صارم اور ثمراہ تھکان کی وجہ سے گھر آتے ہی سوگئے ۔۔ کھانا تو وہ باہر کھا ہی چکے تھے ۔۔۔
اگلی صبح ثمراہ کی آنکھ کھلی تو وہ تیزی سے واشروم کی طرف بھاگی۔۔
اس کے اس طرح سے اٹھنے پر صارم کی بھی آنکھ کھل گئی۔۔۔
ثمراہ واشروم سے باہر آئی تو صارم نے اسے بیڈ پہ بٹھایا۔۔
کیا ہوا اس طرح کیوں بھاگی۔۔ صارم کو اسکی فکر ہونے لگی۔۔
کچھ نہیں صبح آنکھ کھلی تو بس الٹی آگئی۔۔ شاید رات کا کھانا سوٹ نہیں کیا مجھے اور پھر یہاں کا موسم ٹھنڈا ہے ہوسکتا ہے اسی وجہ سے طبیعت تھوڑی ڈاؤن ہے ۔۔۔
ثمراہ نے صارم کو اپنی طرف سے مطمئن کرنا چاہا کیونکہ وہ اسکے لئے بہت پریشان ہورہا تھا۔۔۔
یہ کہہ کر ثمراہ اپنے کپڑے لئے واشروم کی طرف بڑھ گئی فریش ہونے کیلئے۔۔۔
اور صارم بھی اب تھوڑا مطمئن تھا کیونکہ موسم واقعی بہت ٹھنڈا تھا اور وہ رات کو کھانا کھا کے گھر آکر ہی سوگئے تھے۔۔۔
ثمراہ فریش ہوکر آئی صارم سے ناشتے کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔۔
کچن میں کچھ سامان ہے تو میں ناشتہ بنا دوں کیا۔۔
نہیں رہنے دو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کچن کا سارا سامان بھی دوپہر تک آئے گا تو رکو میں فریش ہوکر اتا ہو پھر ساتھ چلتے ہیں باہر ناشتہ کرنے۔۔
یہ کہہ صارم واشروم کی طرف چلا گیا اور ثمراہ کمرے میں ہی واک کرنے لگی اسے اسکی طبیعت ایک ہفتے سے ہی کچھ خراب لگ رہی تھی کبھی الٹی اور کبھی چکر آنا مگر وہ پہلے پاپا کی وجہ سے کسی کو کچھ نہ بتا پائی کہ سب پہلے ہی پریشان تھے اور اب یہاں صارم جو اس کیلئے اتنا پریشان ہورہا تھا۔۔۔
صارم فریش ہو کے آیا تو دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
دروازے پر ہی صارم نے اسے روک دیا۔۔
بیوی تم نے باہر ٹھنڈ دیکھی ہے قلفی جم جائے گی اگر ایسے باہر جاؤگی توہ۔۔
صارم نے ثمراہ کے پہناوے کی طرف اشارہ کیابلیو جینس اور وائٹ ٹاپ پہنے بالوں کو کھلا چھوڑ وہ باہر جانے کیلئے ریڈی تھی جبکہ صارم نے بلیک جینس اور بلیک ہائینیک پہنا ہوا تھا ۔۔
صارم اندر روم میں گیا اور ثمراہ اور اپنے لئے کوٹ لے کر یا ثمراہ کو اسنے بلیک کوٹ کے ساتھ ہاتھ کے گلف اور اس کی سینڈل اتروا کے لانگ شوز پہنائے سر پہ کیپ ثمراہ صارم کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی اسے ان کپڑوں میں گرمی لگ رہی تھی مگر صارم کا بس چلے تو وہ اور بھی کتنے ہی اور کپڑے پہنادیتا اسے۔۔
خود صارم نے بلیک کوٹ پہنا اور ثمراہ کو لئے باہر آگیا۔۔۔
ثمراہ صارم کو مسلسل گھور رہی تھی ۔۔صارم نے جب اسے ایسے دیکھا تو مسکرانے لگا۔۔۔
