جب ثمراہ کو یہ بات پتہ چلی کہ اسکے سسرال والے آج اسے انگھوٹی پہنانے آرہے ہیں تو وہ بہت خوش تھی کیونکہ اب وہ باقاعدہ طور پر حارث شاہ کی ہو جائے گی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ لوگ چلے جایئے گا میں نہیں جاسکتا کل بھی آفس نہیں گیا تھا اور آج ایک بہت ضروری کام بھی ہے
یہ بھلا کون منہ کر رہا ہے پیچھے سے ثناء کی چہکتی ہوئی آواز سن کے سبھی چونک گئے
ارے بیٹا تم تو لندن گئ تھی اتنی جلدی کیسے آگئی
آگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی بیگم کو واپس لے جاتا ہوں
اب کی بار لاؤنج میں آتے ہوئے واسف نے شرارتی انداز میں کہا جسے سن سبھی خوش ہوگئے
خبر دار جو میری آپی کو آپ لے کر گئے حارث فوراً بولا تو سب نے قہقہہ لگایا
ہنستے ہوئے ثناء کی نظر صارم پر رک گئی ۔۔۔یہ بھلا تمہیں کیا ہوا اچھا بھلا تو چھوڑ کے گئی تھی
ثناء کی بات پر اب صارم کو سنبھلنا پڑا کیونکہ اب سامنے ثناء تھی جو صارم کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اچھے سے سمجھ جاتی تھی تو اب اپنی بہن کے لئے ہی سہی اسے اپنا دکھ اور تکلیف چھپانی تھی
کچھ نہیں آپی آپ کی یاد میں یہ ہال ہوگیا
کل سے طبیعت خراب ہے اور موصوف کو آفس جانا ہے ۔۔۔اپنی ماں کی بات سن ثناء نے صارم کو گھورا
ارے آپی کل بھی مجھے جانے نہیں دیا تھا کسی نے آج تو جانا پڑے گا نہ
کوئی ضرورت نہیں ہے آفس جانے کی تمہارا بزنس کوئی چھوٹا موٹا بزنس نہیں ہے وہ چاچو کے ٹائم سے اسٹیبلش ہے اور تم نے تو اس کو اور بلندی پر پہنچا دیا ہے گھر میں آرام کرو اور ہم شام میں سب ساتھ میں ثمراہ کے گھر جائنگے۔۔۔
ثناء کے آرڈر پہ صارم نے ہتھیار ڈال دیے کیونکہ وہ اب کچھ نہیں کر سکتا تھا
ثناء بیٹا تمہیں یہ سب کس نے بتایا
مما مجھے حارث نے پرسوں ہی بتایا سب کچھ تبھی تو میں آگئ
چلو اچھا کیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ کو اسکی امی نے بتایا کے آج اسکی نند بھی آئے گی اسکی شادی کچھ دنوں پہلے ہی ہوئی تھی تو وہ لندن گھومنے گئی تھی
امی کی بات سن کر ثمراہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے امی نے جب اسکی یہ حالت دیکھی تو پوچھنے لگی
تمہیں کیوں سانپ سونگھ گیا ۔۔کچھ نہیں امی آپ یہ بتائیں کے یہ جو نندیں ہوتی ہیں وہ بہت بری ہوتی ہیں کیا اپنی بھابھی پر بہت ظلم کرتی ہیں کیا
یہ سب تم سے کس نے کہہ دیا
وہ میرے اسکول میں جتنی بھی شادی شدہ ٹیچرز ہیں وہ ہر وقت اپنی نندوں کی برائی کرتی رہتی ہیں
ایسا کچھ نہیں ہوتا بیٹا ہر کوئی ایک جیسا نہہں ہوتا اب تمہارے سسرال میں سبھی اچھے ہیں تو وہ بھی اچھی ہونگی نہ۔۔۔
ٹھیک کہا آپنے امی میں بلا فضول ہی ڈر رہی تھی
اچھا اب جلدی سے تیار ہو جاؤ
مگر امی میں پہنو کیا آپ بتائیں نہ
یہ سفید فراک پہنو سفید مسلمانوں کے لیے مبارک رنگ ہوتا ہے
