شکر ہے شمس صاحب کی بیٹی خیر سے اپنے گھر کی ہوگئی حنا بیگم اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے بولی تو شمس صاحب بھی بولے بس اللّٰہ ہماری بیٹی کا نصیب اچھا کرے ماحول کو بہتر کرنے کیلئے صارم بولا کوئی بات نہیں بڑی مما آپ کی ایک بیٹی گئی تو کیا ہوا آپ دوسری بیٹی گھر لے آئیں حارث کی شادی کر وا کے صارم کی بات پر جہاں سب ہنس رہے تھے وہیں حارث صارم کو گھور رہا تھا ہاں بلکل کیوں نہیں بلکہ ہمیں ایک لڑکی پسند بھی آئ ہے اگر وہ حارث کو بھی پسند آتی ہے تو ہم جلد ہی شادی کریں گے کیونکہ ہمارا گھر جو سونا ہوگیا ہے اپنی ماں کی بات سن حارث کو شرارت سوجھی
تو لگے ہاتھ آپ صارم کیلئے بھی کوئی لڑکی دیکھ لیں تا کہ ایک ساتھ دو بہویں ائیں گھر میں حارث کی بات پر شمس صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا
کیوں نہیں یہ تو اچھی بات ہے صارم تمہیں کوئی پسند ہے تو بتاؤ ہم اسکے لئے پروپوزل لے کے جائینگے
اپنے بڑے پاپا کی بات سن صارم کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرایا مگر اس وقت وہ اس لڑکی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا تو بات کو ٹال گیا
اپنے کمرے میں جب وہ سونے کیلئے لیٹا تو آنکھیں بند کرتے ہی وہ چہرا اسے دکھا جس سے وہ روز اپنے خیالوں میں بات کرتا تھا ۔۔
کیوٹی پائے جانتی ہو آپی کی شادی میں بہت سی لڑکیاں تھیں مگر کسی میں بھی وہ بات نہیں تھی جو صارم شاہ کو بغور دیکھنے پر مجبور کرے کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا اور اپنے ہاتھ دعا کیلئے اٹھا لیے
اے دو جہانوں کے مالک اگر تو نے میرے دل میں اس لڑکی کیلئے محبت پیدا کی ہے تو اسے میرا نصیب بنا دے اور اگر وہ میرا نصیب نہیں ہے تو اسکا خیال میرے دل سے نکال دے
صارم کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اپنی کیفیت کا وہ خود اندازہ نہیں کر پا رہا تھا پھر مسکرا کر آخر کار اسنے اعتراف کر ہی لیا
اور خیالوں میں اپنی محبت سے کہنے لگا حد کرتی ہو کیوٹی پائے کیا کر دیا تم نے sarim shah is in love💞💞💞💞
صارم اپنے آفس میں مصروف تھا تبھی اس نے بڑی مما کی خیریت کیلئے کال کی کیونکہ ثنا کی شادی کے بعد اب وہ اکیلی ہوگئ تھی ملازم تھے پر کسی اپنے کا ہونا ایک الگ بات ہے
تیسری بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی
اسلام و علیکم بڑی مما کیسی ہیں آپ ؟؟
پریشان ہوں ۔۔
کیوں بھی بھلا کس کی اتنی مجال جو میری مما کو تنگ کرے
نام بتائیں اسکا میں ابھی خبر لیتا ھوں
صارم بولنا شروع ہوا تو بولتا ہی گیا اسے واقعی اب فکر ہورہی تھی
ارے میری جان میں مزاق کر رہی تھیں
میں تو بس بور ہو رہی ہوں ثنا جو نہیں ہے
بڑی مما کی بات سن صارم کو تھوڑا سکون ملا
بڑی مما اپنے مجھے سچ میں ڈرا دیا تھا
ارے میری جان اگر اتنی فکر ہے میری تو ایک عدد بہو لادو
بس اتنی سی بات آپ کہیں تو میں ایک کیا 4 5 لے آؤ
صارم جو اب مطمئن تھا تو اب اسے شرارت سوجھی ۔۔
ہٹ بدتمیز ۔۔ایک مل نہیں رہی تم 4 5 لانے کی بات کر رہے ہو
صارم نے دل میں سوچا مل تو گئی ہے پر ہے کہا معلوم نہیں۔۔