بیوی شاید تم بھول رہی ہو میں نے کہا تھا اگر ایسے دیکھو گی تو سزا ملے گی تم کیا چاہتی ہو میں یہاں باہر اتنے لوگوں کے سامنے تمہیں سزا دوں۔۔۔
صارم کی بات سن ثمراہ نے فوراً صارم پر سے نظریں ہٹا لیں مگر اسکا غصہ ابھی بھی بر قرار تھا۔۔
تم نے صرف کوٹ پہنا اور مجھے اتنے کپڑے پہنا دئیے۔
کیوں بھلا۔۔
میں یہاں آتا رہتا ہوں بچپن سے مجھے یہاں کے موسم کی تھوڑی عادت ہے اور تم یہاں پہلی بار آئی ہو اور تمہاری طبیعت بھی مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی اسی لئے یہ سب کیا ہے۔۔۔
صارم نے اسے سمجھایا تو ثمراہ تھوڑی دیر خاموش ہوگئی۔۔۔
وہ سب ٹھیک ہے مگر کیا آپ مجھے یہ بتانا پسند کرینگے کہ آپ نے میرے گھر والوں کو کیا کہا ہے کہ میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں اور وہ بھی ایک سال کیلئے۔۔
ایک سال ہم یہاں کرینگے کیا۔۔۔
میں نے تمہارے گھر والوں کو یہ بھی کہا ہے کہ ہم گئے تو دو ہیں مگر واپس 3 آئینگے ۔۔
صارم نے ثمراہ کو سیریس شکل بنا کے کہا تو وہ پہلے تو سوچ میں پڑ گئی۔۔۔
ہیں۔۔؟؟ ہم تو دو لوگ ہیں ہم 3 کیسے ہونگے۔۔؟؟؟
بھئی تم ہی تو پوچھ رہی تھی نہ کہ ہم ایک سال یہاں کیا کریں گے تو بس ہم ایک ساتھ یہاں پر رہینگے جب تک ہمارا بے بی اس دنیا میں آجائے گا ہم تب ہی جائیں گے واپس۔۔۔
صارم کی بات پر ثمراہ بلش کرنے لگی۔۔ تو کیا اگر ایک سال تک ہمارا بےبی نہ ہوا تو کیا ہم واپس نہیں جائیں گے۔۔۔
ثمراہ نے شرماتے ہوئے کہا تو صارم نے پیار سے اسے دیکھا۔۔۔
ثمراہ کو اپنے حصار میں لئے بغیر لوگوں کی پروا کئے وہ اسکے کان میں بولا۔۔۔
کیسی باتیں کرتی ہو بیوی اچھا اچھا سوچو ابھی سے منع کیوں کر رہی ہو ۔۔۔
ثمراہ نے صارم کو دھکا دے کے پیچھے کیا جو لوگوں کی پرواہ کئے اسے گلے لگایا ہوا تھا۔۔۔
کیا کر رہے ہیں آپ لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔۔ ثمراہ نے ادھر اُدھر دیکھ کے صارم کو تھوڑی شرم دلانے کی ناکام کوشش کی۔۔
تو دیکھنے دو سب یہی سوچینگے کہ دونوں میں کتنا پیار ہے۔۔۔
میں بیوی ہوں آپکی آپ مجھ سے ایسے بات کریں گے۔۔۔
تو مسز صارم اگر میں اپنی بیوی سے ایسی باتیں نہ کرو تو کیا پروسیوں کی بیویوں سے کروں ۔۔۔
ثمراہ صارم کی بات پر ہنس دی۔۔ اگر اپنے کوشش بھی کی نہ تو انکے میاں آپکو بہت مارینگے۔۔۔
دونوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے ہوٹل پہنچے صارم نے پہلے دونوں کیلئے چائے منگوائی کیونکہ بھوک دونوں کو ہی کچھ خاص نہیں لگی تھی ۔۔۔
