کراچی کے جدید مال میں صارم اپنی بہن کو شاپنگ کم کروا رہا تھا اسکا دماغ زیادہ کھا رھا تھا تبھی اسکی نظر ایک 6 یا 7 سال کے بچے پر پڑی جو بہت رورہا تھا شاید وہ گم ہو گیا تھا اور اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا تھا جیسے ہی صارم اس بچے کی طرف بڑھا تبھی ایک لڑکی نے اس بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس سے مسکرا کے بات کرنے لگی چند پل میں ہی وہ بچہ کھلکھلانے گلا جسے دیکھ صارم کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مس صنم کے پوچھنے پر ثمراہ نے جواب دیا
کون ہوسکتا ہے بھلا ایک ہی تو آوارہ ہے جو روز صبح کے وقت اسکول کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے آج میں گیٹ پہ کھڑی تھی تو سامنے سے گانا گاتے ہوے گیا چیپ انسان کہی کا
صنم نے ثمراہ کو پیار سے سمجھانا چاہا ۔۔دیکھو میری جان ایسے لوگ دنیا میں بھرے پڑے ہیں تم بس اگنور کیا کرو کبھی بھی غصے میں آکر کسی سے لڑنا مت ٹھیک ہے نہ
لیکن مس آپ ہی بتائیں اگر وہ اس طرح گانا گائے گا اور کسی نے دیکھ لیا تو لوگ یہ تھوڑی سمجھینگے کہ وہ چیپ انسان فلرٹ کر رہا ہے ہمارے معاشرے کے لوگوں کی پہلی رائے یہی ہوگی کہ ضرور دونوں کا کوئ چکر ہوگا اور میں اپنے کیریکٹر کے معاملے میں کتنی پوزیسو ہوں آپکو پتہ ہے
ہاں مجھے اس بات کے ساتھ یہ بھی پتہ ھے کہ تم کتنی جزباتی ھو جبھی کہ رہی ہوں غصے مین آکر کوئ غلط ہرکت مت کرنا ٹھیک ہے نہ ۔۔ٹھیک ہے پر آپ میڈم سے کمپلین کرنا اس بد تمیز کی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ جب گھر پہنچی تو امی کو سلام کر کے بیڈ پر بیٹھی اور کھانا مانگنے لگی امی جلدی سے کھانا لادیں بہت بھوک لگی ہے پیٹ پکڑ کے اسنے ایسے کہا کہ فیز بولا آپی کتنے دن سے بھوکی ہو ہاہاہاہا۔۔۔
بد تمیز شرم نہیں آتی اپنی بڑی بہن کو چڑاتے ہو ئے کھود نے تو پتہ نہیں کیا کیا کھایا ہوگا صبح سے بھوکڑ کہیں کے
ہاں تو کس نے کہا ہے آپکو کہ کھانے میں اتنے نکھرے دکھاو ناشتہ کر کے جایا کرو نہ ۔۔بیٹا جی آج میں ناشتہ کر کے گئ تھی لو پھر بھی بھوک لگی ہے آپکو آپی اتنا نا کھاؤ موٹی ہوجاؤ گی فیز ثمراہ کو تنگ کرنے کے لئے بولا اور ثمراہ نے اسے ایک چپت لگائ دونوں کا رشتہ ایسا ہی تھا ہر وقت ایک دوسرے کو تنگ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے ماں کو آتے دیکھا تو دونوں خاموش ہوگئے کھانے سے فارغ ہو کہ جہاں ثمراہ سونے کی تیاری کر رہی تھی وہی امی نے اسے پکارا ۔۔سونے کی ضرورت نہیں ہے کل بتایا تھا نہ کہ شاپنگ پر جانا ہے
شاپنگ کا نام سن کر ثمراہ نے منہ بنایا کیا امی آپکو معلوم ہے مجھے شاپنگ نہیں پسند پھر آپ مجھے کیوں لیکر جائینگی
اچھا تو پھر کل فرمائش کیوں کر رہی تھی کہ مجھے نئے کپڑے چاہئے وہ تو مینے آپکو لانے کو کہا تھا مجھے ساتھ لے جانے کے لئے نہیں آپکی پسند ہی میری پسند ہے کبھی کچھ کہا ہے کیا مینے آپ چلے جاؤ نہ اور اس بندر کو بھی لےکر جاؤ تا کہ میں سکون سے سو سکوں
او پلیز ہاں میں بندر نہیں آپ بندریا ھو اور جو جائےگا اسی کی شاپنگ ہوگی ٹھیک کہا نا مینے امی
