" میں کہاں ہوں ؟؟؟
اور میں یہاں پر کیا کر رہی ہو؟؟
میں تو اپنی یونیورسٹی میں تھی ۔۔۔
مانو کے ساتھ ۔۔۔۔
مانو۔۔۔مانو ۔۔۔۔
کہاں ہو تم ؟؟؟"
رآمین نے ہوش میں آتے ہی مانو کو آوازیں دیں ۔۔۔
مگر کمرے میں تاریکی کی وجہ سے اس کو اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔
" کوئی ہے؟؟؟
میری آواز کوئی سن رہا ہے؟؟
پلیز میری مدد کرو ۔۔۔
مجھے یہاں سے باہر نکالو ۔۔۔
میں کہاں پر ہو ؟؟
کوئی تو بتائے مجھے ۔۔😥😥"
را مین نے روتے ہوئے چیخ چیخ کر کہا ۔۔۔۔
مگر وہاں پر انسان تو دور کوئی پرندہ بھی نہیں اسے محسوس ہو رہا تھا جو اس کی آواز سنتا اور مدد کو آتا ....
کافی دیر چیخنے چلانے سے اس کا گلا بیٹھ گیا۔۔۔۔
مزید اس میں کوئی ہمتنا تھی کہ وہ مدد کو کسی کو پکارتی ۔۔۔۔
رامین کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی ۔۔۔۔
" یااللہ پلیز میری مدد کریں پلیز ۔۔😥😥
مجھے یہاں سے نکالیں۔۔
کسی کو میری مدد کرنے کے لئے وسیلہ بنا کر بھیجیں اللہ پلیز ۔۔۔۔
یا اللہ اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دے مجھے حوصلہ دے مجھے ثابت قدم رہنے کی توفیق دے ۔۔۔۔
یا اللہ میری عزت کی حفاظت فرما ۔۔۔"
رآمین سجدے میں گری اللہ تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اپنی عزت کی حفاظت کیلئے دعا مانگ رہی تھی ۔۔۔۔
کیوں کہ مشکل وقت میں انسان بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ایک واحد ذات اللہ تعالی کی ہوتی ہے جو انسان کو مشکل وقت میں بھی تنہا نہیں چھوڑتی ۔۔۔۔
اسی لئے تو وہ بار بار فرماتا ہے کہ۔۔۔
** تم مجھ سے مدد مانگو میں تمہاری مدد کروں گا ****
***اور مشکل وقت میں جب بھی تم مجھے یاد کرو تو اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک مجھے پاؤ گے ۔۔۔**
رامین بھی اللہ تعالی سے مدد مانگ رہی تھی ۔۔۔
جب رامین تھک ہار کر سجدے میں لیٹ گئی تو اچانک سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔
اور ایک شخص اندر داخل ہوا ۔۔۔۔
#########
" زین۔۔۔
تم پاکستان آ گئے ہو ؟؟"
ابتسام نے کال پر پوچھا ۔۔۔
" ہاں پہنچ گیا ہوں تم کہاں پر ہوں اور مجھے بتاؤ کیا مسئلہ ہوا ہے ۔۔۔
رامین کو کتنی دیر ہوچکی ہے کڈنیپ ہوے
اور جو میں نے تمہیں کام کہا تھا وہ تم نے کر لیا ۔۔۔"
زین نے پوچھا ۔۔۔
" ہاں سارا کام ہو گیا ہے۔۔۔
بس تم جلدی سے میں تمہیں کرنے آ رہا ہوں تم تیار ہو میں ابھی تمہیں پک کرنے آرہا ہوں ۔۔۔
ہمیں ابھی کوئی نہ کوئی ایکشن لینا ہوگا بہت دیر ہو جائےگی ۔۔۔
تم سمجھ رہے ہو نا ۔۔۔"
ابتسام نے لب بھینچ کر پوچھا ۔۔۔۔
زین نے اوکے کہہ کر کال کٹ کر دی۔۔۔۔
#########
"تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہیں یہاں اپنے سامنے اتنا بے بس اور اتنا قریب پآکر میں کتنا خوش ہوں ۔۔۔
بہت تڑپایا ہے تم نے میری بلبل ۔۔۔
اب مزید نہیں ۔۔۔"
احسان شاہ نشے میں جھولتا ہوا رامین کی طرف بڑھا اور شیطانی مسکراہٹ سے اس کو بولا ۔۔۔
" اگر تم پہلے ہی مجھے اپنے پاس آنے دیتی تو آج اس طرح تم بے بس نہ ہوتی ۔۔۔
خیر اس طرح جو زبردستی کا پھل حاصل کیا جاتا ہے تو اس کا مزہ بھی الگ ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔
اور دیکھو تو میری محنت بےکار نہیں گئی ۔۔۔