جیسے ہی ویٹر نے چائے ثمراہ کے سامنے لا کر رکھی ثمراہ کا چائے کی اسمیل سے دل خراب ہونے لگا تو وہ اٹھ کے ہوٹل کے باہر آگئی۔۔۔
ثمراہ کو ایسے اٹھ کے جاتا دیکھ صارم نے بغیر چائے پیے ہی بل پے کیا اور خود بھی باہر آگیا۔۔۔
کیا ہوا تم ٹھیک ہو نا۔۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں بس اندر گھبراہٹ ہورہی تھی تو باہر آگئی۔۔۔
ثمراہ نے بہانا بنایا تو صارم نے دوبارہ اس سے پوچھا۔۔
کیا سچ میں تم ٹھیک ہو ہم کسی ڈاکٹر کے پاس چلیں کیا۔۔۔
نہیں مجھے اب بس گھر جانا ہے چلیں گھر ۔۔
صارم ثمراہ کو لئے گھر واپس آگیا اور اسے چھوڑ اب خود ہی گھر کا ضروری سامان واپس لینے چلا گیا۔۔۔
ثمراہ یہی سوچ رہی تھی کہ کس سے بات کرے اپنی کیفیت کے بارے میں اپنی امی کو وہ فون نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ پہلے ہی پریشان ہونگی پاپا کے لئے۔۔۔
اسنے اپنا موبائل دیکھا تو اس میں بیٹری نہ کے برابر تھی۔۔۔
اپنا موبائل چارج پہ لگا کر اسنے صارم کا موبائل اٹھا لیا جو شاید وہ گلتی سے وہاں چھوڑ گیا تھا۔۔۔
ثمراہ نے اپنی ساس کو کال کی۔۔
اسلام و علیکم مما کیسی ہیں آپ۔۔
وعلیکم السلام میری جان کیسی ہو اور اب طبیعت کیسی ہے تمہاری ۔۔۔
میں بس ٹھیک ہی ہوں مما۔۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔ حنا بیگم کو اب پریشانی ہوئی۔۔۔
ثمراہ نے انہیں اپنی پچھلے ایک ہفتے سے ہوئی خراب طبیعت کے بارے میں بتایا۔۔۔
ثمراہ کی بات سن کے حنا بیگم مسکرانے لگی۔۔۔
میری جان تم نے کسی ڈاکٹر کو دکھایا کیا۔۔
نہیں مما مگر صارم بتا رہے تھے کہ یہاں آنے سے پہلے میرے کچھ ٹیسٹ ہوئے تھے شاید کل اسکی ریپورٹس بھی آگئی ہونگی اور کل تھکان کی وجہ سے صارم نے وہ ریپورٹس چیک نہیں کی۔۔۔
ٹھیک ہے ویسے مجھے پتہ ہے تمہیں کیا ہوا ہے مگر پھر بھی تم تسلی کیلئے اپنی ریپورٹس دیکھ کے مجھے کال بیک کرو۔۔
حنا بیگم نے ہنس کے کہہ کر کال کاٹ دی اور ثمراہ موبائل کو گھورنے لگی۔۔۔
مما ایسی باتیں کیوں کر رہی تھیں۔۔
ثمراہ نے صارم کے فون پر اسکی ای میل چیک کی تو اسے اسکی ریپورٹس دکھیں ۔۔۔ جب اسنے وہ رپورٹس پڑھی تو اسکی آنکھیں بھیگنے لگی کیوں کہ ان رپورٹس میں لکھا تھا کہ ثمراہ ڈیڑھ ماہ سے پریگننٹ ہے ۔۔۔
اپنی کیفیت وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی اگر ایسا تھا تو مجھے پتہ کیسے نہیں چلا ۔۔۔ شاید پاپا کی طبیعت اور انکے آپریشن کی ٹینشن کی وجہ سے اسنے غور نہ کیا۔۔۔
ثمراہ نے وہ ای میل صارم کے موبائل سے ڈیلیٹ کردی وہ خود یہ بات صارم کو بتانا چاہتی تھی۔۔۔
