"ما ما مان تو جائیں گی نہ میں نے رامے سے وعدہ کیا ہے اور میں اپنا وعدہ پورا کر کے رہوں گی ۔۔
چاہے مجھے ماما کو منانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے ۔۔۔"
مانو یونیورسٹی سےآ کر اپنے کمرے میں بیٹھی منفی سوچوں کو رد کرتے ہوئے خود سے بولی ۔۔۔۔
پھر کھانا کھانے کے لئے نیچے ڈائننگ ٹیبل پر چلی گئی ۔۔۔
جہاں پر ماما اور بابا دونوں اس کا کھانے پر انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
"ماما !
مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔۔"
مانو نے کھانا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
"مانو !!
کتنی دفعہ منع کیا ہے کھانا کھاتے وقت بولتے نہیں ہے چپ کر کے خاموشی سے کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔
جو بھی کوئی ضروری بات ہے کھانا کھانے کے بعد آرام سے بھی ہو سکتی ہے۔۔
اس لیے چپ کر کےخاموشی سے بسم اللہ پڑھ کے کھانا کھاؤ ۔۔۔"
زاہدہ بیگم میں مانو کو ڈانتے ہوئے تنبی کی ۔۔۔
راشد صاحب مانو کی عزت افزائی ہوتے دیکھ کر مسکرا کر بولے :
"کچھ نہیں ہوتامانو ۔۔۔
ایسی کھٹی میٹھی تو ہوتی رہتی ہے۔۔ کھانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے بیٹا ۔۔
اور آپ کی ماما کو تو ویسے ہی ایسی کھٹی میٹھی باتیں زیب دیتی ہیں/۔۔
اس لیے مزے سے کھانا انجوائے کرو۔۔
باقی ضروری باتیں بعد میں آرام سے ہو سکتی ہیں۔۔
تب تک غصہ بھی ذرا کم ہو جائے گا ۔۔۔"
راشد صاحب نے مانوکا منہ بنتے ہوئے دیکھ لیا تھا اس لئے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے ۔۔۔
"جی بابا "
مانو کھانا کھانے لگ گئی ۔۔۔
###########
"مانو !
کیا بات کرنی ہے وہ بتاؤ مجھے ۔۔"
کھانا کھانے کے بعد مانو ہاتھ دھو کر واپس آئے تو زاہدہ بیگم نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
"وہ ماما!!
اپ یہ تو چھوڑیں سب کو۔۔
مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
مانو نے زاہدہ کے ہاتھ سے برتن پکڑ کر سائیڈ کر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور زاہدہ بیگم کو سامنے صوبہ پر بٹھایا اور خود سائیڈ پر بیٹھ کر اپنی بات کا آغاز کرنے کیلئے لفظ ترتیب دینے لگی ۔۔۔
"ماما !
آپ وعدہ کریں اب میری بات مانیں گی ۔۔۔"
مانو نے زاہدہ بیگم کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
"آف مانم!
بچوں کی طرح ٹریٹ کیوں کرتی ہوں۔۔
جو بھی بات ہے سیدھی کرو ۔۔
مجھےاور بھی بہت سارے کام ہے۔۔ شاباش بتاؤ ۔۔"
زاہدہ نے کہا ۔۔
"ماما میں نے یونیورسٹی میں ایک دوست بنائی ہے کل ۔۔۔
ر امین نام ہے اسکا بہت اچھی ہے ۔۔۔"
مانو نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔۔۔
"اور وہ چونکہ اس کا تعلق پشاور سے ہے۔۔ اس لیے میں نے اسے اپنے گھر رہنے کی آفر کی ہے ۔۔
اور مجھے امید ہے کہ آپ مجھے منع نہیں کریں گی ۔۔
ہیں ناں ماما !؟"
مانو نے تفصیلا بات بتاتے ہوئے آخر پر ایک مان سے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
"دیکھو بیٹا۔۔ جو بھی ہے لیکن اتنی جلدی کس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔
تمہیں پتا ہے نا آج کل کے حالات کا ۔۔۔۔۔کیا کچھ ہو رہا ہے یہاں پر ۔۔۔۔ایسے میں ایک لڑکی کو اپنے گھر میں رکھنا جیسے ہم جانتے بھی نہیں ہے ۔۔۔کافی عجیب بات ہوگی ۔۔۔"
زہداہ بیگم نے پیار سے مانو کے بال سہلاتے ہوئے سمجھایا ۔۔۔
"لیکن ماما اب کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔
میں نے تو اسے اپنے گھر رہنے کی دعوت دی ہے
اور کل ہی اسے اپنے گھر شفٹ ہونے کا بولا بھی ہے ۔۔۔
اب اگر اب مجھے منع کریں گی ۔۔