تمہارے لئے بہت تڑپا ہوں میں میری جان ۔۔۔
اب میری اس تڑپ کو تم ختم کردو ۔۔۔
دیکھو وہ تمہارا نام نہاد عشق رومان عباس ....جو اس دن میرے گریبان کو پکڑ کر کھڑا تھا آج وہ بھی نہیں آیا تمہاری مدد کے لیے۔۔۔ بات کرتا تھا بڑی بڑی۔۔۔
چھوڑو سب کو۔۔ اب صرف یہاں پر میں ہوں اور تم ۔۔۔حسین رات کو مزید حسین بنا دیتے ہیں ۔۔۔۔"
احسان شاہ رامین کی طرف لڑکھڑا کر بڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔
احسان شاہ کا اپنے پاس آتے دیکھ کر رامین میں مزید سمٹ گئی ۔۔۔
اس نے اپنی چادر کو مزید اچھے سے خود پر سمیٹ لیا ۔۔۔
" ارے ڈر رہی ہو میری بلبل ۔۔۔
مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو ۔۔
میں تو تمہارا اپنا ہوں ۔۔۔"
احسان شاہ نے رامین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
رامین نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ۔مگر احسان شاہ اس وقت نشے میں دھت تھا اس کی سننے سمجھنے کی صلاحیت سب مفلوج ہو چکی تھی ۔۔۔
" پلیز چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔😥😥
پلیز مجھے جانے دو میری عزت کا سوال ہے ۔۔۔پلیز چھوڑ دو مجھے ۔۔۔تمہیں خدا اور رسول کا واسطہ پلیز جانے دو مجھے ۔۔۔میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ۔۔۔میں تمہارے پاؤں پکڑتی ہوں ۔۔"
رامین نے روتے ہوئے اس کے پاؤں پکڑے لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔۔۔
احسان شاہ رامین کے مزید قریب ہوا اور اس کی چادر پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔
احسان شاہ پر حیوانیت کا بھوت سوار تھا اسے اچھے برے کی ساری تمیز بھول گئی تھی ۔۔۔
احسان شاہ کو مزید اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر رامین نے دل میں اللہ تعالی سے مدد کی پکار کی ۔۔۔
اچانک اس نے دیکھا سائڈ پر ایک ٹوٹا ہوا ڈنڈا پڑا ہوا تھا جو سٹیل کا تھا ۔۔۔رامین نے جلدی سے نیچے جھک کر وہ ڈنڈا اٹھا کر اپنی طرف آتے احسان شاہ کے سر پر زور سے مارا ۔۔۔۔
احسان شاہ چوٹ وجہ سے بلبلا کر رہ گیا اور اس کو چند پل کچھ بھی دکھائی نہ دیا ۔۔۔
اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر آمین جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔
احسان شاہ نے رامین کو کیڈ نیپ کرنے کے بعد اسے ایک کمرے میں قید کیا ہوا تھا اور یہ کمرا ایک جنگل نما وادی میں تھا ۔۔جہاں آس پاس کوئی رہائش تھی ۔۔احسان شاہ اکثر یہاں پر اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لئے مجبور لڑکیوں کو اٹھا کرکے لے آتا ۔۔۔
اچانک اس طرح بھاگنے کی وجہ سے رامین کی چادروں ہی کمرے میں گرگئی ۔۔۔
لیکن یہاں اسے صرف اپنی عزت کی پرواہ تھی ۔۔۔۔
##########
" بس رامین میں آرہا ہوں۔۔۔
میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا ۔۔۔۔ افسوس میں اپنی بات پوری نہ کر سکا ۔۔۔اور وہ حیوان نما انسان تمہیں اٹھا کر لے گیا لیکن اس کو میں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔"
رومان عباس خود سے باتیں کرتا تیز رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
رومان خود کو حوصلہ دے رہا تھا کہ وہ رآمین کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا اسے خیریت سے واپس لے کر آئے گا....