حنا بیگم کو اس نے دوبارہ کال کی تو سامنے سے بغیر کچھ جانے ہی حنا بیگم نے اسے مبارک باد دی۔۔
آپ کو کیسے پتہ چلا مما۔۔۔۔ میں نے 2 بچے پیدا کئے ہیں بیٹا تمہاری حالت دیکھ کے ہی مجھے ہاسپٹل میں شک ہوا تھا مگر اس وقت صرف شک تھا مگر ابھی تمنے مجھے اپنی کیفیت بتائی تو میرا شک یقین میں بدل گیا۔۔۔
دھیروں دعائیں دیتے حنا بیگم نے کال کاٹ دی اور سب کو یہ خوشخبری سنائی سب ہی خوش تھے ثمراہ اور صارم کیلئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم قریب ایک گھنٹے بعد گھر آیا تو ثمراہ کھڑکی پہ کھڑی تھی۔۔۔
سوری یار دیر تو نہیں ہوئی نہ مجھے میں بس یہ سامان لینے گیا تھا کچن کا سامان کچن میں رکھ کر اب وہ باقی سامان لئے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
سامان رکھ کے واپس آیا تو ثمراہ کچن میں سارا سامان ترتیب سے رکھ رہی تھی۔۔۔
تمہاری طبیعت کیسی ہے۔۔۔
صارم نے ثمراہ کا ہاتھ پکڑے پوچھا۔۔
پہلے سے بہت بہتر ہے۔۔۔
ثمراہ نے مسکرا کے جواب دیا ۔۔ ٹھیک ہے تم کچھ لائٹ سا بنالو ہم دونوں کیلئے مجھے کمرے میں کچھ کام ہے میں اندر جارہا ہوں۔۔۔
یہ کہہ صارم فوراً کمرے میں چلا گیا بغیر ثمراہ کی بات سنے۔۔
ثمراہ صارم سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ کیا بناؤ مگر اب وہ کندھے اچکا کر واپس کچن میں اگئی۔۔۔
ثمراہ نے پاستہ بنایا اور صارم کو آواز دی پتہ نہیں وہ روم میں کیا کرہا تھا۔۔
صارم باہر آیا تو دونوں نے مل کے کھانا کھایا اور پھر صارم نے سارا کچن سمیٹا۔۔
میں کر دیتی ہوں نہ۔۔ ثمراہ نے صارم کو کام کرتا دیکھا تو اسے روکنے لگی۔۔۔
نہیں تم میری بیوی ہو سرونٹ نہیں ہم یہاں مل کے کام کریں گے۔۔
سرونٹس یہاں اسلئے نہیں بلائے کیونکہ میں تمہارے ساتھ اکیلے رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
کام ختم کرکے صارم ثمراہ کو روم کی طرف لے گیا مگر دروازے پر ہی اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔۔۔
ثمراہ کو حیرت ہوئی صارم کی اس حرکت پر مگر وہ کچھ بولی نہیں
روم میں جا کر ثمراہ کو گلاب کی خاشبو نے آن گھیرا۔۔۔ پیروں کے نیچے بھی نرم لمس محسوس کر کے وہ صارم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
یہ سب کیا ہے میری انکھوں سے پٹی تو ہٹاؤ۔۔۔
صارم نے اسکی انکھوں پر سے پٹی ہٹائی تو ثمراہ کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔۔
صارم نے ثمراہ کے کان میں ہلکے سے سرگوشی میں کہا۔۔
Happy birthday my wife ❤️ my life ❤️ my cutie pie...