فیز نے اسے امی کے ساتھ جانے کیلئے اکسایا اور وہ مان بھی گئ ٹھیک ہے میں ریڈی ہو جاؤ پھر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
شاپنگ مال میں وہ آتو گئ تھی پر اسے شاپنگ میں زرا دلچسپی نہیں تھی اپنا سارا سامان لے کر پھر وہ عائشہ بیگم کو لئے مال کے ہی ریسٹورنٹ آگئ
چلے امی بتاؤ کیا کھاؤگی میں تو بس چنا چاٹ کھاؤنگی تم جب بھی یہاں آتی ہو یا تو گول گپے یا چنا چاٹ ہی کھاتی ہو کبھی کچھ اور بھی کھا لیا کرو
امی کی بات پر ثمراہ نے آنکھیں بڑی کر کے جوش سے کہا ارے امی یہ میری محبت ہیں بھلا میں کیسے ان سے منہ موڑ سکتی ہوں اپنی ڈرامے باز کی بات سن کہ امی نفی میں سر ہلا نے لگیں جیسے اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا کھانا آرڈر کر کے ثمراہ آس پاس دیکھنے لگی کے سامنے اسے ایک بچہ روتے ہوے دکھا اس نے امی سے کہا وہ ابھی آئ اور بچے کے پاس چلی گئ بچہ جو عمر میں 6 یا 7 سال کا ہوگا اپنی ماں کو نا دیکھ رو رہا تھا ثمراہ نے مسکرا کے اسکا ہاتھ پکڑا اور پوچھنے لگی کہ کیا ہوا آپکی مما کہاں ہیں بچہ: میری مما نہیں مل رہی
اوہو یانی آپکی مما گم ہوگئ ہیں نہیں مما نہیں میں گم ہوگیا ہوں ایسے کیسے ہو سکتا ہے آپ تو یہیں ہو آپکی مما نہیں مل رہی تو مما غم ہوئ نا ثمراہ کی بات سن بچہ کھلکھلانے لگا آپی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ایسے تو میری مما غم ہوئ کیا آپ انہیں ڈھونڈ لینگی ھاں بلکل کیوں نہیں چلو واچ مین سے کہتے ہیں وہ آپکا نام اناؤنس کر دے گا اور آپکی مما آپکو یہاں لینے اجاینگی
بات کرتے ہوے اسے کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئ اس نے نظریں اٹھا کے آس پاس دیکھا تو مال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور کوئ بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا اسنے دل میں سوچا کہ شاید میرا وہم ہو اور بچے کو لیے واچ مین کی طرف چل دی
صارم جو بہت غور سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا اسکا انداز اسے مسکرانے پر مجبور کر رہا تھا سفید رنگ کا لباس پہنے سر پر دوپٹہ سلیقے سے لیا ہوا صاف شفاف چہرا آنکھوں میں کاجل لگائے ہونٹوں پر ہلکی نارنجی رنگ کی لپ اسٹک لگائے چھوٹی سی ناک میں بالی پہنے ہوئے وہ اسے بہت پیاری لگی خاص کر اسکے گال جس پر دو تل تھے اور مسکرانے سے اسکا ڈمپل واضح ہورھا تھا اپنی باتوں سے اس نے اس روتے ہوئے بچہ کو ہنسا دیا تھا لیکن پھر اچانک نظریں اٹھا کے اسی کی طرف دیکھا جیسے سمجھ گئ ھو کہ اسے کوئ بہت غور سے دیکھ رہا ہے لیکن صارم اسکے دیکھنے سے پہلے ہی پیچھے ہوگیا اور دل ہی دل میں داد دینے لگا واہ لڑکی کی سکس سینس اچھی ہے بہت
واپس وہ اپنی بہن کے پاس آگیا آپی آپکی شاپنگ ہوئ کہ نہیں
