادیہ کتنی نرم و لطیف نازک احساسات کی مالک تھی انتہائی ٹھنڈے مزاج کی بے ضرر سی لڑکی، لیکن اپنے اندر دہکنے والا الاؤ کو وہ کس طرح سرد کرتی تھی اس سے وہ خود ہی آشنا تھی۔ مسلسل بہنے والے آنسوؤں کے قطرے موسلا دھار بارش کا روپ دھار کر اس کے وجود میں اُمڈنے والے جلتے الاوے کو ٹھنڈا کر دینے اور یہ ٹھنڈا سیلاب اس کے رگ و پے میں اتر کر اسے سرد کیے دیتا۔’’ (۲۹)
آنسوؤں کے قطرے کو جب موسلا دھار بارش کہا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ درد اور کرب کی اذیتیں آنسوؤں کے سیلاب کی طرح بہنے لگتے ہیں یہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس منظر کو بیان کرنے میں زیب النساء زیبی کو ملکہ حاصل ہے۔ اپنے افسانوں میں انہوں نے اس طرح کے مناظر بہت سی جگہوں پر پیش کیے ہیں۔ ان کے افسانے اس لحاظ سے پردے پر لگے ہوئے ویڈیوز اور گیلریز کی صورت میں محسوس ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر لفظ تصویری صورت اختیار کر لیتا ہے اور ہر جملہ ایک ویڈیو کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس طرح لفظی تصویر کشی کی ایک مثال افسانہ ‘‘تشکر کے آنسو’’ میں بھی ملتا ہے جس میں رات کے اندھیرے میں سنسان سڑکوں ، ویران راستوں اور کھڑکیوں سے جھلکتی ہوئی مدھم سی روشنیوں کی تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔ منظر ملاحظہ ہو:
‘‘رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ راستہ سنسان، ویران اور ملگجے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی تھی لیکن بہت سارے گھروں کی کھڑکیوں سے روشنی جھانک رہی تھی۔ لوگ شاید جاگ رہے تھے ۔ ٹی وی دیکھ رہے تھے یا پھر ان کے ہاں کوئی تقریب وغیرہ تھی۔ اس شہر میں لوگ راتوں کو دیر تک جاگتے تھے اور دیر سے سوتے تھے۔’’ (۳۰)
افسانے کے ابتدائی حصے میں ہی جب ایسا منظر ہو کہ رات کا درمیانی حصہ اور سنسان سڑکوں کا منظر پیش کیا جائے تو قاری کو احساس ہو جاتا ہے کہ یہ اندھیرا کسی حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور آگے چل کر پوری کہانی اس کے سامنے آجاتی ہے۔ کسی بھی منظر کو پیش کرنے میں جوسب سے بڑی بات ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وقت اور جگہ کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ کیا جائے۔ جس سے اس منظر یا اس وقت کی حقیقی شبیہ سامنے آجائے۔ اگر منظر پیش کرتے ہوئے مناسب الفاظ کا چناؤ نہ کیا جائے تو وہ شبیہ دھندلی رہ جاتی ہے اور افسانہ نگار کا مقصد فوت ہو جاتا ہے جس سے قاری کی ذوق کو تسکین نہیں پہنچتی اور یوں اس کی ذوق تشنہ رہ جاتی ہے۔ کسی بھی کہانی کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی فنی مہارتوں اور الفاظ کے بہترین استعمال سے اپنے پڑھنے والے کے ذوق کی آبیاری کریں۔ افسانہ چونکہ ناول کی طرح طویل نہیں ہوتا اس لیے کم سے کم الفاظ میں خوبصورت، دلکش اور حقیقی مناظر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ زیب النساء زیبیؔ کے افسانے جتنے مختصر ہیں اتنے ہی ان کے الفاظ مناسب وقتوں پر پڑھنے والے کو مسحور کیے دیتے ہیں جگہ جگہ پر تصویری البمز دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک عورت ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں جو بات سب سے زیادہ محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ گھر کے ماحول کا تذکرہ بڑے ہی سلیقے اور تجربے سے کرتی ہے۔ گھر کا منظر بیان کرتے کرتے وہ اتنی جزئیات میں چلی جاتی ہے کہ گھر کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ کمروں کی زیبائش کا ذکر کرتے ہوئے ہر ایک چیز کو بمع اس کے خصوصیات کے بیان کرتی ہے۔ افسانہ ‘‘پتھر کا بت’’ میں نوراں کے داماد کے گھر کا منظر کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہے کہ مرد افسانہ نگار ایسے مناظر پیش کرنے میں ہمیشہ مات کھا جاتے ہیں۔ منظر ملاحظہ ہو:
‘‘اوپر کی منزل پر تین نہایت آراستہ خواب گاہیں تھیں۔ نیچے نشست گاہ اور باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانہ میں کیا کچھ نہیں تھا۔ ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ اتنی سہولت وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ہر کمرے میں مختلف وضع کا قالین، دیواروں پر پھولدار کاغذ چپکے ہوئے تھے اور کھڑکیوں پر خوشنما پردے پڑے ہوئے تھے۔’’ (۳۱)
گھر کے لوازمات اور خوبصورتی یا بد صورتی کا ذکر کرنا ہر عورت کی نفسیات میں شامل ہوتا ہے وہ جب بھی کسی کے گھر جاتی ہے و باورچی خانہ، پردوں، قالینوں، خواب گاہوں اور دوسری اُس جگہوں کا مشاہدہ ضرور کرتی ہے جس کا تعلق ایک گھر سے ہوتا ہے اور عورت جو کہ گھر کی مالکن ہوا کرتی ہے انہیں گھر کی خوبصورتی کے لیے یہ تمام اشیاء اچھی لگتی ہے۔ زیب النساء زیبیؔ بھی بالکل ایک گھریلو خاتون کی طرح اپنے افسانوں میں گھر کی خوبصورتی اور زیبائش کا منظر جگہ جگہ پیش کرتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ عورت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ عورت کے سراپے میں بہت دلچسپی لیتی ہے ۔ عورت کے بالوں کا ذکر کرنا، آنکھوں ، ہاتھوں، انگلیوں، انگلیوں کی انگوٹھی، کلائیوں میں سجے ہوئے کڑے، مہندی اور دوسری کئی اشیاء جو عورت کے حسن کو چار چاند لگاتی ہیں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہے اور بیان کرتی ہیں۔ زیبی کے افسانوں میں یہ مناظر بھی بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ غریب اور مفلس عورتوں کا ذکر کرتی ہے تو اس کے کپڑوں، کپڑوں کی قیمت، گھر کے سامان اور اس کی وقعت، فیشن سے دوری اور بے بسی کے مناظر پیش کرتی ہے اس طرح جوان لڑکیوں کے حسن کی شادابیوں سے فضا کی مسرت اور ہوا کے رقص کرتے ہوئے جھونکوں کے ساتھ ساتھ معطر کرتے ہوئے ماحول کو پیش کرنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ ‘‘طلاق یافتہ فارنر’’ میں ایک بے بس اور لاچار بیوہ جو اعلیٰ ملبوسات میں ملبوس ہو کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتی ہے کا منظر پیش کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ اور بیان کی مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:
‘‘ اس کے شانو پر لہراتے ہوئے نکھرے دھلے ہوئے صاف ستھرے مہندی کے رنگ میں رنگے ہوئے بال انتہائی خوبصورت لگ رہے تھے۔ اس کے سفید گورے گورے بازو اور ارد گرد کی ہر نظر کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ اس کی انگلی میں سلور کلر کی سفید نگینوں کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔ کلائی میں کریمی کلر کے موتیوں کا ایک بریسلیٹ اس کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔ دوسری کلائی میں اسٹیل کی کڑے نما گھڑی تھی۔ ناخنوں پر بہت ہی ہلکے رنگ کی نیل پالش تھی۔’’ (۳۲)
اسی طرح گھر کے باغیچے کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
