صارم جو کسی کی آنکھوں میں کھویا ہوا تھا اچانک اس لڑکی نے اسکے چہرے کے سامنے چٹکی بجائ جس سے صارم ہوش کی دنیا میں واپس آیا ۔۔
اسکے دوبارا ایڈریس پوچھنے پر سامنے لڑکی کی آنکھوں میں اسنے شدید غصہ دیکھا
صارم نے دل میں سوچا کہ بیٹا آج تو میں گیا
لیکن سوچ کے بر عکس اس لڑکی نے پھر سے اسے ایڈریس بتایا جو اسے کچھ سمجھ آیا
وہ شکریہ کہنا چاہتا تھا اور نام پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ رکی ہی نہیں اور بنا کچھ کہے چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ نے اپنے گھر میں آکر کپڑے چینج کئے اور تیار ہونے لگی ایسا نہیں تھا اسے تایا ابو کے گھر جانے کی جلدی تھی اصل وجہ تو اسکی بھوک تھی جو دوپہر کے وقت اسے بلکل برداشت نہیں ہوتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تایا ابو کے گھر جب وہ پہنچی تو وہاں پہلے سے ہی مہمان موجود تھے جو جو تاتا ابو تائ امی اور اسکے پاپا امی سے بات کر رہے تھے اسکے لاؤنج میں آتے ہی سب اسکی طرف متوجہ ہوگئے سب لوگوں کی نظروں کو دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا گبھرا گئی تبھی تائ امی اسے لئے بیٹھ گئی اور سب کا تعارف کر وانے لگی
حنا کو تو تم جانتی ہو نا ۔۔جی میں جانتی ہوں یہ آپکی فرینڈ ہیں کچھ دنوں پہلے بھی یہاں آئ تھیں
بلکل ٹھیک یہ شمس صاحب ہیں حنا کے شوہر اور یہ انکا بیٹا حارث
سب کو سلام کرتی وہ کچن میں آگئی اور اریشہ سے پوچھنے لگی کہ یہ لوگ کیوں آئے ہیں
مجھے نہیں معلوم کیا پتا ایسے ہی آئے ہوں
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو اچھا یار میری سویٹ بھابی مجھے کچھ کھانے کو دے دو ورنہ میں بھوک سے یہیں گر جاونگی
ابھی تو کھانا سب ساتھ میں کھائیں گے تم ایک کام کرو یہ فروٹ کھالو ورنہ بھوک مر جائے گی اور امی نے جو اتنے مزے کا کھانا بنایا ہے وہ کون کھائے گا اریشہ کے کہنے پر ثمراہ نے ایک سیب لیا اور باہر لان میں آگئی تبھی بیل بجی تو ثمراہ گیٹ کھولنے کے لیے چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم جو مسلسل آدھے گھنٹے سے ڈرائیو کر رہا تھا اور مسلسل مسکرا رہا تھا کیونکہ اس لڑکی نے اسے غلط ایڈریس بتایا تھا اور وہ اب اس نئی جگہ پر خوار ہو رہا تھا
اتنی خواری کے بعد کہیں جا کہ اسے سہی ایڈریس ملا مگر وہ خوش تھا اپنی کیوٹی پائے کو دیکھ
ہمم اب پتہ چلا ان آنکھوں میں غصہ اور پھر سکون کی وجہ کیوٹی پائے تم اتنی شرارتی ہو مجھے معلوم نہیں تھا
مگر تم نے جو کیا شاید ٹھیک کیا کیونکہ کوئی تمہیں گھورے اسے سبق سکھانا تو بنتا تھا نہ
چلو اسی بہانے پتہ تو چلا کے کہ تم یہی کہیں رہتی ہو اب تمہیں دھونڈنا آسان ہوگا
اپنے مطلوبہ ایڈریس پر وہ پہنچ کر اسنے دروازہ ناک کیا تو دروازے پر ایک بڑی عمر کی خاتون آئی
جی کون ہیں آپ کس سے ملنا ہے انہوں نے سوال کیا
جاوید صاحب کا گھر یہی ہے کیا
جی نہیں بیٹا انکا گھر 2 گھر چھوڑ کر ہے
جی شکریہ۔۔
لگتا ہے بڑے پاپا نے گھر کے نمبر پہ کوئی غلطی کردی خیر آخر کار میں پہنچا تو سہی ۔۔
گاڑی پارک کر کے اس نے دروازہ ناک کیا جیسے ہی دروازہ کھلا صارم کے ہوش اڑ گئے کیونکہ سامنے اسکی کیوٹی پائے تھی جو دروازہ کھولتے ہی ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی
پیلے رنگ کی لانگ سادی سی فراک میں وہ بہت فریش لگ رہی تھی بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا چہرے پر سفید پڑتی رنگت انکھوں میں کاجل تھا جسے وہ حیرت کے مارے بڑی کی ہوئی تھی ہونٹوں پر وہی نارنجی لپ اسٹک ناک میں وہی بالی اور گالوں پر تل مگر آج اسکے ڈمپل غائب تھے