ثمراہ نے جب یہ الفاظ سنے تو صارم کو گلے لگا لیا۔۔۔
اپ کو کیسے پتہ چلا۔۔
صارم نے ثمراہ کو خود سے پیار سے الگ کیا اور اسے شانوں سے تھامے کہنے لگا۔۔
جب کسی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں نہ تو اپنے محبوب کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔۔۔
صارم نے پیار سے کہا تو ثمراہ کی آنکھیں بھیگ گئی۔۔۔
بس تم ہی میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی ایک نمبر کی بے وقوف ہو تم۔۔۔
میں تمہارے بارے میں کیا نہیں جانتی بتاؤ گے زرا۔۔۔
اچھا تو مجھے کھانے میں کیا پسند ہے بتاؤ؟
تمہیں اٹالین اور پاکستانی کھانے پسند ہیں وہ بھی اسپائسی۔۔
اچھا مجھے کلر کونسا پسند ہے۔؟
تمہیں سفید کلر پسند ہے۔۔
اچھا میری پسندیدہ جگہ کونسی ہے ویکیشن کیلئے۔؟
جہاں ہم اس وقت موجود ہیں وہ جگہ۔۔ کیونکہ یہیں تم نے اپنے پیرینٹس کے ساتھ اخری ویکیشن پہ آئے تھے۔۔۔
صارم ثمراہ کے جواب سن کے مسکرا دیا۔۔
اور بھی بہت کچھ جانگئی ہوں میں۔۔
بیوی تمہی۔ میرے بارے میں اتنا پتہ کیسے چل گیا؟؟
صارم نے سوالیہ نظروں سے ثمراہ کو دیکھا۔۔
جب کسی کو چاہتے ہیں تو اسکے بارے میں سب جانتے ہیں۔۔
ثمراہ روانی سے بولگئی یہ۔۔۔
صارم حیرت میں تھا ۔۔ کیا ابھی ثمراہ نے یہ کہا وہ اسے چاہتی ہے؟
کیا کہا تم نے ابھی ۔۔
کچھ بھی تو نہیں ثمراہ نے صارم سے نظریں پھیر لیں۔۔اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔
تم نے ابھی کہا تم مجھے چاہتی ہو۔۔۔
ہاں تو کیا غلط کہا نہیں چاہوں کیا ؟۔ ۔؟؟
ثمراہ نے انکھیں مٹکا کے کہا تو صارم ہنسنے لگا۔۔
بس تم ہی مجھ سے محبت نہیں کرتے۔۔ ثمراہ نے رونی صورت بنا کے کہا ۔۔
چلو تم بھی کیا یاد کروگی میں آج تمہیں سب سچ بتاتا ہوں کہ وہ لڑکی مجھے کہاں ملی اور مجھے اس سے پیار کیسے ہوا۔۔
صارم نے جتانے والے انداز میں کہا اور ثمراہ کو دیکھا جو اسکی بان سن بھی رہی تھی اور ڈر بھی رہی تھی۔۔
تو وہ لڑکی مجھے اسی مال میں دکھی تھی جہاں ہم آئیسکریم کھاتے ہیں جہاں ہماری دوستی ہوئی تھی۔۔
وہیں اس مال میں سفید فراک میں ملبوس سفید ہی ڈوپٹہ اوڑھے وہ مجھے دکھی۔۔
صارم ان یادوں کے بارے میں بتانے لگا اور صارم کے چہرے پر خوشی اور محبت دیکھ کے ثمراہ کا دل اچھل کے ہلق کو آنے لگا ۔۔
اسکی معصومیت اسکی سادگی مجھے بھائی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اسنے ایک بچے کو چند پل میں ہی ہنسا دیا جو شاید اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا۔۔
اسنے انکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا اور جب وہ بول رہی تھی تو مجھے ایسا لگا اسکی انکھیں بھی بول رہی تھی اسکے گال پر 2 تل ہیں جو کہ بہت خوبصورت لگتے ہیں اور اسے اور بھی منفرد بناتے ہیں ۔۔ اور جب وہ ہنسی تو اسکے دونوں گالوں پر ڈمپل پڑھنے لگا اس وقت ہی مجھے اس سے محبت ہوگئی اسکی باتیں اسکا بچوں جیسا انداز اسکی ہنسی سے میں آج تک عشق کرتا ہوں ۔۔
صارم اسے ایسے بتا رہا تھا جیسے وہ اسی منظر کے سامنے کھڑی ہو۔۔
جب اسنے ثمراہ کو دیکھا تو اسکی انکھوں میں نمی تھی لگ رہا تھا وہ ابھی رودے گی۔۔۔