‘‘گھر کا یہ باغیچہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی تجربہ کار ماہر کی زیر نگرانی لگایا گیا ہے۔ بھاری بھاری پہاڑی پتھروں سے اونچے اونچے ٹیلے ان پر اگتے ہوئے کیکٹس کے کانٹے دار پودے اریب قریب گھاس اور ننھے منھے پودے ایک طرف پھولوں کی کیاری دیوار کے ساتھ موتیا کے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں پودے قطار در قطار موجود تھے۔ آنگن کے آخری کنارے پر چمپا کلی اور رات کی رانی کے پودوں کی بہار آنگن کے مشرقی کناروں پر گیندے کے زرد پھولوں کی بہار مغربی حصے پر سورج مکھی کے لہلہاتے پودے یہ سب ایک اکیلی جان نے کیسے کیا اعجاز کے لیے یہ کسی حیرت سے کم نہ تھا۔’’ (۳۳)
افسانہ ‘‘ضمیر کا مجرم’’ میں حویلی کا منظر ملاحظہ ہو:
‘‘حویلی میں کئی دروقازے تھے ، پچاسیوں الماریاں تھیں، ہر برآمدے میں ایک ٹی وی سیٹ نصب تھا۔ تمام فرش قالینوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ گملوں اور راہداریوں میں گلاب ، گیندے، موتیے اور رت کی رانی کے پودے لگے ہوئے تھے۔ کمروں میں چار سو ریشم کے پردے لٹک رہے تھے۔ یہ کوئی حویلی ہے یا جنت۔’’ (۳۴)
عرفان زیبی کے منظر نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:
‘‘ زیب النساء زیبیؔ کی سامری سخن وری میں خود بینی کا ایک کارِ جنوں ہے اس میں جزئیات کی تصویر کشی اور مشاہدے کی نقش آرائی ہے۔’’ (۳۵)
اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں بلکتے ہوئے بچوں، سسکتی ہوئی ماؤں اور بوڑھے باپ کے خمیدہ کمر کے بوجھ کے مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے افسانے آنسوؤں کی تصویریں ہیں لیکن زیبیؔ ان آنسوؤں سے اپنی تصویروں کو اتنا دھندلا بھی نہیں دیتی کہ جس سے منظر پوشیدہ ہو جائے وہ اس میں مسکراہٹوں کے رنگ بکھیرتی ہے ۔ امید کی قلابازیاں اور رقص و سرور کے تراشے ہوئے بت بھی ان مناظر میں شامل ہیں۔ ان کی منظر نگاری زندگی کی حقیقی تصویروں سے روشناس کراتی ہے وہ خود مشاہدہ کرتی ہے اور پھر اپنے تجربے کے ذریعے سے اپنے مشاہدے کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہے۔ اس ضمن میں ان کا ورق ورق زندہ اور ہر افسانہ ایک حقیقی منظر پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ زیادہ تر افسانوں میں خود کلامی کی کیفیت ہے ان کے ہاں منظر نگاری کبھی کبھی غائب ہو جاتی ہے جس میں احساسات اور جذبات مناظر کی جگہ لے لیتی ہے لیکن جہاں منظر کے پیش کرنے پر آجائے تو پورا افسانہ منظر نگاری کا اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے۔ ان کے مناظر ہلکے ہلکے شیڈز کی مانند، جذبے اور خلوص کے رنگوں سے مزئین نظر آتے ہیں۔ جس میں ماں کی ممتا کے رنگوں نے ایک نور سا بھر دیا ہے اور یہ نور زندگی کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ جس سے افسانہ پڑھتے ہوئے قاری منظر میں ایسا کھو جاتا ہے کہ حقیقتوں کی اس وادی سے نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ افسانہ ‘‘شہ رگ پہ خنجر’’ سے منظر نگاری کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
‘‘ بچی کے منہ سے ماں کا دودھ چھوٹا تو وہ چیخ مار کر رونے کی کوشش کرنے لگی۔ روقیہ کی ممتا بچی کی بھوک پر بلک بلک کر یوں بہنے لگی کہ پل بھر میں ہی اس کی ساری قمیض دودھ سے تربتر ہو گئی اور دودھ کی لمبی دھار اس کے سینے اور پیٹ سے ہوتی ہوئی اس کے قدموں سے لپٹنے لگی۔’’ ۳۶)
منظر زندگی کی خوبصورتی ہے، زندگی کی سچائی ہے، زندگی کی تصویر ہے، زندگی اور کائنات کے درمیان تسلسل کے ربط کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ منظر انسان کو بینائی عطا کرتا ہے کیونکہ انسان جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے وہی منظر ہے یہ منظر خواہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو دیدۂ دل رکھنے والے ان مناظر کی تہہ میں اُتر کر زندگی کی سچائیاں تلاش کر سکتا ہے۔ افسانہ میں منظر نگاری ہی کی وجہ سے حقائق سامنے آتے ہیں۔ یہ حقائق تلخ ہو یا شیریں، معاشرے کا ہر فرد اسے محسوس کرتا ہے اور بعض اپنے جذبات پر قابو پا کر اس منظر سے پوری طرح لطف اندوز ہو کر افسانے سے اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ منظر نگاری کے حوالے سے زیب النساء زیبیؔ کے افسانے ایک تصویری البم سے کم نہیں ہیں انہوں نے معاشرے کی بدلتی ہوئی تصویریں، رویوں کے بدلتے ہوئے انداز اور معاشرتی اُصولوں سے انحراف کرتی ہوئی بے راہ رویوں کو اپنے افسانوں میں اس انداز سے پیش کیے ہیں کہ جس کا ایک ایک حرف کسی منظر کے جزئیات دکھائی دیتے ہیں۔
۵.۴ تجسس و جستجو:
تجسس افسانے کی جان ہوتی ہے اور زیبی نے اپنے افسانوں میں تجسس و جستجو سے جان پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ افسانے کے واقعات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تجسس سے کام لیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والا شروع سے لے کر اخیر تک کردار اور واقعات میں مگن رہے سب سے پہلے افسانے کے لیے جو عنوان چنا جاتا ہے اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے کہ وہ پر تجسس ہو اس لیے دلچسپی عنوان سے شروع ہو کر پورے افسانے میں ایک ایسی کیفیت پیدا کر دیتی ہے جو بنا پڑھے نہ رہا جائے۔ اس کے علاوہ زندگی کے انوکھے واقعات ، سیاسی کشمکش اور معاشرتی تلخ سچائیوں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ان واقعات میں کہانی کار رفتہ رفتہ قاری کو فکر کی لہروں میں تیرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور قاری ان واقعات (جو افسانے کا موضوع ہوتے ہیں) میں ایسے کھو جاتا ہے کہ ایک ایک کرکے زندگی کے رازوں سے پردہ اُٹھاتا ہے، جھانکتا ہے، دیکھتا ہے اور اسے اپنے اندر محسوس کرتاہے۔ احساس اور دلچسپی کی یہ دوڑ افسانہ نگار کے قلم سے لے کر قاری کے ذہن تک کا ہے کہ قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا ہونے والا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ ایسے کردار پیش کیے جاتے ہیں جو ہمارے ہی معاشرے سے ہوں، گوشت پوست کے ہوں، اچھائی اور برائی کے پتلے ہوں لیکن اُن کے احساس میں موجزن طوفان قاری کو کسی دوسری دنیا میں لے چلے ایسی دنیا جہاں پر اس کردار کے تخیلات بہتے ہیں جہاں پر ان کی خواہشیں ان کی مجبوریوں کی وجہ سے دم توڑتے ہوئے دکھائی دیں۔ زیب النساء زیبی نے ان تمام اُمور کو سامنے رکھ کر افسانہ تخلیق کیا ہے۔ ان کے عنوانات پر تجسس ، موضوع میں کشمکش اور کرداروں کی ذہنی سطح افسانے کو تجسس کے خزانے سے مالا مال کرتا ہے۔
