مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے
صارم نے رات میں ہی سب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا
واپسی پر سبھی لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصراف تھے صارم کے بولنے پر اسکی طرف متوجہ ہوئے
بولو بیٹا کیا بات ہے
بڑے پاپا بڑی مما مجھے آپ دونوں کی اجازت چاہئے
کس بات کی اجازت صارم
مجھے کچھ سالوں کے لئے ملک سے باہر جانا ہے
یہ کیا کہہ رہے ہو بڑی مما کو حیرت ہوئی جو انسان ان سے ایک دن دور نہیں رہ سکتا وہ کچھ سالوں کی بات کر رہا تھا
مجھے پیرس میں ایک بہت بڑا پروجیکٹ ملا ہے جس میں کم از کم دو سے تین سال لگ جائنگے
تم ہمارے بغیر رہ لو گے کیا شمس صاحب نے اداس ہوتے ہوئے پوچھا
بڑے پاپا میرے لئے بھی مشکل ہے پر اس پراجیکٹ سے میری کمپنی ترقی کی ایک نئی بلندی پر پہنچ جائے گی
جیسے پاپا چاہتے تھے
اپنے مرحوم بھائی کی یاد نے شمس صاحب کو اور افسردہ کیا
صارم نے ثناء کی طرف التجائیا نظروں سے دیکھا تو ثناء سمجھ گئی اس وقت وہ کیسی مدد کے بارے میں بول رہا تھا
مما پاپا اگر صارم اپنے پاپا کا ادھورا خواب پورا کرنا چاہتا ہے تو اسے پلیز جانے دیں بلکہ ہمیں تو اسکا ساتھ دینا چاہئے نہ
ثناء کی بات پر سب متفق تھے پر کوئی نہیں چاہتا تھا کہ صارم انہیں چھوڑ کر چلا جائے
صارم نے بات ہی ایسی کی تھی کہ سب نے بجھے دل سے اسے اجازت دے دی تھی
مجھے معاف کرنا سب میں کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا مگر اگر میں یہاں رہا یہ تو خود کو کھو دونگا یہ پھر سب کو۔۔۔۔
صارم نے دل میں سوچا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی منگنی کے ایک ہفتے کے بعد ثمراہ اسکول گئی تو سب اسے پوچھنے لگے کے کہاں تھی اتنے دن
وہ میری انگیجمنٹ ہوئی تھی تو امی نے اسکول جانے سے منع کر دیا تھا میں نے 5 دن تک بہت ضد کی چھٹے دن آخر کار مجھے پاپا نے اجازت دے ہی دی
ثمراہ نے سب کو بتایا تو سب کو حیرت ہوئی
ایسا کیوں کہا تمہاری امی نے
امی کا کہنا تھا کہ اب جب کے میرا رشتہ پکا ہوگیا ہے تو میں اب جاب نہ کرو کہیں میرے سسرال والوں کو برا لگے
تو پھر اجازت کیسے ملی
ایک اور سوال آیا ایک اور سوال کیا کسی نے
ثمراہ نے اب کی بار قہقہہ لگایا۔۔۔وہ میں نے اپنی ساس سے کہہ کر اپنے گھر فون کروایا تو پاپا نے مجھے اجازت دے دی
ثمراہ کی اس عقلمندی پر سب ہنس دئیے
لنچ بریک میں ثمراہ کا تو مانو تھکن سے برا حال تھا مس صنم نے اسے پانی دیا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی
کیا ہوا تھک گئی ۔۔۔ہاں تو پورے ہفتے کا کام پینڈنگ تھا ویسے کوئی چھٹی کرے تو انچارج ہم سے دوسری ٹیچر کا کام کرواتی ہیں اور میں نے چھٹیاں کی تو میری کلاس میں کوئی کام ہی نہ ہوا پورے ہفتے یہ کیا انصاف ہے اپ ہی بتائیں
ہے تو غلط پر کیا کہہ سکتے ہیں ہم انچارج نے پہلے دن کوشش کی تھی تمہاری کلاس میں کام کروانے کی پر تمہاری کلاس کے بچے اتنے ضدی ہیں بولنے لگے ہماری ٹیچر کو بلائیں وہ ہی ہمیں کام کر وائیں گی
تمہے پتہ ہے پرنسپل کے پاس تو پیرنٹس بھی آئے تھے کے پلیز آپ مس ثمراہ کو اسکول لے کے آئیں ہمارے بچے اب اسکول آنے سے منع کرتے ہیں
صنم کی بات پر ثمراہ کو بہت حیرت ہوئی
کیوں مس میں تو پہلے بھی چھٹیاں کرتی تھیں بچوں نے کبھی ایسا نہیں کیا