صارم نے پیار سے اسکا چہرا تھامتے ہوئے کہا میں نے دنیا میں بہت بے وقوف دیکھے ہیں پر تم جیسی شاید ہی کوئی بنی ہو مگر کیا کروں عشق ہوگیا تھا اسی دن تم سے جانتا نہیں تھا تم اتنی بے وقوف نکلو گی کہ میری آنکھوں میں اپنے لئے محبت اور اپنے لئے جنون دیکھ ہی نہیں پاؤگی۔۔
صارم نے اسکا ماتھا چوم کے کہا تو ثمراہ رودی۔۔
نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ میرا دل رکھنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔۔
ارے یار اب تمہیں یقین بھی دلاؤکیا۔۔
ثمراہ نے آنسو صارف کرتے ہوئے ہاں کہا۔۔
تم ایک دن مال گئی تھی تمہیں ایک بچہ روتا ہوا دکھا تھا ۔۔ صارم نے پوچھا۔۔
ہاں۔۔ ثمراہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولی۔۔
تم نے سفید کپڑے پہنے تھے۔۔
ہاں۔۔
تمہارے گال پر 2 تل ہیں۔۔
ہاں
تمہارے ڈمپل پڑتے ہیں گال پہ۔۔
ہاں ۔۔
تو اور کیا تم جب اس سے بات کر رہی تھی تو تمہیں ایسا لگا تھا کہ تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے۔۔
ہاں۔۔مجھے اس وقت ایسا لگا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔۔
وہ میں ہی تھا اس دن میں آپی کو شادی کی شاپنگ کروانے گیا تھا اور مجھے تم دکھی پھر جب تم نے میری نظروں کو محسوس کرکے ادھر ادھر دیکھا تو میں واپس آپی کے پاس آگیا پھر جب تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو تم جاچکی تھی مگر میرے دل سے نہیں گئی تھی ۔۔
صارم اسے محبت بھرے لہجے میں بتانے لگا۔۔
جانتی ہو جب میں نے تم سے ایڈریس پوچھا تھا تو میں تمہیں دیکھتا ہی رہ گیا تھا مجھے اپنی انکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا اس وجہ سے تمہیں کافی دیر دیکھتا رہا مگر تمہیں غصہ آگیا تھا اور غصہ میں تم نے مجھے غلط ایڈریس بتایا پتہ ہے میں کتنا خوار ہوا تھا اس دن مگر مجھے تم پر زرا بھی غصہ نہیں آرہا تھا
جانتی ہو کیوں؟؟
کیوں کہ میں خوش تھا تمہیں دیکھ کے جب جاوید انکل کے گھر تمہیں دیکھا تو اور بھی خوش ہوگیا مجھے لگا تھا حارث کیلئے امی نے اریشہ کو پسند کیا ہے
چائے خود پہ میں نے جان بوجھ کے گرائی تھی بس تم سے بات کرنے کا بہانا چاہئے تھا ۔۔
مگر جب میں نے تمہیں حارث کے ساتھ دیکھا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی مگر تم خوش تھی اور حارث بھی تو میں خاموش رہا پھر تمہاری منگنی پہ مجھے یہ احساس ہوا کہ تم اور حارث بہت خوش ہیں تو میں نے تم سے دور جانے کا فیصلہ کیا میں کسی کے کہنے پر نہیں رکا مگر تم نے مجھے روک لیا۔۔
مگر حارث سب سمجھ گیا اور اسنے گھر والوں سے بات کی اور سبھی مان گئے مجھے اس دن پر آج بھی یقین نہیں ہوتا میرے بھائی نے میری خوشی کیلئے اپنا رشتہ توڑا اور سب خوش بھی تھے اور تم میری زندگی میں آگئی۔۔۔
تو تم نے مجھے شادی کے بعد بتایا کیوں نہیں۔۔؟
ثمراہ صارم کے اظہار پر خوش تھی پر شکوہ بھی کرگئی۔۔
تم نے مجھے منع کیوں کیا تھا تمہیں ٹچ کرنے سے شادی والی رات کو۔۔ صارم جھٹ بولا۔۔۔
مینے منع نہیں کیا تھا بس ہاتھ پیچھے کیا تھا۔۔
تو اسکا اور کیا مطلب ہوتا تھا۔۔ صارم نے سوالیہ نظروں سے کہا۔۔
تو ثمراہ خاموش ہوگئی۔۔
