۱.۲ افسانہ : لغوی و اصطلاحی مفہوم :
۱.۱.۲ لغوی مفہوم:
لغوی اعتبار سے افسانے کے معنی جھوٹی کہانی یا قصے کے ہیں فیروز اللغات میں اس کے معنی یوں درج ہیں:
‘‘افسانہ: (اَفْ۔سَا۔نَہْ) [ف۔ ا۔مذ] (۱) داستان۔ قصہ۔ کہانی(۲) جھوٹی بات (۳) سرگزشت۔ حال۔ روئداد(۴) طویل بات (۵)ذکر۔مذکور۔چرچا’’ (۱)
نور اللغات میں اس کے مفہوم کی وضاحت کچھ یوں ملتی ہے:
‘‘افسانہ: (ف بالفتح) داستان۔ قصہ ۔کہانی۔ سرگزشت۔حال۔(روداد فلق’’)(۲)
ان لغات کے مطابق افسانے سے مراد جھوٹی کہانی ، سرگزشت، حال یا روداد کے ہیں ۔افسانہ واقعات اور حادثات کی سرگزشت ہے، حالات کے روداد ہیں اور کرداروں کی کہانی ہے۔
۲.۱.۲ اصطلاحی مفہوم:
افسانہ اس مختصر کہانی کو کہتے ہیں جس میں زندگی کا کوئی ایک پہلو بیان کیا جاتا ہے۔ افسانے میں حقیقی زندگی کا تصور نمایاں ہوتاہے اور اسی طرح کسی کردار کے ذریعے سے واقعات بیان کرکے اس میں سے معاشرے کے مسائل اور رسوم و رواج کو پیش کیا جاتا ہے۔ افسانہ اردو ادب کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ داستان اور ناول کے بعد اس نے مقبولیت حاصل کی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دوسری چیزوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اسی طرح ادب میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں بالکل اسی طرح نثر میں پہلے داستان گوئی تھی لوگ داستانیں سنایا کرتے تھے اس وقت لوگوں کے پاس وقت کی کمی نہیں تھی اس وجہ سے کافی ضخیم داستانیں وجود میں آئیں۔ داستانوں میں مختلف واقعات بیان کیے جاتے تھے جس میں سب سے منفرد واقعات وہ تھے جن میں، جن، پری، بھوت وغیرہ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ اسی طرح یہ خرقِ عادت واقعات پیش کرکرکے داستان طویل ہو جاتے تھے۔ داستان کے بعد ناول وجود میں آئی جو زندگی سے قریب تر ہے۔ ناول میں حقیقی زندگی کی عکاسی کی جاتی اور اس کے کردار بھی حقیقی دنیا سے متعلق تھے۔ ناول کے بعد افسانہ نے جنم لیا جسے انگریزی میں Short story کہا جاتا ہے۔عام طور پر ایک ایسی فرضی کہانی کو افسانہ کہا جاتا ہے جو حقیقت کے قریب ہوتی ہے اور اس میں زندگی کی تمام تر حقیقتوں کی عکاسی کی جاتی ہے۔افسانہ نگار اپنے گرد کے ماحول سے افسانے کا مواد حاصل کرتا ہے۔اور پھر اسی مواد کو اپنی فنی قوت کے ذریعے سے کرداروں اور واقعات کی شکل میں ضبطِ تحریر میں لاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ قدرے مختصر ہوتا ہے بعض نقاد کے مطابق افسانہ ایسی کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے۔بعض نے کہا کہ افسانہ ایسی کہانی ہے جو آدھے گھنٹے میں ختم کیا جاسکتا ہو ۔ اسی طرح اس کی سب سے بڑی خوبی ہی اس کا مختصر ہونا ہے۔ مختلف نقادانِ ادب نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
‘‘افسانہ (یا مختصر افسانہ)قصہ کہانی کی وہ شکل ہے جس کے لیے انگریزی میں Short Story کا نام استعمال ہوتا ہے۔ یہ داستان اور ناول کی ارتقائی اور ترقی یافتہ صورت ہے۔‘‘ (۳)
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں افسانے کی تعریف یوں کی گئی ہے:
The short story is a form of prose fiction and like the novel and novelette which are longer fictional forms. It is composed of certain mutually interdependent elements. The major ones are theme or the idea on which the story centres. Plots or the planned sequence of action, and setting or the time and place of the story. (۴)
ایڈ گرائلن پو کے خیال کے مطابق:
A short story is a prose narrativrequiring from half and hour to one hours in it perusal. (۵)
سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
‘‘کسی ایک واقعے، ایک جذبے، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصطلاحی مقصد، ایک رومانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ اور نمایاں ہو کر پڑھنے الے کے جذبات و احساسات پر اثر انداز ہو افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔’’ (۶)
افسانے کےمتعلق اس کے علاوہ بھی بے شمار لوگوں نے مختلف آراء قائم کی ہیں ۔ تاہم افسانہ وہ کہانی ہے جس میں کسی ایک واقعے یا کسی ایک کردار کے متعلق کہانی بیان کی گئی ہو۔ یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہوتی ہے خواہ اس کے کردار فرضی ہی سہی لیکن اسی طرح کے کردار معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں اور مختلف واقعات کے رونما ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ مختصر افسانہ ناول کی جدید شکل ہے جس میں سب سے اہم خوبی اس کے اختصار کی ہے ۔ افسانہ چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لیےاس کے تخلیق کرنے میں الفاظ کا چناؤ بڑے احتیاط سے کیا جاتا ہے کہ جس سے واقعات اور کرداروں کے مابین رشتہ قائم ہو سکے۔ افسانہ کے اختصار کو مدِ نظر رکھ کر اس کے فنی اصول بھی بنائے گئے ہیں۔ سب سے پہلے افسانے میں وحدتِ تأثر کا ہونا لازمی ہے کہ ایک افسانہ پڑھتے وقت زمانہ کا علم ہو کہ یہ کس معاشرے اور کس دور کی عکاسی کرتا ہے اس طرح اس میں جگہ کا تعین ہو جائے کہ یہ کس ملک ، کس صوبے یا کس علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کہانی ہے۔ اس کے علاوہ وحدتِ تأثر میں جو تیسرا جز ہے وہ وحدتِ عمل کا ہے کہ کہانی میں کونسا عمل اُجاگر کیا گیا ہے۔
داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ بنیادی طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ داستان میں تخیل اور تصور کی رنگینی، ڈرامے میں کوئی نہ کوئی کش مکش، ناول میں زندگی کی وسعت اور گہرائی اور افسانہ میں موضوع کی اکائی، یہ امتیازی اور انفرادی خصوصیات ہیں۔
افسانہ دوسری طرح کی کہانیوں سے اسی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقعہ، ایک ذہنی کیفیت، ایک جذبہ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو، ایک ہو۔ افسانے کی یہ خاصیت کہ یہ اپنے اختتام پر قاری کے ذہن پر واحد تاثر قائم کرتا ہے، وحدتِ تاثر کہلاتی ہے۔
پلاٹ کسی بھی ادبی صنف میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔فنی اعتبار سے پلاٹ افسانے کا اہم جز ہوتا ہے۔ اس میں واقعات کی فنی ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔افسانے میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے واقعات میں تنظیم ہو تب ہی کوئی پلاٹ خوبصورت بنتا ہے۔اگر پلاٹ اچھا نہ ہو گا تو واقعات کا ربط و تسلسل بھی ٹوٹ جائے گا۔اچھا پلاٹ وہ ہوتا ہے جس میں واقعات کی کڑیاں آپس میں مربوط ہوتی ہیں۔
کردار کسی بھی افسانے میں خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔انہی کرداروں کی بدولت واقعات رونما ہوتے ہیں اور یہی واقعات ان کرداروں پر مثبت یا منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح کردار افسانے کے لیے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ کہانی انسانوں کے لیے ہوتی ہے اور انسان ہی انسان کی خوشی اور دکھ سے متاثر ہوتا ہے اور اسی طرح معاشرے کی ترجمانی کرداروں کے بغیر ممکن نہیں۔ کرداروں کی بدولت ہی کسی بھی کہانی میں جان پیدا ہوتی ہے۔ کردار ہی کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی ہے۔بعض اوقات ایک کردار کے گرد ہی افسانے کی پوری کہانی گھومتی ہے۔
کردار کی دو قسمیں ہوتی ہیں(۱) مرکزی کردار(۲) ثانوی یا ضمنی کردار۔ مرکزی وہ کردار ہوتے ہیں جس کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ پوری کہانی میں اسی کردار پر فوکس کیا جاتا ہے اور تمام تر واقعات اس سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ضمنی کردار مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ آتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں گو کہ مرکزی کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن ضمنی کردار بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مرکزی کردار کا ساتھ دیتے ہیں ۔
افسانے میں مکالمے فطری اور کرداروں کے عین مطابق ہونے چاہیے۔افسانے کا عنوان معنی سے بھرپور ہونا چاہیے۔ ایسا عنوان ہو کہ قاری کے دل کو فوراً متوجہ کرے۔ اور پوری کہانی اس کے عنوان میں جھلک رہی ہو۔ افسانے کا اختتام مکمل کہانی کی طرح نہیں ہوتا۔ کسی بھی افسانے میں بعض وقت کہانی کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔اور قاری اس کے انجام تک خود رسائی حاصل کرتا ہے۔
افسانے کے فنی خصوصیات میں پلاٹ، کردار، مکالمہ، منظر نگاری، تجسس و جستجو شامل ہیں۔ پلاٹ کے بغیر کوئی بھی افسانہ تخلیق نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مکالمہ سے کرداروں کے مافی الضمیر کی عکاسی ہوتی ہے اور وہ اپنےجذبات کو بیان کرنے پر قادر ہوتے ہیں ۔ منظر نگاری میں افسانہ نگار کہانی کے پورے منظر کی لفظوں سے تصویر کشی کرتا ہےتاکہ قاری کے ذہن میں افسانے کے ماحول کا نقش پیدا ہو جائے اس کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم جز ہے وہ تجسس و جستجو ہے کوئی بھی افسانہ تجسس کے بغیر مکمل نہیں کیونکہ یہی تجسس ہی ہے جو افسانے میں جان ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ تجسس کی وجہ سے قاری کہانی میں محو ہو جاتا ہے اور آغاز سے اختتام تک پورے افسانے کو پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات اور کردار دونوں پرتجسس ہونے چاہیے جس کے لیے افسانہ نگار کا زبان پرعبور لازمی ہے۔
مختصر کہانیاں (افسانے) ناول کے مقابلے میں مختصر اور کم پیچیدگی کی حامل ہوتی ہیں اور عام طور سے کسی ایک واقعہ، ایک پلاٹ، ایک سیٹنگ، تھوڑے کرداروں اور وقت کے کم دورانیہ تک محدود ہوتی ہیں۔لیکن ان کا تاثر گہرا اور دیرپا ہو سکتا ہے۔
۲.۲ بیانیہ :
بیانیہ کا لفظ کہانی کے مترادف یا ہم معنی (synonym)کے طور پر برتا جاتا ہے۔کہانی کے اس اسلوب کو جس میں فرضی یا حقیقی سلسلہ واقعات کو کسی خاص ترتیب سے فنی یا ادبی روپ دیا جائے بیانیہ کہتے ہیں۔ یہ تحریری، زبانی، نثر اصناف اور فکشن کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں عوماً مصنف (ادیب، مقرر یا خطیب) قاری یا سامع سے بلاواسط اور براہ راست مخاطب ہوتا ہے۔
۱.۲.۲بیانیہ کی اقسام:
بیانیہ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ یا اصطلاح ہے، وسیع تر معنوں میں بیانیہ کا اطلاق تمام افسانوی تحریروں پر ہوتا ہے۔ یہ بلاغت کے ذریعوں یا وسلیوں میں سے ایک ہے۔
۲.۲.۲ فکشن :
فکشن (fiction) ایسی تصوراتی یا فرضی تحریرکو کہتے ہیں جوفیکٹس (facts) کے برعکس حقیقی اور سچی نہ ہو (لیکن یہ لازم نہیں ہے)۔ اس کا مقصد لکھنے والے کا پیغام یا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے یا یہ فقط وقت گزاری اور تفریح کیلئے بھی ہو سکتی ہے۔عام طور پر قصہ ،کہانی ،حکایت ،افسانچہ ،ناول ،ناولٹ ،تمثیل ،ڈراما وغیرہ فکشن کی مختلف شکلیں ہیں۔ (تا ہم صرف یہی شکلیں نہیں) وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سکرین پلیز ،ویڈیوفلمیں ،کارٹوں کتابیں ،آڈیو وڈیو بکس وغیرہ بھی شامل ہو گئی ہیں۔
۳.۲.۲ نان فکشن:
فکشن کے برعکس ایسی تحریریں جن کو سچائی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے (چاہے وہ سچی ہوں یا نہ ہوں) نان فکشن کہلاتی ہیں۔عام طور پر تاریخ ، علمی مضامین ،ڈاکو مینٹریز،سائنسی مقالات ،سوانح عمریاں ،نصابی کتب ،فوٹوز ،وڈیو گیمز، کمپیوٹر گیمز،بلیو پرنٹس ،سفر نامے ،صحافتی تحریریں وغیرہ نان فکشن کی ذیل میں آتے ہیں۔سادگی ،سچائی اور صفائی (clarity) اس کی اہم ترین خصوصیات ہیں۔
اردو میں فکشن کیلئے افسانہ کی اصطلاح رائج ہے جس میں فکشن یا افسانوی ادب کی دیگر سارے اقسام قصہ ،کہانی ،ناول ،ناولٹ ،مختصر افسانچےوغیرہ سب ہی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ لفظ صرف مختصر افسانہ کیلئے استعمال ہونے لگا ہمارے ہاں کہانی کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا۔لیکن کہانی اور افسانے میں فرق روا رکھا جا سکتا ہے اس طرح کہانیاں واقعہ نگاری کے قریب ہوتی ہیں۔یہ سیدھی ،سادہ اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ۔ اس کے برعکس جس کہانی میں لکھنے والا معنوی گہرائی کیلئے اپنا فن ،فکر ،تخیل ، مشاہدہ، تجربہ اور نقطہ نظر شامل کر کے اسے فنی پیش کش بنادے اسے فسانہ کہیں گے ۔ یوں تو نثری نظم کی طرح کے پلاٹ ،کردار اور کہانی پن کے بغیر بھی افسانے لکھے گئے لیکن افسانے میں کہانی یا کہانی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ اختصار ،ایجاز اور وحدت تاثر اس کی اہم خصوصیات ہیں۔
۳.۲ افسانے کا مقصد:
افسانے کا مقصد تفریح اور وقت گزاری کے ساتھ ساتھ اتھ حظ اُٹھانے کا بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ انسانی زندگی کا عکاس اور نقاد بھی ہے۔قاری اس میں نئے لوگوں اور جگہوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں۔ قاری افسانہ پڑھتے وقت مختلف قسم کے واقعات سے روشناس ہوتا ہے اور ان واقعات کے رونما ہونے والے کرداروں کا بھی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح افسانے کا مقصد نہ صرف حظ اُٹھانے کے ہیں بلکہ معاشرتی سچائیوں کا پردہ فاش کرنا بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ۔ سماجی برائیوں کے زیر اثر پروان چڑھنے والے واقعات اور نئی نسل ان واقعات سے جو تأثر اخذ کرتا ہے یہی تأثر قارئین کے سامنے لانا افسانے کا اہم مقصد ہے۔
۴.۲ مختصر افسانہ کا موضوع :
افسانے کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہو تا۔ زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ ،جذبہ ،احساس ،تجربہ ،کیفیت ،مشاہدہ ،نفسیاتی ،فکری یا روحانی نکتہ افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ جس مقصد ،اصلاحی یا فکری پیغام اور خیال کی خاطر لکھا گیا وہی اس کا موضوع ہوگا ۔
۵.۲ افسانے کے بنیادی اجزاء:
افسانے کے بنیادی اجزاء یا عناصر کے بارے میں مختلف ماہرین کی آراء میں اختلاف پایا جا تا ہے۔بعض کے نزدیک افسانہ کے تین اجزاء پلاٹ ،کردار اور ماحول اہم تر ہیں۔ بعض کے خیال میں اس میں نکتہ نظر کو بھی شامل ہونا چاہیے کہ افسانہ کسی کردار کے متعلق لکھا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین فن کا خیال ہے کہ مکالمہ بھی بے حد اہم جزو ہے۔مرکزی خیال اور تکنیک کو بھی بعض ماہرین اہم تصورکر تے ہیں۔ یوں افسانے کے بنیادی اجزاء میں پلاٹ، کردار، مکالمہ ، منظر نگاری، تجسس و جستجو اور اختصار شامل ہیں۔ جس کی وضاحت ذیل میں ملاحظہ ہوں:
۱.۵.۲ پلاٹ:
پلاٹ افسانے کا بنیادی جزو ہے۔یہ واقعات کے درمیان ربط پیدا کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک بنیاد ہے جس پر افسانہ تخلیق کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پلاٹ میں واقعات اور کرداروں کو پرویا جاتا ہے۔ ایک اچھے پلاٹ کے واقعات میں ایک تسلسل، ربط اورمنظم انداز میں واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ کسی ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے اس میں کسی دوسرے ماحول متعلق بات کرنا یا اس میں کوئی دوسرا واقعہ یا کوئی انجان کردار کی پیشکش پلاٹ کو کمزور بناتی ہے۔پلاٹ کہانی کا خاکہ ہے یہ واقعات ،سلسلہ واقعات اور جدوجہد یا عمل کو ترتیب دینے کا نام ہے ،جس سے کہانی میں معنی اور اثر پیدا ہوتا ہے۔یہ واقعات مرکزی کرادر کو پیش آنے والے تصادم یا مشکلات سے پیدا ہوتے ہیں جو یا تو بیرونی عناصر جیسے موسم ،زلزلہ ،بیماری یا موت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا کسی دوسرے کردار کی مخالفت ،لالچ ،مفاد پرستی اور بے وفائی کی وجہ سے، چوں کہ مرکزی کردار ان تصادمات سے نپٹنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے اس لیے پلاٹ وجود میں آتا ہے۔پلاٹ سادہ، پیچیدہ ،ڈھیلا ڈھالا اور غیر منظم ہو سکتا ہے۔اس قسم کے پلاٹ کے واقعات میں منطقی ربط نہیں ہوتا یا مرکزی کردار کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کی پیچیدگی پلاٹ کو کمزور بنا دیتی ہے۔ اسی طرح ایک روایتی افسانہ میں واقعات کی ابتدائی صورت شروع ہوتی ہے اور جب اپنے نکتۂ عروج (کلائمکس) تک پہنچتی ہے تو پھر اپنے اختتام کی طرف سفر کرتی ہے۔ اسی طرح ابتداء، نکتۂ عروج اور نکتۂ انتہا اگر منظم طریقے سے ہو تو پلاٹ کی مضبوطی پر دلالت کرتی ہے۔بقولِ رفیع الدین ہاشمی:
‘‘افسانے کے لیے پلاٹ بھی ضروری ہے، واقعہ یا (واقعات) ، کا آغازو ارتقا پھر عروج یا منتہا (climax) تک پہنچنا اور اس کے بعد ایک موزوں نتیجے پر ختم ہونا۔ اسی رتیب و تنظیم کا نام پلاٹ ہے۔ ایک اچھے افسانے میں منتہا ضروری ہوتا ہے کیونکہ صحیح قسم کے منتہا کی غیر موجودگی سے قاری پر افسانے کا کوئی تأثر قائم نہیں ہوتا۔ منتہا کے بغیر افسانہ ایک بیانیہ مضمون ہوگا۔’’ (۷)
اسی طرح ڈاکٹرنورین رزاق کے مطابق:
‘‘ افراد قصہ کو جو واقعات پیش آتے ہیں ان کی فنی ترتیب پلاٹ کہلاتی ہے جس کے لیے کہانی کے آغاز، وسط اور انجام کے درمیان منطقی ربط و تسلسل ہوتا ہے۔’’ (۸)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افسانے کے لیے پلاٹ بہت ضروری ہے۔ اگر افسانے کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو، ابتداء ، نکتۂ عروج یا اختتام ہی نہ ہو تو افسانے کا رنگ پیکا ہو جاتا ہے اور یوں قاری کا ذوق تشنہ رہ جاتا ہے۔
۲.۵.۲ کردار:
پلاٹ کے بعد افسانے کے لیے کردار کا ہونا نہایت اہم ہے کیوں کہ کوئی بھی واقعہ کسی کردار کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے کردار واقعات کے لیے ضروری ہے جو افسانے کا بنیادی جزو ہے۔ بقولِ داکٹر نورین رزاق:
‘‘قصے میں موجود اشخاص کے حرکات و سکنات کی عکاسی کردار سازی کی مدد سے کی جاتی ہے۔ کردار افسانے کا مضبوط ترین ستون اور بنیادی عنصر ہے اس کی اہمیت اس طرح ہے جیسے مکان کی تعمیر میں اینٹوں کی اہمیت ہوتی ہے کہانی کرداروں کے قول و فعل سے انجام پاتی ہے۔ افسانہ نگار زندگی کے مختلف رخوں کی نقاب کشائی کرداروں کے وسیلے سے کرتا ہے۔’’ (۹)
کردار کی دو اقسام ہیں مرکزی کردار اور ثانوی کردار۔ مرکزی کردار کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے جبکہ ثانوی کردار بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مرکزی کردار کے معاون بنتے ہیں۔
۳.۵.۲ ماحول یا فضا :