یہ سوچتے ہی اس نے گھر کی رفتار مزید بڑھا دی ۔۔۔۔
کیونکہ وہ احسان شاہ کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ اگر تھوڑی سی بھی اسے جانے میں دیر ہوگئی تو رامین کے ساتھ وہ کیا کرسکتا ہے رومان جیسے سوچ کر ہی دہل جاتا ۔۔۔۔
#########
ابتسام ذین کے ساتھ جلدی سے پولیس سٹیشن پہنچا ۔۔ وہاں پر زین کا ایک کزن انسپیکٹر تھا اسے ساری باتیں پہلے ہی انہوں نے کر لی تھی ۔۔۔ان تینوں نے جلدی سے حملہ کرنے کی تیاری کی اور امی کو چھڑوانے کے لیے چل پڑے ۔۔۔کیونکہ ایک ایک ہفتے کے اندر اندر سامنے احسان شاہ کیخلاف سارے ثبوت اکٹھے کر لئے تھے جو کہ اس کی گرفتاری کے لیے کافی تھے ۔۔۔۔
ہم ان کو جلدی سے احسان شاہ کو حراست میں لینا تھا تاکہ وہ رامین کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے
############
***تیز ہوائیں طوفانی بارش کالے گرجتے ہوئے بادل ۔۔۔
بجلی کی چمک اور کڑک ایسی کہ دل دہل جائے ۔۔
موسم زیادہ سے زیادہ خراب ہوتا جا رہا تھا اور وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔۔
کبھی آسمان کی طرف دیکھتی تو کبھی اپنے آس پاس گھنے جنگل کی طرف ۔۔
اسے اپنی منزل کا نام و نشان مل نہیں رہا تھا ۔۔۔
ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے آج اس کی زندگی کا آخری دن ہے ۔۔۔
یا شاید یہ دن اس کی زندگی میں کوئی بڑا طوفان لانے والا تھا ۔۔۔۔۔
بہت تیز بھاگ رہی تھی اتنا تیز جتنا کی جسمانی طاقت اسے بھاگنے کی اجازت دے رہی تھی۔۔۔
بھاگتے بھاگتے اس کے پاؤں تک شل ہو گئے تھے۔۔
بے شمار پتھر اور کانٹےلگنے کی وجہ سے اس کے پاؤں پر چھا لے پڑ گئے تھے ۔۔۔۔
پاؤں سے خون تک رس رہا تھا ۔۔لیکن اسے سب کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ اسے بھاگنا تھا ۔۔۔مزید بھاگنا تھا اپنی منزل تک پہنچنا تھا ۔۔۔۔
اگر وہ کہیں تھوڑا سا بھی سستانے کو یا سانس لینے کو رک جاتی تو وقت کا پہہ اسکے ہاتھ سے نکل جاتا جو کبھی واپس نہ آتا ۔۔۔وہ درندے نما انسان اس کے پیچھے پہنچ جاتے ۔۔۔اور اسکی قربانی دینے میں دریغ نہ کرتے ۔۔۔ اسے بھاگنا تھا تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکے ۔۔۔
لیکن ایک نازک انسان کتنا بھاگ سکتا ہے ۔۔ آخر بھاگتے بھاگتے پتھر سے پاؤں تک رہنے کے باعث وہ دھڑام سے نیچے جا پڑی ۔۔اٹھنے کی کوشش کی پر ناکام رہی ۔۔۔
اب اسے انتظار تھا تو صر ف اپنی موت کا۔۔۔۔ابھی کوئی درندہ اس تک پہنچ پاتا اچانک سے کہیں کسی سائیڈ سے ایک شخص نمودار ہوا ۔۔اور اس شخص نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے محافظ کو دیکھ پاتی ۔۔ تکلیف کے باعث وہ بے ہوش ہو گئی....
--