بس تم سے مزاق کرتا تھا تمہیں تنگ کرتا تھا۔۔
تو تم مجھ سے ایک مہینے الگ کیوں رہے۔۔ثمراہ نے اب صارم سے پوچھا۔۔
کیونکہ میں چاہتا تھا کہ تم مجھے شاہویز کے بارے میں بتاؤ میں نے اسے تمہارا ہاتھ پکڑے دیکھا تھا مگر مجھے تم پر بھروسہ تھا تو میں خاموش رہا مگر میرے ایک سوال سے تم بھڑک گئی ۔۔
مجھے تم پر خود سے زیادہ یقین تھا ہم کچھ دن ہی ساتھ رہے میں انہی کچھ دنوں میں سمجھ گیا تھا کہ تم ایک مضبوط کردار کی مالک ہو ۔۔ کبھی کسی سے گھر سے باہر یوں محبتیں نہیں کروگی ۔۔
مگر اتنے دن غصہ اور الگ رہنے کی وجہ بس یہ تھی کہ اس دن میں نے تمہاری آنکھوں میں بے اعتباری دیکھی تھی میرے لئے مجھے دکھ تھا میں نے تم سے محبت کی ہر لمحہ ہر پل پھر بھی تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تھا۔۔۔
اور جب تمہیں ہاسپٹل میں دیکھا تو میرا دل تمہارے لئے بہت پریشان ہوا تم مرجھائی ہوئی تھی اور جب تم بے ہوش ہوگئی تھی تو میں اور بھی ڈر گیا تھا میں اس دن سمجھا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تمہیں کھو دینے کے ڈر سے ہی میں کانپ گیا تھا ۔۔
تمہارے پاپا کے کہنے پہ میں تمہیں یہاں لایا وہ چاہتے تھے ہم ساتھ رہیں کچھ وقت تاکہ تم خوش رہو۔۔
صارم نے بتاتے ہوئے وہ دن یاد کرکے اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیا۔۔
اب بس میں تمہارے دل میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہوں۔۔
ثمراہ صارم کے گلے لگ گئی اور اسکے کان میں بولنے لگی۔۔
تمہاری محبت نے میرے دل میں بہت پہلے ہی جگہ بنالی تھی مگر ۔۔
ثمراہ مگر پہ رکی تو صارم نے اسے دور کر کے اسکا چہرا دیکھ کے بولا۔۔
مگر کیا؟؟؟
یہ کہ تمہاری محبت اب مجھ میں سانسیں لے رہی ہے۔۔۔
ثمراہ نے نظریں جھکا کے تیز ہوتی دھڑکن سے کہا۔۔۔
صارم نے بات کو سمجھتے ہی ثمراہ کو گلے لگا لیا ۔۔۔
کیا سچ کہہ رہی ہو۔۔
بتاؤ سچ کہہ رہی ہو نہ مزاق تو نہیں کررہی ۔۔
میں بلکل سچ کہہ رہی ہوں تم پاپا بننے والے ہو تمہاری موبائل پر میں نے اپنی ریپورٹس دیکھی تھی اور پھر مما سے بھی بات کی تھی جب میں نے انہیں اپنی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ سمجھ گئی تھی اور اب تک تو میرے اور تمہارے گھر والوں کو یہ خبر مما سنا چکی ہونگی۔۔
اچھا تو تم نے مجھے سب سے آخر میں بتایا۔۔
صارم نے پیار بھرا شکوہ کیا تو ثمراہ مسکرادی۔۔
تم گھر میں نہیں تھے جب تم آئے تو کمرے میں مصروف ہوگئے۔۔
برتھ ڈے تمہاری ہے میں تمہیں سرپرائز کرنا چاہتا تھا تمہیں گفٹ دینا چاہتا تھا مگر تم نے تو مجھے ہی دنیا کا سب سے بڑا گفٹ دے دیا تھینک یو سو مچ فر آل دس بیوٹیفل گفٹ ۔۔
صارم بہت خوش تھا اسنے ثمراہ کے ہاتھ میں خوبصورت سہ بریسلٹ پہنایا جس پہ خوبصورتی سے s❤️s لکھا تھا۔۔
ثمراہ نے پیار سے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جس میں صارم نے بریسلٹ پہنایا تھا۔۔۔
میں تم سے عشق کرتا تھا کرتا ہوں اور اپنی آخری سانسوں تک کرتا رہونگا۔۔۔
صارم نے ثمراہ کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا تو ثمراہ نے بھی اسے پیار سے ہی جواب دیا ۔۔
میں بھی۔۔۔❤️❤️❤️❤️❤️