کوئی بھی افسانہ نگار لکھتے وقت اپنی کہانی کے لیے ایک ماحول بناتا ہے جس کے تحت واقعات جنم لیتے ہیں اسی طرح ہر واقعے کو ایک ماحول فراہم کرنا کہانی کار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اس کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ افسانہ پڑھتے وقت اس کے زمان و مکان کا پتہ چلتا ہے۔ واقعات کے دور کا پتہ چلتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر نورین رزاق:
‘‘ماحول اور فضا بھی افسانے کے اہم عناصر ہیں یہ پلاٹ اور کردار کی درمیانی کڑی ہیں جن کی مدد سے واقعات کے تانے بانے یکجا ہوتے ہیں ماحول کے تحت کہانی کے گرد و پیش کے مناظر، مقام کی جغرافیائی خصوصیات اور مکان کے ساز و سامان شامل ہیں۔ فضا اصل میں وہ تاثر ہے جو ماحول کی تصویر کشی سے دل و دماغ میں پید اہوتا ہے’’۔(۱۰)
۴.۵.۲ منظر نگاری:
منظر نگاری افسانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئی بھی واقعہ بیان کرتے وقت افسانہ نگار اس افسانے کا منظر بیان کرتا ہے اور پھر اس منظر میں اپنے اسلوب کی بدولت ایسی تصاویر بھر دیتے ہیں جن سے افسانے کی پوری فضا قاری کی آنکھوں کے سامنے ایک سین کی طرح آجاتی ہے۔ منظر نگاری افسانے کی جان ہے جس میں پڑھنے والے خود کو منہمک پاتا ہے اور اسی منظر سے متاثر ہو کر کہانی کو شروع سے لے کر اخیر تک پڑھنے پر مجبور رہتا ہے۔
۵.۵.۲ اسلوب:
افسانے کے اجزائے ترکیبی میں اسلوب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ افسانہ نگار جس انداز سے کہانی بیان کرتا ہے اور شعوری یا لاشعوری طور پر جس قسم کی زبان ، اندازِ بیان ، فقروں کی ساخت اور اپنے لب و لہجہ اختیار کرتا ہے اس کے اسلوب اور اندازِ نگارش سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور اسلوب ہی کی بدولت افسانہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔
۶.۵.۲ تکنیک :
افسانہ نگار جس طریقۂ کار کے تحت واقعات کو پلاٹ میں پروتا ہے اور جس فنی ترتیب کے ذریعے ان واقعات کو پیش کرتا ہے اسے تکنیک کہتے ہیں۔ اسی طرح موضوع کے مطابق ایک بہترین ترتیب کو دریافت کرنا ایک اچھے لکھاری کا کام ہوتا ہے۔ افسانے میں عام طور پر بیانیہ تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں واحد غائب یا واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح ڈائری کی تکنیک بھی افسانے میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں مصنف یادداشتیں بیان کرتا ہے۔اس کے علاوہ علامتی ، مکالماتی اور استعاراتی تکنیک بھی افسانے میں استعمال ہوتے ہیں۔
۶.۲ اردو افسانے کی مختصر ر وایت:
فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اردو میں داستان کا آغاز ہوا یہ داستانیں مختلف زبانوں سے ترجمہ شدہ داستانیں تھیں جس میں ترجمہ کرنے والوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر شاہکار داستانیں تخلیق کیں۔داستان چونکہ ایک طویل ترین صنفِ نثر ہے جس میں کئی قسم کے واقعات اور بے شمار کردار ہوتے ہیں اسی طرح ان کرداروں میں مافوق الفطرت کردار بھی موجود ہوتے ہیں جن میں پری، جن ، بھوت وغیرہ اور ان سے رونما ہونے والے خرقِ عادت واقعات شامل ہیں۔ اس کے بعد ناول کا آغاز ہوتا ہے جس میں حقیقی زندگی سے ملحقہ واقعات شامل ہوتے ہیں۔ ناول میں پہلی دفعہ مافوق الفطرت عناصر کے بجائے زندگی کے حقائق کو پیش کیا جانے لگا۔ ناول کے ساتھ ہی انسان کی بڑھتی ہوئی مصروفیات کے باعث مختصر افسانہ بھی عمل میں آیا اور یہ نثری صنف بھی مغربی اثرات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ افسانہ دراصل نئے دور کی پیدا وار ہے کہ اس دور میں انسان کو داستانیں اور ناول پڑھنے کا وقت نہیں ملتا۔ اس لیے وقت کی کمی کے پیش نظر مختصر افسانے کا وجود اردو ادب میں ایک نئی صنف کی پیداوار ہے۔
اردو افسانے کی ابتداء میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، راشد الخیری ،خواجہ حسن نظامی اور پریم چند کے نام قابل ذکر ہیں۔یلدرم اور پریم چند کے افسانوں کی ابتداء تراجم سے ہوئی ان دونوں میں سے ڈاکٹر انور سدید کے مطابق سجاد حیدر یلدرم پہلا افسانہ نگار ہیں۔ (۱۱)۔اس کے ساتھ ساتھ سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں میں رومانوی رنگ غالب ہے۔ ترجمہ شدہ افسانوں سے ہٹ کر ان کا طبع زاد افسانہ ‘‘غربتِ وطن’’ کے حوالے سے انہیں ڈاکٹر انور سدید نے پہلا افسانہ نگار تسلیم کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
‘‘چونکہ خارجی طور پر اس کی مستند شہادت دستیاب نہیں اس لیے ہماری نظر ‘‘غربت وطن’’پر ہی پڑتی ہے جسے خود یلدرم نے طبعزاد قرار دیا ہے اور یہ افسانہ چونکہ پریم چند کے پہلے افسانے سے قریباً ایک سال پہلے چھپ چکا تھا اس لیے اسے اردو کا پہلا طبع زاد افسانہ اور یلدرم کو پہلا افسانہ نگار تسلیم کرنا مناسب ہوگا۔’’ (۱۲)
اردو افسانے کو اپنے حقیقی رنگ میں پیش کرنے کا سہرا منشی پریم چند کے سر ہے۔منشی پریم چند اس حوالے سے اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں شامل ہے۔ انہوں نے ایک تو متواتر افسانے لکھے اور لکھتے رہے۔ اور دوسری اہم بات جو کہ ان کے ہاں نمایاں ہے کہ انہوں نے ہندوستان ہندوستانی معاشرے کے مسائل کو بھرپور انداز میں برتا ہے۔ انہوں نے دیہات میں رہنے والے لوگوں کو اپنا موضوع بنایا اور اس میں غربت و افلاس کے شکار افراد کے واقعات قلمبند کیے۔پریم چند کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیقات کو داستانوی ماحول سے علیحدہ کرکے حقیقی زندگی کا تصور پیش کیا ہے۔ان کے ہاں مزدور ، کسان اور غریب افراد کی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور ان کرداروں کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ پورے افسانے میں ان کے ماحول کی جیتی جاگتی تصویریں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
پریم چند ایک باشعور اور بالغ ذہن ادیب کی حیثیت سے اپنے دور میں اٹھنے والی آزادی کی اْمنگ سے بھی لاتعلق نہیں رہتے۔ اْن کے افسانے ‘آشیاں برباد’ اور ‘ڈائل کا قیدی’ اْن کے بدلتے ہوئے رجحانات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوں نے 1936ء میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ہی انہوں نے افسانہ ‘کفن’ لکھا۔ تاہم وہ دیگر ترقی پسندوں کی طرح کسی خاص نظریے کا پرچار نہیں کرتے بلکہ اْن کی تحریروں میں مقصد کو اہمیت حاصل تھی۔
اردو افسانے کا ایک اور اہم اور نمایاں نام کرشن چندر کاہے۔ ان کا شمار اہم ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ا پنے افسانوں میں وہ زندگی کے حقائق اور مسائل بیان کرتے وقت بھی ترقی پسند نظریات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ جہاں تک کرشن چندر کی حقیقت نگاری کا تعلق ہے تو اس سے قطع نظر کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندگی کابہت باریکی اور گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ انسان کی محرومیوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اْن کے ہاں زندگی سانس لیتی ہوئی اور آگے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان کے افسانے، ان داتا، گرجن کی ایک شام، بالکونی ، کچرا بابااور پیاسا وغیرہ اس کی عمدہ مثال ہیں۔
افسانوں میں خاص طور پر اْن کا اسلوب رمانوی ہے جو تلخ سے تلخ بات اور کریہہ سے کریہہ واقعہ کو بھی فطری رعنائی بخش کر قابل قبول بناتا ہے۔ وہ پورے ماحول کو الفاظ کے ذریعے سے ایسا دلکش بناتا ہے کہ جس سے افسانے کا رنگ دوبالا ہونے کے ساتھ ساتھ حقائق کی پردہ فاشی بھی کرتا ہے ۔ان کے افسانوں میں ان کا معاشرہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے اُن کے تمام تر کردار اتنے دلفریب انداز سےپیش کیے گئے ہیں کہ مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ ثانوی کرداروں سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی کرشن چندر اردو افسانے کا ایک نمایاں نام ہے جس نے اردو افسانے کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسی دور کی ایک اور افسانہ نگار عصمت چغتائی ہیں جن کے اردو افسانے پر انگریزی افسانوی ادب کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اْن کے افسانوں میں ایک ایسی عورت کی تصویر کشی کی گئی ہے جو مشرق کی مروجہ روایات اور نسوانیت سے آمادہ بغاوت ہے۔ زیادہ تر ان کے ہاں جنس کے مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں کوٹ کچہری کے چکربھی کاٹنے پڑے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی لکھنا ترک نہیں کیا ۔ اس حوالے سے ‘چوٹیں’ اور ‘لحاف’ اْن کی نمائندہ افسانے ہیں۔جس میں انہوں نے جنسی جذبے کو زندگی کی اہم ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس جذبے کی تسکین زندگی کے لیے ناگزیرر ہے۔ ان کے کردار ان کے ہی تراشیدہ کردار ہیں وہ موضوع کے لحاظ سے عمیق تجربہ رکھتی ہیں اور اپنے مشاہدے کے ذریعے سے انوکھے موضوعات تلاش کرکے افسانے تخلیق کرتی ہیں۔
اردو افسانے کے ابتدائی خدوخال نمایاں کرنے میں خواجہ احمد عباس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے افسانوں کا مجموعی جائزہ لیں تو یہ بات زیادہ نمایاں ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو زندگی کی تعمیر میں سماجی مسائل اور سیاسی الجھنوں کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اْن کا مشاہدہ اور تخلیقی قوت دونوں جاندار ہیں ۔ ان کا تعلق بھی ترقی پسند سوچ سے تھا اسی لیے ان کے افسانوں میں اسی قسم کے موضوعات دکھائی دیتے ہیں۔ان کے افسانے نظریے اور جذبے کا خوبصورت امتزاج بھی ہیں۔ اس سلسلے میں اْن کا افسانہ ‘پسماندگان’ ایک نمایاں مثال ہے۔ جس میں وہ ایک بڑے افسانہ نگار کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۳۲ء میں ‘‘انگارے’’منظر عام پر آئی ۔ اس کتاب میں نو افسانے اور ایک ڈرامہ شائع ہوا۔ اس مجموعے میں احمد علی، سجاد ظہیر، رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانےشامل ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات اور لب ولہجہ اس دور میں اشتعال انگیزی کا سبب بنا۔ جس کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت کافی بڑھ گئی تھی لیکن بعد میں اس کتاب کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔
اردو افسانے کے ارتقائی سفر میں مختلف افسانہ نگاروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان افسانہ نگاروں میں اختر حسین رائے پوری، علی سردار جعفری اور احتشام حسین کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کی تمام تر ناہمواری اور اتار چڑھائو بنیادی موضوعات ہیں۔ سیاسی کشمکش ، معاشرتی حالات اور مختلف تحریکوں کے اثرات بھی ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں۔ اختر حسین رائے پوری رابندر ناتھ ٹیگور سے متاثررہے جبکہ علی سردار جعفری اور احتشام حسین ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہیں۔اور اسی کے زیرِ اثر افسانے تخلیق کرتے رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اختر انصاری اور حیات اللہ انصاری نے بھی اس میدان میں اپنے حصہ کی قندیل روشن کی اور اپنے افسانوں کے ذریعے سے معاشرتی برائیوں کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں سماجی حالات اور معاشرتی بد مزاجیوں پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ ان کے کردار اسی معاشرے کے افراد ہیں جو مختلف واقعات سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں اور کہیں کہیں پر ان حالات سے نبرد آزما بھی نظر آتے ہیں۔
اردو افسانے کی روایت میں ایک نمایاں نام راجندر سنگھ بیدی کا ہے۔ ان کے موضوعات زمین سے شروع ہو کر زمین پر ہی لوٹ آتے ہیں۔ انسان اس کائنات کا مرکز و محور ہونے کے باوجود اس کائنات میں سب سے محروم اور دکھی مخلوق ہے جو احساس اور شعور رکھنے کی بنا پر ہر لمحے تڑپتی اوربے قرار رہتی ہے۔ بیدی کے افسانوں میں انسانی کرب اورپریشانیوں کو پیش تو کیا گیا ہے لیکن ان کے اسلوب کی لطافت اور جذبے کے سبب کہیں بھی یہ کرب اور پریشانیاں اشتہار نہیں بنتیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے ہاں تجربے کی گہرائی سے صداقت کا ظہور ہوا ہے۔ ان کے افسانے گرم کوٹ، دوسرا کنارہ، متھن، لاجونتی اور گرہن اس حوالے سے عمدہ مثال ہیں۔
اوپندر ناتھ اشک بھی اردو افسانہ نگاری میں ایک اہم نام ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے نچلے اورمتوسط طبقوں کی معاشی، سماجی اور جنسی محرومیوں کا ذکر کیا ہے۔ان افسانوں میں انہوں نے اپنے کرداروں کے نفسیات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اور ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جس میں انسان تمام تر محرومیوں کے باوجود اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان محرومیوں کے ساتھ ساتھ وہ معاشی مسائل کو بھی زیر غور لاتا ہے اور ان مسائل کے ہاتھوں اپنے کرداروں کے ذریعے سے حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے قفس، ڈاچی اور چیتن کی ماں، اس حوالے سے اہم ہیں۔
اردو افسانے کے ارتقائی سفر میں ایک نمایاں افسانہ نگار، جس کے بغیر اردو افسانے کا تذکرہ نامکمل رہے گا وہ سعادت حسن منٹو ہے۔ بلاشبہ وہ عظیم افسانہ نگار ہیں۔ ان کے قلم کی بے باکی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے ان کے افسانوں پر جنس نگاری کے کیس ہوئے جن کے لیے اُنہیں سخت اذیت سے دو چار ہونا پڑا اور کئی بار انہیں کوٹ کچہری کے چکر کاٹنے پڑے۔ان کے افسانوں میں طوائف کے کردار جا بجا نظر آتے ہیں لیکن یہ وہ طوائف نہیں ہے جو جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے یہ قبیہ پیشہ اختیار کرتی ہے بلکہ بہ امرِ مجبوری اسے یہ راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ اگر ان کے افسانوں پر غور کیا جائے تو ان میں طوائف کا کردار ایک مجبور، بے بس اور لاچار عورت کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ جس کی سب سے اہم مثال افسانہ کالی شلوار کے کردار ہیں۔ جو اپنے لیے صرف ایک کالی شلوار تک نہیں خرید سکتی ۔ یہ ہمارے معاشرے کے وہ کردار ہیں جو لوگوں کی نظروں میں صرف اس لیے گرے ہوئے ہیں کہ وہ جسم بیچتی ہیں لیکن ان کی مجبوریوں کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ منٹو کے افسانوں میں تقسیم کے بعد کے حالات سے متاثرہ افراد کی کہانیاں جا بجا نظر آتی ہیں ۔ جن میں ان کے اسلوب کی رعنائیاں منٹو کے عظیم ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘ٹوبہ ٹیک سنگھ’’ اور ‘‘کھول دو ’’اہم افسانے ہیں۔افسانہ ‘‘کھول دو’’ کے حوالے سے فردوس انوار قاضی لکھتی ہیں:
‘‘اگر منٹو کے افسانے ‘‘کھول دو’’ کو پڑھ کر کسی کے دل پر چوٹ نہ پڑے اور آنکھیں غم کے بوجھ سے بھیگنے کی بجائے سفلی جذبات بھڑک اُٹھیں۔تو یہ عمل خود اس معاشرے کے چمکدار لباس کو تار تار کر دیتا ہے۔ جس معاشرے کے خلاف منٹو بغاوت کر رہا تھا۔ ’’ (۱۳)
افسانہ‘‘کھول دو’’ تو بظاہر ایک جنسی افسانہ لگ رہا ہے مگر تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والوں کے ساتھ درندہ نما انسانوں نے جو سلوک کیا منٹو نے اسی نکتے کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔
سعادت حسن منٹو زندگی کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے، وہ بہت باریک بینی سے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اور نہایت بے باکی سے پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ پوسٹ مارٹم اتنی بے رحمی سے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات تو کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، بلاؤ اور کھول دو جیسے افسانے لکھتے ہیں تو دوسری طرف نیا قانون اور تماشا جیسے افسانے لکھ کر اپنے سماجی و سیاسی شعور کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کے افسانوں میں مقصدیت اور حقیقت نگاری کار فرما ہے۔ اْن کی مقصدیت اور حقیقت نگاری رومانیت کے زیر اثر ایک منفرد اسلوب متعارف کراتی ہے۔ اْن کے افسانوں میں دیہاتی اور شہری زندگی کے تصادم سے ایک نئی فضا تیار کی گئی ہے۔ الحمد اللہ، کنجری، مامتا، کپاس کا پھول، سناٹا، رئیس تھانہ، بندگی، طلوع و غروب اس حوالے سے اْن کے نمائندہ افسانے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے فکری اور اسلوبیاتی اعتبار سے ان کی مہارت کے گواہ ہیں۔ انہیں کہانی کی بنت کاری اور کرافٹنگ پر دسترس حاصل ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے ہاں معاشرے میں موجود برائیوں ، ظلم و ستم ، بے بسی اور بے حسی کی فضا جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے افسانوں میں لہلہاتے کھیتوں کی خوشبو، گاؤں کی رونقیں اور ان رونقوں میں کہیں کہیں پر سسکتے اور بلکتے ہوئے بچوں کے رونے کی آوازیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے اردو افسانے میں اپنے لیے ایک مقام متعین کرنا چاہا اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
اردو افسانہ نگاری میں ایک اورمعتبر نام قراۃ العین حیدر کاہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی سے متعلق یادیں اور تلاش کی قدریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کے افسانے اس دور کا نوحہ کچھ اس انداز میں بیان کرتی ہیں کے پڑھنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا لیکن افسانہ ختم ہونے کے بعد ایک گہرے سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ ان کے مجموعہ ٹوٹتے تارے، پت جھڑ کی آواز اور ستاروں سے آگے میں یہ قدر دیکھی جا سکتی ہے۔
قرۃ العین حیدر ایک عورت ہے اور انہوں نے عورت ہی کے مسائل کو اپنے افسانوں میں زیر غور لانے کی کوشش کی ہے۔ عورتوں کے مسائل اور ان کے اثرات جو ذہنوں کو پسماندہ کردیتی ہیں اور اس پسماندگی میں عورت کی احساسِ محرومی تخلیق کار کے تجربے کی گواہی دیتی ہے۔ ان کے افسانے میں ایک خوبصورت عورت ہمیشہ اپنے خوابوں میں زندگی گزارتی ہے جسے کسی رفیق کی تلاش ہے اور وہ رفیق اس کی زندگی کے بجھتے شمع کو نئی جلا بخش سکتا ہے۔
قراۃ العین حیدر کا شمار بھی ارضی رجحان رکھنے والے علمبرداروں میں ہوتا ہے۔ اْن کے موضوعات اپنے گردوپیش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اْن کے ہاں ‘غفران منزل’ اور ‘کنور لاج’ کا ذکر ہے تو وہیں معمولی ٹائپسٹ لڑکیوں اور ریڈیو سٹیشنوں کے برآمدوں میں انتظار کرتی طوائفوں کا تذکرہ بھی ہے۔