جی بلکل امی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم اپنے روم میں آیا تیار ہونے کے لئے تو اس نے اپنی سفید شرٹ نکالی
مما کہتیں تھی کہ سفید رنگ مبارک رنگ ہوتا ہے اور یہ میرے لئے بہت لکی ہے
اپنی ماں کے الفاظ یاد کر کے صارم کی آنکھوں میں آنسو آگئے جسے وہ صاف کر کے تیار ہونے چل دیا
سب ریڈی ہو کے لاؤنج میں صارم کا ویٹ کر رہے تھے تبھی صارم نیچے آیا حنا بیگم نے اپنے بیٹے کی دل میں نظر اتاری جبکہ ثناء صارم کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی
یہ بھلا آج تمہیں کون سے لک کی ضرورت ہے جو تم سفید شرٹ پہنے ہوئے ہو
کچھ نہیں آپی جلدی جلدی میں جو ملا پہن لیا
صارم نے جب ثناء کو گھورتے دیکھا تو باہر کی طرف چل دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ باقی سب سے تو چھپا سکتا ہے پر اپنی بہن سے اپنے دل کا حال چھپانا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر صاحب کے گھر پہنچنے پر حنا بیگم نے ثناء کو سب سے ملوایا آخر میں جب ثناء ثمراہ سے ملی تو چونک گئی اور ایک نظر صارم کو دیکھا جو ثمراہ کو دیکھ شاید کہیں کھا گیا تھا
سفید فراک میں ملبوس چہرے پر لائٹ پنک میک اپ کئے آج وہ صارم کو پہلے سے بھی زیادہ حسین لگی ناک میں بالی ہلکی سی جیولری پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی تبھی تو صارم کی نظر اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی
یہ کیا ہورہا ہے صارم ۔۔
ثناء کی آواز پر صارم چونک گیا
کیا ۔۔۔نہیں۔۔۔کچھ۔۔بھی۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں۔۔۔تو۔۔۔۔بس۔۔۔۔
تم نے مما پاپا سے کچھ کہا کیوں نہیں
کس بارے میں ؟؟
یہی کے تمہیں ثمراہ پسند ہے ۔۔۔۔
صارم کے آگے تو مانو کوئی بمب پھوڑا گیا تھا۔۔
آپکو کیسے پتہ ۔۔بغیر کوئی بہانے کے صارم نے ثناء کو سب سچ بتانے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اپنی بہن سے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں چھپا سکتا۔۔
جب تم اسے مال میں دیکھ رہے تھے تو اس وقت میں تمہیں دیکھنے آئی تھی تمہاری آنکھوں میں چمک تھی اس کے لئے محبت تھی ۔۔ثمراہ تمہارا پہلا پیار ہے اور ایسے پیار کو کوئی بھی نہیں بھلا پاتا۔۔
دیکھیں آپی سامنے سب کتنا خوش ہیں حارث کو دیکھیں جو پھولے نہیں سما رہا ثمراہ کو دیکھیں جب وہ دل سے ہنستی ہے تو اسکے گال کا ڈمپل واضح ہوتا ہے دونوں گھر کے لوگ سبھی خوش ہیں
اب میں کیا سب کی خوشیوں کو ختم کر کے خود کیلئے خوشیاں حاصل کروں
میرے بھائی ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا تم کیوں اتنی فکر کرتے ہو میں ہوں نہ میں سب سنبھال لونگی
آپ میری خوشی کیلئے حارث کو تکلیف پہنچائے گی۔۔ صارم کی بات پر ثناء لا جواب ہو گئی کیونکہ حارث بہت خوش لگ رہا تھا