پہلے تو کام نہ کرنے پر انچارج نے پوری کلاس کو سزا دی اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اب آپکی ٹیچر کبھی نہیں آئے گی
اوہ تو یہ بات تھی
مس صنم کو کچھ یاد آیا تو وہ بولی
اور ہاں تمہارا وہ عاشق جو روز آتا ہے وہ بھی کافی دن سے اداس تھا آج آیا بھی نہیں کہیں تمہارے غم میں وہ بیمار تو نہیں ہوگیا۔۔
بھاڑ میں جائے وہ اور اسکا غم میری بلا سے۔۔۔۔۔
ثمراہ کو غصے میں بولتے ہوئے مس صنم نے قہقہہ لگایا
اتنے میں لنچ بریک ختم ہوا تو سب اپنے اپنے کاموں میں مصراف ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم تمہیں کب جانا ہے پیرس
شمس صاحب کے پوچھنے پر صارم نے انہیں بتایا
بڑے پاپا کل شام سات بجے کی فلائٹ ہے میری ۔۔۔
آپی کیا آپ میری شاپنگ میں مدد کرینگی مجھے پیرس کے موسم کے لحاظ سے ڈریسز چاہیے ہونگے
تھیک ہے پر تمہیں تھوڑی جلدی یاد نہیں آیا کہ تمہیں شاپنگ کرنی ہے
ثناء نے صارم کو ٹوکہ تو وہ مسکرا دیا
اب آپ میاں بیوی پچھلے ایک ہفتے سے کہی نہ کہی گھومنے چلے جاتے تھے تو میں کیسے روکتا بھلا
ہاں سہی کہا تم نے تو پھر ایک کام کرتے ہیں آج ہی چلتے ہیں ٹھیک ہے نہ
جی بہتر ۔۔۔۔۔
حارث نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ثناء کے کان میں کہا
آپی کیا ہم ثمراہ کو بھی ساتھ لیکر چلیں کیا
حارث کی بات سن ثناء نے صارم کی طرف دیکھا جسنے اشارے سے ہاں کہا
کیونکہ حارث نے اتنی آواز میں کہا تھا کہ صارم جو اسکے برابر میں بیٹھا تھا سب سن لیا تھا
ٹھیک ہے میں مما سے بات کرتی ہوں کہ وہ ثمراہ کی مما سے بات کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول کی چھٹی کے وقت اسے پرنسپل کے آفس بلوایا گیا
آفس میں پہنچتے ہی اسے صارم بیٹھا نظر آیا
تم یہاں کیا کر رہے ہو
ثمراہ کو حیرت ہوئی اسے یہاں دیکھ کے
تمہاری کمپلین کرنے آیا ہوں کہ تم لوگوں کو غلط ایڈریس بتاتی ہو
صارم نے شرارت سے کہا تو وہ سچ میں پریشان ہوگئی
اور مس ٹینشن مت لو مزاق کر رہا ہوں تمہیں پک کرنے آیا تھا تو تمہاری امی نے بتایا کہ تم ابھی تک گھر نہیں آئی تو تمہیں یہاں پک کرنے آگیا۔۔
لیکن تم یہاں آئے کیوں سب کیا سوچینگے ۔۔
او ہیلو مس آپکی امی نے پرنسپل کو کال کردی تھی کہ میں لینے آرھا ہوں اور ہاں لوگ آپ کو میرے ساتھ دیکھ کے حیرت نہیں رشک کریں گے کے ایک بھینگی اتنے ہینڈسم اور ڈیشنگ بندے کے ساتھ جارہی ہے
صارم کی بات پر ثمراہ کا چہرا غصے سے لال ہوگیا اس سے پہلے وہ کچھ بولتی پرنسپل نے اسے جانے کی اجازت دے دی
پرنسپل کو الوداعی جملا کہہ وہ صارم کے ساتھ گھر جانے لگی
گھر پہنچ کر ثمراہ کھانا مانگنے ہی والی تھی کہ صارم نے اسے جلدی تیار ہو کر چلنے کیلئے کہا تو وہ تیار ہونے چلی گئی
امی سے پوچھنے پر اسے پتا چلا کے حنا بیگم کی کال آئی تھی وہ تمہیں اپنے بچوں کے ساتھ کے ساتھ صارم کیلئے شاپنگ پر بھیجنا چاہتی ہیں تو میں نے تمہارے پاپا سے پوچھ کر حامی بھرلی وہ تو حارث کو بھیج رہی تھیں تمہے لینے کیلئے تو تمہارے پاپا نے منع کر دیا اور کہا کہ صارم کو بھیج دیں ابھی اتنی جلدی حارث کا یہاں آنا جانا اچھا نہیں
امی کی بات سن کے وہ صارم کے ساتھ مال چلی گئی
وہاں پہنچ کے صارم نے ثناء کو کال کی تو پتہ چلا وہ لوگ ابھی گھر سے نکلے ہی نہیں
کیا آپ گھر سے نہیں آرہے کیا