آزادی کے بعد اردو افسانے کے اسلوب اور موضوعات پر دو تنوع پیدا ہوا۔ بہت سے جدید لکھنے والوں نے اس میں تجربات کے در وا کیے ہیں۔ان لکھنے والوںمیں ایک غلام عباس بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے تقسیم ہند سے پہلے افسانے تخلیق کیے۔لیکن آزادی کے بعد انہوں نے اپنے منفرد اسلوب اور موضوعات کی بنا پر، اپنا جداگانہ رنگ جمایا۔ اْن کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ زندگی کوبہت قریب سے دیکھتے ہیں اور جزئیات نگاری کو برائے کار لاتے ہوئے واقعیت نگاری کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب رواں اور سادہ ہے۔ اْن کے اکثر کردار دوہری شخصیت کے حامل ہیں جو کہانی میں چونکا دینے کا سبب بنتے ہیں اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘اوور کوٹ’’ نہایت اہم ہے۔ جو دوہری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں سچی بات کہنے کا قائل ہیں اور ا نہی حقائق کی بدولت انہوں نے اردو افسانے میں اپنا ایک منفرد مقام پالیا ہے۔
اس دور کے ایک اور اہم افسانہ نگار ممتاز مفتی ہیں جنہوں نے اردو افسانے میں نفسیاتی رویوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے کردار معاشرے میں رہتے ہوئے بھی معاشرے کے لوگوں سے ہٹ کر محسوس ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کے حرکات و سکنات دوسرے عام لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں اسی لیے ممتاز مفتی کے افسانوں کو نفسیاتی طور پر جانچا جاتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کامرکزی نقطہ محبت ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں زندگی کا کرب اور اس کی پریشانیوں کا اظہار بھی ہوا ہے۔ حقیقت میں اْن کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے اور ان موضوعات کے لیے جو جذبہ مہمیز کا کام کرتا ہے وہ اْن کی والہانہ محبت ہے جو اْن کے افسانوں کا احاطہ کیے رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن کا تعلق صوفی ازم سے بہت گہرا ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاں اکثر ایسے کردار نظر آتے ہیں جو پیر ، فقیراور صوفی کی صورت میں رونما ہو کر زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اشفاق احمد خود بھی ان صوفیوں اور پیروں کے ڈیروں کا چکر لگاتے ہیں اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے افسانوں کے لیے نئے سے نئے موضوعات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے انہوں نے صوفیانہ تصورات کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک طرح سے ان ہی کا خاصا ہے۔
اردو افسانے کے ارتقائی مراحل میں جس افسانہ نگار کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ انتظار حسین ہیں جنہوں نے کہانی کو ایک نیا پن عطا کیا۔ انہوں نے اردو افسانے کے اسلوب کو ایک نئی جہت بخشی۔ تجسیم، تجدید اور علامت نگاری کے نت نئے تجربات کیے اور اردو افسانے کو دیگر زبانوں میں لکھے جانے والے شاہکار افسانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔انتظار حسین کے افسانوں کے کردار بھی انوکھے ہیں اور کہیں کہیں پر ان کرداروں سے کہانی کی بنت کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ انہی کا کمالِ فن ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو نئے رنگ اور نئی خوشبوؤں سے معطر کر دیا۔
موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے اردو افسانہ مختلف مراحل اور تجربات سے گزرا ہے۔ اس میں موضوعات اور اسلوب کے نت نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات جہاں مختلف شخصیات کے مزاج اور صلاحیتوں کے مرہون منت ہیں وہاں حالات و واقعات اور زندگی کی سماجی اور سیاسی جہتوں میں آنے والی نت نئی تبدیلیاں بھی اس کا سبب ہیں۔ بین الاقوامی تحریکیں اور بدلتے ہوئے تہذیبی و سماجی رجحانات بھی اردو افسانے پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
فرانس سے شروع ہونے والی علامتی تحریک کے اثرات بھی ہمارے افسانہ نگاروں نے لیے۔ اس کے ساتھ ہی فرائیڈ اور ڑونگ کے خیالات سے بھی اردو افسانہ محفوظ نہ رہ سکا۔ گو یہ خیالات اردو افسانے میں قدرے تاخیر سے داخل ہوئے لیکن ان کے اثرات اجتماعی سوچ اور زندگی پر ظاہر ضرور ہوئے۔ شعور کی رو کے تحت افسانے لکھے گئے۔ شعور و لاشعور کو موضوع بحث بنایا گیا۔
حسن عسکری نے شعور کی رو کے حوالے سے افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں میں اْن ناآسودہ خواہشات کو موضوع بنایا گیا جو معاشرے کی پابندی کے باعث آسودہ نہیں ہو پاتیں۔ ان کے افسانوں میں پلاٹ کی ترتیب کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا۔ محض شعور کی غیر مربوط رو سے ہی کہانی اور کرداروں کے خدوخال ترتیب دیئے گئے ہیں۔
موجودہ عہد میں اردو افسانے کی تکنیک پر بھی بے شمار تجربات ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تکنیک کے اعتبار سے آج اس میں بے پناہ تنوع پایا جاتا ہے۔ آج کا افسانہ تجسیم اور تجرید کے بین بین اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ دہری سطح کی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، جنہیں قاری کے لیے سوچنے اور خود کو کہانی میں شامل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ اس طرز کی کہانی میں مشتاق قمر، منشا یاد اور سلیم آغا قزلباش بہت نمایاں ہیں۔ خالدہ حسین احمد کی کہانیوں میں قدرے ابہام پایا جاتا ہے البتہ ان کا نقطہ نظر جاری و ساری رہتا ہے، اسی طرح مرزا حامد بیگ کی کہانیوں میں بھی ابہام کی فضا ضرور ہے لیکن اْن کی کہانی کو سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے۔
اردو افسانے کے ارتقا اور ترقی میں دوسرے بہت سارے افسانہ نگاروں کا ہاتھ بھی ہیں ۔ جس کا ذکر اس مقالے کی طوالت کا باعث بنے گا۔ لیکن ان کے ذکر کے بغیر افسانے کے ارتقائی مراحل کا تذکرہ ادھورا تصور ہوگا ۔ان افسانہ نگاروں میں شیر محمد اختر، قدرت اللہ شہاب، شوکت صدیقی، آغا بابر، شمس آغا، منشا یاد، انور سجاد، مظہر الاسلام، رشید امجد، مستنصر حسین تارڑ، غلام الثقلین نقوی، جوگندر پال، رام لعل، جیلانی بانو، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، بانو قدسیہ، نشاط فاطمہ، عذرا اصغر، امجد الطاف، صلاح الدین اکبر، رحمان مذنب، الطاف فاطمہ،مسعود مفتی، جمیلہ ہاشمی، فرخندہ لودھی، سائرہ ہاشمی، احمد جاوید، احمد دائود، مظہر الاسلام، اعجاز راہی، ممتاز شیریں، نیلوفر اقبال، محمد الیاس، نیلم احمد بشیر، شمشاد احمد، جمیل احمد عدیل، ابدال بیلا، امجد طفیل اور محمد عاصم بٹ، اختر اورینوی، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، انور سجاد، جوگندرپال، رام لعل، عرش صدیقی، رشید امجد، منشا یاد، زاہدہ حنا اور حامد بیگ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
۷.۲ پاکستانی اُردو افسانہ نگار خواتین:
اردو افسانے میں جہاں مرد حضرات نے اپنا حصہ ڈالا اور نئے نئے موضوعات سے افسانے کو معاشرے کے ہر فرد کی کہانی پیش کی وہاں خواتین افسانہ نگار بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں۔ مرد افسانہ نگاروں کی طرح خواتین افسانہ نگاروں نے بھی سماجی حالات کے پیش نظر اپنے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے مختلف قسم کے موضوعات تراشے ہیں۔ ان افسانوں میں زیادہ تر نسوانی رنگ نمایاں ہے۔ خواتین افسانہ نگار نے ہر موقع پر عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے مختلف کردار تراشے اور ان کرداروں کے ذریعے سے بے بس اور لاچار خواتین کی سماجی ، سیاسی، معاشرتی اور نفسیاتی طور پر استحصال کی مذمت کی ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے زندگی کی تلخ حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے واقعات اور کرداروں سے بھرپور کہانیاں اپنے الگ اور منفرد اسلوب میں پیش کیے ہیں۔ خواتین افسانہ نگاروں میں جو سب سے اہم بات بطورِ خاص یکساں طور پر موجود ہے وہ ان کی فطری اور جذباتی لگاؤ ہے۔ ایک عام عورت جن چیزوں کے لیے غمزدہ رہتی ہے اور جن باتوں سے وہ خوشی محسوس کرتی ہے۔ ایک عورت تخلیق کار کی حیثیت سے ان تمام فطری عوامل کو اپنے افسانوں میں زیرِ غور لایا گیا ہے۔
خواتین افسانہ نگاروں میں حجاب امتیاز علی ، رشیدہ جہاں اور عصمت چغتائی آزادی سے پہلے کے وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے خواتین کے مسائل پر قلم اُٹھایا اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف قلمی بغاوت کی۔ مجبور اور لاچار عورتوں کے دکھوں کو کہانیوں میں سمیٹا اور عورتوں کی آزادی کے لیے ایک اہم کارنامہ ثابت ہوا۔ رشیدہ جہاں کے افسانوں میں سیاسی و انقلابی شعور کے ساتھ ساتھ ایسے موضوعات بھی ملتے ہیں جن پر مرد افسانہ نگار ہی قلم اُٹھا سکتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ‘‘سودا’’، ‘‘میرا ایک سفر’’، ‘‘سڑک’’، ‘‘پن’’، غریبوں کا ‘‘بھگوان ’’اور ‘‘استخارہ ’’شامل ہیں۔ ان کا تعلق ترقی پسند مصنفین کے اولین معماروں میں سے ہے۔ ان کی ذہانت ، روشن خیالی، خوبصورتی اور اعلیٰ سرگرمیوں کے طفیل انہیں ایک اہم مقام ملا۔ ان کے افسانے ‘‘انگارے’’ میں بھی شائع ہوئیں جس سے ان کی شہرت کو مزید تقویت ملی۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں ایسے افسانے ملتے ہیں جن میں معاشرتی سچائیوں کو بے نقاب کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ ان کے کردار اپنی کہانیوں میں بھرپور طریقے سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے منفرد اسلوب نے افسانوں کو نئے رنگ سے آشنا کیا اور مخصوص ذہنیت نے حقیقتوں کی پردہ فاشی پر مجبور کیا۔
ا س طرح عصمت چغتائی اس دور کی ایک اہم افسانہ نگار کی صورت میں سامنے آتی ہیں جنہوں نے افسانے کو ایک نئے رنگ اور نئے جذبے سے آشنا کیا۔ ان کے افسانوں کا موضوع جنس رہا ہے ۔ جنس جو مرد و زن کی ضروریاتِ زندگی میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔ عصمت چغتائی نے اس موضوع پر لکھا اور خوب لکھا۔ انہوں نے جنسی تشنگی اور سماجی و معاشرتی قدغنوں پر قلم اُٹھایا۔ ان کے افسانوں میں ‘‘لحاف’’ اس حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ اس افسانے کے ذریعے انہیں جو شہرت ملی اس کی وجہ بھی جنسی جذبہ ہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں آدھی عورت آدھا خواب، عورت، عشق پر زور نہیں، بھابھی، تل ، جوانی ، پہلی لڑکی، کنواری، گھروالی ، خرید لو، شادی، نئی دلہن، ڈائن، گھونگھٹ اور سونے کا انڈہ اہما فسانے ہیں۔
عصمت چغتائی کا تعلق ترقی پسند افسانہ نگاروں میں سے تھا۔اسی وجہ سے انہوں نے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی بھرپور مخالفت کی ان کے افسانے غریبوں کی بے بسی اور امیروں کی ظلم و ستم سے بھرے پڑے ہیں۔ عصمت چغتائی نے خود ایک عورت ہو کے عورت کی آزادی کے لیے آواز اُٹھائی انہوں نے اس استحصالی معاشرے میں ہر طرح سے عورت کی طرفداری کی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر انوار احمد:
‘‘عصمت چغتائی نے ان تمام قوتوں کے خلاف ، ماں بن کر بے پناہ مزاحمت کی جو عورت کو جہالت اور اوہام کے اندھیرے میں مقید رکھ کر ، کبھی باندی یا لونڈی بناتے، داشتہ اور طوائف کا دارجہ دیتے ہیں۔’’ (۱۴)
ان کے تمام افسانوں میں مجموعی طور پر جو بات مشترک ہے وہ عورت کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ رویے کے خلاف مزاحمت ہے۔ چاہے وہ جنسی حوالہ ہو، معاشرے کے بنائے ہوئے قدغنوں،اصولوں، سماجی روایات اور وہ معاشرتی اقدار جس میں عورتوں کے حقوق کو پائمال کیا جاتاہو عصمت نے اپنی تخلیقی کاوش کے ذریعے سے عورت کو اپنےا فسانوں کا موضوع بنایا اور ہر محاذ پر ان حقوق کے لیے کمر بستہ نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ آزادی سے پہلے کے افسانہ نگار خواتین میں قرۃ العین حیدر کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے جو اردو افسانہ کے اولین افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی ہے۔ ان کے پہلے مجموعے ‘‘ستاروں سے آگے’’ میں جوان لڑکیوں اور لڑکوں کی رومان انگیز کہانیاں قلمبند ہیں۔ ان کی کہانیوں کے اکثر کردار اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے کردار ہیں جو زندگی کی تمام تر سہولیات کے ساتھ ساتھ آسائشوں سے بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے رومانوی افسانوں کے کردار اعلیٰ عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ ان کرداروں کی زندگی کے تمام تر جزئیات قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں دوسری جنگِ عظیم سے متاثرہ خاندانوں کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرۃ العین حیدر نہ صرفرومان انگیز کہانیاں لکھنی والی خاتون ہیں بلکہ معاشرے کی بد حالیوں پر بھی ان کا قلم اُتنی ہی پرتی سے چلتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں ماضی کی یادیں، تاریخی رجحان بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ان افسانوں کو پڑھ کر احساس بھی ہوتا ہے کہ قرۃ العین حیدر انگریزی ادب کے اثرات بڑی گہرائی سے قبول کر چکی ہیں۔ قرۃ العین حیدر ایک ایسی کہانی کار کی صورت میں سامنے آتی ہیں جو ماضی کی یادیں پروتے پروتے تاریخی واقعات کریدنے لگتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانے تاریخی حوالہ بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان کے افسانے رومانوی فضا کے ساتھ ساتھ شعور کی رو کی تکنیک کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔
اسی طرح خواتین افسانہ نگاروں کا یہ سلسلہ بڑھتا ہے اور طرح طرح کے کہانی کار اردو ادب کی اس نوخیز صنف میں طبع آزمائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ خواتین اپنی گھریلوں مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی تجربات کو کہانی کا رنگ دیتی ہیں جو اردو افسانہ کی ارتقاء میں ایک اہم اقدام ثابت ہوتی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد جہاں پر دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں نے ہجرت کے لیے پاکستان کی طرف رختِ سفر باندھ لیا اور اپنا مسکن یہاں پربنایا اس طرح ادیبوں نے بھی ہجرت کرکے پاکستان کا رُخ کیا اور یہاں پر آباد ہوئے۔ پاکستانی اردو افسانے پر نظر ڈالی جائے تو خواتین افسانہ نگاروں کی ایک کثیر تعداد سامنے آتی ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے ہجرت کے مسائل، تقسیم کے بعد پاکستان کے حالات اور ان حالات کے خصوصاً خواتین پر اثرات جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے گھریلوں اور دوسرے بڑے بڑے مسائل کو زیر غور لایا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت، معاشرت، نفسیات، علامتی اور تدریجی افسانے لکھے گئے جس میں مرد افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں کا بھی بھرپور حصہ ہے۔ پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں سے چند اہم افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا مختصر جائزہ ذیل میں لیا جاتا ہے۔
۱.۷.۲ ممتاز شیرین:
اردو ادب میں ممتاز شیرین کا تعارف ایک نقاد کی صورت میں کیا جاتا ہے ان کی تنقید کا زیادہ تر حصہ افسانے کی تنقید پر مشتمل ہے۔ انہوں نے افسانے کے تمام رموز اپنی تنقیدی بصیرت سے آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے اور جب افسانہ نگار کی صورت میں سامنے آتی ہے تو ‘‘اپنی نگریا’’ اور ‘‘میگھ ملہار’’ جیسے تحفے اردو ادب کو پیش کرتی ہیں۔ ان کے دو ہی افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں کل بارہ (۱۲) کی تعداد میں افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں ممتاز شیرین نے ذہنی و جذباتی زندگی کی باریکیوں کو پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید ممتاز شیرین کے متعلق لکھتے ہیں:
‘‘ممتاز شیرین (متوفی ۱۹۷۳ء) کا طلوع افسانے کی تنقیدی بصیرت سے ہوا تھا۔ انہوں نے شعوری طور پر اردو افسانے کو مغربی افسانے کے معیار تک لانے کی کوشش کی۔ اپنے عہد کی ذہنی اور جذباتی زندگی کو ‘‘اپنی نگریا’’ کے افسانوں میں پیش کیا۔ ‘‘کفارہ’’، ‘‘میگھ ملہار’’ کے پس منظر میں سوچنے اور کھوج لگانے والاذہن موجود ہے۔ انہوں نےا ردو افسانے میں بیانیہ کی روانی سے ڈرامائی کیفیت پیدا کی ہیں۔ ان کا تأثر واقعاتی حقیقت کے پیش منظر پر اُبھرتا ہے۔’’ (۱۵)
ممتاز شیرین نے چونکہ بہت ہی کم تعداد میں افسانے لکھے ہیں لیکن ان چند افسانوں میں انہوں نے مختلف قسم کے موضوعات پیش کیے ہیں۔ موضوعات کے حوالے سے انہوں نے شعوری و لاشعور طور پر ترقی پسند تحریک کے اثرات قبول کیے ہیں۔ یہ اثرات گو کہ زیادہ گہرے نہیں ہیں لیکن ضمنی طور پر ان کے افسانے ‘‘شکست’’، ‘‘رانی’’ اور ‘‘ آندھی میں چراغ’’ کے پڑھنے سے ترقی پسند سوچ کی غمازی کا احساس ہوتا ہے جس کی محدودیت کی بنا پر بعد میں انہوں نے ان افسانوں کو اپنے دوسرے افسانوں کی نسبت کم معیاری افسانے قرار دئیے ہیں۔ بقول ڈاکٹر انوار احمد:
‘‘رانی’’ اور ‘‘شکست’’ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق ہوئے، جس کی وجہ سے ممتاز شیرین نے بعد میں معذرت خواہانہ طرزِ عمل اختیار کیا اور دونوں افسانوں کو اپنے دوسرےا فسانوں کے مقابلے میں کمتر گردانا۔’’ (۱۶)
شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو کسی مخصوص تحریک کے اثرات کے تحت مقید نہیں رکھنا چاہتی۔ اسی طرح ان کے افسانوں میں جو سب سے اہم رویہ پایا جاتا ہے وہ شادی شدہ جوڑے کی زندگی کی کہانی ہے۔ اس کے افسانوں میں بیوی اپنے شوہر کی وفادار اور ان کی خدمت پر مامور نظر آتی ہے جو شوہر کو پورے دل سے مجازی خدا ماننے کے لیے تیار ہیں اور پوری زندگی ان کی خدمت کے لیے وقت کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر نورین رزاق کے مطابق:
‘‘یہ مشرق کی روایتی عورت کا وہ روپ ہے جس میں مجازی خدا کے لیے خلوص، ایثار اور وفا کے جذبے لٹا کر زندگی کو جنت بنانے کی خواہش شدت سے جنم لیتی ہے۔’’ (۱۷)