صارم اسے دیکھ بلکل کھو گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی اسنے وہی گاڑی والے شخص کو دیکھا تو وہ ڈر کے مارے وہیں جم گئی
اسنے تو یہاں سے 2 گھر پہلے کا ایڈریس پوچھا تھا تو یہ یہاں کیا کر رھا ہے
ثمراہ صرف یہ دل میں سوچ سکی کیونکہ زبان تو اسکی یہ سوچ کے ہی بند ہوگئی تھی کے کہیں یہ میری شکایت تو لگانے نہیں آیا
اگر پاپا یا تایا ابو کو یہ بات پتا لگی کے مینے روڈ پر ایک اجنبی سے بات کی تو وہ میرا اسکول چھڑوا دینگے
مگر سامنے والے کی آنکھوں میں تو کوئی شکایت تھی ہی نہیں بلکہ کیا تھا ان انکھوں میں وہ پہچان نہیں پائی
خوشی کچھ پا لینے کی سکون چاہت محبت کیا نہیں تھا اسکی آنکھوں میں دیکھ اسکا دل زور سے دھڑکا
اسے نہیں معلوم تھا کے سامنے والے کا بھی یہی حال تھا مگر ثمراہ اپنی دھڑکنوں کو ڈر کا نام دے گئی
پیچھے سے اریشہ کی آواز پر وہ دونوں جو چند سیکنڈز سے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے اریشہ کی آواز پر چونک گئے
ہوش میں آتے ہی ثمراہ بنا کچھ بولے اندر بھاگ گئی
کیا ہوا کون تھا گیٹ پہ اور ڈر کیوں رہی ہو بھوت دیکھ لیا کیا
ایسا ہی سمجھ لو ۔۔۔
اریشہ گیٹ پہ آئی تو صارم نے اس سے پوچھا
کیا جاوید صاحب کا گھر یہی ہے
جی بلکل مگر آپ کون ہو
جی میں شمس صاحب کا بیٹا ہوں
او اچھا آئیے آپکا ہی انتظار کر رہے ہیں سب
اریشہ اسے لئے گھر میں آگئ
ثمراہ نے جب صارم کو دیکھا تو اپنی امی سے چپک کے بیٹھ گئی
شمس صاحب نے صارم کو دیکھا تو مصنوعی غصے سے بولے
صارم میاں آپ لیٹ ہیں ۔۔ہم نے آپکے بھائی کا رشتہ طے کر دیا ہے
آپنے مجھے پہلے غلط ایڈریس دیا پھر کسی نے مجھے غلط ایڈریس بتایا
بولتے ہوئے صارم نے ایک شرارتی نگاہ ثمراہ پہ ڈالی جس سے اسنے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے پیروں کو دیکھنے لگی
کوئی بات نہیں بچہ آتو گیا نا اریشہ بیٹا انہیں پانی لا کر دو جاوید صاحب نے بولا تو اریشہ صارم کیلئے پانی لے آئی
شمس صاحب نے سب سے اسکا تعارف کر وایا
یہ جاوید صاحب ہیں اور یہ انکی بیوی شگفتہ اور وہ انکی اکلوتی بیٹی اریشہ
صارم کو اریشہ اپنے بھائی کے لئے اچھی لگی ۔۔
یہ ظفر صاحب ہیں اور یہ انکی بیوی عائشہ یہ انکا بڑا بیٹا شایان اور چھوٹا فیز اور وہ انکی بیٹی ثمراہ شمس صاحب نے ثمراہ کی طرف اشارہ کر کے کہا تو جو سب کو سلام کرتا ہوا مل رہا تھا ایک دم خاموش ہوگیا ۔۔
صارم نے جب زیر لب نام دہرایا تو اسکے دل کو کچھ ہوا ۔۔۔
صارم کے آتے ہی جاوید صاحب نے ملازمہ کو کھانا لگانے کا کہا تو اریشہ ثمراہ بھی ملازمہ کے ساتھ کھانا لگانے لگی
کھانے کی میز پر جہاں سب لوگ کھانے میں مشغول تھے وہی صارم کی نظر بار بار کھانا کھاتی ہوئی ثمراہ پر جارہی تھی
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو ثمراہ سب کو چائے دینے لگی
صارم نے دیکھا کے ظفر صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں کو کسی کام سے بھیجا تھا اریشہ ملازمہ کے ساتھ کچن میں مصروف تھی اور باقی سب چائے نوش فرما رہے تھے
ثمراہ نے جب صارم کو چائے کا کپ دیا تو صارم کو شرارت سوجھی اور اس نے چائے ایسے پکڑی کے پورا کپ اس کے اوپر گر گیا
گرم گرم چائے سے اسکا ہاتھ جل گیا پر وہ ایسے بن گیا جیسے کچھ ہوا نہیں
شگفتہ نے ثمراہ کو کہا کے صارم کو واشروم تک چھوڑ آئے
صارم زیر لب مسکرا رہا تھا کیونکہ جو وہ چاہتا تھا وہ ہوگیا تھا سب کے سامنے وہ اپنی کیوٹی پائے سے بات نہیں کر پا رہا تھا