اس وقت اگر کوئی اپنے باس کو مسکراتے ہوئے دیکھ لیتا تو غش کھا کے گر جاتا کیوں کے صارم ہمیشہ اپنے آفس میں خاموش رہتا تھا صرف کام کی بات کرتا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ رات کو اپنے کمرے میں لیٹی یہ ہی سوچ رہی تھی کہ اسکا کوئی آئڈیل نہیں ہے جیسے ہر لڑکی کا ہوتا ہے کیا میں اتنی بے وقوف ہوں
نہیں میں بے وقوف نہیں بلکہ اچھی لڑکی ہوں اس نے اپنی امی کو کہتے سنا تھا کہ ایک اچھی لڑکی کا آئڈیل صرف اسکا شوہر ہی ہو سکتا ہے
اپنی سوچوں میں گم وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی
اسے کیا پتا تھا کے اس جہاں سے آگے دور کہی اس کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ولا میں اس وقت سبھی ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے تو شمس صاحب نے سب کی موجودگی کو غنیمت جان کے اپنی بات کا آغاز کیا
بھئ بیگم اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے بچوں سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں
شمس صاحب کی بات پر جہاں صارم اور حارث نے اپنی ہنسی روکی وہی حنا بیگم نے سب کو گھوری سے نوازا
میں نے کب منع کیا ہے آپ لوگ پہلے ناشتہ ختم کرو اور پھر جو چاہے بات کرو
لو بھئ پھر تو ہماری اجازت کی درخواست واپس کرو
وہ مجھ تک پہنچی ہی نہیں تھی ۔۔۔۔
اچھا بھئی آج ہم حارث کیلئے لڑکی دیکھنے جائنگے اسی لئے آج کوئ آفس نہیں جائیگا
بڑے پاپا میری بہت امپورٹنڈ میٹنگ ہے اسے میں کینسل نہیں کر سکتا
صارم مصنوعی بے چارگی سے بولا کہ کہیں حارث کو لڑکی پسند نہ آئی تو میں ہی بلی کا بکرا نہ بن جاؤ
مگر شمس صاحب نے اسکے ارمانوں پر پانی پھیرا اور کہنے لگے کہ ٹھیک ہے تم 1 بجے تک پہنچ جانا ایڈریس میں تمہیں سینڈ کر دونگا
صارم بے چارہ بس سر اثبات میں ہلا گیا ۔۔۔۔مرتا کیا نہ کرتا۔۔۔😂😂😂😂
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول میں ثمراہ تھوڑی پریشان دکھ رہی تھی تقریباً سبھی اس سے پوچھ چکے تھے کہ کیا ہوا طبیعت ٹھیک تو ہے نہ اور وہ سبھی کو کچھ نہ کچھ کہہ کے ٹال رہی تھی
کیونکہ ثمراہ ان لوگوں میں سے تھی جسکا بولنا طوفان میل کی طرح تھا جسے آج بریک لگے ہوۓ تھے
مس صنم نے اس سے پوچھا تو ثمراہ نے یہ سوچ کے انہیں کل رات والی سبھی باتیں بتا دی کیونکہ وہ اس سے عمر میں کافی بڑی تھی اور ہمیشہ اسے اچھا مشورہ دیتی تھیں۔۔
ثمراہ کی تمام باتیں سن مس صنم بولی
بھلا اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے
پریشانی کی بات یہ ہے کہ جسے میرے گھر والے میرے لیے چنے گے اگر اسے میں پسند نہ آئی تو یہ وہ مجھے پسند نہ آیا تو میں کیا کروگی
اتنی سی بات پر تم پریشان ہو رہی ہو کیا کبھی تمہارے والدین نے کبھی تم پہ اپنے فیصلے مسلط کیے ہیں کیا جو اب کریں گے اور ویسے بھی جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے
ہاں بس نصیب کو سچے دل سے کی گئی دعا بدل سکتی ہے اور کیا پتہ کوئی تمھیں اپنے نصیب میں شامل کرنے کیلئے دعا مانگ رہا ہو
زیادہ مت سوچوبے شک اللّٰہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے
اب اٹھو اور اپنے سلیبس کو فائنل کر کے انچارج کو دو ورنہ آج تمھاری کلاس لگ جائے گی
مس صنم نے جہاں اسے مطمئن کر دیا تھا وہی اسکی سوچوں کا رخ کہیں اور کر دیا تھا ۔۔
