ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری وائف کو۔۔
صارم بے چین ہورہا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر ثمراہ کا چیک اپ کر کے باہر آئی تو پوچھنے لگا۔۔۔
کچھ نہیں ویکنس بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔۔۔ ویسے آپکی شادی کو کتنا ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔
ڈاکٹر نے صارم کو پروفیشنل انداز میں بتاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
جی ڈیڑھ ماہ ہوگیا ہے پر اس کا اس بات سے کیا تعلق ہے۔۔۔
صارم نے ایک اور سوال کیا ۔۔
ٹھیک ہے میں یہ کچھ ٹیسٹ لکھ رہی ہوں آپ یہ ٹیسٹ اپنی وائف کے کروا لیجئے ۔۔۔اور ہاں کوشش کیجئے انہیں خوش رکھنے کی مینٹل اسٹریس بھی انسان کو کافی ویک کر دیتی ہے۔۔۔
ڈاکٹر کی بات سن کے صارم اب ثمراہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا میری ایک خاموشی تمہیں اتنی اذیت دیگی۔۔۔
صارم کرب سے کہتا ہوا ثمراہ کا ہاتھ پکڑ اسے چومنے لگا
پلیز تم ٹھیک ہو جاؤ میں پرامس کرتا ہوں تمہیں اتنا خوش رکھوں گا اتنا ہنساؤں گا کہ تم خود مجھسے کہو گی کہ میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔
صارم کی آنکھیں بھیگ رہی تھی اپنی جان کو اس حالت میں دیکھ کے۔۔۔
صارم ثمراہ کو چھوڑ سب کے پاس چلا گیا سب ہی ثمراہ کے لئے پریشان ہو رہے ہونگے یہ سوچ کے۔۔۔
صارم کو آتا دیکھ عائشہ بیگم اس سے ثمراہ کے متعلق پوچھنے لگی۔۔۔
کیا ہوا میری بچی کو اس طرح بے ہوش کیوں ہوگئی۔۔۔
کچھ نہیں ہوا ثمراہ کو۔۔۔ط میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہی ہیں بس اسے مینٹل اسٹریس بہت زیادہ ہوگئی ہے ابھی اسکے کچھ ٹیسٹ ہونگے جنکی ریپورٹس پرسوں ملے گی پھر پتہ چل جائے گا کہ ایکچلی میں پرابلم کیا ہے۔۔۔
عائشہ بیگم یہ سن دوبارہ چئیر پہ بیٹھ گئی۔۔
اسی لئے ظفر صاحب نے ثمراہ کو کچھ نہیں بتانا چاہتے تھے وہ جانتے تھے انکی بیٹی کتنی حساس ہے ہر بات کو دل پہ لے لیتی ہے۔۔۔
موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صارم شایان کو لے کر باہر آگیا بات کرنے کیلئے۔۔
شایان مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔
ہاں بولو۔۔۔ کیا ہوا۔۔
ظفر آنکل نے آپریشن سے پہلے مجھ سے بات کی تھی وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میں ثمراہ کو آن کے آپریشن کے فوری بعد کہیں شہر سے باہر لے جاؤ۔۔۔اسکی طبیعت وہ دن بہ دن خراب دیکھ رہے تھے اسی لئے ۔۔۔ مگر میں اسے اس طرح کیسے لے کر جاؤ تمہارے تاتا ابو امی میرے گھر والے سب یہیں ہیں میں کیا بولو سب کو۔۔۔ اور ڈاکٹر نے کہا ہے ثمراہ کو کوئی اسٹریس نہیں دینی۔۔