اگر ان کے عنوانات پر غور کیا جائے تو ان میں بے شمار موضوعات اپنی ایک الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ عنوانات دیکھ کر ذہن میں کئی طرح کی کہانیاں انگڑائیاں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اتنے پر تجسس اور دلچسپ عنوانات چنے گئے ہیں کہ قاری عنوان کو دیکھ کر خود ایک کہانی کار بن جاتا ہے اور اس عنوان کے تحت کئی کہانیاں اپنے ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تخلیق کرتا ہے یوں پر تجسس عنوان کا سب سے بڑا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پڑھنے والے کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ اس مین چھپے ہوئے کہانی کار کو بیدار کیا جائے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اس عنوان میں کس موضوع پر بات کی ہوگی؟کس واقعے کو بیان کیا ہوگا؟ کس انداز سے بیان کیا ہوگا؟ اس کہانی میں کونسے کردار ہوں گے؟ کس سطح کے کردار ہوں گے؟ ان کرداروں کی معاشرے میں حیثیت کیا ہوگی؟ ان کرداروں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کس نوعیت کے ہوں گے؟ اور آیا وہ ان حادثوں سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب بھی ہو سکیں گے یا نہیں؟ یہ اور ان جیسے کئی سوالات عنوان کو پڑھتے ہی ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ذہن افسانہ پڑھنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ زیب النساء زیبی کے افسانوں کے عنوانات اس حوالے سے تجسس سے بھرپور ہیں۔ عنوان دیکھنے سے افسانے کے متعلق اس قسم کے سوالات ذہن میں اُبھر کر سوچنے کے کئی در وا کر دیتے ہیں۔ ان کے بہترین عنوانات میں سچائی، ڈبل ہیروئن، اے سی روم، قتل، لاٹری، اعتراف، ذرا سی بے وفائی، پتھر کا بت، طلاق یافتہ فارنر، نو ویکنسی، خانہ بدوش، بیوٹی کوئین، گرداب، ایک بہن اور نیٹ، فیصلہ، دوراہا، روگ، پچھتاوا، سزا، سپنوں کی رات، خلش، گل جانہ، اتوار کی ڈیوٹی، شہ رگ پہ خنجر، میں بچہ تو نہیں، موت کا سفر، بھیڑیوں کے نگر میں ہرنی مر گئی، تماشہ، بھوک اور روپ بہروپ شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زیب النساء زیبی نے اپنے افسانوں میں پر تجسس واقعات بھی پیش کیے ہیں۔ واقعات کی کڑیاں اس انداز سے جُڑے گئے ہیں جس سے کشمکش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘آستانہ’’ نہایت اہم ہے۔ اس افسانے میں زیبی نے شروع سے لے کر آخر تک تجسس کو برقرار رکھا ہے اور افسانے کے ختم ہونے پر بھی تجسس برقرار رہتی ہے۔ جس سے پڑھنے والے کے ذہن پر بہت سارے سوالات نقش ہو جاتے ہیں۔ اس افسانے میں آفتاب کا ایک کردار ہے جو نفسیات کا طالب علم ہے اور ریسرچ کے سلسلے میں ایک ماہر نفسیات چوہدری صاحب سے ملتا ہے۔ ان دونوں کی ملاقات کی فضا اس افسانے میں دکھائی نہیں دے رہی لیکن ملاقات کے بعد آفتاب کی کیفیت یوں ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم ہی چھوڑ دیتا ہے اور برسوں بعد جب اس کا بیٹا مہتاب بھی اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی ماہر نفسیات اسلم چوہدری سے ملنے کا خواہشمند ہوتا ہے اور جب ملاقات ہو جاتی ہے تو ان کا حال آفتاب سے کہیں بد تر ہوتا ہے دونوں ملاقاتوں کا پر تجسس حال ملاحظہ ہوں:
‘‘پھر ایک دن اس کی ملاقات چوہدری صاحب سے ہو گئی لیکن وہ اس کی پہلی اور آخری ملاقات تھی وہ انتہائی پژمردہ قدموں سے اپنے گھر کی طرف روں تھا گھر پہنچ کر اس نے اپنے سال بھر کی محنت کو آگ میں جھونک دیا صبح سے سلمیٰ کئی بار آفتاب کے سامنے کھانا لا کر رکھ چکی تھی لیکن آفتاب کو بھوک ہی کہاں تھی؟ وہ رات آفتاب نے جاگ کر گزار دی کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آفتاب اتنا اپ سیٹ کیوں ہے۔’’ (۳۷)
اس کے بعد مہتاب (آفتاب کے بیٹے) کی ملاقات اور اس کے بعد کا تجسس ملاحظہ ہو:
‘‘مہتاب کئی روز سے اسلم چوہدری صاحب سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخر آج اس کی ملاقات ان سے ہو ہی گئی۔ لیکن جب سے مہتاب گھر لوٹا تھا سخت مضطرب اور پریشان تھا آج پہلی بار وہ اپنے باپ آفتاب کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا آفتاب کو سمجھ نہیں آ یا کہ اچانک مہتاب کو یہ کیا ہو گیا؟ وہ بہکے بہکے انداز میں کہہ رہا تھا ابو اب صرف آپ ہی مجھے بچا سکتے ہیں۔ اس نے میری زندگی تباہ کی تھی میں نے اسے تباہ کر ڈالا میں نے اسے مار دیا میں نے اسے مار دیا۔’’ (۳۸)
اس پیراگراف کو پڑھتے ہوئے ذہن تجسس کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے کہ اگر مہتاب نے چوہدری کو مار دیا تو کیوں؟ آخر کون سی بات تھی جس کی وجہ سے اسے اتنا بڑا قدم اُٹھانا پڑا؟ اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ملتا اور قاری افسانہ ختم کرنے کے بعد بھی تجسس کی گہرائیوں کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ‘‘تشکر کے آنسو’’ کے واقعات بھی تجسس سے بھرپور ہیں۔ افسانے کا ابتدائیہ کچھ اس انداز سے ہے کہ جیسے ویران سڑکیں، سنسان راہیں، اور کھڑکیوں سے روشنیوں کا جھانکنا اور اس کے بعد ارشد کو بد معاشوں کے ہتھے چڑھ جانا سوچ کے تاروں کو مرتعش کر دیتا ہے اور یہی ارتعاش رفتہ رفتہ پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ یہاں پر افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر افسانے کو پر تجسس بناتی ہیں۔ افسانے سے ایک مثال ملاحظہ ہو:
‘‘گاڑی کے رکتے ہی اس گاڑی میں سے تین مسلح بدمعاش برقی سرعت سے نکل کر اس کی گاڑی کے پاس آئے اور گاڑی کو نرغے میں لے لیا۔پھر ایک بدمعاش نے ڈاکٹر ارشد کی کنپٹی پر پستول رکھ دی۔ ڈاکٹر ارشد کے جسم پر ایک سرد قسم کی سنسنی پھیل گئی اور اس کی رگوں میں لہو منجمد ہو گیا۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ بد معاش موت کا فرشتہ ہو۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ بد معاش اسے اور اس کی گاڑی کو اسلحے کے زور پر لوٹ لینا چاہتے ہیں۔ اس شہر میں کیا پورے ملک میں آئے دن ایسی وارداتیں روزمرہ کا معمول ہیں۔ ’’ (۳۹)
اس واقعے کے بعد قاری کا تجسس بڑھ جاتا ہے اور وہ افسانے کو پورے انہماک سے پڑھنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر ارشد کا اغوا ہو جانا اور پھر اس کا بڑے بدمعاش (سردار) کے بازو سے گولی نکال کر اسے اس کی موت کی خبر دینا اور پھرافسانے کے آخر میں سردار شاہ کا تمام برائیوں کو ترک کرکے ایک اچھا شہری بننا تجسس کی فضا پیدا کر نے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس تجسس کی وجہ سے پورا افسانہ پڑھنے والے کو اپنی سحر میں گھیر لیتا ہے۔اس کے علاوہ افسانہ ‘‘پتھر کا بت، کرپشن کا سیلاب، طلاق یافتہ فارنر، ادھوری عورت، انقلاب انقلاب، خانہ بدوش، مرد بچہ، گرداب، ایک بہن اور نیٹ، دوراہا، قدرت کا انتقام، ضرورت، سزا، گل جانہ، میڈم، گاٹی، گھومنی، تماشہ اور فیصلہ تجسس سے بھرپور افسانے ہیں جس میں زیب النساء زیبیؔ نے اپنی پوری مہارت اور فکر کی جولانیوں سے تجسس پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان افسانوں کے واقعات اس انداز سے پیش کیے گئے ہیں کہ جن میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی برائیاں دھیرے دھیرے پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔اس حوالے سے زیبی نے اپنی مہارت سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے اور اس میں وہ کامیاب نظر آتی ہیں۔
