صارم بھی اپنے کمرے میں لیٹا آج کے دن کے بارے میں سوچ رہا تھا بلاشبہ آج کا دن اس کے لئے ایک خوبصورت دن تھا کیونکہ اسکی دشمن جاں اسکی کیوٹی پائے آج پورا دن اسکے ساتھ تھی
سوچتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ تھی ۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا میں نے کیوٹی پائے کے کہنے پر پیرس جانے سے منع کر دیا کیسے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہی جانا چاہتا تھا اور اسی کے کہنے پر رک گیا
کیا محبت محبوب کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ جو آپ کا محبوب کہے بس وہ کرتے جاؤ
صارم کو اپنے فیصلے پر خود یقین نہیں آرہا تھا
کچھ یاد آنے پر وہ آٹھ کے بیٹھ گیا
حارث کو ثمراہ پسند نہیں آئی کیوں۔۔کیسے ؟؟
ثمراہ جیسی لڑکی تو ہر لڑکے کا آئیڈیل ہو سکتی ہے
پھر حارث نے ایسا کیوں کہا منگنی والے دن تو وہ بہت خوش لگ رہا تھا پھر یہ سب کیا تھا جو آج اس نے کہا
اگر وہ خود شادی سے منع کردے تو میری اور کیوٹی پائے کی شادی ہوسکتی ہے
مگر ایک بھائی منع کردے تو اس کے گھر والے دوسرے بھائی سے شادی تو کبھی نہیں کریں گے ۔۔۔
صارم اپنے دماغ میں اپنی زندگی کے لئے پلاننگ کر رہا تھا کہ کیسے وہ سب کو راضی کرے گا شادی کے لئے تبھی اسکا موبائل بجا
لو بھئی اتنی رات کو بھی کسی کو چین نہیں ہے
صارم کو بہت برا لگا اس وقت کال آنا وہ بھی پتہ نہیں کس کی
کچھ ضروری بھی ہوسکتا ہے یہ سوچ کے صارم نے کال پک کر لی۔۔۔
ہیلو کون بات کر رہا ہے؟؟
وہ میں ثمراہ بات کر رہی ہوں ۔۔۔
صارم کے سوال پر ثمراہ نے جھجکتے ہوئے کہا پتہ نہیں وہ کیا مطلب لے میرے اس وقت کال کرنے پر۔۔۔
ثمراہ کی آواز پر صارم کا دل تو مانو خوشی میں ناچ رہا تھا
کسی کو دل سے یاد کرو اور وہ سامنے سے تمہیں کال کرے اس بات کی خوشی ہی الگ ہوتی ہے
مگر صارم ابھی اس پہ کچھ واضح نہیں کرنا چاہتا تھا تو انداز نارمل رکھتے ہوئے بولا
ہاں بولو کیسے کال کی اور تمہیں میرا نمبر کہاں سے ملا۔۔
وہ۔۔میں۔۔یہ۔۔۔کہہ۔۔رہی۔۔۔تھی۔۔۔۔کہ۔۔۔کہ۔۔۔وہ۔۔۔۔تم۔۔۔
کیا بول رہی ہو ٹھیک سے بولو ۔۔
وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ تم پیرس جا رہے ہو کی نہیں
ثمراہ کے ایک سانس میں بولتے ہوئے صارم نے قہقہہ لگایا ۔۔
جا رہا ہوں۔۔۔
کیوں جارہے ہو۔۔
بتایا تو تھا۔۔۔
لیکن ان لوگوں کا سوچو نہ جو تم سے پیار کرتے ہیں
اس کے بارے میں مت سوچو جو تم سے پیار ہی نہیں کرتی ۔۔
میڈم آپ کو نئی لگتا آپ مجھے آرڈر دے رہی ہیں ۔۔
صارم فل شرارت کے موڈ میں تھا
نہیں تو میں تو بس ریکوئسٹ کر رہی ہوں ۔۔
تمہیں میری کب سے اتنی فکر ہونے لگی
صارم کے سوال پر ثمراہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔
ارے بھول گئے کیا آج ہی تو دوستی ہوئی ہماری ۔۔
اووو ہاں۔۔۔
صارم نے ایسے کہا جیسے کوئی بہت پرانی بات یاد کر کے بولا ہو۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ
میں پیرس نہیں جا رہا۔۔۔
کیا واقعی سچ۔۔جھوٹ تو نہیں کہہ رہے نا تم۔۔۔
بھلا میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گا۔۔۔
ہاں یہ بھی ہے۔۔
اچھا مجھے تم سے کچھ اور بھی پوچھنا ہے ۔۔۔