کیا کوئی مجھے اپنے نصیب میں مانگتا ہوگا۔؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول آف ہونے پر مس صنم اور ثمراہ گھر کیلئے روانہ ہو رہے تھے تبھی انکے سامنے ایک کار آکر رکی
Excuse me miss can u plzz tell me this address
کار کے رکتے ہی ثمراہ کا چہراہ غصے سے لال ہوگیا مگر وہ روڈ خالی ہونے کی وجہ سے غصہ ضبط کر کے رخ موڑ گئی اس طرح نہ اسنے کار میں بیٹھے شخص کو دیکھا نہ ہی اسنے ثمراہ کو وہ کسی ایڈریس کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو مس صنم اسے سمجھا رہی تھیں پر اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔۔
تیز دھوپ نے ثمراہ کے دماغ کو اور گرم کیا تو اسنے اپنے دوپٹے سے ایسے چہرا چھپایا جس سے صرف اسکی آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں مس صنم کو ہٹا کر وہ خود ایڈریس بتانے لگی مگر شاید سامنے والا شخص تو اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا
ثمراہ نے پہلے اسے سہی اور اچھی طرح سمجھایا تھا صرف مدد کرنے کیلئے مگر جب سامنے والا شخص ہونقوں کی طرح اسے گھور رہا تھا تو اسکا پارا اور ہائ ہوگیا کیونکہ سامنے جو بھی تھا اسکی بات نظر انداز کیے بت بنا کھڑا تھا
ثمراہ کے چٹکی بجانے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور کہنے لگا
کیا کہا آپنے میں نے ٹھیک سے سنا نہیں ۔۔
پھر تو ثمراہ نے اسے جو ایڈریس بتایا اسے سن مس صنم کے ہوش اڑ گئے
یہ تم نے کیا کر دیا ثمراہ اسے غلط ایڈریس کیوں بتایا پتہ نہیں وہ کہاں کہاں گھومے گا
اچھی بات ہے نہ میں نے اسے پہلے بلکل سہی اور آسان راستہ بتایا تھا مگر وہ ایک لوفر انسان تھا اگر میں اسے سبق نہ سکھاتی تو میرا موڈ کیسے ٹھیک ہوتا اب سوچو ذرا وہ لوفر اس وقت کہا کہا بھٹک رھا ہوگا ۔۔۔ہاہاہاہاہا
گھر پہنچی تو گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا اور اسے اچھے سے پتہ تھا چابی کہاں ہوگی سو وہ فوراً فریدہ آنٹی کے گھر کا دروازہ بجانے لگی
فریدہ آنٹی نے گیٹ پر آکر اسے گھر کی چابی دیتے ہوئے بولیں
بیٹا آپکی مما کہہ کے گئی ہیں آپ تیار ہو کہ اپنے تایا ابو کے گھر چلی جاؤ آج لنچ وہاں ہے
ٹھیک ہے آنٹی بہت شکریہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے ایڈریس ڈھونڈ رہا تھا جو اسے بڑے پاپا نے سینڈ کیا تھا مگر جمعے دن کی وجہ سے روڈ پر نہ ہونے کے برابر لوگ تھے وہ پوچھے کس سے۔۔
اسی دوران اسے سامنے 2 لیڈیز جاتے ہوئے دیکھی اس نے ان کے برابر میں گاڑی روک کے ایڈریس پوچھا
گاڑی کے رکتے ہی ایک لڑکی نے اپنا رخ موڑ لیا شاید اسے اچھا نہیں لگا میرا اس طرح گاڑی راستے میں روکنا
صارم کو شرمندگی ہوئی مگر وہ مجبور تھا دوسری کوئی عورت تھی جو اسے ایڈریس بتا رہی تھی مگر یا تو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ وہ ٹھیک سے سمجھا نہیں رہی تھی
اتنے میں دوسری لڑکی نقاب کر کے سامنے آئی اور بولنا شروع ہوگئی
وہ کیا بول رہی تھی صارم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ تو بس ان آنکھوں کو دیکھ رہا تھا
بھلا صارم شاہ ان آنکھوں کو کیسے بھول سکتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