ثمراہ نے صارم سے سوال کیا تو صارم نے دیکھا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اس طرح اسکے ساتھ ایسے اکیلے گھومنا
صارم کے اندر کچھ ٹوٹا تھا مگر وہ خود کو سنبھال گیا
کیا اسکول والی بات پر ابھی تک ناراض ہو ارے بابا میں مزاق کر رہا تھا
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔تو پھر کیسا ہے۔۔۔۔
وہ مجھے نہ بھوک لگی ہے۔۔۔
ثمراہ کے اس طرح معصومیت سے کہتے صارم کیلئے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا
ارے یار تو پہلے کہہ دیتی میں پتہ نہیں میں کیا کیا سوچ رہا تھا کی آپ منہ بنائی ہوئی ہو میرے ساتھ آکر ۔۔
بھلا میں منہ کیوں بناؤ گی آپکو جانتی ہوں میں اور سب کی اجازت سے آئی ہوں آپ کے ساتھ بس آپنے جلدی کی تو میں کھانا نہیں کھا پائی گھر میں
ثمراہ کے بولنے پر صارم کا دل جو ڈوب رہا تھا اب اچھل کے پھر سے اپنی جگہ پر آگیا تھا
اچھا ٹھیک ہے بتاؤ کیا کھاؤ گی
ہممم ۔۔۔۔۔ائسکریم اور چنا چاٹ
جی بلکل بندہ آپکی خدمت میں حاضر ہے
صارم نے سر جھکا کے کہا تو دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ یہ ایک اچھی دوستی کا آغاز تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں مال کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے ثمراہ پیٹ پوجا کرنے میں مگن تھی جبکہ صارم اسے تکنے میں
ایک بات پوچھو صارم
ثمراہ نے تھوڑا سنبھل کے بات شروع کی
ہاں بلکل پوچھو ۔۔۔۔
تم اتنا دور اپنے گھر والوں کے بغیر رہ لو گے کیا تم ان سے پیار نہیں کرتے
پیار ہی تو کرتا ہوں جبھی جا رہا ہوں ورنہ کسی کو حاصل کرنا صارم شاہ کے لئے مشکل نہیں ہے
کسے حاصل کرنا چاہتے ہو ؟
اپنی محبت کو۔۔۔
کسے سر محبت کرتے ہو۔۔؟؟
بہت زیادہ۔۔
کہاں ہے وہ؟
میرے دل میں ۔۔۔۔
کیا تم اسے کھو دو گے ؟
کھویا ان کو جاتا ہے جسے پا لیا جائے۔۔۔۔
کیا تم اسے کبھی بھول پاؤ گے؟
کبھی نہیں۔۔۔
کیا تم کسی اور کو اپنے دل میں جگہ دے پاؤگے؟
کبھی نہیں
اگر وہ تمہیں مل گئی تو؟
اسے خود میں چھپا لونگا ۔۔۔۔
یہ کیسی محبت ہے تمہاری ؟
میری محبت میری سانسوں کی طرح ہے جسے میں ہر پل محسوس کرتا ہوں اور یہ وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
کوئی سحر تھا ان دونوں کے درمیان وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بغیر آنکھیں جھپکائے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے
ثمراہ کی آنکھوں میں حیرت تھی صارم کیلئے کہ وہ کیسے کسی سے اتنی محبت کر سکتا ہے
جبکہ صارم کی آنکھوں میں بے پناہ چاہت تھی باتوں باتوں میں ہی سہی وہ اپنی محبت کا اقرار کر چکا تھا
ایک بات بولو ۔۔۔۔۔
ثمراہ نے پھر صارم سے کہا۔۔۔
ہزار بولو۔۔۔
میری تمہاری زندگی میں کیا اہمیت ہے ۔۔؟؟
لو بھلا کتنی بے وقوف لڑکی ہے یہ اتنا صاف طریقے سے میں نے بتایا کہ وہ ہی میری زندگی ہے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم صرف یہ سوچ سکا کیونکہ بول وہ نہیں سکتا تھا مگر اگر وہ اس وقت صارم کی آنکھوں میں محبت دیکھتی تو یہ سوال نہ کرتی ۔۔۔۔
تم جان کر کیا کرو گی۔۔
اگر میں تم سے کچھ کہو تو کیا تم مانو گے۔۔۔۔
ہاں بولو سوچوں گا ( بول کے تو دیکھو نہ مانو پھر کہنا )
اپنی فیملی کو چھوڑ کر مت جاؤ
وہ نہیں رہ پائنگے تمہارے بغیر ثمراہ نے صارم سے ریکوئسٹ کی
سوچوں گا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