عورت کی وفا اور شوہر کے ساتھ محبت کے جذبے سے ممتاز شیرین نے مشرقی عورت کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ مشرقی روایات کے زیرِ اثر ہر عورت اپنے خاوند سے محبت کرتی ہے اور ان کی عزت کرتے ہوئے ان کی ہر بات ، ہر خواہش کےا ٓگے سر تسلیمِ خم کرتی ہے۔ وفا اور فرمانبرداری کا یہ جذبہ ان کے افسانوں میں سے ‘‘آئینہ’’، ‘‘گھنیری بدلیوں میں’’، ‘‘اپنی نگریا’’، ‘‘رانی’’، ‘‘شکست ’’ اور ‘‘آندھی میں چراغ’’ میں موجود ہے ۔ یہ عورت اپنے مجازی خدا کی خدمت پر اس قدر مامور ہیں جیسے داسیاں، اور داسیوں کی ڈیوٹی ہی خدمت اور فرمانبرداری ہوتی ہے۔ ممتاز شیرین کے افسانوں کی عورت اپنے شوہر کی فرمانبردار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے محبت میں پوری طرح ڈوب چکی ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ گزارے ہوئے ہر پل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں مثال ملاحظہ ہوں:
‘‘آہ! ان کی کونسی کونسی بات یاد کروں۔ ان باتوں کو یاد کروں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔’’ نانی بی نے آنسو پونچھے اوردبی آواز میں کہنے لگیں۔ ‘‘آہ ! اس جمانے میں وہ مجھے کتنا چاہتے تھے۔ چھتر (۷۰) روپیہ دے کر، اتنی ردور سے، پرائے ملک سے میے لیے آئینہ منگائے تھے۔ اللہ اللہ یہ آئینہ تو ان کی یادگارِ محبت ہے۔’’اور انہوں نے اس آئینہ کے ٹکڑے کو آنکھوں سے لگالیا۔’’ (۱۸)
ازدواجی زندگی کی محبتوں کے نغمے اُلاپتی ہوئی ممتاز شیرین کا لہجہ رومانوی ہو جاتا ہےا ور پھر وہ محبتوں کی فضا تخلیق کرتے ہوئے پورے ماحول کو خوشبوؤں سے بھر دیتی ہیں۔ ان کے انوکھے موضوعات میں نہایت گہرائی اور دلچسپی دیکھنے کوملتی ہے۔ وہ کسی بھی موضوع پر اتنہائی احتیاط اور شائستگی سے کہانی تخلیق کر لیتی ہیں۔ جیسے کہ ‘‘انگڑائی’’ کے نازک موضوع پر بھی جب وہ قلم اُٹھاتی ہیں تو تہذیب کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
فنی حوالے سے اگر ان کے افسانوں کو پڑھا جائے تو ان کا اسلوب نہایت سادہ اور رواں ہے۔ ان کی زبان دانی کا ثبوت تب ہی ملتا ہے جب وہ مخصوص لہجے کے افراد کے مکالمے پیش کرتی ہیں۔ ان کے مکالموں میں جگہ جگہ پر ایک خاص قسم کی بولی ملتی ہے جو ان کے اسلوب کو اور بھی شائستہ اور ان کے افسانوں کو حقیقت سے ہمکار کرتی ہے۔ افسانہ آئینہ سے ایک مثال ملاحظہ کریں:
‘‘ تم پرانے ڈگر پر چلتی ہو۔ آکھر دن رات چار دیواری میں بند رہتی ہو نا۔ تم کیا جانو جمانہ کیسے بدل رہا ہے۔ ارے بھئی یہ نیا پھیشن ہے نیا پھیشن ’’ پیشن ویشن کیا جانوں مجھے تو انہیں پہنتے شرم لگتی ہے۔ کھیر جانے دو، یہ آئینہ تو تمہین پسند ہے۔ دیکھو اسے بھی نہ نہ کہنا، بڑی دور سے منگوایا ہوں۔’’ (۱۹)
یہ اور اسی طرح کی بولیاں ان کےا فسانوں میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک مخصوص لہجے والے افراد زمانہ کو جمانہ، فیشن کو پھیشن اور خیر کو کھیر بولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ممتاز شیرین نے اپنے وسیع تجربے سے اپنے اسلوب کو انفرادیت بخشی ہے اور اپنی ناقدانہ صلاحیتوں کو اپنے افسانوں میں بڑی حد تک بروئے کار لایا گیا ہے۔
فنی لحاظ سے ممتاز شیرین کے افسانے مختصر، مکالمے برجستہ، پلاٹ منظم اور کردار حقیقی معاشرے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی سے جڑے واقعات کو بڑی چابکدستی سے مختلف کرداروں کے ذریعے سے پیش کیے ہیں جس سے ان کے افسانوں میں جدت اور روایت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
۲.۷.۲ الطاف فاطمہ:
الطاف فاطمہ پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے جنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اردو ادب کی آبیاری کی۔ یوں تو انہوں نے ناول بھی لکھے اور ان ہی سے شہرت پائی ۔لیکن افسانوں میں ان کے تین مجموعے ‘‘وہ جسے چاہا گیا، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں اور تارِ عنکبوت’’ شائع ہو چکی ہیں۔ الطاف فاطمہ اس دور میں افسانے تخلیق کرتی رہیں جب بڑے بڑے افسانہ نگار نے پہلے ہی سے اپنا سکہ قائم کر لیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ان کے افسانوں میں احساسِ تنہائی، خوف اور نئے معاشرے کے پروان چڑھنے کا رجحان ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں ماضی کی یادیں اور ان یادوں کے سہارے زندگی گزارنے والے کردار ملتے ہیں۔صنعتی اور مشین دور نے جہاں انسان کو بیش بہا سہولیات فراہم کیے اور اسی کی بدولت انسان کے ہاتھوں نے چاند کو چھوا وہاں پر معاشرے کا ہر فرد لوگوں کے ہجوم میں رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ شاید اسی تنہائی کو الطاف فاطمہ نے بڑی گہرائی سے محسوس کیا اور پھر اپنے فنی مہارت سے ان تجربات کو افسانے کا جامہ پہنایا۔‘‘سلور کنگ، اک شورما ومن اور چھوٹا مولوی’’اس حوالے سے اہم افسانے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک مولوی کی زندگی جن تنگ دستیوں کا سامنا کرتی ہے۔اور جن مسائل نے ان کے گھر پر ڈیرے جمائے ہوتے ہیں الطاف فاطمہ نے ان تمام حقائق کو ‘‘چھوٹا مولوی’’ میں پیش کیے ہیں۔‘‘وہ جسے چاہا گیا’’ میں مجموعی طور پر الطاف فاطمہ نے ان عورتوں کے مسائل بیان کیے ہیں جو زندگی کے دئیے ہوئےتمام دکھوں کو اکیلے جھیلتی ہیں۔ ان عورتوں کے لیے مصنفہ کی ہمدردیاں اس قدر زیادہ ہے کہ بعض اوقات ان کا لہجہ جذباتی ہو جاتا ہےا ور اپنے خلوص کے تمام در ان عورتوں کے لیے کھول دیتی ہیں جو زندگی کو فقط ایک جبرِ مسلسل تصور کرکے گزارتی ہیں۔ بقولِ ڈاکٹر انور سدید:
‘‘الطاف فاطمہ ان عورتوں کی افسانہ نگار ہیں جنہیں زندگی کی بیل گاڑی کھینچنے کے لیے خود اپنا کندھا استعمال کرنا پڑتا ہے۔‘‘وہ جسے چاہا گیا’’ کے افسانوں پر اس قسم کی عورت کی بے بسی اور لاچاری کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے اور وقت بے لگام گھوڑے کی طرح انہیں روندتا چلا جاتا ہے۔ الطاف فاطمہ کے خلوص اور اس طبقے سے جذباتی وابستگی نے ان کے افسانوں کو حقیقت کا مرقع بنا دیا ہے۔’’(۲۰)
نہ صرف ‘‘وہ جسے چاہا گیا’’ میں بلکہ مجموعی طور پر ان کے تمام افسانوں میں یہی رنگ غالب ہے۔ اپنے ہم جنس کے ساتھ جذباتی وابستگی اور ہمدردیاں تقریباً تمام عورتوں کی فطرت میں شامل ہیں اور الطاف فاطمہ بھی ایک عورت ہے اور عورت ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار بھی ہیں جس کے تجربے ، مشاہدے اور معاشرے کی بدمزاجیوں پر ہر وقت کڑی نظر رہتی ہے۔ ‘‘جب دیواریں گریہ کرتی ہیں’’ میں مجموعی طور پر صنعتی اور مشینی دور کی گہما گہمی اور ان شور شرابے میں تنہائی کے احساس کو موضوع بنایا گیا ہے۔ صنعتی معاشرے کے وجود میں آنے سے انسان جس قدر خود غرض ہو چکا ہے الطاف فاطمہ نے ان خود غرضیوں کو بطورِ خاص موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے ان کا اہم افسانہ ‘‘کوک کی ایک بوتل’’ ہے جو معاشرے میں پروان چڑھنے والی بے حسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یوں ان کے تمام افسانوں میں ماضی کی ان تمام اقدار و روایات، محبتوں، رفاقتوں اور رشتوں کی تلاش ہے جس کی بنیاد خلوص اور سچائی پر مبنی تھی۔ پرانی روایات کے کھو جانے کا ڈر اور نئے تہذیب کے پران چڑھنے کا خوف ان کے ہاں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر نورین رزاق:
‘‘الطاف فاطمہ کے ہاں ماضی کی بازیافت کا عمل خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بازیافت دو سطحوں پر نظر آتی ہے۔ اس کی ایک سطح ماضی کی خوبصورت اقدار، محبتوں، رفاقتوں اور رشتوں کے کھو جانے کے المیے اور ان کے لوٹ آنے کی شدید تر خواہش پر مبنی ہے۔ انہیں اپنی تہذیب کا شیرازہ بکھر جانے کا ملال ہے۔پرشور اور ہنگاموں سے لبریز زندگی میں فرد کی داخلی تنہائی کا احساس ہے۔ مادیت پرستی، صنعتی ترقی، سائنسی انقلاب ، پرتصنع اور بناوٹی زندگی، روایات سے بے زاری اور وقت کی گردش نے انسانی رابطوں میں انقطاع کی جو صورت پیدا کی ہے اس کی وجہ سے پختہ کار اور منجھے ہوئے لوگ فالتو اشیا کی طرح بے کار ہیں۔’’(۲۱)
ڈاکٹر نورین رزاق کی یہ بات ان کے دیگر افسانوں کے علاوہ ‘‘تارِ عنکبوت’’ کے ‘‘مہرہ جو پٹ گیا’’ پر صادق آتی ہے جہاں سکندر بخت جیسے فنکار کی شناخت اور عزت پائمال ہو جاتی ہے۔ سکندر بخت کا کردار پرانی اور نئی تہذیبوں کا ایک ایسا نمائندہ کردار ہے جو پرانے وقتوں میں اپنی قدردانی دیکھ چکا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے زندگی کے اُتار چڑھاؤ کا سامنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کے ساتھ کسی زمانے میں لوگ بڑی عزت سے پیش آئے تھے لیکن اب اس کی کوئی قدر نہیں، اب نئے نئے فیشن آگئے ہیں ۔ اس کردار نے محبتوں کو کھویا ہے اور اب وہ اس تلاش میں سرگرداں ہے کہ کوئی مل جائے کہ جس کے بال تراش کر سنوار کر کچھ کمایا جا سکے۔ یہ صرف ایک سکندر بخت کی کہانی نہیں بلکہ ایسے بے شمار افراد اس آگ میں جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ الطاف فاطمہ کے افسانوں میں معاشرے کا یہ رخ جا بجا نظر آتا ہے۔ انہوں نے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ان صاحبِ ثروت لوگوں کو بھی غضب کی نگاہ سے دیکھا جو دولت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور ان غریب اور بے بس افراد کی ترجمانی بھی کی ہے جو رزق کی خاطر اور معاشرے میں بے روزگاری کے طعنے سے بچنے کی خاطر پردیس کا رُخ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘خیال بیاباں نورد’’ نمائندہ افسانہ ہے۔ جو قیصر کی احساسِ محرومی کی کہانی ہے۔ یہ کردار ایک متوسط طبقے کا کردار ہے جو روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اپنے ہی گھر کے افراد کی نظروں میں چبھتا ہے اور وہی عزت جو ان کے چھوٹے بھائی کو دی جاتی ہے اسے نہ ملنے کی وجہ سے محرومیوں کے ایسے دلدل میں پھنس جاتا ہے کہ نوکری ملنے کے بعد کسی سے کہے بغیر گھر سے چلا اجتا ہے۔ الطاف فاطمہ اپنے سیاسی شعور کی وجہ سے ملک کے ناگفتہ بہ حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان عورتوں پر بھی طعن و ملامت کے تیر برساتی ہیں جو دولت کے حصول کے لیے آزاد خیال اور اپنی ثقافت سے بغاوت کا اعلان کرتی ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہو کہ مغربی ممالک کے بڑے بڑے لوگوں کے ہاں وقعت ہو پائے۔ ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:
‘‘ الطاف فاطمہ بظاہر سیاسی و سماجی منظرنامے سے بے تعلق رہتی ہے مگر دو صورتوں میں وہ جانبدار ہو جاتی ہے۔ ایک جب پاکستان کی حکمران اشرافیہ خصوصاً خواتین کی جانب سے خود کو اجتماعی احساس اور ثقافتی کشش سے آزاد کرانے کی ایسی کوشش ہو جو انہیں امریکی یا یورپی آقاؤں کا منظورِ نظر بنادے یا پھر مجموعی طور پر دنیا میں تہذیب کے اجارہ دار مسلمانوں کے ساتھ تعصب روا رکھیں۔’’(۲۲)
اس طرح مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے الطاف فاطمہ اس دور کے متاثرہ افراد کی کہانی لکھتی ہیں۔ ظلم کے خلاف مزاحمت ایک تخلیق کار کا خاصا ہے اور یہی رویہ الطاف فاطمہ کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے بہت سارے موضوعات پر افسانے لکھے ہیں یہ موضوعات انہوں نے اپنے معاشرے میں پلنے والی برائیوں ، ظلم و ستم ، احساس محرومی اور پھیلتی ہوئی مایوسی کو محسوس کرکے زیرِ بحث لائی ہیں۔
فنی طور پر اگر دیکھا جائے تو الطاف فاطمہ کے افسانوں میں واقعات کے اُتار چڑھاؤ، ابتداء، وسطانیہ اور اختتام میں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ایک سلجھی ہوئی تخلیق کار ہیں اور اپنے افسانوں کے واقعات سے پلاٹ کو منظم رکھتی ہیں۔ا س طرح انہوں نے کردار نگاری کرتے ہوئے اپنے کرداروں کے نفسیات کو ٹٹولا ہے۔ ان کے افسانوں میں کرداروں کی پیش کش کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ کوئی بھی کردار اضافی یا اتفاقی نہیں لگتا۔ آپریٹر نمبر ۳، شیر دھان، گواہی، ننگی مرغیاں، نمانا جیسا آدمہ، مہرہ جو پٹ گیا، خیالِ بیاباں نورد اور کنڈکٹر کردار نگاری کے حوالے سے اہم افسانے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانوں میں جو سب سے غالب رنگ ہے وہ ان کی مکالمہ نگاری کاہے۔ ہر طرح کے مکالمے اس انداز سے پیش کرتی ہین کہ جیسے اوریجنل ماحول میں ہم تم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کے سادہ اور خوبصورت مکالمے پیش کیے ہیں جس سے اس کردار کی پوری سیرت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مثال دیکھیے:
‘‘ کیوں بیٹے کوئی بات بنی؟’’
‘‘آپ کے خدا کے پاس میرے لیے کوئی نوکری بھی تو نہیں۔ بات بنے تو کیسے’’
وہ اس کی صورت دیکھنے لگا۔
‘‘تو بیٹے دکان ڈال لو نا کوئی۔ میں نے تو پہلے بھی صلاح دی تھی۔’’
‘‘والد صاحب کہتے ہیں میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں’’
‘‘یہ بھی ٹھیک ہے۔’’ مولوی صاحب کھنکارکر رہ گئے۔ پھر بولے:
‘‘حوصلہ رکھو کبھی کبھار نماز پڑھ لیا کرو۔’’ (۲۳)
اس طرح ان کے تمام مکالمے زندگی کے داؤ پیچ دکھاتے رہتے ہیں۔ ہر طبقے، ہر عمر اور ہر پیشے کے افراد کے مکالمے ان کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ الطاف فاطمہ کے افسانوں میں فنی و فکری گہرائیاں موجود ہیں جو انہیں افسانہ نگاری کی ایک اہم تخلیق کار کے طور پر سامنے لاتی ہیں۔
۳.۷.۲ خدیجہ مستور:
خدیجہ مستور کا شمار پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں کے ابتدائی تخلیق کاروں میں ہوتا ہے اس ضمن میں ان کے افسانے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے پانچ مجموعے ‘‘کھیل، بوچھاڑ، چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی’’ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں ہوتاہے اور وہ خود بھی ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن رہ چکی ہیں۔ شروع شروع میں ان کے افسانوں پر رومانوی رنگ غالب رہا ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عشقیہ مزاج کی انہوں نے بھرپور ترجمانی کی ہے۔ان کا پہلا مجموعہ ‘‘کھیل’’ اس حوالے سے اہم ہے اس مجموعے کے افسانے نوجوانوں کی ہیجان انگیز جذبات سے لبریز ہیں۔ لیکن اس کی تندہی عصمت چغتائی کی طرح جنسی کیفیت اختیار نہیں کرتی۔ انہوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ محبت بھرے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے ہاں جنسی رویے بھی ہیں مگر یہ جنس فقط جسمانی تشنگی کا احساس نہیں رکھتی بلکہ کبھی کبھی تو ذہنی سطح پر اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی کے بقول:
‘‘خدیجہ کے ہاں نرمی اور آہستہ روی ہے۔ ان کے ہاں جنس کبھی کبھی جسمانی تقاضوں سے ابھر کر ذہنی سطح پر بھی پھیلتی نظر آتی ہے۔ ان کا افسانہ ‘‘سراب’’ جسم سے ابھر کر اس کی کشش کی طرف لے جاتا ہے جو زندگی کی لایعنیت کو کبھی کبھی معنویت میں تبدیل کر دیتی ہے۔’’ (۲۴)
یہ خدیجہ مستور ہی کی تخلیقی صلاحیتوں کا خاصا ہے کہ کبھی کبھی کسی کردار کو سستے جذبات سے گزرتے ہوئے احساسِ ندامت سے دوچار کراتی ہیں۔ یہ وہ حساس کردار ہیں جو زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ ان کے پہلے افسانوں میں عشق و محبت کی داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انہوں نے ‘‘نہ جاؤ’’، ‘‘معصوم،’’، ‘‘کھیل’’، ‘‘پتنگ’’، ‘‘بگڑے گیسو’’، ‘‘تین ملاقاتیں ’’اور ‘‘عشق کیا پایا’’ میں اس قسم کے موضوعات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے رومان کے ساتھ ساتھ سیاسی منظرنامے کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور کہیں کہیں پر اپنے انوکھے تشبیہات سے ان مناظر کو بیان کیا ہے۔ مثال ملاحظہ کریں:
‘‘تم یوں سمجھو کہ یہ کانپتی ہوئی پتنگ ہندوستا ہے اور ہم انگریز۔ اس کی ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے جدھر چاہا گھمادیا اور۔۔۔اور اگر ہوا تیز ہو جانے سے پتنگ بھاری ہو جائے تب؟ میں نے ان کی بات کاٹ دی۔ تب ڈور کٹ جائے گی اور۔۔۔’’ (۲۵)
اسی طرح ان کے ہاں کہیں کہیں پر ٹھوس جنس نگاری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ مثلاً:
‘‘ انہوں نے اسے پاس بٹھا کر سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ ان کا ہاتھ کبھی کبھی بالوں سے پھسل کر گردن پر رینگنے لگتا۔۔۔۔ انہوں نے اپنی موٹی سی انگلی سے اس کے ہونٹ چھو لیے اور ایک ہاتھ اس کی پشت پر رکھ دیا جو ہلکی سی تھرتھراہٹ کے ساتھ پشت پر رینگنے لگا۔’’ (۲۶)
اسی طرح کے جنسی نمونے ان کے افسانے ‘‘چپکے چپکے’’ میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے جنسی جذبے کو بیان کرتے ہوئے نامرد اور جنسی طور پر بانجھ لوگوں کو موضوع بنایا ہے۔اسی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثر انہوں نے طبقاتی کشمکش، مفلسی، غربت، بھوک اور ناداری کے موضوع پر بھی افسانے لکھے۔ ان کے باقی چار مجموعوں میں اس موضوعات پر افسانے ملتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق:
‘‘ خدیجہ مستور(متوفی ۱۹۸۲ء) کا طلوع ترقی پسند افسانے کے عروجی دور میں ہوا تھا۔اس تحریک کے زیرِ اثر انہوں نے معاشرتی تضادات اور عورت کی مظلومیت کو اپنے افسانوں میں خصوصی اہمیت دی ۔ ‘‘بوچھاڑ’’ ‘‘چند روز اور ’’، ‘‘تھکے ہارے ’’اور ‘‘ٹھنڈا میٹھا پانی’’ میں انہوں نے نچلے اور متوسط طبقے کے کرداروں کو ان مسائل سے اُبھارا ہے۔’’ (۲۷)
انہوں نے زیادہ تتر عورتوں کے مسائل بیان کیے ہیں۔ ایک عورت ہونے کے ناطے عورت کے مسائل کا نوحہ صرف عورت ہی بیان کرسکتی ہے اور خدیجہ مستور نے اپنے ان ہی تجربات سے فائدہ اُٹھا کر اپنے افسانوں کو ان موضوعات سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانے عورتوں کی آزادی اور گھر سے باہر کھلے عام نکلنے اور گھومنے پھرنے کی تبلیغ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرہ چونکہ مسلم معاشرہ ہے اور یہاں پر عورتوں کا کھلے عام اور بے پردہ رہنا گھر سے باہر نکل کر مردوں کے سامنے بے پردگی کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن خدیجہ مستور اس حوالے سے خاصی روشن خیال واقع ہوئیں ہیں کہ انہوں نے عورت کے پردے میں رہنے کو ان کے اوپر ظلم قرار دیا ہے اور اس روایت کے خلاف انہوں نے علم بغاوت بلند کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اپنے افسانوں میں بعض کرداروں کی رو سے خدیجہ مستور اس روایت کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ افسانہ ‘‘یہ ہم ہیں’’ سے مثال ملاحظہ کریں:
‘‘ ہم اپنی صورت ضرور دکھائیں گے تاکہ یہ کمبخت عادی ہو جائیں جہاں کسی عورت کو سڑک پر دیکھا اور دم نکلنے لگا ۔ پر یہ شرعی پاجاموں والے۔۔۔ ہائے یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح گھر کے ایک کونے میں بنے ہوئے بیت الخلا میں انسان اپنی ضرورت سے جاتا ہے بس اس طرح عورت کو گھر میں بند کر دیا جائے۔’’ (۲۸)
خدیجہ مستور کے اس طرزِ فکر کے متعلق ڈاکٹر نورین رزاق لکھتی ہیں:
‘‘خدیجہ مستور نے پردے کی مخالفت کرتے ہوئے مردوں کی ریا کاری اور مولویانہ سوچ رکھنے والے افراد کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اس دور میں عورت گھر کی چار دیواری میں مقید تھی اور پردے کے بغیر گھر سے نکلنے والی عورت پر بے حیائی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا تھا۔ خدیجہ مستور اپنے کرداروں کے ذریعے اس سوچ اور طرزِ عمل کی مخالفت کرتی ہے۔’’ (۲۹)
ڈاکٹر نورین رزاق کے اس طرزِ عمل سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ گھروں میں رہنے والی عورتیں کبھی مقید نہیں ہوتیں۔ اسلام نے عورتوں کے ذمے داخلی امور کی انجام دہی اور مردوں کو خارجی امور انجام دینے کا حکم دیا ہے اب مذہب کے پیروکاروں پر مولویانہ طرزِ فکر کا لیبل چسپاں کرنا بھی کہاں کا انصاف ہے۔ بہر حال پردے کی مخالفت جیسے موضوعات پر خدیجہ مستور نے اپنے افسانوں میں جگہ جگہ پر اس قسم کے اشارے دئیے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات کی بھی کہیں کہیں پر اشارے ملتے ہیں۔ اس حوالے سے افسانہ ‘‘لاش’’ اور ‘‘مینولے چلا بابلا لے چلے وے’’ میں ظلم و بربریت ، قتل و غارت گری اور معصوم عورتوں اور جوان لڑکیوں کی عصمت دری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم کے بعد کے حالات اور ہندومسلم فسادات میں ظلم کی انتہا کی گئی تھی اور ان بہتے خون کی ندیوں کو خدیجہ مستور نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آنسوؤں کے امڈتے ہوئے سیلابوں کو دیکھا جو بے گناہوں اور معصوموں کی آنکھ سے جاری ہوئے۔ اس دل دہلا دینے والے مناظر نے ان کو بھی ان موضوعات پر قلم اُٹھانے پر مجبور کیا۔ اسی طرح ۱۹۶۵ء کے جنگ میں ہونے والی تباہی سے بھی وہ غافل نہیں رہی اور انہوں نے اس موضوع پر ‘‘ثریا، راستہ اور ٹھنڈا میٹھا پانی’’ جیسے افسانے تخلیق کیے۔ مجموعی طور پر ان کے موضوعات پر اگر غور کیا جائے تو انہوں نے رومانوی افسانے لکھے، ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غریبوں کی کسمپرسی پر قلم اُٹھایا ، انسانی جبلتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جنس کے موضوع پر لکھا اور اسی طرح روشن خیالی کے باب میں پردے کی مخالفت بھی ان کے موضوعات میں سے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانوں میں ان تمام حقائق کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو اس دور کے حالات کے پیشِ نظر سامنے آتے ہیں۔
خدیجہ مستور کے افسانوں کا اگر فنی مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں پر تجسس افسانے قاری کو چونکا دیتے ہیں۔ یہ تجسس شروع سے لے کر اخیر تک برقرار رہتا ہے اور ابتداء ، نکتۂ عروج اور انتہا میں ایسا منظم ربط پایا جاتا ہے جس سے ان کے افسانوں کا پلاٹ مضبوط اور مستحکم ہو جاتا ہے۔ اسلوب ان کے ہاں سلیس اور رواں ہے۔ تشبیہات کے استعمال سے سیاسی منظرنامے کو پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تشبیہات خود ان کے اپنے ہیں جو انہوں نے اس دور کے حالات کے مطابق استعمال کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں جو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں وہ ان کے مکالمے ہیں۔ ان کے شستہ مکالمے کرداروں کے نفسیاتی عوامل کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے افسانوں میں محبت کے جذبات بھرے مکالمے، کم سن بچوں کے مکالمے، بوڑھے مردوں اور عورتوں کے مکالمے، ظلم سہتی عورتوں ک ے مکالمے اور جابر و ظالم کرداروں کے مکالمے زندگی کے لمحوں کی طرح رواں دواں نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر خدیجہ مستور کے افسانوں میں معاشرتی اصول اور ان اصولوں کے قید میں بندھی ہوئی عورتوں کی کہانیاں ہیں۔ دوسری افسانہ نگار خواتین کی طرح خدیجہ مستور کا قلم بھی عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وہ اپنے ہر کردار سے محبت کرتی ہیں۔ تبھی تتو اپنے موضوعات سے ان کرداروں کو زندگی عطا کرتی ہے اور نئے نئے واقعات پیش کرکے زندگی کے تلخ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔ خدیجہ مستور اردو کے ان خواتین افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے تقسیم سے پہلے بھی افسانے لکھے اور بعد میں بھی لکھتی رہیں۔ ہر دور اور حالات کے تناظر میں سماج کے بدلتے ہوئے رویوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی اور یوں اردو کے اہم ترین افسانہ نگاروں کی فہرست میں اپنا نام شامل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
۴.۷.۲ بانو قدسیہ:
بانو قدسیہ اردو افسانے کی ایک معتبر نام کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیائے افسانہ میں اپنا نام زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے افسانہ نگاری میں نئے نئے موضوعات متعارف کروائے۔ پہلے پہل ان کی شہرت صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اشفاق احمد کی بیگم ہے لیکن بعد میں انہوں نے خود اپنی تحریروں کے ذریعے سے اپنی پہچان منوالی۔ ان کے کل آٹھ افسانوی مجموعے شائع ہوئیں جن میں ‘‘کچھ اور نہیں، باز گشت، دوسرا دروازہ، آتش زیرِ پا، امر بیل، سامانِ وجود، ناقابل ذکر اور دست بستہ’’ شامل ہیں۔
فکری حوالے سے اگر ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کے افسانوں میں ہر قسم کے موضوعات دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے محبت کے موضوع پر بھی افسانے لکھے جن میں محبت کو ایک پاکیزہ جذبے کی صورت میں دکھایا گیا ہے ان کے ہاں محبت دو دلوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس میں احترام کے جذبے کو مدِ نظر رکھ کر انسان کی عزتِ نفس کے حوالےسے بات کی گئی ہے۔ابتدا سے لے کر آخر تک ان کے افسانوں میں اکثر جگہوں پر محبت کے جذبے سے لبریز کردار ملتے ہیں۔ ان کرداروں کے ہاں محبت کا جذبہ بھی ہے اور ان جذبوں کے ساتھ ساتھ ان میں تہذیبی رکھ رکھاؤ بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی محبت میں وحشی پن کی غیر موجودگی سے شائستگی پائی جاتی ہے۔ محبت کے جذبے کی بات کرتے ہوئے بانو قدسیہ پورے ماحول کو خوشبوؤں سے معطر کر دیتی ہیں۔ مثال ملاحظہ ہوں:
‘‘ نہ میں نے اس سے اقرارِ محبت کیا نہ اس نے مجھے اقرار پر آمادہ کیا۔ حالانکہ رات کی ٹھنڈک میں کئی اشارے تھے اور فضا خود بخود جگنوؤں کی طرح جلتی بجھتی تھی ۔ میری کار میں زمبا کی خوشبو تھی۔ ہلکی سی فرانسیسی خوشبو میں ملی جلی جلتے ربڑ کی خوشبو۔۔۔
میں دیر تک وہیل پر بازو رکھے بیٹھا رہا۔ بالآخر جب اس کی غیر موجودگی کا قلق آنسو بن کر میرے گلے میں اُترنے لگا تو میں اُٹھا۔ کار بند کی اور اندر چلا گیا۔’’(۳۰)
محبت کے رنگ میں رنگے کردار اور ان کرداروں کو بڑے سلیقے سے پیش کرنا بانو قدسیہ کا کمالِ فن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشرے کے بدلتے ہوئے رویوں کو بھی مدِ نظر رکھا اور اپنے وسیع تر مشاہدے ، مطالعے اور تجربے کے ذریعے سے سیاسی، سماجی اور معاشرتی برائیوں پر قلم اُٹھایا۔ اور ان تلخ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی جو ایک عام آدمی کی زندگی کی سچائیاں ہیں۔ بانو قدسیہ کے فکری رویوں کے متعلق ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:
‘‘ان کے افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلک بھی ہے، کہیں کہیں ان کے ہاں بے باک دہقانیت بھی ملتی ہے جو عریانی کو فحش نہیں ہونے دیتی۔ بانو نے اشیاء، افراد اور محسوسات و افکار کے بطن میں جھانک کر اپنے عہد کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی ۔’’ (۳۱)
اس کے ساتھ ساتھ بانو قدسیہ نے محسوساتی طور پر معاشرے کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے فرد کی ذہنی کشمکش سے پیدا ہونے والی الجھنوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی اور ان الجھنوں کے حل کے لیے بڑی ہمدردانہ طور پر کوشاں ہیں۔ ان کے افسانے بچپنے کی محبتوں، ماں باپ کی عدم توجہی سے محروم بچوں کی ذہنی کشمکش، عورتوں کے سماجی اور گھریلوں مسائل، جنسی تشنگی اور محبت کے جذبات، تلخ حقائق اور سیاسی مفادات کے لیے قربان ہونے والے نوجوانوں کی داستانیں ہیں۔ بقول ڈاکٹر انور سدید:
‘‘ بانو قدسیہ ‘‘بازگشت’’ اور ‘‘دانت کا دستہ’’ کے افسانوں میں ایک ایسی داستان طراز کی صورت میں ابھریں جس کے سامنے کردار اپنی زندگی کی کتاب کھول دیتے ہیں۔ ان کے نئے افسانوں میں سماجی حقیقت پر فکری عنصر غالب ہے اور وہ انسان کی دھندلی بصیرت کو اجالنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ ‘‘ناقابل ذکر’’ کے افسانوں میں انہوں نے سماجی حقیقتوں کو خلوص اور درد مندی سے سمجھا اور ان پر اپنا ردِ عمل بے حد مثبت انداز میں پیش کیا۔’’ (۳۲)
خواتین افسانہ نگار میں بانو قدسیہ ایسی کہانی کار کی صورت میں ابھرتی ہے کہ جس نے ایسے کردار بھی پیش کیے جو شوہر کی محبت کے لیے تڑپتی ہے۔ ‘‘سوغات’’ میں شریفاں کا کردار اس بات کا ثبوت ہے جو شوہر کی وفاداری کرتی ہوئی اور ان کی عدم توجہی کا عذاب سہتی سہتی اپنے شوہر کو راہِ راست پر لانے کے لیے دعائیں مانگتی ہے۔ اور نصیحتاً اسے جہنم کی آگ سے ڈرانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ بانو قدسیہ گناہ کے احساس سے عاری افراد کی کہانی بیان کرتے ہوئے معاشرے کی سچائیوں کو پیش کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محبِ وطن فوجیوں کا ذکر کرتی ہوئی قید و بند کی صعوبتوں کا نقشہ کھینچتی ہیں۔ اور اس کرب کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہیں۔ جس سے ایک قیدی گزرتا ہے۔ فکری طور پر ان کے افسانے اپنے اندر معاشرے کی تمام تلخ و شیریں سچائیوں کا آئینہ دار ہیں۔
فنی لحاظ سے ان کے افسانوں میں جو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز ہے وہ افسانوں کے پلاٹ ہیں۔ بانو قدسیہ نے افسانوں میں واقعات کچھ ا س انداز سے ترتیب دئیے ہیں۔ کہ کہیں بھی اس بات کا شائبہ تک نہیں ہوتا کہ پلاٹ میں جھول پڑ گیا ہے۔ انہوں نے واقعات اور کرداروں کے مابین ایک ایسا ربط برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے پوری کہانی ایک منظم پلاٹ میں پروئی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ان کے افسانوں میں ‘‘یہ رشتہ و پیوند، مجازی خدا، باز گشت، نیلوفر، شناخت، ذات کا محاسبہ، سوغات، پریم جل، امربیل ، مجرا اور چابی اہمیت کےحامل افسانے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے افسانے میں کمال کی کردار نگاری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں ہر طرح کے کردار دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان، امیر، غریب، بے بس باپ، محبت کے دلدل میں پھنسی ہوئی اکیلی لڑکی، اسی طرح مسلمان کرداروں کے ساتھ ساتھ سکھ کردار بھی ان کے افسانوں کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ ضمنی کرداروں کو بھی بخوبی نبھایا ہے۔ جب وہ ‘‘ہردرشن کور ’’کے معصوم کردار کو پیش کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بانو قدسیہ کی ساری ہمدردیاں اس کردار کے ساتھ ہیں۔ اس کردار کے پیش کرتے ہوئے اس کی معصومیت کو کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہیں کہ قاری کو اس کردار سے محبت ہونے لگتی ہے اور اس محبت میں وہ شروع سے لے کر آخر تک آبِ رواں کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔ بصری کرنیل کور کو اسلام اور قرآن کے بارے میں بتاتی ہیں اور وہ لاشعوری طور پر اسلام کی طرف مائل دکھائی دیتی ہے۔ اور جب بصری بہشت کی باتیں کرنے لگتی ہیں تو کرنیل ڈر جاتی ہے ۔ ڈر اور مذہبی کشش کو بانو قدسیہ نے کچھ یوں پیش کیا ہے:
‘‘ کرنیل نے زمین کی چھت پر نظر ڈالی جس پر ہزاروں تارے جل بجھ رہے تھے۔
بہشت میں ایک بہت بڑا درخت ہے عذرا۔ اس درخت کی لاکھوں ڈالیاں ہیں اور ہر ڈالی پر ان گنت پتے ہیں۔ ہر پتے پر کسی نہ کسی انسان کا نام لکھا ہے جس آدمی کے نام کا پتہ جھڑ جاتا ہے وہ سال کے اندر اندر اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔
کرنیل کو ایسے درخت کے تصور سے خوف آنے لگا۔ وہ بصری کے پاس دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔’’ (۳۳)
اس کے ساتھ ساتھ بانو قدسیہ کے کرداروں میں زمبا، سارا، گلو، فاطمہ اور ان جیسے بہت سارے خواتین کردار ہیں جو محبتوں کے نغمے اُلاپتی ہیں اور محبت سے لبریز ہونے کے ساتھ ساتھ معصومیت کا پیکر بھی ہیں۔ ان کے کرداروں میں بے بس اور لاچار افراد بھی ہیں جو اپنی آنسوؤں سے زندگی کا نوحہ لکھتے ہیں۔ اور ایسے کردار بھی ہیں جو خوشیاں بانٹتے ہیں اور خوشیوں کی زندگی گزارتے ہیں ان کرداروں میں فطری پن ہے، سچائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نیکی اور بدی (جو انسان کا خاصہ ہے) کا جذبہ ان کے کرداروں میں یکساں طور پر موجود ہے۔
بانو قدسیہ نے اپنے افسانوں میں تکنیکی اعتبار سے بیانیہ تکنیک ، واحد متکلم کی تکنیک، تمثیل کی تکنیک، خط کی تکنیک اور فلیش بیک کی تکنیک سے کام لیا ہے۔ ڈاکٹر نورین رزاق کے مطابق:
‘‘ بانو قدسیہ کے افسانوں میں تکنیکی اعتبار سے بھی تنوع نظر آتا ہے۔ بیانیہ اور مکالمہ کی تکنیک کے علاوہ واحد متکلم کی تکنیک ‘‘خانہ جگی، پابند، انتترہوت اُداسی، نقل مکانی، تنکے کا سہارا، التجاء، اقبالِ جرم، الزام سے الزام تک، تنگیٔ دل، دو رنگی، رنگ روٹ اور روس سے معذرت کے ساتھ میں برتی گئی ہے۔ مذکورہ بالا افسانوں میں پہلے تین کے علاوہ تمام افسانوں میں واحد متکلم مرد ہے۔ واحد غائب کی تکنیک اسباقِ ثلاثہ، تمثیل کی تکنیک، ‘‘ٹائیگر ارم ’’اور ‘‘کال کلچی ’’میں برتی گئی ہے۔ خط کی تکنیک جزوی طور پر ‘‘رشتہ و پیوند، پہلا پتھر، وا ماندگیٔ شوق ’’میں بانو قدسیہ کے افسانوں کا حصہ بنی ہے۔قارئین سے براہِ راست تخاطب ‘‘شہر کافور’’ اور ‘‘پابندی’’ اور تقابل کا انداز ‘‘نیتِ شوق ’’اور ‘‘ہو نقش اگر باطل’’ میں نظر آتا ہے۔’’ (۳۴)
تکنیک کے ساتھ ساتھ ان کے مکالمے کافی جاندار ہیں۔ انہوں نے کرداروں سے آسان اور سلیس انداز میں مکالمے کہلوائے ہیں جس سے ہر کردار کا مافی الضمیر آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر عورتوں کے مکالموں پر بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے جس سے کرداروں کی تمام تر نفسیات کا پتہ چلتا ہے۔ چونکہ بانو قدسیہ کا میلان زیادہ تر روحانیت کی طرف ہے اس وجہ سے ان کے کرداروں کے مکالمے جگہ جگہ پر روحانیت کا درست دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن میں ‘‘سوغات ’’ اور ‘‘کتنے سو سال’’ کے مکالموں میں روحانیت کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ اسی طرح ان کی مکالمہ نگاری میں ان کے منفرد اسلوب کا بڑا ہاتھ ہے۔ اپنی مکالموں میں انہوں نے الفاظ کی روانی کو مدِ نظر رکھا ہے جس سے افسانے خوبصورت جذبات کا مرقعہ پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر افسانے میں تجسس کو برقرار رکھا ہے جو افسانے کا خاصا ہے اور اس تجسس کی بنا پر افسانے کی تاثیر زیادہ اور دیر پا ہوتی ہے۔ بانو قدسیہ نے تجسس سے بھرے افسانے لکھے ہیں کہیں پر بھی انہوں نے اس تجسس کو ٹوٹنے نہیں دیا اور کہیں کہیں پر تو افسانے کے اختتام کے بعد بھی یہ تجسس برقرار رہتا ہے۔ اس حوالےسے ‘‘ہو نقش اگر باطل’’، ‘‘سوغات’’ اور ‘‘سمجھوتہ’’ قابلِ ذکر افسانے ہیں۔
بانو قدسیہ کے افسانوں میں ان کا جاندار اسلوب ہی ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے ۔انہوں نے آسان الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہنے کی کوشش کی ہے ۔جگہ جگہ پر انگریزی کے الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں لیکن اس انداز سے کہ جس سے ان کا اسلوب اور بھی دلکش بن جاتا ہے۔ تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا استعمال اس خوبی سے کرتی ہیں کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے منفرد اسلوب ہی کے ذریعے سے افسانے کو چار چاند لگا دئیے ہیں جس میں روز مرہ محاورے، ضرب الامثال اور عورتوں کی مخصوصی بولی کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔
بطورِ مجموعی بانو قدسیہ کے افسانے فنی و فکری لحاظ سے مکمل افسانے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے تمام تر سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا بغور مشاہدہ کرکے اپنے افسانوں میں اس انداز سے واقعات پیش کیے ہیں کہ جس سے ان کی فنی پختگی واضح طور پر سامنے آتی ہے۔
۵.۷.۲ ہاجرہ مسرور:
ہاجرہ مسرور خدیجہ مستور کی بہن ہے اور ترقی پسند تحریک کی ایک اہم رکن رہی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اردو افسانے کو جلا بخشی ہے۔ ان کے کل چھ مجموعے ہیں۔ (۱) چاند کے دوسری طرف (۲) تیسری منزل(۳) اندھیرے اُجالے (۴) ہائے اللہ (۵) چوری چھپے (۶) چرکے۔ یہ تمام مجموعے ان کی کلیات ‘‘سب افسانے میرے’’ میں بھی شائع ہوئے اور تین مجموعے اندھیرے اُجالے، چوری چھپے اور ہائے اللہ الگ الگ مجموعوں کی صورت میں بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ترقی پسند افسانہ نگار ہے جو اپنے افسانوں میں بھوک، افلاس ، غربت، محرومی، مایوسی اور طبقاتی اونچ نیچ جیسے موضوعات پیش کرتی ہیں۔ افسانہ ‘‘پرانا مسیح’’، ‘‘بڑے انسان بنے بیٹھے ہو ’’اور ‘‘چراغ کی لو’’ اس حوالے سے اہم افسانے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اپنے دور کے حوالے سے بہت وسیع ہے چونکہ ان کا وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھی اس لیے وہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر لوگوں کی بد حالی اور معاشرے کی ناروا سلوک کو بڑی گہرائی سے محسوس کرتی ہے۔‘‘پرانا مسیح’’ میں ان کا موضوع مزدور اور کمیونسٹ ہے اس افسانے میں کمیونسٹ کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کو اُبھارا گیا ہے۔ مثال ملاحظہ ہوں:
‘‘ چودھری صاحب! آپ کے مل میں کوئی کمیونسٹ تو نہیں؟ چودھری صاحب نے جواب نہیں دیا! میرے ہاں ایک ایسا حرامزادہ گھسا تھا مگر میری سی، آئی ڈی سے بچتا۔ میں نے اسے ایک جھوٹے الزام میں جھیل بجھوادیا۔’’(۳۵)