ثمراہ صارم کو لئے روم میں آگئی تو صارم نے مسکرا کے واشروم جانے کے بجائے ثمراہ سے مخاطب ہوا
کیو۔۔۔۔ آئی مین مس ثمراہ آپ مجھ سے اتنا ڈرگئ کے آپ نے مجھ پہ چائے ہی گرا دی
جی نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور میں آپ سے کیوں ڈرو گی بھلا
ڈرنے کی بات تو ہے آپ نے مجھے غلط ایڈریس بتایا مجھے اتنا خوار کر وایا
ہاں تو آپ وہی ڈیزرو کر تے تھے پہلے میں نے آپکو ٹھیک ایڈریس بتایا تھا پر آپ مجھے گھور رہے تھے تو مینے بس آپکو سبق سکھایا
میں آپکو گھور نہیں رہا تھا میں تو بس یہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔
کیا کہ۔۔۔
یہی کے بولتے ہوئے آپ بینگھی لگتی ہیں
صارم کو جب کوئی بہانہ نہ سوجھا تو جو منہ میں آیا بول گیا
ثمراہ کو تو مانو سانپ سونگھ گیا جن آنکھوں کی لوگ اتنی تعریف کرتے تھے اسے بھینگی لگی
صارم نے بول تو دیا تھا پر اب ثمراہ کا منہ دیکھ اس سے ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا اور اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
صارم کے قہقہ لگانے سے ثمراہ سمجھ گئی کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا
سو مس ثمراہ آپ نے مجھے آدھے گھنٹے خوار کیا میں نے اسکا بدلا 2 سیکنڈ میں لے لیا
صارم کو مسلسل مسکراتا دیکھ ثمراہ وہاں سے چلی گئی
یہ تو بہت اچھا ہوگیا میری کیوٹی پائے بھابی کی کزن ہے ایک بار شادی ہو جائے پھر میں بھابی سے کہہ کر اپنی شادی کی بات کرونگا مجھے یقین ہے میری بھابی میرا ساتھ دینگی دیور جو ٹہرا میں ۔۔۔۔۔
اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوا وہ مسلسل مسکرا رہا تھا
پر اسے نہیں پتہ تھا کہ اسکے آج میں کیا ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کسی کی آواز پر چونک گیا
کیا ہوا صارم بھائی فیز نے اسے حیران ہوتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگا
کچھ نہیں کیا ہوا صارم خجل سہ ہوا اپنی بے خودی پر
وہ آپ کو سب نیچے بلا رہے ہیں حارث بھائی اور آپی کی رسم کر رہے ہیں سب
اچھا کیا واقعی چلو چلتے ہیں
صارم خوشی سے چہکا اور نیچے آگیا مگر نیچے جو منظر دیکھا اسکے پیر وہی جم گئے
ثمراہ اور حارث دونوں ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے باقی سب انہیں مٹھائی کھلا رہے تھے
جب سب نے ان دونوں کا منہ میٹھا کروا دیا تو حنا بیگم نے صارم کو کہا کے چلو تم بھی بھائی بھابھی کا منہ میٹھا کر واؤ
صارم نے خود پر قابو پاتے ہوئے پہلے حارث کو مٹھائی کھلائی اور پھر ثمراہ کو بغیر اسکی طرف دیکھ
شمس صاحب نے سب کو مبارک باد دی کہ چلیں بھئی اب ثمراہ officially ہماری ہوئی (مجھے officially کا اردو مطلب نہیں آتا تو انگلش میں لکھ دیا)
اس بات پر صارم نے ضبط سے آنکھیں بند کی
وہ بولنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ چلانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ثمراہ میری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صرف میری کیوٹی پائے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف میری۔۔۔۔۔ صرف میری😭😭😭😭😭😭😭
مگر اسکے لب کچھ نہ بولے سامنے کا منظر دیکھ
ثمراہ اور حارث دونوں مسکرا رہے تھے یعنی وہ دونوں خوش تھے
وہ کیسے اپنے پیارے بھائی اور اپنی کیوٹی پائے کو تکلیف دیتا
آفس کے کام کے بہانے سے وہ وہاں سے چلا گیا رکتا بھی کیسے اپنی محبت کو وہ کسی اور کے ساتھ دیکھ نہیں پایا اور جن لوگوں نے اسے اتنا پیار دیا پالا پوسہ وہ انہیں دکھ نہیں دے سکتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