عنوانات اور واقعات کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں کے کردار بھی بڑے عجیب و غریب ہیں۔ یہ کردار اپنے معاشرے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی ایک انجان سے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں اور ان کا یہ خوف افسانے میں تجسس کے بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔ افسانہ نگار نے کہانی کی بُنت میں کرداروں سے بھی تجسس پیدا کیا ہے ایسے کردار تراشے ہیں کہ جن کے نام اور کام بالکل الگ ہیں۔ اس ضمن میں پاگل عورت کا کردار بہت اہم ہے۔ جو قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ پاگل پن کی وجہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پورا افسانہ ختم ہو جاتا ہے لیکن وہ پاگل ہی رہتی ہے۔ سماجی برائیاں اور بے حسی بے بس انسانوں کو پاگل کر دیتی ہے۔ اور پاگل عورت کا کردار بھی اس بے بسی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہاں پر تجسس بھر لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ زخمی ہو جاتی ہے اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہوتی ہے۔ بھوک کی حالت میں پاگل عورت کے کردار سے کس طرح زیبی نے تجسس پیدا کیا ہے ملاحظہ ہو:
‘‘ اس پر موت کا سا سکوت طاری ہو گیا اس نے دیکھا کہ وہی پاگل عورت ایک ٹیکسی کے نیچے آگئی اور پھر پندرہ دن تک وہ عورت صائمہ کی نظروں سے اوجھل رہی۔ اور پھر اس ایک دن اس نے دیکھا کہ وہی عورت فٹ پاتھ پر گھسیٹ رہی ہے کچھ فاصلے پر اس کا تین سالہ بچہ ایک روٹی کا ٹکڑا چبا رہا ہے۔ وہ گھسٹ گھسٹ کر بچہ تک پہنچ کر روٹی کا ٹکڑا حاصل کرنا چاہتی تھی۔’’ (۴۰)
اس کردار کے علاوہ دوسرے ایسے کئی کردار ہیں جن کو پیش کرتے ہوئے افسانہ نگار نے اپنی ذہنی کشمکش اور کرداروں کی ذہنی حالت کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے کبھی کبھی تو یہ کردار کہانی میں ایک عام کردار کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں لیکن کبھی ایسے واقعات رونما کر دیتے ہیں کہ ذہن کے گرد سوالات کے انبار لگا دیتے ہیں۔ ان کرداروں میں نازش، زرتاب، شہلا، سائیں میر بخش، نادرہ، سردار شاہ، نوراں (رانی)، صبا، سراج (مساج ایکسپرٹ مین)، محمد فقیر شاہ، نیناں، صادق، سیما، نبیل، عمیر، نسرین، شمع، ندا اُفق، ثناء، میڈم، حمید ، زیتون اور ان جیسے کئی دیگر کردار پڑھنے والے کو محوِ حیرت کر دیاہے۔ تجسس بھرے یہ کردار اپنے دور کی عکاسی کرتے ہوئے پیش کیے گئے ہیں۔ زندگی اورزندگی سے ان کا رشتہ، حیرت اور تجسس کی پھلکاریوں کو جنم دے کر افسانے کی بنت کی گئی ہے۔ زیبیؔ ایک ایسی کہانی کار کی صورت میں سامنے آتی ہے جو اپنی شخصیت کے مطابق کرداروں سے کام لیتی ہے۔ جس طرح کہ ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کے کئی پہلو ہیں اس طرح ان کے افسانے بھی فنی اصولوں پر پوری اُترتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے افسانے کی تجسس عصمت چغتائی کی یاد دلاتی ہے۔ جگہ جگہ پر واقعات کے بیان کرنے میں حیرت سے بھرپور فضا تخلیق کرنے کی کوشش میں مگن زیبی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہوئی تجسس سے بھرپور افسانے کی خالق کی صورت میں اُبھرتی ہے۔ تجسس جو افسانے کا خاصا ہے اور افسانے کے لیے ناگزیر ہے ۔ گو کہ تجسس کے بنا افسانے کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا اور اس کی اصل روح کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن زیبیؔ نے اپنے افسانوں میں اس حربے سے پورا کام لیا ہے اور یہی ان کا کمالِ فن ہے۔
۶.۴ تکنیک:
افسانہ لکھتے وقت افسانہ نگار مختلف تکنیک کا استعمال کرتا ہے جس سے ہر افسانے کا اپنا ایک مختلف رنگ ہوتا ہے۔ زیب النساء زیبی نے بھی اپنے افسانوں میں ان تکنیک سے کام لیا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے بیانیہ تکنیک کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں کہانی راوی کی بیان کردہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ راوی کہانی سنا رہی ہے اور کہانی سناتے سناتے کرداروں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے اور واقعات بھی قلمبند کر رہی ہیں۔ بیانیہ تکنیک کے حامل افسانوں میں احساس کے زخم، سچائی، جاگتے لمحے ، راز، ذرا سی بے وفائی، وہ پھول تھی یا بھول، ہماری بے زبانی دیکھتی جاؤ، پچھتاوا اور مزدور شامل ہیں۔ ان افسانوں میں راوی کا کردار صرف اس حد تک نظر آتا ہے کہ جس نے فقط کہانی بیان کی ہے باقی وہ مختلف کرداروں کے ذریعے رونما ہونے والے واقعات کو پیش کرتی ہوئی کہانی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بیانیہ تکنیک سے زیب النساء زیبی نے تقریباً اپنے تمام افسانوں میں کام لیا ہے مگر یہ چند مذکورہ افسانے خالص بیانیہ تکنیک کے حامل ہیں۔
بیانیہ تکنیک کے ساتھ ساتھ زیب النساء زیبی نے بعض ایسے افسانے بھی تخلیق کیے ہیں جو خالصتاً مکالماتی تکنیک کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں انہوں نے شروع سے لے کر اخیر تک صرف مکالموں کے ذریعے معاشرے کے حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے اور یہ مکالمے کسی دو کرداروں کے مابین پیش کیے گئے ہیں اور یہی دو کردار ہی پورے افسانے کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان افسانوں میں نو ویکنسی، ایک بہن اور نیٹ اور گدھے اور گھوڑے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں ایک نیا تجربہ جو ان کے ہاں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مکالمے براہِ راست نہیں بلکہ ایس ایل ایس کے ذریعے ہوئے ہیں۔ افسانہ ‘‘نو ویکنسی’’ میں فیصل اور سراج (مساج ایکسپرٹ مین) کے مابین مکالمہ ہے۔‘‘ایک بہن اور نیٹ’’ میں سیما اور نبیل کے مابین مکالمہ کرکے معاشرے کی تلخ حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے اور نئی نسل کی ذہنیت اور رشتوں کے تقدس کی پائمالی اس افسانے کا موضوع ٹھہرا ہے۔ اس طرح کی کہانی میں کرداروں کے نفسیات کو مکالموں کے ذریعے سے آشکارا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افسانہ ‘‘گدھے اور گھوڑے’’ میں یوشا اور ہینڈ سم مین کے مکالمے کے ذریعے سے جدید دور کی ذہنیت اور جوانوں کی نفسیات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ افسانے خالص مکالماتی تکنیک کے حامل ہیں جس میں افسانہ نگار نے نہایت محنت سے کام لیا ہے۔