زندگی میں بہت بڑے بڑے جھٹکے کھائیں ہیں میں نے آپی ایک اور سہی۔۔ صارم نے کرب سے کہا تو ثناء خاموش ہوگئی
سب کی موجودگی میں حارث اور ثمراہ نے ایک دوسرے کو انگھوٹی پہنائی تو سب نے دونوں کو مبارک باد دی
ثمراہ کی نظر صارم پہ گئی تو پتہ نہیں کیا ہوا وہ اس کے پاس چلی گئی جو نظریں جھکا کر اپنے ہاتھوں کو گھور رہا تھا
کیا ہوا صارم لاسٹ ٹائم تم آئے تھے تو اتنا بول رہے تھے آج اتنے خاموش کیوں ہو
کچھ نہیں بس طبیعت ٹھیک نہیں ہے
کیا ہوا طبیعت کو
بس زرا سا بخار ہے
کیا کہا زرا سہ بخار پورا چہرا اترا ہوا ہے
ثمراہ کی بات سن صارم مسکرانے لگا ۔۔اچھا آپ نے دو باری میں ہی اندازہ لگا لیا میرے بارے میں
صارم نے شرارتی انداز میں کہا تو ثمراہ نے اسے گھورا ۔۔اگر تم نے مجھ سے فلرٹ کیا نہ تو میں تمہارا منہ توڑ دونگی سمجھے نہ
اب کی بار صارم نے قہقہہ لگایا کیوں کے ثمراہ اسے غصے میں اور بھی زیادہ کیوٹ لگی۔۔
میڈم میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں آپ مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گی
ہاں بلکل کیونکہ رشتے میں میں تم سے بڑی ہوں
صارم نے رشتے کے بارے میں سن کے گہرا سانس لیا
چلیں ٹھیک ہے سوری
صارم نے کان پکڑ لئے تو ثمراہ مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔
مما آپ ٹھیک کہتی تھیں سفید رنگ واقعی میرے لئے لکی ہے ۔۔۔۔
صارم کا موڈ اب بلکل ٹھیک تھا کیوں نہ ہوتا اسکی کیوٹی پائے نے اسے ہنسایا تھا ۔۔
کیا تم ثمراہ کو اپنی بھابھی کے روپ میں قبول کر لو گے
محبت نہ سہی وہ میری دوست بن کے تو میرے آس پاس رہے گی آپی مجھے تھوڑا وقت چاہئے اس سب کے لئے
کیا کرنے والے ہو تم
میں نے ایک فیصلہ لیا ھے اور امید کرتا ہوں آپ میرا اس میں ساتھ دینگی۔
منگنی کی رسم خیر سے ہوگئی تھی اور سب بہت خوش تھے شادی تین سال بعد رکھی گئی تھی ثمراہ کے گریجویشن کے بعد ....
سب لوگ جانے لگے تو صارم ثمراہ کو الوداع کہنے آیا
اچھی لگ رہی ہو آج آپ
شکریہ۔۔۔
صارم کی بات پر ثمراہ مسکرائی تو صارم نے اسے بہت غور سے دیکھا من کیا اسے خود میں چھپالے
ثمراہ کی مسکراہٹ ایک دم سمٹ گئی کیونکہ صارم مسلسل اسے تکے جارہا تھا
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ بس اتنا بول پائی کہ صارم بیچ میں بول پڑا
بس تھوڑا میک اپ کم کیا کرو تھوڑا اور کرتی تو چڑیل لگتی اور پھر یہ بھینگی انکھیں ابھی میں نے غور سے دیکھا واقعی میں فرق ہے
تم میرے ہاتھوں سے ضائع ہوجاؤ گے لنگور خاموش ہی ٹھیک تھے تم بلا فضول ہی میں نے تم پہ ترس کھا کے بات کرلی۔۔۔۔
میرے ساتھ کچھ بھی کر لینا آپ بس مجھ پہ کبھی ترس مت کھانا پلیز۔۔۔۔۔۔
ثمراہ کی بات پر جو مسکرا رہا تھا ایک دم سنجیدگی سے بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