اور مجھے اس کے سامنے اتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔
جب اس نے اپنی پیکنگ کی ہوگی 😑اور میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔۔
تو سوچیں ماما میرے لئے کیا شرمندگی کا مقام ہوگا 😒۔۔"
مانو نے ایموشنل ہوتے ہوئے تقریر کر ڈالی ۔۔۔
"تو مجھ سے پوچھ کے تم نے افر کی تھی؟؟
اب تو خود ہی جھیلو ۔۔"
زاہدہ بیگم میں جان چھڑاتے ہوئے مانو کو ڈپٹ کر کہا ۔۔۔
"اب تو کہہ دیا نا ۔۔
پلیز آپ میری بات کا مان رکھ لیں۔۔۔
پلیز مان جائے ماما ۔۔۔
پلیز میری پیاری سی ماما۔۔۔
پلیز پلیز پلیز ۔۔۔۔۔"
مانو نے زاہدہ بیگم کے ترلے منتیں کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
مانو کی رامین سے محبت اور لگاؤ کو دیکھ کر زہداہ بیگم سوچ میں پڑ گئی۔۔۔
"چلو ٹھیک ہے ۔۔۔
اب کی دفعہ میں مان رہی ہوں ۔۔
لیکن آئندہ کوئی بھی بات ہو مجھ سے بغیر پوچھے مت کرنا ۔۔۔
خود دادی مت بنا کرو ۔۔۔"
زاہدہ بیگم نے مسکرا کر مانو کے سر پر چت لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
"سو سویٹ ماما ۔۔۔
آپ کو پتا اپ دنیا کی بیسٹ ماما ہے ۔۔۔
تھینک یو سو سو مچ ۔۔۔😘😘"
مانو نے ماں کی رضامندی دیکھ کر زاہدہ بیگم کو گلے سے لگا کر پیار سے کہا ۔۔
"پتہ چل گیا مجھے ۔۔
میں بیسٹ ہوں۔۔
اب زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں ہے اور جاؤ جاکے آرام کرو ۔۔۔"
زاہدہ بیگم نے مانو کو آرام کرنے کی تلقین کر کے خود کچن کا رخ کرلیا ۔۔۔
مانو خوشی خوشی اپنے روم کی طرف چل دی ۔۔
کیونکہ زیادہ بات نہ ماننے کی پریشانی صرف ماما کی تھی ۔۔جب کہ بابا تو اس کی ہر بات مان لیتے تھے۔۔اس لیے اب اسے کوئی پریشانی نہ تھی ۔۔۔
اب اس نے یہ خوشخبری رامین سب پہنچانے تھی ۔۔۔
############
***تیز ہوائیں طوفانی بارش کالے گرجتے ہوئے بادل ۔۔۔
بجلی کی چمک اور کڑک ایسی کہ دل دہل جائے ۔۔
موسم زیادہ سے زیادہ خراب ہوتا جا رہا تھا اور وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔۔
کبھی آسمان کی طرف دیکھتی تو کبھی اپنے آس پاس گھنے جنگل کی طرف ۔۔
اسے اپنی منزل کا نام و نشان مل نہیں رہا تھا ۔۔۔
ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے آج اس کی زندگی کا آخری دن ہے ۔۔۔
یا شاید یہ دن اس کی زندگی میں کوئی بڑا طوفان لانے والا تھا ۔۔۔۔۔
بہت تیز بھاگ رہی تھی اتنا تیز جتنا کی جسمانی طاقت اسے بھاگنے کی اجازت دے رہی تھی۔۔۔
بھاگتے بھاگتے اس کے پاؤں تک شل ہو گئے تھے۔۔
بے شمار پتھر اور کانٹےلگنے کی وجہ سے اس کے پاؤں پر چھا لے پڑ گئے تھے ۔۔۔۔
پاؤں سے خون تک رس رہا تھا ۔۔لیکن اسے سب کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ اسے بھاگنا تھا ۔۔۔مزید بھاگنا تھا اپنی منزل تک پہنچنا تھا ۔۔۔۔
اگر وہ کہیں تھوڑا سا بھی سستانے کو یا سانس لینے کو رک جاتی تو وقت کا پہہ اسکے ہاتھ سے نکل جاتا جو کبھی واپس نہ آتا ۔۔۔وہ درندے نما انسان اس کے پیچھے پہنچ جاتے ۔۔۔اور اسکی قربانی دینے میں دریغ نہ کرتے ۔۔۔ اسے بھاگنا تھا تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکے ۔۔۔
لیکن ایک نازک انسان کتنا بھاگ سکتا ہے ۔۔ آخر بھاگتے بھاگتے پتھر سے پاؤں تک رہنے کے باعث وہ دھڑام سے نیچے جا پڑی ۔۔اٹھنے کی کوشش کی پر ناکام رہی ۔۔۔
اب اسے انتظار تھا تو صر ف اپنی موت کا۔۔۔۔ابھی کوئی درندہ اس تک پہنچ پاتا اچانک سے کہیں کسی سائیڈ سے ایک شخص نمودار ہوا ۔۔اور اس شخص نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے محافظ کو دیکھ پاتی ۔۔ تکلیف کے باعث وہ بے ہوش ہو گئی ۔۔۔***
"رامے !!