اسی طرح ان کا افسانہ ‘‘چراغ کی لو’’ پریم چند کے افسانے ‘‘کفن’’ کے تناظر میں لکھا جانے والا افسانہ ہے جو معاشرے کے اس رخ کی غمازی کرتی ہے کہ انسان کی قدر و منزلت اس کے مرنے کے بعد ہی بڑھتی ہے۔ ایک غریب عورت زندہ رہ کر روٹی کے ٹکڑوں کے لیے ترستی ہے، پانی کی چند بوندوں کے لیے ترستی ہے اس وقت کوئی نہیں ہوتا جو ان کی بھوک مٹانے کے لیے اس کی مدد کرے لیکن مرنے کے بعد پچیس روپے کے کفن میں دفن کر دی جاتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھنے والی اس بے حسی کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں پر انسانیت صرف امرا تک محدود ہے۔ غریبوں کے لیے کسی کے دل میں کوئی ہمدردی نہیں اور نہ ہی اس کی تن پوشی کے لیے کپڑا دینے کے لیے کوئی تیار ہے۔ ہاجرہ مسرور نے ان تلخ حقائق کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ افسانہ ‘‘چراغ کی لو’’ سے مثال ملاحظہ کریں:
‘‘اس واقعے سے دور وز قبل کی بات تھی کہ اس نے انہیں مالک سے دو روپے اپنی تنخواہ میں پیشگی مانگے تھے تاکہ وہ سسکتی ہوئی اچھن کی ماں کو حکیم صاحب کا لکھا ہوا نسخہ پلا سکے لیکن مالک نے اس بری طرح سے جھڑک دیا کہ وہ کسی کے زندہ رکھنے کا ٹھیکہ دار نہیں اور اب موت کے نام پر رکھئے پچیس روپے۔ افوہ ! وہ غریبوں کو کفن دینے سے کتنے فراخدل تھے اور کتنا اچھا اصول تھا ان کا کہ کفن لے لو دوا مت لو۔ کیونکہ دوا تو دنیا میں ہی ختم ہو جاتی ہے اور کفن تو قیامت تک کے لیے فیاضی کی دلیل ہوتا ہے۔ روٹیوں کو ترستی، کپڑے کو بلکتی اور حکیم صاحب کا نسخہ پینے کو سسکتی اچھن کی ماں ایک دم پچیس روپے کا کفن پہن کر زمین میں جا چھپی۔’’(۳۶)
اسی طرح افسانہ ‘‘بڑے انسان بنے بیٹھے ہو’’ میں طبقاتی اونچ نیچ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ امیروں اور غریبوں کی جسمانی ساخت اور کپڑوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ یہ موازنہ فقط انسانوں کی جسمانی سطح پر نہیں بلکہ نا انصافی کے دلدل میں دھنسے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی داستان ہے جہاں انسانوں کو دولت کے زمرے میں دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف چمکیلی گاڑیوں میں چلنے والے موٹے تازے لوگ اور دوسری طرف جھکی ہوئی کمر کے بوجھ سے ہانپتے ہوئے بوڑھے۔ ایک طرف میک اپ سے بسی ہوئی اور خوشبوؤں سے معطر عورتیں اور دوسری طرف مزدور عورتیں جو غربت کی چھکی میں پستے ہوئے اپنی خوبصورتی کھو چکی ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے دور کا انسان دو حوالوں سے تقسیم ہوا ہے۔ایک امیر اور دوسرا غریب۔ امیر کے لیے اس دنیا میں سب کچھ ہے مگر غریب بے یار و مددگار۔ ہاجرہ مسرور نے اس استحصالی معاشرے کی کھل کر مذمت کی ہے۔
دوسرا اہم موضوع جو ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ عورت کی مظلومیت ہے۔ اس موضوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ اپنی عورت ہونے کا ثبوت اس طرح دیتی ہے کہ اپنے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ عورت کی بات کرتی ہوئی ہمدردی کی رو میں بہہ جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں اس عوررت کو بھی طنز کا نشانہ بنایا جو خود ایک عورت ہو کر دوسری عورت کا گھر برباد کر دیتی ہے۔ معاشرے میں عورت ہی پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے جاتے ہیں، اس سے بنیادی حقوق چھین لیے جاتے ہیں۔ وہاں اس کی جنسی طور پر استحصال بھی ان کے موضوعات میں سے ہیں۔اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘کنیز’’ قابل ذکر ہے جس میں ایک عورت کی خواہشات کے لیے کسی بھی حد تک جانا اور ہر کسی کے ساتھ جنسی تعلق وابسطہ کرکے اپنی زندگی کو صحیح ڈھنگ سے گزارنے کے خواب پیش کیے گئے ہیں۔ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں ‘‘بھالو’’ کی صورت میں جسم فروش عورت بھی نظر آتی ہے جو معاشی ضرورتوں کی وجہ سے نت نئے مردوں کی جسمانی تقاضے پوری کرتی ہیں۔ اپنا گھر بنانے کی خواہش میں وہ مختلف مردوں کے ساتھ گھر سے بھاگتی ہے۔ وہ تحفظ کے احساس اور با عزت زندگی گزارنے کے لیے ایک نا مرد تک کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ کردار معاشرے کی انتہائی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو معاشرے کی ایک عورت کو تحفظ نہیں دے سکتا اس کی پستی کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس طرح افسانہ ‘‘سٹینڈرڈ’’میں بیوی کے توسط سے کامیابی حاصل کرنے والے مرد کا کردار پیش کیا گیا ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مرد کوخود محنت کرنا پڑتی ہے اور معاشرہ ان مردوں کو بڑی حقیر نگاہ سے دیکھتی ہے جو عورت کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح ہاجرہ مسرور کے افسانے مرد و عورت کی ذہنی، نفسیاتی اور جنسی الجھن پر مبنی افسانے ہیں۔ اس حوالے سے ‘‘بے چاری’’، ‘‘دودھ اور موت’’، ‘‘ صندوقچہ’’اور ‘‘فضل دین’’ اہم افسانے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے عورت کا ایک اور روپ بھی پیش کیا ہے جو مرد کی محبت میں گرفتار ہو کر خود کو ان کے حوالے کر دیتی ہے اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو کر گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی ان کا ہاتھ بٹھاتی ہے۔ اور اپنے شوہر کی کامیابیوں کے لیے ہمہ وقت دست بہ دعا رہتی ہے۔ ‘‘تیسری منزل’’ اس موضوع سے متعلق ان کا اہم افسانہ ہے۔
ہاجرہ مسرور نے جہاں بھی عورت کی بات کی ہے اور اس کی مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی ہے تو وہاں پر ان کے اندر کی عورت کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ گو وہ کہ ذہنی اور جذباتی طور پر اس مظلوم عورت کے ساتھ ہو۔ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:
‘‘ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں عورت کی مظلومیات کا اس طور ذکر ہوتا ہے کہ بے اختیار افسانہ نگار کی صنف کا احساس نمایاں ہو جاتا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مردانہ سماج میں عورت کے بارے میں ابھی تک بہت سی زنجیریں زنگ آلود نہیں ہوئیں لیکن آج جس طرح سماجی اور جذباتی تعلقات پیچ در پیش اور تہہ طبہ تہہ آئینۂ ادراک پر منکشف ہو جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر عورت کی مظلومیت کا ہی تھیسس پیش کیے جانا تعصب سے خالی دکھائی نہیں دیتا۔’’ (۳۷)
اسی طرح ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں قیام پاکستان کے بعد کیمپوں میں رہنے والے افراد کی کہانیاں ہیں۔ جن میں زخموں سے کراہتے ہوئے افراد، بھوک سے بلکتے ہوئے بچے، عورتیں اور بوڑھے ان کی کہانی کا مرکز ہیں۔ اس حوالے سے ان کے افسانہ ‘‘امتِ مرحوم اور سپاہی’’قابلِ ذکر ہے۔ ان موضوعات کے پس منظر میں لکھے گئے افسانوں میں انہوں نے کیمپوں میں رہنے والے افراد کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔جہاں پر اکثر غریبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جان پہچان والے لوگوں کو روٹی اور کپڑے آسانی سے میسر ہو سکتے ہیں۔ ان افسانوں میں مصنفہ نے اقربا پروری جیسے غیر انصافی رویے کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ اس طرح افسانہ ‘‘ایک بچی’’ میں ہندو مسلم فسادات کا ذکر ملتا ہے۔
ہاجرہ مسرور کو اپنے عہد کے سیاسی حالات کا بھی بخوبی علم تھا۔ اور انہوں نے ہجرت کرتے ہوئے مسلمانوں کا دکھ بھی دیکھا تھا۔ ہندوؤں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے مسلمان بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے۔ ہاجرہ مسرور اپنے دور ایسی افسانہ نگار خاتون ہیں جو عورت کے قصوں کے ساتھ ساتھ غربت، سرمایہ دارانہ نظام، طبقاتی کشمکش ، ہندو مسلم منافرت اور عورت پر ہونے والے ظلم و ستم جیسے موضوعات پر قلم اُٹھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے معاشرتی تضادات پر کاری ضرب لگاتے ہوئے انسان دوستی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ بقولِ ڈاکٹر انور سدید:
‘‘ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں ترقی پسند نظریے کو زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ انہوں نے عوام دوستی اور انسان دوستی کی مثالی تصویریں مرتب کرنے کی سعی کی اور حقیقت نگاری سے اپنے فن کو عصری آگہی کا نمائندہ بنا دیا۔’’ (۳۸)
اپنی تخلیقات میں ہاجرہ مسرور کا اسلوب انتہائی سادہ اور رواں ہے کہیں کہیں پر ان کی زبان میں تشبیہات و استعارات بھی دیکھے جا سکتے ہیں او رخاص طور پر عورتوں کی زبان میں ان کا لہجہ خاصا دلچسپ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں جگہ جگہ پر تکرارِ لفظی سے بھی کام لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو ان کے اسلوب کو مزید نکھار بخشتی ہے۔ ان کے افسانے میں جگہ جگہ پر ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کردار نگاری میں خاصی محنت کی ہے۔ وہ کردار کو پیش کرتی ہوئی اس کی ذہنی سطح کو بھانپ لیتتی ہیں اور ہر قسم کے کرداروں اور ہر طبقے کے کرداروں کو پیش کرکے واقعات اور کردار کے درمیان ربط کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے ہاں اکثر افسانوں میں بچوں اور بوڑھی دادیوں کے کردار ملتے ہیں۔ اور ان کرداروں کو اپنی تخلیقی ذوق اور فنِ شعور کے تحت پوری سچائیوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں منظر کشی اور جزئیات نگاری ہر افسانے میں ملتی ہے۔ انہوں نے کہیں پر افسانے کی ابتداء منظر سے کی اور کہیں پر مکالمے سے افسانے کا آغاز کیا۔بعض افسانوں میں کہانی کا اختتام ہی ابتدا میں پیش کیا گیا ہے۔ منظر کے پیش کرتے ہوئے وہ پورے ماحول کا احاطہ کرتی ہیں اور ارد گرد کے اشیا کے ساتھ ساتھ کرداروں کے سراپے کو بیان کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہیں۔
ہاجرہ مسرور فنی لحاظ سے اپنے افسانوں کو منظم کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت کوشاں نظر آتی ہیں۔ جبھی تو ان کے واقعات، کردار ، ماحول، منظر اور مکالموں میں ان کی قابلیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بطورِ مجموعی ہاجرہ مسرور پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اُن کے ہاں معاشرے کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔
۶.۷.۲ جمیلہ ہاشمی:
پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں جمیلہ ہاشمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اردو ادب میں ان کی شہرت ناول نگاری سے ہوئی انہوں نے تلاشِ بہاراں، آتشِ رفتہ، روہی، چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو، اور دشتِ سوس کے نام سے ناول اور ناولٹ لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے افسانے بھی تخلیق کیے۔ اُن کے افسانوں میں زیادہ تر مشرقی پنجاب کے دیہاتوں کی فضا دیکھی جاتی ہے۔ انہوں نے اس مخصوص دیہاتی زندگی کے رسوم و رواج، ثقافت اور وہاں کے قدرتی مناظر کا تذکرہ اکثر افسانوں میں کیا ہے۔ ان کے ہاں زیادہ تر کردار سکھ اور ہندو ہیں۔ ان کے کرداروں میں جذبۂ انتقام موجود ہوتا ہے۔ یہ جذبہ زیادہ تر ان پر تشدد رویوں کے خلاف ابھر کر سامنے آتا ہے جو ان کرداروں سے روا رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نورین رزاق کے بقول:
‘‘جمیلہ ہاشمی کے افسانوں کے بیشتر کردار سکھ اور ہندو ہیں ۔ ان کرداروں کی بول چال، وضع قطع اور رہن سہن کا عمیق مشاہدہ جمیلہ ہاشمی کے تخلیقی تجربے کا حصہ بن گیا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں کی ثقافتی زندگی، رسم و رواج، قدرتی مناظر اور لوگوں کی مخصوص ذہنیت کی عکاسی بھی کی ہے۔’’(۳۹)
اسی طرح ان کے بیشتر کردار نوسٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں جو ماضی کی رروایات سے بندھے ہوئے ہیں اور پرانی یادوں اور پرانے ماحول اور روایات کے خواہاں ہیں۔ جمیلہ ہاشمی کے ہاں ماضی کو بہت اہم ہے۔ انہوں نے ہندو تہذیب اور ہندوستان کے ماحول کا تذکرہ اس لاشعوری جذبے کے تحت کیا ہے جس میں ماضی کے تمام تر روایات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ماضی ہر انسان کی ہوتی ہے لیکن بعض گزرے ہوئے حالات کو نظر انداز کرکے زندگی کو ایک نئے سرے سے شروع کرتے ہیں اور بعض لوگ زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے بھی اپنی ماضی کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ جمیلہ ہاشمی کی کیفیات بھی اسی طرح کی ہیں۔ ماضی کی یادیں ان کے لیے تخلیقی سامان فراہم کرتی ہیں۔ جس سے ان کے لہجے میں نرمی، گداز اور شائستگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے نئے دور میں ہو کر بھی ماضی کے چادر میں لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جمیلہ ہاشمی کے افسانوں کا اہم ترین موضوع عورت کی مظلومیت ہے۔ ان کے افسانوں کی عورت میں ظلم کے خلاف کسی قسم کی کوئی مزاحمت نظر نہیں آتی ۔ شاید وہ خود بھی ان انگاروں پر سے گزرنا چاہتی ہے یا شاید اسے اپنا مقدر جان کر سمجھوتہ کر لیتی ہے۔لیکن یہ سمجھوتہ تو ایک طرح سے خودکشی کے مترادف ہے کہ مرد خواہ عورت کو قتل کرنا چاہے اور عورت کو علم بھی ہو کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے لیکن پھر بھی کسی قسم کی مزاحمت کیے بغیر خود کو سونپ دیتی ہے۔ ان کے تقریباً تمام افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مرد عورت کو شک کے بنیاد پر یا بدکاری کے شبے میں قتل کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ صرف ‘‘کسیری’’ کا کردار ہے جو اپنے بے وفا محبوب کو قتل کرکے گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے ٹکڑے تھیلے میں بھر دیتی ہے۔ باقی تمام کردار جامد اور بے حس و حرکت نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:
‘‘اس میں بڑی عمر کے تمام مرد صرف اس لیے خاموش ہیں کہ وہ اپنی محبوبہ، یا رقیب یا اپنی بہن کے عاشق کو قتل ہی نہیں، اس کے لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے ٹھکانے لگا چکے ہیں، عورتیں بھی موت کے سوداگر کے سامنے خود سپردگی کی کیفیت میں ہیں۔’’ (۴۰)
جمیلہ ہاشمی مردوں کے حوالے سے تعصبات کا شکار نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں مرد ظالم، جابر، سنگ دل ، جلاد اور قتل و غارت گری پر مامور نظر آتا ہے۔ جو ہمہ وقت کسی نہ کسی کو قتل کرنے کے درپے ہوں۔ اس حوالے سے ان کے افسانے ‘‘بجھے دئیے’’، ‘‘دو خط’’، ‘‘پرانے گیت’’، ‘‘آپ بیتی’’، جگر بیتی’’ اور ‘‘رات کی ماں’’ قابل ذکر افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ کبھی بھائی اسے قتل کر دیتی ہے تو کبھی محبوب، کبھی شوہر اس کی زندگی کی شمع بجھا دیتا ہے تو کبھی اس کے دوسرے رشتہ دار میں سے کوئی اور۔ لیکن مجموعی طور پر یہ رجحان ان کے افسانوں میں غالب ہے۔ مثال ملاحظہ کریں:
‘‘ میں نے اس کے گلے پہ اپنا پاؤں دھر دیا اور وہ بے کس جانور کی طرح ویر کہنے کی کوشش کرتی رہی۔ک اس نے ہاتھ پاؤں بھی نہیں مارے یوں ایک کیڑے کی طرح جسے کوئی ذرا سی انگلی سے روندے۔۔۔۔ گوبندی کو میں نے مار دیا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے میں نے اسے اناج کی کوٹھیوں سے بھرے کمرے میں دبا دیا۔’’ (۴۱)
اسی طرح ‘‘بجھے دئیے’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘اس نے ہولے ہولے مینڈھا کھولیں، گندھے ہوئے زیور کھولے، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور تیز دھار والی کرپان سے اسے کاٹنے لگا۔’’ (۴۲)
جمیلہ ہاشمی کے ہاں ہندو مسلم فسادات کا حوالہ بھی ہے اور جو سب سے مضبوط حوالہ ہے وہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کی ہولناکی، تباہی اور بربادی ہے۔ تباہی و بربادی کی منظر کشی انہوں نے بہت خوب کی ہے۔ یوں لگتا ہے وہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ا س کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کردی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو لڑانے والا ملک امریکا ہے جو خود تو تماشا دیکھتا ہے اور یہاں پر خون کی ہولی جیسے گھناؤنے کھیل سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ان کا سیاسی شعور خاصا پختہ نظر آتا ہے۔ جگہ جگہ پر ہڑتالیں اور ان ہڑتالوں میں قتل ہونے والے معصوم جانوں کا ضیاع بھی ان کا موضوع رہا ہے۔ امن کی خواہاں اور بگڑے ہوئے حالات کا نوحہ بھی ان کی کہانیوں کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے ان کے دو افسانے ‘‘لہو رنگ’’ اور ‘‘شب تار کا رنگ’’ سیاسی شعور کے مظہر ہیں۔
جمیلہ ہاشمی جو کہ ایک ناول نگار کی صورت میں پہنچانی جاتی ہے اور انہوں نے ناول اور ناولٹ دونوں پر طبع آزمائی کی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کے افسانے بھی طوالت کا شکار ہیں۔ کہیں کہیں پر منظر کے پیش کرنے میں اتنی تفصیل میں چلی جاتی ہے کہ پڑھنے والا بوریت محسوس کرنے لگتا ہے۔اور یوں جزئیات نگاری میں افسانے کا رنگ ذرا سا دھندلا جاتا ہے۔ وہ منظر کے ساتھ ساتھ خلیہ نگاری اور جزئیات نگاری پر بھی کافی صفحے بھر دیتی ہیں اور اپنی بیانیہ انداز سے افسانے کو مختصر کرنے کے بجائے طویل کر دیتی ہیں۔
اگر تکنیک کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے افسانے زیادہ تر بیانیہ تکنیک کے تحت لکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ واحد متکلم کی تکنیک میں مرد متکلم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلیش بیک کی تکنیک، خط کی تکنیک اور رواں تبصرے کی تکنیک ان کے ہاں نظر آتی ہے۔
جمیلہ ہاشمی پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں سے وہ نام ہے جو کسی خاصر نظریہ یا تحریک سے وابستہ تو نہیں رہی لیکن پھر بھی اپنے منفرد اسلوب میں بہت خوب صورت افسانے تخلیق کیے اور ان افسانوں کے ذریعے سے اپنے ایک خاص سوچ اور نظریے کی ترجمانی کی۔
۷.۷.۲ رضیہ فصیح احمد:
رضیہ فصیح احمد( رضیہ بانو) پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں معروف نام ہےجنہوں نے طرح طرح کے موضوعات اپنے افسانوں میں پیش کیے ہیں۔ ان کے موضوعات میں معاشرتی اقدار، انسانی رویے، نفسیات اور سیاسی انتشار شامل ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ‘‘ دو پائن کے بیچ’’، ‘‘بے سمر مسافر’’، ‘‘ورثہ اور دوسری کہانیاں ‘‘اور ’’تعبیر’’ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ایک فرد سے زیادہ پورے خاندان پر توجہ دیتی ہیں۔ ان کی سوچ فقط ایک فرد کے ذہنی رویے سے نہیں بلکہ اس کا تأثر پورے خاندان پر جس انداز سے پڑتا ہے۔ رضیہ فصیح احمد اس پورے پس منظر کو پیش کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں زیادہ تر کردار آپا، باجی، خالا اور ممانی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ جو ایک پورے کنبے کی تصویر کشی کرتے ہیں۔اسی طرح خاندان کے افراد کا ایک د وسرے سے جذباتی لگاؤ، محبت، چپقلش اور ہمدردیاں ان کے افسانوں میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔اس قسم کے افسانوں میں ‘‘دو پائن کے بیچ، بے سمت مسافر اور ماموں’’ شامل ہیں۔ جس میں پورے کنبے کے افراد اور مسائل کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں اخلاق کی بہتری کا پرچار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وہ افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی مبلغ کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔ ہر چند کہ ایک افسانہ نگار کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی خاص نظریے کا پرچار کرے لیکن اخلاقیات تو زندگی کی اہم ترین بنیاد ہے ۔ معاشرے کی خوبصورتی ہی اس اخلاق کی وجہ سے ہے اس لیے ان کے اکثر افسانوں میں اختتام سبق آموز ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ کر اخلاق کی تبلیغ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر انوار احمد:
‘‘ رضیہ فصیح احمد اپنے افسانوں میں کسی نہ کسی اخلاقی نکتے کا پرچار بھی ضرور کرتی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے انجام اکثر سبق آموز ہوتے ہیں۔’’ (۴۳)
رضیہ فصیح احمد کے ہاں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کی آپس میں آویزش دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں پر ایک تہذیب کے پیروکار دوسری تہذیب کو اپناتے ہیں تو اپنی تہذیب کے بہت سے اقدار پائمال کرنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح ان کا افسانوی مجموعہ ‘‘ورثہ اور دوسری کہانیاں’’ جو کہ قیامِ یورپ کے دوران لکھے گئے افسانوں پر مشتمل ہے اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ ان افسانوں میں مشرق و مغرب میں رہنے والے مرد و عورت کے مزاج میں فرق، قوتِ برداشت، ذہنی الجھنیں اور اس مشینی دور میں اپنی شناخت برقرار رکھنے کی فکر کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اس علاوہ ازیں انہوں نے اپنے افسانوں میں غربت کے مارے لوگوں کو بھی توجہ دی۔ وہ غریب لوگ جو امیروں اور سرکارری افسروں کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا سامنا کررتے ہین، رضیہ فصیح احمد کے موضوعات میں سے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طبقاتی اونچ نیچ سے پیدا ہونے والی احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری میں پروان چڑھنے والی نسل کی ذہنی الجھنوں کو بھی انہوں نے بیان کیاہے۔اس حوالے سے ‘‘انسانی ذات، لعنت، محل دو محلے، بے سمت مسافر اور چھٹی’’ اہم افسانے ہیں۔ رضیہ فصیح احمد کے اس انداز کے متعلق ڈاکٹر نورین رزاق لکھتی ہیں:
‘‘رضیہ فصیح احمد پسے ہوئے غریب طبقے کی طرف امیر لوگوں کے دوغلے رویے دکھاتی ہیں۔ نام نہاد سروے ررپورٹس تیار کرنے والے افراد صرف فائلوں کا پیٹ بھرنا جانتے ہیں۔’’ (۴۴)
رضیہ فصیح احمد کا سیاسی شعور بھی نہایت گہرا ہے۔ انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے ‘‘ورثہ’’ افسانہ لکھا جس میں انہوں نے اجتماعی دگرگوں حالات سے فرد کی ذہنی و جذباتی کیفیات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ جو اس حوالے سے ایک اہم کہانی ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے اس افسانے کو احساسات سے عاری افسانہ کہا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے ک ہ وہ خوبصورت ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نچلے طبقے کی محرومیوں کی عکاسی نہیں کر سکی لیکن اس کے باوجود اس افسانے میں انسانی نفسیات اور حالات کے ان پر اثرات کی پیشکش بڑی مہارت سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ‘‘آشیاں گم کردہ’’، ‘‘محل د ومحلے ’’اور‘‘ساستا ’’ایسے افسانے ہیں جن میں حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میں انسان کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی اور اس تبدیلی کے معاشرے پر اثرات ظاہر کیے گئے ہیں۔
رضیہ فصیح احمد کے افسانوں میں زیادہ تر واحد متکلم کی تکنیک استعمال کی گئی ہے جو شروع سے لے کر اخیر تک کہانی سناتی ہے۔ یہ واحد متکلم ایک مرکزی کردار کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ جو ہر قسم کے حالات میں اپنے آپ پر قابو رکھ سکتا ہے۔ اس طرح یہ کردار ایک آئیڈیل کی صورت میں اُبھرتا ہے جو تمام مشکلات کو ایمانی طاقت کے ذریعے سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ یہ کردار جب بات کرتا ہے تو کبھی کبھی فلسفے جھاڑنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بھرپور کوشش بھی کرتا ہے مثال ملاحظہ کریں:
‘‘مجھے مچھلیوں سے عشق ہے مگر میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہوں، تتلی جو پانی کو موت سمجھتی ہے اور فنکاروں کی انا کی طرح ہواؤں میں اُڑتی ہے، یہ ہم انسانوں کی نا سمجھی ہی تو ہے کہ سیپ ڈھونڈنے ہوں تو جوہری کی دکان میں جاتے ہیں، خدا کی تلاش ہو تو آدمیوں کی جبہ سائی کرتے ہیں، ہماری منزل کچھ اور ہوتی ہے اور ہم راہ کچھ اور ہی اختیار کرتے ہیں۔’’ (۴۵)
رضیہ فصیح احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ اکثر افسانوں میں کسی کردار کا تعارف پیش کرنے کے لیے اس کا پورا حلیہ پیش کرتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کردار کی زندگی کو تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ اور یوں ان کے افسانے خاکہ نگاری کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ‘‘ماموں’’، دکھی، اور جب پھوپھی کھوئی گئیں ، اور بڑمان اہم افسانے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں جو منظر کشی ہے وہ بڑی جاندار ہے افسانے کا منظر اس مہارت سے پیش کرتی ہے کہ پورا افسانہ ایک پلے سکرین پر پیش کی جانے والی اسکرپٹ کی طرح نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔اسی طرح ان کے ہاں بیانیہ تکنیک ، واحد متکلم کی تکنیک، مکالمہ کی تکنیک اور فلیش بیک کی تکنیک بھی ملتی ہے۔ بطورِ مجموعی رضیہ فصیح احمد پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے جو اپنے موضوعات کے ساتھ ساتھ اپنی فنی انفرادیت کے طور پر سب سے الگ پہچان رکھتی ہے۔
۸.۷.۲ فرخندہ لودھی:
پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں فرخندہ لودھی ایک اہم نام ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ‘‘شہر کے لوگ’’، ‘‘آرسی’’، ‘‘خوابوں کے کھیت ’’اور ‘‘رومان کا موت ’’شامل ہیں۔ دوسری خواتین افسانہ نگاروں کی طرح انہوں نے بھی عورت کو موضوع بنایا ہے۔ معاشرے میں عورت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان تمام مسائل، کرب، احساسِ محرومی، تنہائی اور سماج میں اُن کے ساتھ ہونے والے ناروا سکول کی عکاسی فرخندہ لودھی کے افسانوں کا موضوع رہا ہے۔ بقولِ ڈاکٹر انوار احمد:
‘‘فرخندہ لودھی کے افسانوں کا بڑا موضوع عورت اور اس کے مسائل ہیں، عورت کے داخلی جذبات و احساسات سنانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سماج اور معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔’’(۴۶)
اسی طرح انہوں نے عورت کی فطری اور جبلی ضروریات کے پیش نظر عورت کی محرومیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت کی جنسی محرومیوں کو بھی بھرپور توجہ دی۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم جنس سے لذت حاصل کرتی ہے جس سے اُس کو سکون ملتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘ گولڈ فلیک’’نہایت اہم ہے جس میں ‘‘تنو’’ اور ‘‘مس کوکب’’ کے جنسی میلان کو واضھ کیا گیا ہے۔ اسی طرح عورت کے مسائل کے حوالے سے ان کے افسانے بڑے بھیا، آرسی، خاتونِ آخر، گندھی مچھلی، سوہنی کمہارن قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح مرد کی فطرت، شک ، سخت رویے اور عورت پر پابندی عائد کرنا جیسے رویے بھی فرخندہ لودھی کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔اس حوالے سے بڑے بھیا ، آرسی ، کانچ کی گولیاں، سوہنی کمہارن، واپسی ، خاتونِ آخر ، بے چاری اور گندھی مچھلی اہم افسانے ہیں۔ جس میں مرد کا عورت کے ساتھ ظالمانہ رویے کو ان افسانوں میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے۔ کہ عورت مرد کے لیے فقط ذہنی سکون اور جسمانی لذت حاصل کرنے کی چیز ہے اس کے علاوہ اس کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔
اس طرح سب سے مضبوط حوالے جو ان کے ہاں ہے وہ محرماتی عشق ہے۔ ان کے ہاں ایسے کردار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو حساس اور خونی رشتوں سے منسلک معصوم لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھتے ہیں جس کے لیے عورت صرف عورت ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔اس حوالے سے ‘‘پُرا کی موج’’ اہم افسانہ ہے جس میں سندھو اپنی سگی بیٹی کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح ‘‘شہر کے لوگ’’ میں ان عورتوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو مردوں کے ساتھ جنسی تعلق پیدا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ یہ معاشرے کے وہ تلخ حقائق ہیں جو گلی گلی، محلہ محلہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح ایک حقیقت پسند کہانی کار کی طرح فرخندہ لودھی نے ان موضوعات کو بیان کرکے حقائق سے پردہ ہٹایا ہے۔
اسی طرح طبقاتی امتیازات بھی ان کا پسندیدہ موضو ع رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس حوالے سے فرخندہ لودھی کا اپنے وطن سے والہانہ محبت کا اظہار ملتا ہے۔ کہ جہاں کہیں بھی وہ پاکستان کی بات کرتی ہیں اور سیاسی لٹیروں کا ذکر کرتی ہیں۔ وہاں پر ان کا لہجہ یکسر بدل جاتا ہے اس موقع پر وہ نہ صرف وطنِ عزیز سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے بلکہ سیاسی بدعنوان لوگوں پر طنز کے تیر بھی برساتی ہیں۔ ‘‘بوٹیاں’’ ان کا ایک اہم افسانہ ہے جو علامتی تکنیک کے تحت لکھی گئی ہے۔ جس میں ملک کو ذبح شدہ اونٹ کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ مثال دیکھیے:
‘‘اب۔۔۔۔اب منی! یہ جو اپنا پاکستان ہے نا۔۔۔ جان لے یہ وہی تمہارا کٹا اونٹ ہے۔۔۔ ہر آدمی اپنی اپنی چھری پکڑے اپنا اپنا تھیلا بھر رہا ہے۔’’ (۴۷)
اپنے ملک کے دگرگوں حالات کا ذکر انہوں نے کئی افسانوں میں کیا ہے اور تمام تر حقائق کا ذکر کرکے اپنے سیاسی شعور کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر نورین رزاق:
‘‘ فرخندہ لودھی اس المیے کا عکس دکھاتی ہیں کہ جب نئے ملک کی صورت میں بیرونی غلبے سے نجات حاصل کر لی گئی لیکن نئے ملک میں ٹھہراؤ اور سکون کی بجائے افراتفری، مایوسی، بے چینی اور بے دلی پھیلی گئی۔ طاقت کا ناجائز استعمال ، عیاری، مکاری، بے ایمانی ، دھاندلی، من پسند پالیسیاں، اقربا پروری، نا انصافی، عداوت، خود غرضی اور دوغلے رویے پاکستان کی تاریخ کے سیاہ گوشے بن گئے۔’’ (۴۸)
اسی طرح انہوں نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے ‘‘پاربتی’’ ، گھریلو ماحول کے حوالے سے ‘‘ایل۔ او۔ وی۔ ای’’، ‘‘من کیسے مرے’’، ‘‘نیند کے ماتے’’، ‘‘ معجزہ’’، معاشرتی تضادات کے حوالے سے ‘‘گوری، پربت کی گونج، انقلاب سے پہلے، گوبر ٹیکس، حرامی، شرابی اور حزب اللہ اہم افسانے ہیں۔ موضوعاتی لحاظ سے ان کے افسانوں میں معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام موضوعات ملتے ہیں اور ان موضوعات کو فرخندہ لودھی نے بڑی مہارت سے برتا ہے۔
فرخندہ لودھی کے افسانے فنی حوالے سے بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے کردار معاشرے کے حقیقی کردار ہیں جو کہانی میں مرکزی اور ثانوی حیثیت سے پیش کیے گئے ہیں۔ بعض افسانوں میں تو آغاز ہی سے کرداروں کا تعارف کرا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کرداروں اور واقعات کا تعلق بالکل فطری ہے۔ کرداروں کے نفسیات کو ٹٹولتی ہوئی ان سے نہایت موزوں مکالمے کہلواتی ہیں۔ ان کے مکالمے سلیس مکالمے ہیں جو قاری کو کسی قسم کی الجھن کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح وہ کئی زبانیں جانتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہندی، پنجابی اور انگریزی الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ انہوں نے افسانوں میں محاورات، ضرب الامثال اور تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ تلمیحات بھی استعمال کیے ہیں جس سے موضوع کے بیان کرنے میں دلکشی پیدا کی گئی ہے۔ الفاظ کے ذریعے سے کہانی کا پورا منظر جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یوں ان کے افسانے ہلکے پھلکے رنگوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ‘‘یاربن، شہر کے لوگ، پروا کی موج، آرسی، بوٹیاں، خوابوں کے کھیت، چھوٹا منہ اور چپڑی روٹی ’’میں دیہات کا منظر پیش کرکے پورے ماحول کو بمعۂ جزئیات کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مجموعی طور پر فرخندہ لودھی کے افسانے اپنے دور کے سماجی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات کے آئینہ دار افسانے ہیں۔ انہوں نے نہایت سلیس زبان میں تمام حالات و واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور معاشرے کی تلخ حقائق کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔
۹.۷.۲ سائرہ ہاشمی:
خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام سائرہ ہاشمی ہے۔ ان کے افسانے مختلف رسائل میں چھپتے رہے اس کے علاوہ انہوں نے سفرنامے، بچوں کی کہانیاں، ناول اور ناولٹ بھی لکھے۔ افسانے میں ان کے مجموعے ‘‘ریت کی دیوار، سنگ زیست، اور وہ کالی ہو گئی، تماشا ہو چکا، ردی کاغذ کا ٹکڑا اور بند گلی’’ شائع ہو چکے ہیں۔ ان تمام مجموعوں میں اگر تمام افسانوں کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے عورت اور عورت کے مسائل۔ اس حوالے سے سائرہ ہاشمی خاصی فیمنسٹ واقع ہوئی ہیں۔ کہ ان کے افسانوں کا موضوع بھی عورت ہے اکثر مرکزی کردار بھی عورت اور جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ بھی عورت سے متعلق ہیں۔ ان کےا فسانوں میں مشرقی اور مغربی عورت کے موازنے کے ساتھ ساتھ مشرقی عورت کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ عورت ماں کی صورت میں بھی ہے اور بیٹی کی صورت میں بھی۔ کبھی دوسروں کے ہاتھوں اسے بکنا پڑا اور کبھی خود ہی دولت کی ہوس میں اس نے اپنی عزت کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر کا بھی سودا کیا۔ سائرہ ہاشمی کے اکثر افسانوں میں عورت کا سودا کیا جاتا ہے۔ ان کی بولی لگتی ہے اور اچھی سے اچھی قیمت کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے افسانوں میں سائرہ ہاشمی یہ فکری پیغام دیتی ہیں کہ عورت کوئی جانور نہیں ہے جسے بیچا جائے ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ ان کے ارمان، خواہشات اور ضروریات کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ عورت بھی انسان ہے اور وہ بھی انسان کہلانے کی خواہش رکھتی ہے۔ عورت پیدا ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے مگر اسے دوسروں کے گھروں کی زینت بننے کے لیے پالا پوسا جاتا ہے۔ اور جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو شوہر کے گھر پر ظالمانہ سلوک کو یا تو برداشت کرتی ہے اور یا بغاوت کرکے بھاگ جاتی ہے اور یا دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں پر ایک بات بطورِ خاص ضروری ہے کہ عورت جہاں پر بھی ہو وہ محبت کی تلاش میں رہتی ہے۔ جہاں کہیں اسے محبت ملے وہ بہت جلدی اسی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت دوسرے مردوں کے ساتھ تعلق جوڑ کر اپنے شوہر کو دھوکہ کیوں دیتی ہے؟ سائرہ ہاشمی نے ان جیسے سوالات کے جوابات اپنے افسانوں میں مختلف کرداروں کے ذریعے سے دئیے ہیں۔ عورت کے ساتھ ظلم و زبردستی، بے وفائی، بے اعتمادی، جسمانی تشدد اور ذہنی طور پر اسے مفلوج کرنا جیسے محرکات اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اور تب وہ ذہنی سکون اور انتقام کی آگ بجھانے کے لیے گھناؤنے حرکات پر مجبور ہو جاتی ہے اس حولے سے سائرہ ہاشمی کے افسانے ‘‘وہ ، سراب جستجو، وجود کا سچ، دوسری عورت، جینے ک ی راہ، یہ داغ داغ اُجالا اور خالی ورق قابلِ ذکر ہیں جو عورت کے ذہنی تناؤ کو آشکارا کرتی ہے۔
اسی طرح عورت کو بیچ بازار میں خریدنے اور بیچنے کے حوالے سے بھی ان کے افسانوں میں مزاحمت کی گئی ہے۔ دلال اور خریدنے والے کے مکالمے ، اور لڑکی کے بڑا ہونے کے تصور سے اس کی صحیح قیمت کی وصولی کی خواہش جیسے ذہنیت کو انہوں نے بے نقاب کیا ہے۔ مثال ملاحظہ کریں:
‘‘ چند مرد ایک جوان ہوتی لڑکی کا سودا چکا رہے تھے وہ اس کے پاس کھڑے اس کا منہ کھلوا کر دیکھ رہے تھے۔ پھر ان کے ہاتھ اس کے سینے سے ہوتے ہوئے اس کی رانوں کو ٹٹولنے لگے۔ دلال بڑی مہارت سے اس کے جسم کی خوبیاں گنوا رہا تھا۔’’ (۴۹)
اس اقتباس سے عورت کی تذلیل کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح بیچ بازار میں عورت کو ایک جانور کی طرح بیچا جاتا ہے اور خریدنے والے کبھی اس کا منہ کھول کر دیکھتے ہیں اور کبھی جسم کے دوسرے حصوں پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اور تو اور بیچنے والا بے ضمیر انسان اس کے جسمانی خدوخال کی تعریف کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے میں مصروف ہے۔ گویا اس معصوم لڑکی کی کوئی جذبات نہیں۔ اسی طرح کے انسانیت سوز واقعات جابجا سائرہ ہاشمی کے افسانوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جو اس حقیقت کو آشکارا کرتی ہے جو آج بھی کہیں نہ کہیں پر گناہ کے اس دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر نورین رزاق:
‘‘آج بھی دور دراز دیہاتی علاقوں میں عورت بکاؤ مال ہے۔ اسے پرائے مال کی طرح سینت سینت کر رکھنے میں پدری اور مادری شفقت و محبت کے ساتھ مالی منفعت کا تصور جڑا ہے۔ بیٹیوں کا سرِ بازار سودا اور عورتوں کی لگنے والی منڈیاں اس جنسِ ارزاں کو جنسِ گراں میں بدل دیتی ہے۔’’ (۵۰)
ان واقعات کے پیش آنے سے عورت میں عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہےجو اس کی زندگی کو مایوسی کی نذر کر دیتی ہے۔ مرد کے ظالمانہ رویے سے معاشرے میں عورت اپنا مقام کھو دیتی ہے۔ اور سائرہ ہاشمی ان عورتوں کو ان کے کھوئے ہوئے یا چھینے ہوئے مقام کو اسے دوبارہ دینے میں کوشاں نظر آتی ہیں۔
اسی طرح ان کے افسانوں میں گے ازم جیسے قبیح فعل میں ملوث کردار بھی ملتے ہیں جو جنسی تسکین کے لیے غیر فطری راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ‘‘دائرے’’ اور محرماتی عشق کے حوالے سے ‘‘تماشا ہو چکا’’ قابلِ ذکر ہیں۔ محرماتی عشق کے حوالے سے ایک بوڑھا کردار جس کی عمر تقریباً پینسٹھ 65 سال ہے وہ اپنی ہی بہو سے جنسی فعل کا مرتکب ہوتا ہے اور اسی طرح سائمہ اپنے چچا کے ناجائز تعلقات کی بنا پر حمل ضائع کرتی ہے۔ معاشرے میں پلنے والے اس گھناؤنے حرکات سے نجانے کتنی نوجوان خواتین کی زندگیاں اندھیروں میں کھو چکی ہیں۔ جہاں پر خونی رشتوں سے بھی درندگی کا خوف آنے لگے اور ایک عورت اپنے ہی گھر میں خود کو غیر محفوظ سمجھے وہاں پر عورتوں کی نفسیاتی اذیت کا کیا حال ہوگا۔ سائرہ ہاشمی نے ہر سطح پر عورت کی مظلومیت اور ان کے ساتھ نا انصافیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ بقولِ ڈاکٹر انور سدید:
‘‘سائرہ ہاشمی نے جدید زمانے کی عورت کو رومانی آنکھ سے دیکھا اور اس کے داخلی کرب کو افسانے میں آشکارا کیا۔’’ (۵۱)
سائرہ ہاشمی کے افسانوں میں اختصار کی خوبی بہت کم ہے۔ اکثر افسانے طوالت کا شکار ہو گئے ہیں۔ سائرہ ہاشمی نے منظر نگاری اور جزئیات نگاری پر اتنی توجہ دی کہ بعض دفعہ افسانے بوریت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور اس میں موضوع سے ہٹ کر منظر ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے واحد متکلم کی تکنیک کا استعمال بھی زیادہ کیا ہے جس میں واحد متکلم عورت ہے جو پورے افسانے کو ایک کہانی کی صورت میں بیان کرتی ہے۔ اسی طرح ان کے افسانوں میں خود کلامی کی تکنیک اور فلیش بیک کی تکنیک سے کام لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں براہِ راست تخاطب کا انداز بھی ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے افسانہ ‘‘اندھے موڑ’’ براہِ راست تخاطب کے لیے اہم ہے۔
فنی اعتبار سے ان کی کردار نگاری کو دیکھا جائے تو ان کے مرکزی کردار زیادہ تر عورت ہی ہیں۔ ان کرداروں کو بیان کرنے میں سائرہ ہاشمی نے اس قدر مہارت سے کام لیا ہے کہ کردار کی پوری نفسیاتی اور جذبات محرکات سامنے آجاتے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر مجبور کرداروں کی کہانی بیان کی ہے جو یا تو بچپن میں بیاہی گئی اور یا اُدھیڑ عمر میں کسی کے گھر کی زینت بنی۔ اس کے علاوہ انہوں نے جہاں مرد کرداروں کو پیش کیا ہے وہاں پر زیادہ تر یک رخی برتی گئی ہے اور اکثر مرد کردار ظالم اور ہوس پرست دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے مرد بھی ہیں جو ان تمام برائیوں سے دور اچھائیوں اور نیکیوں کا مجسمہ ہوتے ہیں۔ لیکن سائرہ ہاشمی کے ہاں ایسے مرد بھی ہیں جو دولت پانے کے لیے یا کاروبار میں ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی بیویوں کو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ان کے اہم کرداروں میں غزالہ رشید، صباحت زمان، محسن، ماں، بیگم صاحبہ، سلطانہ، نسیمہ، ماہ رُخ، اندھی ناصرہ، ثمینہ، ندرت اور وقار شامل ہیں۔ جو ان کے افسانوں میں واقعات کو جوڑنے اور اس کے اثرات سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بطورِ مجموعی سائرہ ہاشمی نے اپنے افسانوں میں عورت کو موضوع بنا کر اپنی پوری فنی مہارت کے ذریعے سے تمام تر حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور یوں افسانہ نگاری کی روایت اور ارتقا میں اپنا نام منوانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔
۱۰.۷.۲ سیدہ حنا:
سیدہ حنا پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں میں وہ اہم شخصیت ہے جس میں قدرت نے بے شمار صلاحیتیں رکھی تھی۔وہ بیک وقت شاعرہ، محقق، نقاد، ناول نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے منظر عام پر آئی۔ افسانہ نگاری ہی نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا وہ ۔ افسانے میں ان کے دو مجموعے ‘‘پتھر کی نسل’’ اور ‘‘جھوٹی کہانیاں’’ شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کے ناول ‘‘شہرزاد’’ میں بھی تین افسانے ‘‘خبر تحیر عشق سن، ناراض لڑکی اور رقصِ شرر’’ شائع ہوئیں۔ سیدہ حنا نے جس معاشرے میں جنم لیا اور جہاں پر انہوں نے اپنا بچپن گزارا اور جوانی کے شب و روز کا تماشا دیکھا ان کی تخلیقات میں اس پورے معاشرے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ان کے افسانوں میں جو سب سے بڑا موضوع ہے وہ معاشرے کے بدلتے ہوئے رویے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایسے معاشرے کی جھلک دکھائی دیتی ہے جہاں پر زندگی ایک گھناؤنے خواب کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔جہاں عدم مساوات کی صورت میں مرد و زن کی تفریق نے انسانیت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔ ان کے افسانوں میں ان تمام پڑھی لکھی خواتین کے مسائل بیان ہوئے ہیں جو کبھی تو نوکری کی تلاش میں ہر قسم کے مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور کبھی ڈھلتے عمر کی فکر مندی ان کی زندگی میں مایوسی و محرومی بھر دیتی ہے۔ان کے افسانوں میں انسانوں کے بنائے ہوئے ان اصولوں کو موضوع بنایا گیا ہے جن میں ایک عورت کی کوئی وقعت نہیں جہاں مرد آزاد اور عورتیں مقید ہیں۔ جہاں مرد تعلیم یافتہ اور عورت ان پڑھ ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی عورت تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو بھی جائے تب بھی معاشرے کی ہوس ناکیاں اسے کامیابیوں کازینہ پار کرنے نہیں دیتی۔
سیدہ حنا کے ہاں ایسے کردار آسانی سے ملیں گے جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے ان تمام مسائل کا شکار ہیں جن کا ایک عام عورت کو بھی سامنا ہے۔ ان کے کردار یاس و محرومی کی زندگی سے گزرتے ہوئے اپنی ذات کی گہرائیوں میں کھو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نورین رزاق کے بقول:
‘‘ ان کے بیشتر کرداروں کا المیہ یہ ہے ک ہ وہ اندرونی کشمکش، داخلی اذیت و کرب سے دو چار اور تنہائی کا شکار ہیں۔ اکلاپا سہتے ہوئے یہ کردار پیار اور خلوص کے متلاشی ہیں اور خارج کی بجائے داخل کی پنہائیوں کا سفر طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔’’(۵۲)
اس طرح ان کے ہاں ایسے کردار بھی ہیں کہ جن سے صرف اس لیے محبت کی جاتی ہے کہ اُن کے پاس دولت ہے اور اسی دولت کے بل بوتے پر وہ کردار احساسِ برتی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اور اسی احساس کی وجہ سے وہ دوسروں کے حقوق کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس قسم کے افسانوں میں ‘‘درد کا رشتہ، خاکہ، دھوپ، سراب، نغمے کی موت، خلا ، دیکھا اس بیماریٔ دل نے، خلیج، بلٹ پروف اور بے کل’’ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح ان کے اکثر افسانوں میں وااحد متکلم کی تکنیک استعمال ہوئی اور یہ واحد متکلم بذاتِ خود راوی کا کردار ہے جو اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ سیدہ حنا کو اپنی شناخت کھو جانے کا ڈر ہمہ وقت لاحق رہتا ہے۔ اس لیے انہوں نے لا شعوری طور پر بیانیہ افسانے لکھے۔ اس ضمن میں رابی، شیما، سیمی، ربو اور مس موتی والے کردار ان کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے تمام مسائل قاری کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے معاشرے کی اس حقیقت کو بھی سامنے لایا کہ عورتوں کو سرِ بازار نیلام کیا جاتا ہےاور عورت کی یہ سودے بازی اسے کسی طرح منظور نہیں۔ وہ عورت کی بے بسی، مرد کی لالچی ذہنیت اور معاشرے کی بوسیدہ اقدار کی مذمت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مثال ملاحظہ ہوں:
‘‘ میں کیا کروں؟ مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ وہ ہر روز مجھے نیلام چڑھاتے ہیں۔۔۔ ہر روز گاہک آتے ہیں۔۔۔ ہر روز میری بولی لگتی ہے۔۔۔ مجھ میں اور ایک طوائف میں کیا فرق ہے۔۔۔؟ بتاؤ۔۔۔ بولو۔’’ (۵۳)
سیدہ حنا نے زیادہ تر اساتذہ خواتین کی زندگی کو افسانے کا موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح استاد اور شاگرد کا رشتہ جس تقدس اور پاکیزگی کا متقاضی ہوتا ہے اور معاشرے میں انہیں جس مقام کے حصول کی امید ہوتی ہے اس مقام کے ساتھ ساتھ انہوں نے استاد اور شاگرد کی محبت جیسے جذبےکو بھی بے نقاب کیا ہے۔ استاد کے تقدس اور ان سے عقیدت کے جذبے کو بھی آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں پر ایک کردار رفعیہ جو خود بھی اپنے استاد صوفی صاحب کے عشق میں مبتلا ہے وہ شیمہ اور حنیف صاحب کے متعلق کہتی ہے:
‘‘ در اصل استاد اور شاگرد میں ایک طرح کا قلبی اور روحانی لگاؤ تو ہوتا ہی ہے پھر درس و تدریس کے سلسلے میں انہیں ایک دوسرے کے نزدیک ہونے اور ایک دوسرے کو پہچاننے کا بڑا موقع ملتا ہے۔ یہی سے ہم خیالی اور جذباتی ہم آہنگی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو محبت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔’’ (۵۴)
اسی طرح عقیدت کا سفر محبت میں تبدیل ہوتے ہوئے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم لڑکیوں کے جذبات کی عکاسی ان کے ہاں بڑی آسانی سے ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فسادات کو بھی موضوع بنایا ہے۔ وہ خود بھی ہجرت کی اذیتوں سے دو چار رہی ہے اور وہ پورا ماحول ان کے سامنے تھا۔ظلم و بربریت اور تشدد کی انتہا، معصوم اور بے گناہ لوگوں کی موت نے ان کے دل پر بھی بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان حالات سے متاثر ہو کر انہوں نے فسادات کا پورا منظر افسانوں میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے سسکتی ہوئی زندگی اور ہچکیوں کو محسوس کیا ہے۔ اور ان تمام حالات کا بڑی سادہ اور آسان لفظوں میں نقشہ کھینچا ہے۔
فنی لحاظ سے ان کے ہاں ایک اہم خوبی اُن کا سادہ اور آسان اسلوب ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں انگریزی نظموں کے حصے اور ترجمے بھی درج کرتی ہیں۔ لیکن اس انداز سے کہ ان کا اسلوب بوریت کا شکار نہیں ہوجاتا بلکہ اور بھی دلکش نظر آتا ہے۔ اسی طرح تکنیک کے حوالے سے انہوں نے زیادہ تر افسانے بیانیہ تکنیک میں لکھے جس میں واحد متکلم عورت ہے اور کبھی کبھی خود راوی بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزنامچے کی تکنیک، خط کی تکنیک، خاکہ کی تکنیک اور خود کلامی کی تکنیک میں بھی افسانے لکھے۔ خود کلامی کی تکنیک انہوں نے ‘‘ دیکھا اس بیماریٔ دل نے اور درد کا رشتہ’’ میں استعمال کی ہے۔ اسی طرح ڈرامے کی تکنیک پر ‘‘بلٹ پروف’’ میں طبع آزمائی کی گئی ہے۔
بطورِ مجموعی سیدہ حنا کے افسانے پاکستانی معاشرے میں پلنے والے ظلم، نا انصافیوں، اقربا پروری، عدم مساوات اور خصوصاً مشرقی عورت کے مسائل کے حوالے سے نمائندہ افسانے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی محنت او رریاضت ان کے افسانوں کو وہ مقام عطا کرتی ہے کہ آج اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ان کا نام بھی زندہ مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں متعدد پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں نے اُردو افسانے کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان افسانہ نگاروں میں اختر جمال، پروین عاطف، خالدہ حسین، فردوس حیدر، عذرا اصغر، زاہدہ حنا، نشاط فاطمہ، ام عمارہ، خالدہ ملک، سلمیٰ اعوان، خالدہ شفیق، فہمیدہ ریاض، ڈاکٹر فردوس انور قاضی، بتول رحمانی، سعادت نسرین، عذرا عباس، ندرت الطاف، نسیم انجم، ڈاکٹر غزالہ خاکوانی، فرزانہ آغا، ثریا جبیں، عظمیٰ ظہیر، فاطمہ حسن، فرخندہ شمیم، زیب النساء زیبی، فیروزہ بخاری، فوزیہ تبسم اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔ جن کا فرداً فرداً ذکر کرنا طوالت کا باعث بنے گا اس لیے صرف ناموں پر اکتفا کرنا مناسب سمجھتی ہوں۔
اردو افسانہ میں ان پاکستانی خواتین افسانہ نگاروں نے موضوعاتی حوالے سے زندگی سے متعلق تمام موضوعات کو بروئے کر لا کر اپنے ذوق کی آبیاری کی ہے اور فنی و فکری اعتبار سے اردو افسانے کو جدید دور کے مسائل سے آشنا کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ فیروز الدین،الحاج، مولوی،فیروز اللغات اردو جامع، فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ،ص۱۰۳
۲۔ مولوی نور الحسن،نور اللغات،(حصہ اول) ، حلقۂ اشاعت لکھنؤ، ص ۳۰۹
۳۔ رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۲۹
۴۔ The new Incyclopedia Britanica, Vol 209, London: Willian Benton 1973, P58
۵۔ بحوالہ، ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار (اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں) ، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء، ص ۱۳
۶۔ سید وقار عظیم، داستان سے افسانے تک، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، ۱۹۶۶ء، ص ۱۶
۷۔ رفیع الدین ہاشمی، اصنافِ ادب، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۱۲ء، ص۱۳۰
۸۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار (اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں) ، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء، ص۔ ۱۷
۹۔ ایضاً، ص ۱۸
۱۰۔ ایضاً، ص ۱۸۔۱۹
۱۱۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ، عزیز بک ڈپو لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۳۷۲
۱۲۔ ایضاً، ص ۳۷۳
۱۳۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی، اردو افسانہ نگاری کے رجحانات، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۹۹ء، ص ۳۰۳
۱۴۔ ڈاکٹر انوار احمد، عصمت چغتائی، منٹو کی ہمزاد مشمولہ اردو افسانہ، ایک صدی کا قصہ، کتاب نگر، ملتان کینٹ، ۲۰۱۷، ص۔۱۸۹۔۱۹۰
۱۵۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ، عزیز بک ڈپو لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۵۵۳
۱۶۔ ڈاکٹر انوار احمد، ناقد ممتاز شیرین کا تخلیقی کرب، مشمولہ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص۔۵۴۹
۱۷۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء، ص ۔۲۹۰
۱۸۔ ممتاز شیرین، آئینہ، مشمولہ اپنی نگریا، ص ۴۶۔۴۷
۱۹۔ ایضاً، ص ۴۶
۲۰۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۵۵۴
۲۱۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۲۹۳
۲۲۔ ڈاکٹر انوار احمد، الطاف فاطمہ، اپنی ہی اُٹھائی دیواروں کا گریہ، مشمولہ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص ۳۰۱
۲۳۔ الطاف فاطمہ، خیالِ بیاباں نورد، مشمولہ تارِ عنکوبت، ص ۲۳
۲۴۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی، اردو افسانہ نگاری کے رجحانات، مکتبہ عالیہ، لاہور، ۱۹۹۹ء، ص ۴۱۵
۲۵۔ خدیجہ مستور، پتنگ، مشمولہ کھیل، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص ۳۵
۲۶۔ خدیجہ مستور، یہ بڈھے، مشمولہ بوچھاڑ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص ۶۰
۲۷۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۵۵۲
۲۸۔ خدیجہ مستور، یہ ہم ہیں، مشمولہ بوچھاڑ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص ۹۵
۲۹۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۷۷
۳۰۔ بانو قدسیہ، ہو نقش اگر باطل، مشمولہ امر بیل، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۱۸
۳۱۔ ڈاکٹر انوار احمد، بانو قدسیہ بابا صاحبا کی صاحباں، مشمولہ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص۔۵۲۱
۳۲۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۵۵۴
۳۳۔ بانو قدسیہ، کتنے سو سال، مشمولہ امر بیل، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۶۳
۳۴۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۳۰۶
۳۵۔ ہاجرہ مسرور، پرانا مسیح مشمولہ ‘‘سب افسانے میرے’’، مقبول اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۱ء، ص ۴۶۴
۳۶۔ ہاجرہ مسرور، چراغ کی لو، مشمولہ ہائے اللہ، ص ۶۰۔ ۶۱
۳۷۔ ڈاکٹر انوار احمد، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص ۲۲۳
۳۸۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۵۵۲
۳۹۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۳۱۱
۴۰۔ ڈاکٹر انوار احمد، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص۵۲۵
۴۱۔ جمیلہ ہاشمی، آپ بیتی، جگ بیتی، مشمولہ آپ بیتی جگ بیتی، اردو مرکز لاہور، ۱۹۶۹ء، ص ۲۵۔۲۶
۴۲۔ جمیلہ ہاشمی، بجھے دئیے مشمولہ آپ بیتی، جگہ بیتی، اردو مرکز لاہور، ۱۹۶۹ء، ص ۳۵۷
۴۳۔ ڈاکٹر انوار احمد، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص۶۵۷
۴۴۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۳۱۹
۴۵۔ رضیہ فصیح احمد، منزل کہاں، راہیں کدھر، ص ۲۷۳
۴۶۔ ڈاکٹر انوار احمد، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،کتاب نگر ملتان کینٹ،۲۰۱۷ء، ص۳۱۵
۴۷۔ فرخندہ لودھی، بوٹیاں، مشمولہ آر سی، فیروز سنز ، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۹۴
۴۸۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۳۲۹
۴۹۔ سائرہ ہاشمی، جذبے کی قیمت، مشمولہ اور وہ کالی ہو گئی،فیروز سنز، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص ۹۶
۵۰۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۳۳۶
۵۱۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۵۵۵
۵۲۔ ڈاکٹر نورین رزاق، پاکستانی خواتین افسانہ نگار، اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۶ء،ص۔۴۰۵
۵۳۔ سیدہ حنا، خبر تحیر عشق سن، مشمولہ شہر زاد (ناول)، ادارۂ ابلاغ، پشاور، ۱۹۹۷ء، ص ۱۱۸
۵۴۔ سیدہ حنا، جھوٹی کہانیاں، پاک ڈائجسٹ پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص ۲۵