مگر وہ ہوش میں آنے کے بعد میرے ساتھ کبھی نہیں جائے گی۔۔۔
صارم نے سارا مسئلہ شایان کو بتایا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔۔
تم ایک کام کرو گڑیا کے ٹیسٹ ہونے کے بعد تم اسے بیہوشی میں ہی لے جاؤ کیوں کہ اگر اسے ہوش آگیا تو وہ پاپا کو چھوڑ کے کبھی نہیں جائے گی اور رہا سوال یہاں سب کا تو وہ میں سمبھال لونگا۔۔۔
شایان نے حل بتایا تو صارم کو یہ حل مناسب لگا۔۔ ثمراہ کے تمام ٹیسٹ کروا کے اسنے اپنی ای میل آئی پر ریپورٹس بھیجنے کا کہہ کر وہ ثمراہ کو لئے مری روانہ ہوگیا۔۔ وہاں صارم کا اپنا گھر تھا جو اسکی ضد کرنے پر اس کے پاپا نے اسکے لئے خریدا تھا صارم کو پہاڑی علاقے بہت پسند تھے اور اس کے پاپا اسکی ہر ضد پوری کرتے تھے اکلوتا بیٹا جو تھا۔۔۔
راستے میں ہی ثمراہ کو ہوش آیا تو دیکھا وہ کار میں بیٹھی ہے اور کار انجان راستوں پر رواں ہے۔۔
اسے کچھ پل لگے سب کچھ سمجھنے کو ۔۔ صارم کو دیکھا تو وہ اسی کو دیکھ کے مسکرا رہا تھا ساتھ میں ڈرائیو بھی کر رہا تھا۔۔
میں یہاں کیسے میں تو ہاسپٹل میں تھی پاپا کے پاس میں یہاں کیسے اور کب آئی۔۔۔
ثمراہ نے صارم کو مسکراتا دیکھ سوال کیا۔۔۔
تم وہاں بے ہوش ہوگئی تھی سب کا دیہان تمہارے پاپا کی طرف تھا تو میں تمہیں اغواہ کر کے لے آیا۔۔۔
صارم کو شرارت سوجھی تو اس نے جھوٹ کہا ۔۔
کیا۔۔۔؟؟؟ ثمراہ نے نا سمجھی سے کہا۔۔۔
اغواہ نہیں سمجھتی کیا میں نے تمہیں کڈنیپ کیا ہے ۔۔۔
صارم نے اب اداکاری دکھائی جیسے وہ کوئی سائیکو ہے۔۔
تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا تم اپنی ہی بیوی کو اغوا کر کے لائے ہو ۔۔۔
اپنی بیوی کس بیوی کی بات کر رہی ہو تم جو پچھلے 1 مہینے سے مجھ سے دور ہے زرا نہیں سوچا اس بیوی نے میرے بارے میں کے میں کیسے رہونگا اس کے بغیر ۔۔ پہلے تو میری بیوی نے مجھے اپنی عادت ڈالی اور پھر جب مجھے عادت پڑھ گئی تو وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی اب مجھے وہ واپس چاہئے وہ بھی کسی بھی قیمت پہ چاہے مجھے اسے اغواء ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔۔
صارم جو ثمراہ کا چہرا دیکھ بہت مشکل سے اپنی ہنسی روکا ہوا تھا کیونکہ وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی ڈاکو وغیرہ ہو اور اسے اغواء کر کے لے کر جارہے ہوں۔۔
تم مجھے واپس میرے گھر لے کر جاؤ سب میرے لئے پریشان ہورہے ہونگے مجھے ڈھونڈ رہے ہونگے۔۔۔
ثمراہ رونی صورت لئے بولی تو صارم نے اسے اور تنگ کیا ۔۔۔
میں نے سب کو میسج کردیا ہے کہ تم میرے ساتھ اپنی مرضی سے آئی ہو اور ہم اب ایک سال کے بعد ہی واپس آئینگے۔۔۔
تم ایسا کیسے کر سکتے ہو تم تو کسی اور سے محبت کرتے ہو نہ اسکا کیا ہوگا۔۔