کیا ہوا ؟؟
چلّا کیوں رہی ہو ۔۔۔کوئی ڈراونا خواب دیکھا ہے کیا ۔۔۔"
رامے کی روم میٹ نے اٹھاتے ہوے پوچھا ۔۔
اٹھ کر رامے نے اپنے ارد گرد دیکھا وہاں کوئی جنگل نہیں تھا ۔۔۔
"پتا نہیں کب یہ خواب میری جان چھوڑے گا ۔۔۔"
رامے نے سوچا ۔۔۔
اور دوبارہ سے سونے کی۔ کوشش کی ۔۔
لیکن اب نیند کہاں انے والی تھی ۔۔۔
ساری رات اس نے جاتے ہی گزار دی ۔۔۔
########
،آج پھر ابتسام نے وہی خواب دیکھا تھا۔۔۔
**وہی شہد جیسی آنکھیں ، لمبے سیاہ بال ،
کالی بڑی سی چادر میں لپٹی ہوئی ، معصوم سا چہرا ، پریوں کی سی سادگی ۔
بے شک ایک بار دیکھنے میں کوئی بھی اس کا دیوانہ بن سکتا تھا ۔۔تھی ہی اتنی پیاری ۔
یہی وجہ تھی کہ جب بھی ابتسام خواب میں وہ چہرہ دیکھتا ۔۔
کافی دن اسی چہرے کو بار بار اپنی نظروں کے سامنے پاتا ۔
انگلینڈ میں اس نے خوبصورت سے خوبصورت لڑکی کو دیکھا تھا۔۔
۔۔لیکن ویسی معصوم اور سادگی پن کسی میں ناں نظر نہ آیا۔۔
اور نہ ہی وہ چہرہ کبھی اسی حقیقت میں مل سکا ۔۔**
"اتنی سالوں بعد بھی مجھے سمجھ نہیں آرہی ۔۔آخر ایک لڑکی کا چہرہ ہی کیوں نظر آتا ہے اس سے میرا کیا تعلق ہے ؟؟
کون ہے وہ؟؟ لڑکی کا کیا رشتہ ہے مجھ سے ؟؟"
بہت سارے سوال تھے ۔۔
لیکن ان سب کا جواب ابتسام کے پاس نہ تھا ۔۔۔
اس لیے اس نے ایک دفعہ پھر سے اپنے خواب کو خواب سمجھ کر جھٹلا دیا ۔۔۔ سونے کی تیاری کرنے لگا ۔۔۔
لیکن بار بار اس لڑکی کا تصور اسے سونے نہ دے رہا تھا ۔۔۔
#########
"کیا ہوا تامی ؟؟
ساری رات سو نہیں سکے کیا ؟؟
کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ مجھے !!"
راحیلہ بیگم نے صبح ناشتے میں ابتسام کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر کہا ۔۔۔
"ارے نہیں موم !۔😘
بس تھوڑا بھی برڈن ہے۔۔
اور آپ نے بھی تو نیکسٹ ویک کا حکم دے دیا ہے اس لیے اب سب کچھ جلدی میں کرنا ہے ۔۔
تو اس لیے دیر سے سویا تھا رات۔۔
تبھی شاید ۔۔۔" ابتسام نے راحیلہ بیگم کو بات گھما کر بتائی ۔۔۔
"زیادہ کام ہے تو تم لیٹ کر لینا ۔۔۔
میں چلی جاؤں گی تم بعد میں آ جانا۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔"
راحیلہ نے بیٹے کی پریشانی کو دور کرتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔۔۔