ہاں بولو۔۔
جیسے تم بھی کسی سے محبت کرتے ہو کیا حارث بھی کسی کو پسند کرتے ہیں کیا ۔۔
اس وقت صارم کے پاس بہت سے موقع تھے ثمراہ کو حارث کے لئے بد گمان کرنے کے پر وہ اپنے بھائی کو برا نہیں بنانا چاہتا تھا ۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔
لیکن مجھے ان کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں لگا ۔۔
ثمراہ نے جھجکتے ہوئے اپنے دل کی بات اسے بتا ہی دی ۔۔۔
تمہیں ایسا کیوں لگا بھلا۔۔
جب ہم مال گئے تھے تو پہلے وہ ٹھیک تھے مجھ سے بات بھی کی انہوں نے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان سے ڈر لگ رہا تھا تو میں نے انہیں ہاں نہ میں ہی جواب دیا پھر تو جیسے ان کا موڈ ایک دم سے چینج ہوگیا ۔۔
اس کے بعد حارث نے میری طرف دیکھا بھی نہیں ۔۔
تم کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔
صارم نے اسے سمجھانا چاہا کیوں کے ابھی اس نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا تھا تو وہ اسے کیا مشورہ دیتا ۔۔۔
ہمم۔ ٹھہک کہہ رہے ہو میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی تھی ۔۔
ایک بات بتاؤ صارم ۔۔
ثمراہ نے صارم سے ایک اور سوال پوچھا ۔۔
ہاں بولو۔۔
تمہیں برا تو نہیں لگا میں نے تمہیں اس وقت کال کی شاید تمہاری نیند بھی خراب کردی ۔۔مگر میں کیا کرتی میں بہت کنفیوز ہو رہی تھی کسی سے بات کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔ ویسے مجھے آج تک کوئی بھی پرابلم ہوئی ہے میں نے ہمیشہ اپنی فیملی سے ہی بات کی ہے مگر اس ٹاپک پر میں کسی سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔ اگر میری وجہ سے تم ڈسٹرب ہوئے ہو تو میں معافی چاہتی ہوں مگر مجھے خود سمجھ نہیں آرہا کہ میں نے تمہیں کال کیوں کی ویسے تو میں کسی لڑکے سے بات نہیں کرتی مگر تم میرے دوست بن گئے ہو اور ہمارے بیچ ایک اور رشتہ بھی بننے والا ہے تو سوچا تم سے بات کرلو ۔۔۔۔۔۔
ارے ارے رکو تو سہی کتنا بولتی ہو تم بولتی ہو تو رکتی ہی نہیں ہو۔۔۔ صارم اس کے مسلسل بولنے پر ہنس رہا تھا ۔۔۔
پہلی بات میں بلکل ڈسٹرب نہیں ہوا ۔۔۔ دوسری بات مجھے اچھا لگا تم نے اپنی پرابلم مجھ سے شئیر کی۔۔۔ تیسری بات یہ کہ تم جب چاہے مجھے کال کر سکتی ہو۔۔ اور آخری بات ۔۔۔
اب کی بار صارم کو شرارت سوجھی۔۔۔
کیا آخری بات۔۔
یہی کہ لڑکی میرے بارے میں اتنا مت سوچا کرو کہیں مجھ سے محبت ہوگئی تو بہت مشکل ہو جائے گی ۔۔۔۔
صارم کی بات پر ثمراہ کی زبان مانو تلوے سے لگ گئی
صارم ثمراہ کی خاموشی جان زور سے ہنسنے لگا جس سے ثمراہ کو بہت غصہ آیا ۔۔
صارم تم بہت برے ہو ۔۔ یہ بول کر ثمراہ نے کال کاٹ دی تو صارم کا قہقہہ اور بلند ہوگیا
کیوٹی پائے وہ دن کب آئے گا جب تم میری محبت کو محسوس کرو گی
صارم نے آہ لی اور بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔
مجھے صبح حارث سے بات کرنی ہی ہوگی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن صارم حارث کے کمرے میں چلا گیا
اور بھئی آج موصوف میرے کمرے میں کیسے آگئے ۔۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی تم سے کچھ بات کرنی تھی ۔۔