ثمراہ کو کوئی حل نہ سوجھا تو وہ صارم کو اسکی محبت کے بارے میں بتانے لگی۔۔۔
کون وہ ۔۔۔ وہ تو چلی گئی۔۔۔
صارم نے کن انکھیوں سے ثمراہ کو دیکھ کہ بولا۔۔۔
کہاں چلی گئی۔۔۔
وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی ہے اسکی شادی ہوگئی اور اسکا میاں بہت ہی اچھا ہے تو میں نے سوچا اسے بھول جاؤ۔۔۔
صارم نے افسوس سے کہا ۔۔۔
اچھا جی تو اسی لئے آپ کو مجھ پر اتنا پیار آرہا ہے ایک چلی گئی تو آپ مجھے اٹھا کے لے آئے۔۔۔
ثمراہ اب جھگڑا کرنے کے موڈ میں تھی۔۔۔
مجھے زرا یہ بتاؤ مجھے کب تم پر پیار نہیں آیا کوئی ایک ایسا دن بتاؤ جب ہم ساتھ تھے اور میں نے تم پر پیار نہ جتایا ہو بولو۔۔۔
صارم اب کے بہت دھیمے اور پیار سے بولنے لگا جیسے ثمراہ کوئی چھوٹی بچی ہو اور وہ اسکا غصہ ٹھنڈا کر رہا ہو۔۔۔
ثمراہ کا غصہ واقعی اب ختم ہوگیا تھا کیونکہ صارم جو کہہ رہا تھا سب سچ تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہویز صارم سے کانٹیکٹ کرنے کی کافی کوشش کر رہا تھا کیونکہ صارم پچھلے ایک مہینے سے اسے اگنور کر رہا تھا مگر شاہویز صارم کو اپنا سچا دوست مانتا تھا اسنے جھوٹ بھی صرف ایک کوشش کرنے کیلئے کہا تھا کہ اگر واقعی صارم اور ثمراہ کا رشتہ کمزور ہوا تو وہ ٹوٹ جائے گا۔۔۔
ان کے رشتے کا تو پتہ نہیں مگر اب صارم اور شاہویز کی سالوں کی دوستی میں دراڑ ضرور آگئی تھی۔۔۔
اور اب شاہویز اسی بات پہ پریشان تھا کہ صارم سے کیسے بات کرے۔۔۔
ثمراہ کو وہ واقعی بہت پسند کرتا تھا مگر اسے اپنا دوست بھی پیارا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر صاحب کو ائی سی یو میں شفٹ کردیا گیا تو سب ثمراہ اور صارم کے بارے میں پوچھنے لگے۔۔۔
شایان نے انہیں بتایا کہ وہ پاپا کی خواہش کی وجہ سے شہر سے باہر چلے گئے ہیں کیونکہ پاپا ثمراہ کی طبیعت کی وجہ سے پریشان تھے اور پھر وہ دونوں کہیں باہر گئے بھی نہ تھے تو میں نے ہی ان دونوں کو بھیج دیا جبکہ ثمراہ کو کچھ معلوم نہ تھا وہ تو بیہوش ہی تھی
شایان کی بات سن کے سبھی مطمئن تھے کیونکہ دونوں بچے ایک دوسرے سے کافی ٹائم سے دور تھے اب وقت تھا کہ وہ دونوں اپنے رشتے کو اور ایک دوسرے کو وقت دیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
صارم نے راستے میں ہی ایک مال سے اپنے اور ثمراہ کے لئے مری میں پہننے لائق کپڑوں کی شاپنگ کی جبکہ ثمراہ خاموش منہ پھلائے صارم کے ساتھ چل رہی تھی۔۔۔
کھانا باہر ہی کھا کر وہ لوگ رات کے 10 بجے اپنے گھر پہنچے ۔۔
ثمراہ کا موڈ مری کا حسین موسم اور وادیاں دیکھ کے کافی بہتر ہوچکا تھا۔۔۔
شاہ ولا میں اب سبھی گھر میں تھے سب اب اپنے اپنے کمروں میں جانے لگے رات کافی ہورہی تھی ۔۔۔
