ثمراہ خوش تھی حارث اسے پسند آیا تھا اوراس نے حارث کی آنکھوں میں بھی اپنے لئے پسند دیکھی تھی اسکے گھر والے بھی اسے اچھے لگے سوائے صارم کے وہ اسے لوفر سے زیادہ کچھ نہ لگا
ہمم بڑا آیا مجھے بھینگی بولنے والا خود بھی تو لنگور ہے اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کیا
ثمراہ کا رشتہ حارث سے طے ہوا تھا اصولاً اسے حارث کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا مگر وہ مسلسل صارم کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اسے نئے نئے القابات سے نواز رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں سے نکل کر وہ سیدھا سمندر کے کنارے آگیا اس مسلسل بہتے پانی کو تکتا گیا
کیونکہ اس کے دل میں بھی ایک سمندر بہہ رہا تھا اس وقت درد کا سمندر ۔۔۔۔۔
جانے کتنے گھنٹے وہ وہاں رہا کب وہ گھر آیا اسے کچھ نہیں پتا تھا
پتہ تھا تو بس یہ کہ اسکی محبت اس کے بہت قریب ہو کر بھی اس سے بہت دور ہو جائے گی اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ثمراہ جب اسکول پہنچی تو اس نے سب کو اپنی انگیجمنٹ کی بات بتائی تو سب اسے مبارکباد دینے لگے
سب سے مبارکباد وصول کر کے وہ مس صنم کے پاس آئی
مس کیا آپ کو پتہ ہے وہ گاڑی والا کون ھے جو کل ہمیں ملا تھا
نہیں مجھے کیسے پتہ ہوگا مس صنم کچھ یاد کرتے ہوئے بولی
ہاں یہ بھی ہے۔۔ پتہ ہے وہ میرا ہونے والا دیور ہے اسکے بڑے بھائی سے میری انگیجمنٹ ہوئی ہے
کیا واقعی وہ کچھ بولا تو نہیں
نہیں کچھ بولا تو نہیں بس جب میں نے اس سے پوچھا تم مجھے گھور کیوں رہے تھے تو کہنے لگا میں آپکو اس لیے گھور رہا تھا کیونکہ بولتے ہوئے آپ بینگھی لگتی ہیں
مس کیا میں بینگھی لگتی ہوں ثمراہ آنکھیں پٹپٹا کر ایسے بولی کہ مس صنم کو ہنسی آگئی
بتائیں نہ ۔۔۔نہیں میری جان تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
پتہ تھا مجھے وہ جھوٹ بول رہا تھا اور پتہ ہے وہ کیا کہہ رہا تھا کہ اسنے مجھسے اپنی خواری کا بدلہ لے لیا ۔۔۔۔۔
ارے اب کچھ اپنے والے کے بارے میں بتاؤ گی یا اپنے دیور کی برائیاں گنواتی رہو گی
صنم کی بات پرثمراہ سوچ میں پڑ گئی کے کیوں وہ کل سے صرف صارم کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شاہ ولا میں سب ناشتے کی میز پر موجود تھے حنا بیگم نے صارم کا اترا ہوا چہرا دیکھا تو اسکا ماتھا چھوا جو اس وقت بہت جل رہا تھا
صارم تمہیں اتنا تیز بخار ہے اور تم آفس جانے کیلئے تیار ہو
جی بڑی مما آفس میں بہت ضروری کام ہے
نہیں آج تم آفس نہیں جاؤ گے گھر پر رہو جب تک تمہاری طبیعت ٹھیک نہ ہو ۔۔
۔پر ۔۔
۔پر ور کچھ نہیں بول دیا نہ نہیں تو نہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنا بیگم نے صارم کو دوا دی تو انکی نظر صارم کے ہاتھ پہ پڑی جو وہ کل سے چھپا رہا تھا
اتنا جل گیا تمہارا ہاتھ تم نے کسی کو بتایا کیوں نہیں
اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے اس کی نظروں میں ثمراہ کا حیران ہوا چہرا سامنے آیا جب صارم پر چائے گری تھی وہ حیران ہوئی تھی اور پھر پریشان وہ پل یاد کرتے ہوئے صارم کی آنکھوں میں نمی آئی جسے چھپانے کیلئے اس نے اپنی مما کی گود میں سر رکھ دیا
کچھ نہیں ہے تھوڑا سہ زخم ہے ٹھیک ہوجائے گا اور ہاں مجھ سے اتنا پیار مت کیا کریں کے میں ساری زندگی اس پیار کا قرض نہ چکہ پاؤ
ماں باپ اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں ان پر احسان نہیں کرتے
حنا بیگم کو صارم کی بات نا گوار گزری
اچھا بابا سوری بس ایسے ہی کہہ دیا
صارم کان پکڑ کے بولا تو حنا مسکرا دی صارم نے پھر سے انکی گود میں سر رکھ لیا اور حنا اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی جس سے صارم کو سکون ملا
صارم تمہیں ثمراہ کیسی لگی حارث کیلئے
یہ سوال تھا یا امتحان
بہت بہت اچھی ۔۔۔۔حا۔۔۔ر۔۔۔ث۔۔۔۔۔کے۔۔۔۔۔لئے
رک رک کے بولتا وہ شدید تکلیف میں تھا مگر وہ کسی کو بھی یہ بتا نہیں سکتا تھا
پتہ ہے پہلے مجھے حارث کیلئے اریشہ پسند آئی تھی میں اس کے گھر گئی ہی اسی لیے تھی پھر وہاں میں نے ثمراہ کو دیکھا وہ مجھے اتنی پیاری اتنی اپنی لگی کہ میں نے اسے اپنی بہو بنانے کی ٹھان لی کہ یہ تو میرے صارم کی ہی دلہن بنے گی
مگر مجھے پتہ چلا کہ اریشہ کی منگنی ثمراہ کے بڑے بھائی شایان سے ہو چکی تھی پھر میں نے ثمراہ کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ اس کے گھر والے اس کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہے تھے
میں نے گھر آکر اس بارے میں تمہارے بڑے پاپا سے بات کی کہ وہ لڑکی مجھے میرے صارم کیلئے بہت پسند آئی لیکن تمہارے بڑے پاپا نے مجھے تمہاری مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے منع کیا
جب بڑے پاپا نے تم سے پوچھا کہ تمہیں کوئی پسند ہے کیا تو تم نے بظاہر بات ٹال دی تھی مگر ہم نے تمہاری آنکھوں میں چمک دیکھی تھی کسی اور کے لئے اسی لئے میں خاموش رہی
بعد میں ہم نے حارث سے اس بارے میں بات کی تو اسے کوئی اعتراض نہیں تھا
اپنی بڑی مما کی بات سن صارم نے کرب سے آنکھیں میچ لی اسے افسوس تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار بڑی مما کی بات کو ٹالا تھا اور قدرت نے دیکھو کیسا سبق سکھایا اسے
شاید میری دعا قبول ہوئی تھی مگر میں نے خود اسے قبول نہیں کیا
صارم بس یہ سب دل میں ہی سوچ سکا زبان سے صرف ایک لفظ بولا
کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے زیادہ اسکی زبان نے اسکا ساتھ نہ دیا ۔۔۔
اگلے دن حنا بیگم اور شمس صاحب نے صارم پر ایک اور بمب پھوڑا
میری ثمراہ کے گھر والوں سے بات ہوئی تھی کہ ہم ہماری بہو کو باقاعدہ انگھوٹی پہنانا چاہتے ہیں تو وہ لوگ راضی ہوگئے مگر صرف گھر کے لوگوں کی موجودگی میں تو ہم نے ہاں کردی اب ہم آج شام ظفر صاحب کے گھر جائنگے اور ثمراہ کو انگھوٹی پہنا آئے گے
صارم جو یہ عہد کر چکا تھا کہ وہ ثمراہ سے کچھ سال نہیں ملے گا تا کہ وہ اپنی کیوٹی پائے کو بھول جائے
مگر پتا نہیں قسمت کو کیا منظور تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