اس کے علاوہ منظر نگاری کی تکنیک سے بھی زیب النساء زیبی نے اپنے افسانوں کو بامِ عروج پر پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری نہ صرف یہ واقعات پڑھتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس بھی کرتا ہے۔ اس طرح کرداروں کے پیش کرتے ہوئے ان کے سراپےا ور منظر کو پیش کرتے ہوئے ارد گرد ماحول کی عکاسی زیب النساء زیبی کے فن کو اور بھی تقویت بخشتی ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے ڈبل ہیروئن، دنیا کے روپ نرالے، تشکر کے آنسو، پتھر کا بت، طلاق یافتہ فارنر، بیوٹی کوئین، پونم کی رات، فیصلہ، دو راہا، ضمیر کا مجرم، مزدور، واہ ری قسمت، گرل فرینڈ اور موت کا سفر اہمیت کے حامل ہیں۔ بطورِ خاص ان افسانوں میں اگر دیکھا جائے تو مناظر کے پیش کرنے پر زیب النساء نے زیادہ محنت کی ہے اور پورے جزئیات کے ساتھ مناظر کو بڑی باریکی سےپیش کیا ہے۔ ان کے افسانے تکنیک کے حوالے سے بیانیہ تکنیک، مکالماتی تکنیک اور منظر نگاری کی تکنیک کے حامل افسانے ہیں اور افسانہ نگار نے ہر تکنیک کے تحت افسانہ لکھتے وقت فنی ڈھانچے کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ جس نے ان کے افسانوں کوفن کے نئے رنگوں سے روشناس کرایا ہے۔
۷.۴ اختصار:
افسانے کی فنی خوبیوں میں ایک خوبی اختصار بھی ہے۔ افسانے میں دیگر اصناف کی بہ نسبت کفایتِ لفظی سے کام لیا جاتا ہے۔ پہلے جب لوگوں کے پاس کافی وقت تھا اور اکثر اوقات فراغت میں گزارتے تھے اس وقت زیادہ تر لوگوں نے داستان لکھنے اور پڑھنے پر توجہ دی۔ داستان جو کہ کافی طویل ہونے کے ساتھ ساتھ قصہ در قصہ اور بے شمار کرداروں کے حامل ہوتے تھے اس کے بعد زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے ناول اور پھر جدید افسانہ لکھا جانے لگا۔ افسانہ جو کہ ایک مختصر صنف ہے اور اس کی تعریف میں بھی یہ باتشامل ہے کہ افسانہ ایسی کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جائے۔ اس طرح افسانہ نگار کہانی لکھتے وقت کم سے کم لفظوں میں بڑی سے بری بات بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افسانہ غزل کی طرح محدود الفاظ کا حامل ہوتا ہےا س میں اختصار کو مدِ نظر رکھ کر بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس حوالے سے محمد افتخار شفیع لکھتے ہیں:
‘‘‘‘افسانہ’’ اردو کی شعری صنف‘‘غزل’’ کی مثال ہے جس میں اختصار کے ساتھ کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ کفایتِ لفظی سے عبارت ہے۔’’(۴۱)
جدید دور کے افسانہ نگاروں میں زیب النساء زیبیؔ نے بھی مختصر افسانے لکھے ہیں ان کا اختصار ہی ان کے افسانے کی خوبی گردانی جا سکتی ہے۔ انہوں نے جہاں بہت سارے افسانے لکھے وہاں بطورِ خاص یہ بات ان کے مدِ نظر رہی ہے کہ ان کے افسانے کے واقعات جامع الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔
الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے اگر زیبی کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے الفاظ کے چناؤ میں بڑی احتیاط برتی ہے۔اور بڑی سے بڑی بات کم سے کم لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مختصر افسانوں میں سچائی، جاگتے لمحے، لاٹری، آستانہ، اعتراف، یہ حسین چہرے، نو ویکنسی، وہ پھول تھی یا بھول، اختلاف، خواہش، خوف، ضمیر کا مجرم، مزدور، عزم، گرل فرینڈ، حسن و حسنہ، مال بردار جانور، میں بچہ تو نہیں اور زندگی اہم افسانے ہیں ۔ ان افسانوں میں ایسے مانوس الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے کہ ان میں واقعات بھی آسانی سے سموسکیں اور کرداروں کے نفسیات بھی ظاہر ہو سکیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اختصار کو مدِ نظر رکھ کر تجسس کی فضا بھی پیدا کی ہےا ور پلاٹ پر کوئی چوٹ بھی نہیں آنے دی۔ ان کے دوسرے افسانے بھی اختصار کے حوالے سےفنِ افسانہ پر پورات اُترتے ہیں لیکن مذکورہ افسانے ان افسانوں سے بھی زیادہ مختصر، جامع اور اعلیٰ پائے کے افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ ان افسانوں میں جو سب سے کمال کی بات ہے وہ یہ ہے کہ مختصر ہونے کے باوجود افسانے کی کہانی میں کوئی جھول نظر نہیں آتا اور کہانی کو پیش کرتے ہوئے قاری کو کہیں پر بھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ افسانہ نگار نے اختصار کو ملحوظ رکھنے کی خاطر کہانی کے ربط کو متاثر کیا ہے۔ زیب النساء زیبیؔ کے افسانے باقی تمام فنی اصولوں کے ساتھ ساتھ اختصار کے بھی حامل ہیں اور یہ مختصر افسانے ان کے کمالِ فن کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
۸.۴ اسلوبِ بیان:
کسی بھی فن پارے کے لکھنے کے انداز کو اسلوب کہتے ہیں یعنی طرزِ تحریر یا اندازِ بیان۔ کہانی میں سب سے اہم عنصر اس کا طرزِ تحریر یا اندازِ بیان ہوتا ہے۔یہی انداز ہی ہے جو کہانی کو دلچسپ بناتا ہے۔ پہلے پہل لوگ کہانیاں سناتے تھے جس کے سننے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی وجہ بھی یہی انداز بیان ہی تھی ۔ کہنے والے سننے والوں کو اپنی لفظوں کے سحر میں ایسے گرفتار کر لیتے تھے کہ سننے والے دور دور سے آتے اور کہانیاں سنتے تھے اس کے بعد داستان وجود میں آئی اور وقت کے ساتھ ساتھ مختصر ہوتی ہوئی ناول اور پھر افسانہ کی صورت اختیار کر گئی۔ اس ارتقائی مرحلوں میں جہاں مختلف اصناف کی ساخت اور کہانیوں کے کردار میں تبدیلی آتی گئی وہاں اس کے اسلوب میں بھی فرق نمایاں ہے۔ پروفیسر وقار عظیم اس حوالے سے لکھتے ہیں:
‘‘کہانی ارتقاء کی ان گنت منزلیں طے کرتی ہوئی اب ایسے مقام پر پہنچی ہے کہ اس کے کہنے کی ہزار قسمیں اور ہزار طریقے ہیں اور ہر طریقہ، قسم اور اسلوب دوسرے سے زیادہ لطیف اور نازک اور اس لیے اس کے پرکھ کی کوئی ایسی کسوٹی بنانا اور کوئی ایسا معیار مقرر کرنا جسے اچھے اوربرے کی تمیز کا یقینی وسیلہ کہا جا سکے دشوار اور بعضوں کے نزدیک ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک چیز جو فن کے اس ہونے یا نہ ہونے میں یکساں موجود ہے اور وہ کہانی کہنے کا ایسا انداز اور ایس طریقہ جو سننے والے کو اپنی طرف کھینچےاور پھر کسی اور طرفنہ جانے دے اس چیز کا نام حسن بیان ہے۔ ’’ (۴۲)
کہنے اور لکھنے کے معیار کو ہم لفظوں میں تولتے ہیں اور لفظوں کے معیار ہی کہانی میں جان پیدا کردیتی ہے۔ اس ضمن میں جن افسانہ نگاروں کے افسانے ادبی لحاظ سے معیاری کہلائے ان میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے اسلوب کا ہے۔ بہترین اسلوب ہی افسانے کا معیار متعین کرتا ہے اور افسانہ نگار کی قابلیت کو آشکارہ کرتی ہے۔کوئی بھی کہانی کار اپنے انداز کو خواہ سادہ رکھے یا اسے رنگین بنائے، کہانی کو استعاروں سے مزین کرے یا اسے کنایوں کے پردوں میں لپیٹ کرپیش کرے، تشبیہات کے پھول سجائے یا مبالغے کے پہاڑ کھڑی کریں لیکن کہانی کو پیش کرنے کا بہتر سے بہترین انداز اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے بعض تو کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض اپنی فنی کمزوریوں کی وجہ سے ناکام گردانے جاتے ہیں لیکن کہانی لکھنے کا ڈھنگ برقرار رہتا ہے۔
۹.۴ سادگی اور سلاست:
اسلوبیاتی حوالے سے اگر زیب النساء زیبیؔ کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے اپنی کہانیوں کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں میں تشبیہات و استعارات، رمز و ایماء، کنایات، سادگی و سلاست، روانی اور کہیں کہیں پر رنگینیٔ اسلوب کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ان کا اندازِ بیان نہایت سادہ اور دلچسپ ہے کہانی لکھتے وقت وہ عام فہم الفاظ کا چناؤ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان الفاظ میں روز مرہ اور محاورے کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور کہیں کہیں پر بات سے بات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ ان کے افسانے اپنے سادہ اسلوب کی وجہ سے دھیمے پن سے مزین ہوجاتے ہیں۔ان کی تحریر کی سادگی ان کے افسانوں کو بوریت سے بچاتی ہے اور بے جا رنگینی سے انحراف کرکے ایک عام قاری کے لیے اپنے افسانے کو دلکش بناتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی واقعہ ہو ، کوئی بھی سانحہ ہو یا کوئی بھی غیر شعوری حادثہ زیب النساء زیبیؔ اسے سادہ اور سلیس انداز میں پیش کرتی ہے اور ان واقعات، سانحات اور حادثات تک پڑھنے والےکی رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ زیبیؔ اپنے افسانوں میں مشکل پسندی سے حتی الامکان دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں جو ان کی تحریر کی سادگی پر دلالت کرتی ہے:
‘‘ وہ طوفانی تھپیڑوں کے حصار میں گر چکی تھی، والدین کا بھرم کھونے اور بہن بھائیوں کی محبت کی نا قدری کی کس قدر تلخ سزا تھی یہ کتنی گھٹن منزل تھی نہ کوئی اپنا تھا، نہ بیگانہ، تنہائی کے غار میں وہ دھنستی چلی جا رہی تھی وہ حق کی آواز بلند کرے تو کس طرح؟ وہ کس کو منصف ٹھہرائے کس کی ترازو سے انصاف کی توقع رکھے۔’’ (۴۳)
‘‘پتھر کا بت’’ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘آہستہ آہستہ وہ محلے اور پڑوس سے واقف ہوتی جا رہی تھی۔ ان سے رسمی سلام علیک اور کچھ بات چیت بھی ہو جاتی تھی اور پھر وہ اکیلے جا کر ہندوستانی، پاکستانی دکانوں سے سودا سلف لے آتی تھی۔ بوندا باندی میں برساتی۔۔۔۔ سر پر دوپٹا اوڑھے۔۔۔۔۔ چھتری لیے اور ایک ہاتھ میں تھیلا لیے گھر سے نکلتی تھی۔۔۔۔۔ ایک بات یہاں کی بہت پسند آئی تھی کہ کوئی مول تول نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔ ہر دکان پر ایک ہی دام۔۔۔۔۔ بلکہ کسی کسی دوکان پر رعایت بھی مل جاتی تھی۔’’ (۴۴)
‘‘مرد’’ سے ایک مثال ملاحظہ ہو:
‘‘ کتنے گنگناتے اور مسکراتے ہوئے دنوں سے شفق اور احمر نے اپنی خوشگوار زندگی کا آغاز کیا تھا، زمانے بھر کی رکاوٹیں اور دیواریں ان کی چاہت کے درمیان حائل ہوئیں لیکن پیار اگر سچا ہو تو اسے منزل مل ہی جایا کرتی ہے۔ شفق کو جب سے احمر کا ساتھ ملا تھا زندگی میں رنگ ہی رنگ بکھر گئے تھے۔ سانولی سی رنگت والی شفق احمر کی محبت نے پیار کے رنگوں سے اسے اور حسین تر کر دیا تھا۔’’ (۴۵)
یہ اور ان جیسی کئی مثالیں ہیں جو زیبیؔ کے سادہ اور رواں اسلوب اور اُن کے فنی مہارت کا ثبوت ہیں۔ان اقتباسات کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو نہایت مختصر اور سادہ الفاظ میں کہانی کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے افسانوں کا ابتدائیہ ان کے اندازِ بیان سے ہی دلچسپ ہے۔ سادہ الفاظ کا بر محل استعمال زیبیؔ کے تمام افسانوں میں نمایاں ہے۔
۱۰.۴ تشبیہات و استعارات:
زیب النساء زیبی نے اپنے افسانوں میں تشبیہات و استعارات سے بھی کام لیا ہے۔ ان کے تشبیہات کہانی کو اور بھی خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ ان تشبیہات میں کبھی پھولوں جیسی رنگت، اور معصومیت دکھائی دیتی ہیں اور کبھی کتنے کی طرح غراتے ہوئے بے گناہوں کے لہو سے ہاتھ رنگے ہوئے بد معاش نظر آتے ہیں۔ کہیں پر کلیوں کا پھول بننے کے استعارے تراشے گئے ہیں تو کہیں پر گدھے اور گھوڑے کے استعارے بیان کرکے زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ زیبیؔ کے افسانے جہاں سادگی و سلاست کا آئینہ ہے وہاں تشبیہات و استعارات سے اس سادگی کو رنگینی بھی عطا کی ہے۔ ان کے تشبیہات اور استعارات کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
‘‘ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔! زخمی کسی شکاری کتے کے انداز میں غرایا۔‘‘ میرے بازو میں گولی گھس گئی ہے۔ اسے جلدی سے باہر نکالو۔’’ (۴۶)
‘‘وہ ایک انتہائی پر کشش لڑکی تھی۔ سفید براق دودھیا رنگت، ریشم سی نرم و نازک جلد، موٹی موٹی گہری شرابی آنکھیں، ستواں ناک، پنکھڑی جیسے لب ، پھولوں سے رخسار۔ ’’ (۴۷)
‘‘وہ گھومنی جز جز ہو کر کل بنتی ہے اور پھر کل کے حصار کو تھوڑ کر جز جز بن کر بکھر جاتی ہے۔ اس کی شخصیت ایک ہیرے کی سی ہے اس کے ہر پہلو سے الگ ہی رنگ پھوٹتا ہے۔ الگ ہی شخصیت نمودار ہوتی ہے۔ وہ بالکل جدا بھی ہے اور سب جیسی بھی ہے ساحل کے ساتھ پہلو بہ پہلو چلتی ہوئی لہروں کی طرح متحرک، بے بس تیز و طرار اور شوریدہ سر۔’’ (۴۸)
درج بالا اقتباسات میں کتے کی طرح غرانا، پنکھڑی جیسے لب، پھولوں سے رخسار، ہیرے اور لہروں تشبیہات ہیں جسے زیبی نے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں بیان کیے ہیں جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ زیبیؔ کو تشبیہات کے استعمال پر پورا عبور حاصل ہے وہ جب چاہے نئے اور انوکھے تشبیہات بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ جس سے ان کی زبان دانی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے استعارات بھی ان کے افسانوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ ذیل میں ان کے استعارات کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
‘‘ یہ تو میری سدا بہار کلی ہے۔۔۔ کچی کلی۔۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ پھول بن چکی ہے۔’’ (۴۹)
‘‘گھومنی مسکرانے لگی۔ قہقہے لگانے لگی اور پھر اپنی کتاب حاصل کرلی ادب، شاعری، سیاست، معاشرت، مذہب اور تصوف کو اس نے اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔’’ (۵۰)
درج بالا اقتباسات میں کلی استعارہ ہے جس سے مراد جوانی ہے اور گھومنی افسانہ نگار نےاپنی ذات کے لیے بطورِ استعارہ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح کے نادر اور انوکھے استعارات جگہ جگہ پر ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ استعارات انہوں نے عام بول چال کے انداز میں پیش کیے ہیں۔ جس سے ان کے اسلوب کی روانی بھی برقرار رہتی ہے اور ان کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیب النساء زیبی نے اپنے افسانوں میں جگہ جگہ روز مرہ محاورہوں کا استعمال کیا ہے۔ محاوروں کے استعمال میں انہیں خاصی مہارت حاصل ہے۔ یہ محاورے روزمرہ کے بول چال میں استعمال ہونے والے محاورے ہیں جیسا کہ ‘‘بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا’’ اور ‘‘اپنا الو سیدھا کرنا’’ وغیرہ۔ ان کے افسانے پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ جہاں پر تشبیہات و استعارات سے انہوں نے استفادہ کیا ہے وہاں پر انہوں نے محاورات استعمال کرکے افسانوں کی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے استعمال شدہ محاورات ملاحظہ ہوں:
‘‘مریم کا سر چکرایا اور وہ وہیں بے ہو شہ ہو گئی جب ہوش آیا تو وہ خالی خالی نظروں سے محمود کو دیکھ رہی تھی اسے محمود کے جملے کا مفہوم اب سمجھ میں آیا کہ ‘‘رابعہ تم مرد کی فطرت سے واقف نہیں اسے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا موقع ملے تو وہ کیوں فائدہ نہ اُٹھائے۔’’ (۵۱)
اسی طرح ایک اور جگہ محاورے کا استعمال دیکھیے:
‘‘اصل بات یہ ہے کہ ہم خود اتنے برے ہیں کہ ہمیں اچھے لوگوں سے واسطہ ہی نہیں پڑتا اور ہمیں جو بھی ملتا ہے ایک سے بڑھ کر ایک خود غرض مفاد پرست اور اپنا الو سیدھا کرنے والا ہوتا ہے۔’’ (۵۲)
درجہ بالا مثالوں کو پڑھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ زیبیؔ کو محاورات کے استعمال پر پورا عبور حاصل تھا اور انہوں نے اس فن سے پورا فائدہ بھی اُٹھایا ہے۔
۱۱.۴ رمز یت و ایمائیت:
زیب النساء زیبی کے افسانوں میں جگہ جگہ رمز و ایما سے کام لیا گیا ہے۔ رمز و ایما غزل کا خاصا ہے لیکن افسانے کے لیے بھی یہ اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ افسانہ ایک مختصر صنف ہے اور اس اختصار کی وجہ سے اس میں رمز و ایما کی کارفرمائی ضروری ہو جاتی ہے اس حوالے سے رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
‘‘رمز و ایماء مختصر افسانے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ غزل کی طرح افسانے میں بھی وضاحت سے کام نہیں لیا جاتا۔ مختصر افسانے میں کوئی واضح آغاز اور انجام نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات افسانے میں کسی واقعے یا کردار کو قارئین کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے اور قارئین خود ہی اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔’’ (۵۳)
اس طرح زیب النساء زیبی نے بھی یہ حربہ کئی افسانوں میں آزمایا ہے خصوصاً احساس کے زخم، جاگتے لمحے، آستانہ، نو ویکنسی، انقلاب انقلاب، وہ پھول تھی یا بھول اور پونم کی رات اس حوالے سے بہت اہم افسانے ہیں۔ ان افسانوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو جگہ جگہ پر قاری کے لیے سوچ کے دروازے کھولنے کا سامان فراہم کرتی ہے اور اشاروں میں بات کرکے پڑھنے والے کے ذمے کہانی کے نتائج چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم افسانہ ‘‘آستانہ’’ہے ۔ اس افسانے میں شروع سے لے کر اخیر تک رمز و ایما کو برقرار رکھا گیا ہے۔ آفتاب کا چوہدری سے ملنا اور پریشان ہونا اور افسانے میں پریشانی کا سبب نہ بتانا اور پھر یہی واقعہ آفتاب کے بیٹے مہتاب کے ساتھ بھی پیش آنا حیرت سے خالی نہیں ہے۔ اس افسانے کا آخری منظر بڑا عجیب و غریب ہے کہ جب مہتاب بے ہوش ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اسے مار دیا، میں نے اسے مار دیا اس کے بعد کا منظر ملاحظہ ہوں:
‘‘ آفتاب نے تیزی سے مہتاب کو ایک طرف ہٹایا اور گھر سے باہر کی جانب لپکے ان کا رُخ اسلم چوہدری کے گھر کی طرف تھا وہاں پہنچ کر انہوں نے جانے ان کے گھر والوں سے کیا کہا لیکن آفتاب احمد گھر واپس پلٹے تو خاصے مطمئن تھے صبح کے اخبار میں معروف نفسیات دان پروفیسر ڈاکٹر اسلم چوہدری کے قتل کے بجائے خودکشی کی خبر تھی اور ان کا آستانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا تھا۔ ’’ (۵۴)
اس افسانے میں آفتاب اور مہتاب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور اسلم چوہدری کی قتل کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے اور آخر میں قتل کے بجائے خودکشی کی خبر کا اخبار میں چھپنا حیرت کی بات ہے۔ اس طرح کے حیرت زدہ واقعات زیبی کے افسانوں میں جا بجا ملتے ہیں اور پڑھنے والے کو چونکا دیتے ہیں۔
۱۲.۴ پیکر تراشی:
زیبیؔ نے اپنے افسانوں میں لفظوں سے بہترین پیکر تراشے ہیں وہ جب بھی کسی کردار کا تذکرہ کرتی ہے تو پوری جزئیات کے ساتھ ان کا سراپا بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ ان کے اسلوب کی خاصیت ہے جو ہر افسانے میں پڑھنے والے کو کردار کے پورے نقشے سے روشناس کراتی ہے۔ افسانے میں لفظوں سے تصاویر کھینچنا اور پھر ان تصاویر میں رنگ بھرکے ان کے احساسات کو اُجاگر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے تاہم زیبی ؔ کا نےا س فن سے ہلکے ہلکے اور رنگین تصاویر تراشے ہیں جس سے ان کی سراپا نگاری کو بیان کرنے کے فن کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
‘‘وہ آف وائٹ کلر کی پینٹ پہنی ہوئی تھی اور اوپر جالی کی بہت چھوٹی سی کالی رنگ کی شرٹ تھی جس کے نیچے سفید رنگ کا بنیان تھا جو اس کی کمر پر آکر ختم ہو گیا تھا اور ہیپ کا حصہ پوری بناوٹ کے ساتھ نمایاں تھا۔ بلیک رنگ کا ایک اسکارپ بھی تھا۔ گود میں رکھا ہوا بیگ ایک اچھے قسم کے لیدر کا تھا اور قیمتاً بھی خاص مہنگا تھا۔’’ (۵۵)
سراپا نگاری کی ایک اور مثال:
‘‘وہ سانولا سا حسن لافانی چاند کی ٹھنڈی کرن کی مانند عصمت کے وجود کو مسحور سا کر گیا۔ کمر پر لہراتی لمبی چوٹی پر موتیا کے کلیوں کی بہار ساڑھے پانچ فٹ کا قد بھرپور سراپا، پتلی نازک سی بل کھاتی ہوئی کمر، قوسِ قزح کے رنگوں کی ساڑھی اس کے نازک وجود کو بار بار چھیڑ کر شرارت سے ہوا میں لہرانے لگتی۔ خوبصورت چمکتے ہوئے ہاتھوں پر بہار دیتی ہوئی نیل پالش کے شوخ رنگ اس کی مخروطی انگلیوں میں نغمے کی لے اور غنائیت کو اور اُجاگر کر رہے تھے کلائیوں سے لپٹے ہوئے پھولوں کے گجرے اور ان کے ساتھ دھنک رنگ کانچ کی چوڑیاں اس کا روپ مجسم شعیرت تھا اور وہ مکمل غزل۔’’ (۵۶)
زیبیؔ نے تقریباًتمام افسانوں میں اس قسم کی سراپا نگاری کا ثبوت دیا ہے۔ سراپا نگاری میں زیبی کا کمال یہ ہے کہ سراپا بیان کرتے کرتے مختلف نئے اور انوکھے تشبیہات سے اس پیکر میں خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔ افسانہ نگاری میں سراپا نگاری کا فن زیبیؔ کے لیے کو خاص مشکل کام نہیں ہے اور اس کی وجہ ان کا عورت ہونا ہے۔ کیونکہ ایک عورت ہی عورت کے پورے نقشے کو من و عن بیان کر سکتی ہے۔ اور ایک عورت کی طرح زیبیؔ نے بھی ان کے کمر، ساڑھی، موتیا کے لگے پھول، نیل پالش اور کلائیوں سے لپٹے ہوئے پھولوں کے گجرے اور اس کے ساتھ ساتھ کپڑوں اور اس کی کوالٹی کو بیان کیا ہے۔ ہر ایک چیز پوری جزئیات کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
زیب النساء زیبی کے اسلوب سے ان کی زبان دانی کا ثبوت ملتا ہے وہ جو بات کہنا چاہتی ہے اسے خوبصورت اسلوب کا جامہ پہنا کر تشبیہات و استعارات سے مزین کرتی ہے، کہیں کہیں پر محاورات کا استعمال کرکے اس میں جان ڈال دیتی ہیں اور سراپا نگاری سے کرداروں کی تصویر کشی کرکے افسانوں کو دلچسپ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم لکھتے ہیں:
‘‘ان کا زبان دانی کا ہنر، طرزِ تحریر، اسلوبِ بیان، اس عہد میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ہر صنف میں وہ اپنے بھر پور تأثر اور انفرادی وجود و مکمل عکس کے ساتھ اُبھرتی ہیں ان کا محنت طلب اور انفرادی کام تاریخِ ادب کا اہم حصہ بن کر ہمیشہ قائم و دائم رہے۔’’ (۵۷)
زیب النساء زیبیؔ کے اسلوب کے متعلق ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
‘‘زیب النساء زیبیؔ کلاسیکی رویوں سے بھی انحراف نہیں کرتی اور موجودہ عہد کی جدت پسندی اور وسعت بیانی کے فن سے بھی خوب شناسا ہیں۔ ان کے اسلوب میں کوئی داؤ پیچ ، کوئی الجھاؤ نہیں وہ سچے کھرے لب و لہجے اور اسلوب میں فکر کی بلندی کی قائل ہیں۔’’ (۵۸)
زیب النساء زیبیؔ کے اسلوب کے تمام تر محاسن ان کے افسانوں میں پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے افسانوں میں جہاں سلاست اور سادگی کو مدِ نظر رکھا گیا ہے وہاں پر کہیں کہیں مبالغے کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ بعض واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور کہیں کہیں پر بعض کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کرنے میں بھی مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ مبالغہ آرائی جو کہ ادب میں بطورِ خاص ہر صنف کو نئے رنگوں سے روشناس کراتی ہے۔ اور اس کی ضرورت شاید اس وجہ سے ہے کہ ادب کو پڑھنے والا اس سے پوری طرح محظوظ ہو سکے اور یہی حظ ہی ان کے ذوق کو تسکین پہنچا سکتا ہے۔
زیب النساء زیبیؔ کے افسانے کردار کے پیش کرنے میں، مکالمہ کی مٹھاس سے، تجسس کی وادیوں اور اسلوب کی سادگی اور اس سادگی میں چھپے ہوئے تشبیہات و استعارات کے ذریعے سے بامِ عروج کو چھوتے ہوئے دکھائے دے رہے ہیں۔ ان کے افسانے ان کی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان افسانوں میں جہاں انہوں نے بہترین کردار نگاری کی ہے وہاں ان کرداروں سے شستہ اور برجستہ مکالمے بھی کہلوائے ہیں یہ مکالمے ان کرداروں کی نفسیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ تجسس بھرے افسانے ان کے کرداروں کی ذہنی کشمکش ، تنہائی، احساسِ محرومی اور افلاس کے سائے میں نشو و نما پاتے ہوئے مجبوروں اور بے بسوں کا نوحہ سناتے ہوئے اپنے دور کی عکاسی کرتے ہیں۔ زیبیؔ کا اسلوب رواں اور سلیس ہے اور اپنے اسلوب کو ضرورت کے وقت مختلف تشبیہات و استعارات سے مزین کرتی ہوئی اپنے عمیق مطالعے اور گہرے تجربے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ زیب النساء زیبی کے افسانے جہاں فکری حوالے سے معاشرے کے لیے ایک پیغام ہیں وہاں فنی حوالے سے بھی اس دور کے شاہکار افسانوں میں اپنا نام رقم کرتے ہیں۔ یہ افسانے آنے والے افسانہ نگاروں اور افسانے کے طالب علموں کے لیے علم و تحقیق کے نئے در وا کرنے کا کام دیں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ زیب النساء زیبی کے افسانے فنی لوازمات سے بھرپور ہیں اور اپنی فنی مہارت سے اپنے افسانوں کی وقعت میں اضافہ کرنے کی انہوں نے بھرپور کوشش کی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۲۹
۲۔ پروفیسر سید احتشام حسین ، اردو افسانہ۔۔۔۔ ایک گفتگو، مشمولہ اردو نثر کا فنی ارتقاء، مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۰۔ ۱۱
۳۔ محمد افتخار شفیع، اصنافِ نثر، میٹرو پرنٹرز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۴۶۔۴۷
۴۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی، اردو افسانہ نگاری کے رجحانات، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۹۹ء، ص ۴۹
۵۔ زیب النساء زیبی، راز، مشمولہ عکسِ زندگی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص۶۸
۶۔ زیب النساء زیبی،ڈبل ہیروئن، ص۴۳
۷۔ زیب النساء زیبی،افلاس کے سائے، ص۹۵
۸۔ زیب النساء زیبی،مرد بچہ، ص۲۵۷
۹۔ محمد افتخار شفیع، اصنافِ نثر، میٹرو پرنٹرز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۴۷
۱۰۔ وقار عظیم، داستان سے افسانے تک، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۶۶ء، ص ۱۹۹۔ ۲۰۰
۱۱۔ زیب النساء زیبی،سچائی، ص۳۹
۱۲۔ زیب النساء زیبی،دنیا کے روپ نرالے، ص۵۷۔۵۸
۱۳۔ زیب النساء زیبی،بیوٹی کوئین، ص۲۴۵
۱۴۔ زیب النساء زیبی،کرپشن کا سیلاب، ص۱۸۳۔۱۸۴
۱۵۔ زیب النساء زیبی،پھول بنے انگارے، ص۳۵۳
۱۶۔ زیب النساء زیبی،ممتا، ص۸۸۔۸۹
۱۷۔ زیب النساء زیبی،یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے، ص۸۴
۱۸۔ زیب النساء زیبی،یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے، ص۸۵
۱۹۔ زیب النساء زیبی،انقلاب، ص۱۱۲
۲۰۔ ایضاً، ص ۱۱۵
۲۱۔ زیب النساء زیبی،تشکر کے آنسو، ص۱۵۲۔۱۵۳
۲۲۔ زیب النساء زیبی،تشکر کے آنسو، ص۱۵۳۔۱۵۴
۲۳۔ زیب النساء زیبی،ادھوری عورت، ص۱۹۹
۲۴۔ زیب النساء زیبی،احساس کے زخم، ص۳۳
۲۵۔ زیب النساء زیبی،ذرا سی بے وفائی، ص۱۲۸
۲۶۔ زیب النساء زیبی،پتھر کا بت، ص۱۶۶
۲۷۔ محمد افتخار شفیع، اصنافِ نثر، میٹرو پرنٹرز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۴۷
۲۸۔ زیب النساء زیبی،یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے، ۲۰۱۴ء، ص ۸۳
۲۹۔ زیب النساء زیبی،ذرا سی بے وفائی، ص۱۲۷
۳۰۔ زیب النساء زیبی،تشکر کے آنسو، ص۱۵۱
۳۱۔ زیب النساء زیبی،پتھر کا بت، ص۱۶۵
۳۲۔ زیب النساء زیبی،طلاق یافتہ فارنر، ص۱۸۶
۳۳۔ زیب النساء زیبی،خوف، ص۳۲۹۔۳۳۰
۳۴۔ زیب النساء زیبی،ضمیر کا مجرم، ص۳۹۰۔ ۳۹۱
۳۵۔ عرفان، مشمولہ عکسِ زندگی، مصنفہ زیب النساء زیبی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص۲۸
۳۶۔ زیب النساء زیبی،شہ رگ پہ خنجر، ص۷۳۲
۳۷۔ زیب النساء زیبی،آستانہ، ص۱۱۸
۳۸۔ ایضاً، ص ۱۲۰
۳۹۔ زیب النساء زیبی،تشکر کے آنسو، ص۱۵۱۔۱۵۲
۴۰۔ زیب النساء زیبی،سچائی، ص۳۹۔۴۰
۴۱۔ محمد افتخار شفیع، اصنافِ نثر، میٹرو پرنٹرز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۴۷
۴۲۔ پروفیسر وقار عظیم، کہانی او رحسن بیان، مشمولہ اردو نثر کا فنی ارتقاء مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۳
۴۳۔ زیب النساء زیبی،جاگتے لمحے، ص۴۷
۴۴۔ زیب النساء زیبی،پتھر کا بت، مص۱۶۶
۴۵۔ زیب النساء زیبی،مرد، ص۴۸۱
۴۶۔ زیب النساء زیبی،تشکر کے آنسو، ص ۱۵۳
۴۷۔ زیب النساء زیبی،یہ حسین چہرے، ص۱۷۳
۴۸۔ زیب النساء زیبی،گھومنی ، ص۶۳۵
۴۹۔ زیب النساء زیبی،ادھوری عورت، ص ۱۹۰
۵۰۔ زیب النساء زیبی،گھومنی ، ص۶۴۰
۵۱۔ زیب النساء زیبی،اک عمر کی رفاقت ، ص ۵۷۲
۵۲۔ زیب النساء زیبی،خارش زدہ سیکشن، مص۵۷۹
۵۳۔ رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۳۰
۵۴۔ زیب النساء زیبی،آستانہ، ص۱۲۰
۵۵۔ زیب النساء زیبی،طلاق یافتہ فارنر، ص۱۸۶
۵۶۔ زیب النساء زیبی،سازش، ص۴۹
۵۷۔ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، مشمولہ عکسِ زندگی، مصنفہ زیب النساء زیبی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص۲۷
۵۸۔ ڈاکٹر انور سدید، مشمولہ عکسِ زندگی، مصنفہ زیب النساء زیبی، زیبی اینڈ عائزاز پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص۲۷