کیا بات کرنی تھی اب کہ حارث پوری طرح صارم کی طرف متوجہ تھا ۔۔
صارم یہی سوچ رہا تھا کہ وہ کیسے اس سے بات کرے
وہ میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کیا تم اپنے رشتے سے خوش نہیں ہو ۔۔۔
تمہے ایسا کیوں لگا ۔۔
حارث نے الٹا اسی سے ہی سوال کیا تو صارم گر بڑا گیا ۔۔۔
بس تم نے جو کل رات آپی سے کہا اسی وجہ سے پوچھ رہا ہوں ۔۔
مجھے وہ اچھی لگی بلکہ وہ کسی کو بھی اچھی لگے گی مگر وہ ابھی میرے لئے غیر ہے اور مجھے میرے بھائی سے بہت محبت ہے ۔۔
میں سمجھا نہیں تم بولنا کیا چاہتے ہو ۔۔ صارم حارث کی بات کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے بولنے لگا ۔۔
ارے میرے بھائی میرے پاس آنکھیں موجود ہیں اور میں سب دیکھ سکتا ہوں ۔۔
کیا دیکھ سکتے ہو تم۔۔صارم نے ایک اور سوال کیا ۔۔
چھوڑو اس بات کو یہ بتاؤ ثمراہ تمہیں کیسی لگی ۔۔۔
اچھی ہے وہ ۔۔
بس اچھی۔۔؟؟ حارث نے اسکی طرف دیکھ کے کہا ۔۔
ہاں تو اور کیا کہو۔۔۔
چلو اس بات کو بھی چھوڑو تم پیرس کیوں جانا چاہتے تھے ؟
حارث نے ایک اور سوال کیا۔۔
کام کی وجہ سے۔۔
اوہ اچھا کام کی وجہ سے ۔۔تو یہ کام تمہیں میری منگنی کے بعد ہی کیوں یاد آیا۔۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔
صارم میرے بھائی مجھے سب پتہ ہے کیسی بات ہے۔۔
اچھا مجھے یہ بتاؤ تمہیں ایسا
کیوں لگا کہ جس لڑکی کو میں چاہتا ہوں وہ لڑکی ثمراہ ہی ہے
صارم نے حارث سے پوچھا تو حارث ہنس دیا ۔۔۔
بھائی اتنا بڑا بزنس چلا رہا ہوں لوگوں کی پہچان رکھتا ہوں اور ان کی بوڈی لینگویج کی بھی
تمہیں کیا لگتا ہے صرف آپی ہی تمہارا چہرا پڑھ سکتی ہیں میں بھی بہت اچھے سے جان جاتا ہوں تمہارے بارے میں سب ۔۔۔
جس دن ہم پہلی بار ثمراہ کے گھر گئے تھے اس دن تم بہت خوش تھے وہاں کھانا کھاتے تک بھی تم بار بار اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔
پھر جب اس نے تمہیں چائے دی تو تم نے جان بوجھ کے اپنے ہاتھ پہ گرائی تھی میں نے اس دن دیکھا تھا پر دیہان نہ دیا ۔۔۔۔۔لیکن جب سب ہمارا منہ میٹھا کروا رہے تھے تمہارا منہ لٹک گیا تھا ۔۔۔تم نے اسے میٹھائی کھلائی تو تھی پر اسکی طرف دیکھے بغیر۔۔۔
پھر اگلی بار منگنی کے لئے جب ہم گئے تو بھی تمہارا منہ لٹکا ہوا تھا پر جب ثمراہ نے تم سے بات کی تو تمہارا موڈ ٹھیک ہوگیا۔۔۔
گھر آتے ہی تم نے پیرس جانے کی بات کی تب مجھے پہلی بار شک ہوا تھا جب پچھلی باتوں کو یاد کیا تو شک تھوڑا اور پکا ہوا ۔۔۔۔۔۔ میں نے آپی سے ثمراہ کو مال بلانے کی بات کی ہی اسی لئے تھی تاکہ میں دیکھ سکو کہ جب میں ثمراہ سے بات کرو تمہیں کیسا لگے گا اور تم جیلس ہو رہے تھے میں بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔
کل رات جو کچھ بھی میں نے آپی سے کہا میں کہہ آپی کو رہا تھا پر میری نظریں تم پر ہی تھیں ۔۔۔۔
میری باتوں کو سن کے پہلے تم حیران ہوئے پھر میں نے تمہارے چہرے پر خوشی دیکھی اور میں سمجھ گیا۔۔۔
کیا سمجھ گئے۔۔۔۔صارم جو خاموشی سے حارث کی بات سن رہا تھا اس کے خاموش ہونے پر بول پڑا۔۔۔
بتاتا ہوں جلدی کیا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