حارث چھت پہ آگیا تو دیکھا سارہ وہاں پہلے سے موجود تھی۔۔۔
تم اتنی رات کو یہاں کیا کررہی ہو۔۔۔
حارث نے سارہ کو دیکھ کے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں نیند نہیں آرہی تھی اور میں صارم کے لئے پریشان بھی ہوں۔۔
سارہ نے آسمان کی طرف دیکھ کے بولا۔۔
تم صارم کیلئے پریشان کیوں ہو ویسے۔۔۔ حارث کو سارہ کی بات اچھی نہیں لگی کیونکہ وہ اور سارہ ایک مہینے سے ساتھ تھے حارث کو سارہ اچھی لگی اس نے اپنی مما سے اس کے لئے بات کی تو اسے پتہ چلا کہ وہ لوگ پہلے ہی دادو سے بات کرچکے ہیں جبھی تو وہ لوگ لاہور واپس نہیں گئے کہ اب حارث اور سارہ کی شادی کر کے ہی جائیں گے مگر پہلے ثمراہ کا چلے جانا پھر ظفر صاحب کا آپریشن اور پھر اب صارم اور ثمراہ کا مری چلے جانا دونوں کے رشتے کو مزید ڈلے کر رہا تھا۔۔۔
مجھے ثمراہ تھوڑی اجیب لگتی ہے ۔۔ سب سے اچھے سے بات کرتی ہے سوائے میرے میری طرف تو وہ ہنس کے دیکھتی بھی نہیں ہے صارم کو میرے ساتھ بات کرتا ہوا دیکھ لے تو ناراض ہوجاتی ہے ۔۔
آخر ماجرا کیا ہے اور اگر وہ ایسی ہے تو صارم اس کے ساتھ رہ کیوں رہا ہے۔۔
حارث اسکی بات سمجھ کر ہنسنے لگا۔۔۔
تم کیوں دانت دکھا رہے ہو۔۔ حارث کو ہنسا دیکھ سارہ تپ گئی۔۔۔
وہ اسلئے کیوں کہ ان سب میں ثمراہ کی نہیں صارم کی غلطی ہے۔۔
وہ کیسے ۔۔ سارہ اب حارث کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔
حارث نے اسے سب کچھ بتایا ان کا ملنا اسکی اور ثمراہ کی منگنی اور پھر صارم اور اسکی شادی اور صارم کا اسے تنگ کرنا بھی۔۔
وہ تم سے نہیں چڑتی وہ بس صارم سے شاید محبت کرنے لگی ہے جبھی اسکے لئے پوزیسو ہورہی ہے۔۔۔
اوہ یار۔۔۔ مینے اسے کتنا غلط سمجھا وہ تو بچاری پتہ نہیں کیسے یہ سب سہہ گئی۔۔۔
اور یہ صارم کیسا انسان ہے یار اگر اس سے اتنا پیار کرتا ہے تو بتاتا کیوں نہیں ہے۔۔۔
حارث کی بات سن سارہ نے سر پکڑ لیا صارم کی بے وقوفی پر
وہ پہلے اسے تنگ کررہا تھا تم تو جانتی ہو نہ وہ کیسا ہے جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اسے ہی سب سے زیادہ تنگ کرتا ہے مگر اس بار اسے سہی کی سزا ملی ہے۔۔۔
حارث نے افسوس سے کہا۔۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو مگر اب اسے چاہئے کہ وہ ثمراہ کو سب سچ بتائے۔۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔ اور ہاں تم فکر مت کرو میں ایسی بے وقوفی کبھی نہیں کرونگا۔۔
حارث نے معنی خیزی سے کہا تو سارہ اسکا مطلب سمجھ کے ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو ۔۔
حارث اسکی یہ حرکت دیکھ بس زیرلب مسکرا دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