میرے پیارے بھائ بہت مشکل سے تو ہاتھ آتے ہو ورنہ تو ہمیشہ کریڈٹ کارڈ دیتے ہو آج آہی گئے ہو تو اپنے لئے بھی کچھ پسند کرلو ثنا کی بات سن صارم مسکرا کہ کہنے لگا آپکو پتہ ہے مجھے کوئ بھی اتنی جلدی پسند نہیں آتا میں نے سامان کے بارے میں کہا ہے کسی انسان کے بارے میں نہیں ثنا جو اپنے بھائ کی بات پہ شرارتی انداز میں بولی تو صارم خفیف سا ہو کہ شاپ سے باہر آگیا لیکن اب اسے وہ لڑکی نہیں دکھی شاید وہ جا چکی تھی وہ اسکے پیچھے جانا چاہتا تھا اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر یہ سب اسکی تربیت میں نہ تھا کہ کسی انجان لڑکی کے پیچھے جاتا سو وہ واہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ جب گھر پہنچی تو فوراً بیڈ پر لیٹ گئ اور امی سے کہا پلیز امی دو گھنٹے سے پہلے نہ اٹھانا مجھے اور سوگئ فیز جو ثمراہ کے سوتے ہی امی سے پوچھنے لگا امی میرے لئے کیا لائ ہو تبھی ثمراہ بولی بھلا بندر کے لئے بھی کچھ لاتے ہیں کیا مجھے معلوم نہیں تھا اگلی بار بتا دینا لے آوگی فیز تو جیسے حیرت کے پہاڑ سر کرتا ہوا بولا آپی یار میرے لئے واقعی کچھ نہیں لائ آپ
زیادہ رو مت لائیں ہیں تم بھی کیا یاد کروگے کہ کس سکھی دل سے پالا پڑا تھا۔۔۔
امی دونوں کی نوک جھوک دیکھ مسکراتے ہوے سر نفی میں ہلاتی کچن میں چلی گئ کیونکہ یہ روز کا معمول تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں جب صارم نے سونے کیلئے آنکھیں بند کی تو اسکے سامنے وہی لڑکی آئ جو جتنا منہ سے بول رہی تھی اتنا ہی اپنی آنکھوں سے اسکے بولنے کا انداز ہی صارم کو بند آنکھوں میں بھی مسکرانے پر مجبور کر رھا تھا اسکے چہرے کے نقوش بھرے بھرے گال پر دو تل اور ایک ڈمپل ناک میں بالی سوچتے ہوئے وہ ایک دم اٹھ بیٹھا اور مسکرانے لگا حد ہوتی ہے کیوٹی پائے تم نے صارم شاہ کو کیا کر دیا
پتہ نہیں تمہیں دوبارہ دیکھ پاونگا بھی کے نہیں ۔۔
تقریباً 9 بجے ثمراہ کی آنکھ کھلی گھڑی پر وقت دیکھا تو حیران رہ گئ میں اتنی دیر تک سوتی رہی اور کسی نے بھی مجھے جگایا نہیں
باہر لاؤنج میں آئ تو سامنے صوفے پر ہی پاپا بھیا بیٹھے باتیں کر رہے تھے امی شاید کچن میں تھی اور فیز ہمیشہ کی طرح اپنے کمپیوٹر میں مصروف
ثمراہ کو آتا دیکھ ظفر صاحب بولے ۔۔ارے میرا بیٹا اٹھ گیا ۔۔جی پاپا میں اتنی دیر سوتی رہی کسی نے مجھے جگایا کیوں نہیں ارے چندا آپ سورہی تھی بے خبر بھلا آپ کو کیسے جگاتے ہم اور ویسے بھی یہ لاڈ صرف ماں باپ کے گھر میں ہی ہوتے ہیں پیچھے سے امی نے کہا تو اسنے مڑ کے دیکھا جو ٹڑے میں اسکے لئے کھانا لئے کھڑی تھی
چلو جلدی سے کھانا کھالو ویسے ہی کھانے کے لئے لیٹ ہوگئ ہو آج تو امی آپ مجھے جگا دیتی نہ میں تو آرہی تھی جگانے پر تمہارے پاپا نے منع کر دیا
کیوں پاپا؟؟
ثمراہ نے اپنے پاپا کی طرف دیکھ سوال کیا تو بیچ شایان بول پڑا کیونکہ پاپا سب کے لیے آئسکریم لے کے آئے تھے تمھیں جگاتے تو ساری تم کھا جاتی ھمیں کچھ نا ملتی بس اسی لئے ہم نے موقع سے فائدا اٹھایا
یہ کیا بات ہوئی بھلا پاپا۔۔ شایان اور فیز نے اپنی ہنسی روکی اسکی صورت دیکھ جو حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی تبھی ظفر صاحب نے مسنوعی غصہ کیا شایان پر کے کتنی بار کہا ہے میری جان کو تنگ مت کیا کرو تو شایان اور فیز ہنسنے لگے
ارے پاپا ایک ھی تو بہن ہے ہماری اب اسے تنگ نہیں کرینگے تو کسکو کریں گے شایان کی بات پہ جاہاں ثمراہ نے منہ پھلا لیا وہی ظفر صاحب اور عائشہ دل ہی دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اللّٰہ نے انکے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت پیدا کی ۔۔
کھانے سے فارغ ھو کے اب وہ آئسکریم کے مزے لے رہی تھی اور ساتھ میں شایان اور فیز کو منہ چڑا رہی تھی تبھی ظفر صاحب نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔
ثمراہ بیٹا ہمیں آپسے کچھ بات کرنی ہے جی پاپا بولیں اپنے بھائیوں سے ہسی مزاق کرتی پاپا کی بات پر وہ سیرئس ہوگئ
بیٹا اب وقت آگیا ہے کہ ہم آپکی زندگی کے بارے میں کچھ فیصلہ لیں میرے نزدیک بیٹا اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں تو جو موقع شایان کو دیا تھا کے شادی کے لئے اپنی کوئی پسند ہے تو بتادے شایان کو اریشہ پسند تھی تو ہم نے اسکی پسند کو اہمیت دی کیونکہ اریشہ میرے بھائی کی بیٹی ہے ہم اسے جانتے ہیں اچھی لڑکی ہے اسی طرح اگر آپکو کوئی پسند ہے تو ہمیں بتائے تا کہ ہم اسے دیکھ سکے اور اگر اس میں کوئی برائی نہ ہوئی تو ہم ضرور اس رشتے کے بارے میں سوچیں گے کیونکہ اسلام بھی لڑکی کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ہمسفر چنے ۔۔
پاپا کی بات تو جیسے اسکے سر پر ہی گزر رہی تھی جسے عائشہ نے اسکے چہرے کو دیکھ ہی سمجھ گئی تھی
جبکہ شایان اور فیز خاموش بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ کیا انکی جان سے پیاری بہن انہیں چھوڑ کے چلی جائے گی جسے تنگ کئے بغیر وہ رہ نہیں سکتے تھے اس سے الگ ہونے کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا ۔۔
امی نے ثمراہ سے کہا کہ پاپا آپ سے آپکی مرضی پوچھ رہے ہیں مگر وہ تو رونی صورت لئے بیٹھ گئ کہ کیا آپ لوگ میری شادی کرنے والے ہیں لیکن پاپا مجھے ابھی پڑھنا ہے
ہاں تو پاپا کی جان کون کہہ رہا ہے ہم آپکی شادی کر رہے ہیں ہم آپکی رائے پوچھ رہے ہیں پاپا کی بات پر جہاں اسے کچھ سکون ملا وہی اسنے سب کو وہی جواب دیا جو سب پہلے ہی جانتے تھے
نہیں پاپا ایسا کچھ نہیں ہے مجھے کوئی نہیں پسند اور میری پسند تو ہمیشہ آپ لوگوں سے جڑی ہوتی ہے
بیٹی کی بات پر ظفر صاحب نے خوشی سے سر اثبات میں ہلایا اور دل میں سوچا کہ سچ کہتے ہیں لوگ بیٹیاں ماں باپ کا مان ہوتی ہیں ثمراہ کا جواب پہلے سے ہی سب جانتے تھے لیکن پھر بھی وہ پوچھنا چاہتے تھے کیونکہ یہ بھی انکی اولاد کی تربیت میں شامل کرنا تھا کہ کل کو وہ اپنی اولاد کیلئے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اس سے پوچھے کیونکہ یہ حق تو اللّٰہ نے دیا ہے انسان کو ۔۔
تو پھر اگر ہم آپکے لئے کوئی فیصلہ کریں تو آپکو منظور ہوگا ظفر صاحب نے پھر بات کا آغاز کیا ۔۔جی بلکل پاپا میری زندگی کا فیصلہ مجھسے بہتر آپ لوگ لینگے ۔۔لیکن پاپا ابھی ثمراہ چھوٹی ہے بہت شایان کے بولنے پر پاپا اسکا مطلب سمجھتے ہوئے بولنے لگے بیٹا جہاں بیری ہوتی ہے وہیں پتھر آتے ہیں اور ہماری بیٹی اتنی پیاری ہے کہ اسکے لئے بہت پروپوزل آچکے ہیں اسی لیے ہم چاہتے ہیں اسکا کہیں اچھی جگہ رشتہ کر دیں تا کہ لوگوں کو منع کر نے کا ہمارے پاس جواز ہو
یہ سوچتے ہوئے کہ اسکے ماں باپ اسکے لئے بہترین کو ہی پسند کرینگے اسی لیے اپنی زندگی کا فیصلہ اپنے ماں باپ پر چھوڑ کر وہ مطمئن تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