آدھے راستے صارم اور ثمراہ دونوں خاموش تھے تو صارم نے ہی بات کا آغاز کیا۔۔۔
کیا ہوا اس طرح وہاں سے آٹھ کے کیوں آگئی۔۔۔
صارم کے بولنے کی دیر تھی کہ ثمراہ پھٹ پڑی ۔۔۔
میری سب سے بڑی غلطی تھی تمہارے کے ساتھ کہیں باہر آنا۔۔۔ سمجھتے کیا ہو تم مجھے بولو تم اپنے دوستوں کو یہ بتاتے پھر رہے ہو کہ تم نے مجھ سے مجبوری میں شادی کی ہے۔۔۔ ہاں بولو میں کیا کوئی بے مول شے ہوں جو مجھ پر تم نےمجھ پر احسان کیا ہے تو سن لو تم ۔۔۔ مجھے بھی کوئی شوق نہیں تھا تم سے شادی کرنے کا اگر میرے پاپا کی کنڈیشن اتنی سیریس نہ ہوتی تو میں کبھی اس شادی کیلئے ہاں نہ کہتی۔۔۔
شاہویز کا سارا غصہ اسنے صارم پہ نکال دیا تھا اور اب وہ اسے کیا کیا کہہ رہی تھی شدید غصے کی وجہ سے اسے اس بات کا احساس نہ ہوا ۔۔۔۔
مجھے میرے پاپا کے گھر چھوڑو اور جاؤ تم اپنی محبت کے پاس اور ہاں پاپا کی سرجری کے بعد میں خود انہیں سب سچ بتا دونگی کہ اپکے داماد نے مجھ پر کیا احسان کیا ہے۔۔۔
ثمراہ نے بول کے ایک بار بھی صارم کی طرف نہ دیکھا اگر دیکھ لیتی تو کبھی گاڑی سے نہ اترتی۔۔۔
شدید ضبط کے باوجود بھی صارم کی انکھوں میں نمی تھی اس نے اسٹیرنگ پر اپنی گرفت کو بڑھا لیا تھا وہ کچھ بولنا نہیں چاہتا تھا ثمراہ کو اگر وہ کچھ بولتا تو شاید بات بڑھ جاتی کیونکہ ثمراہ بہت جلد باز اور جزباتی تھی وہ سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کرتی تھی ۔۔۔
اور شاید صارم کا خاموش رہنے کا فیصلہ اس بار غلط تھا ۔۔۔
گھر پہنچ کر ثمراہ گاڑی سے اتری اور بغیر صارم کو دیکھے گھر کے اندر چلی گئی جبکہ صارم اسے جاتا دیکھ آنکھیں بند کرگیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد اسنے انکھیں کھولی اور فل اسپیڈ میں ڈرائیو کرنے لگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ جو کب سے اپنے آنسوؤں کو روکی ہوئی تھی اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کے رودی ۔۔۔
کیوں کیا تم نے صارم ایسا اگر مجھسے محبت نہیں کرتے تو کم سے کم دوسروں کے سامنے میری عزت تو رکھتے ۔۔۔
ثمراہ کو بار بار شاہویز کے الفاظ یاد آرہے تھے کہ صارم نے اس سے مجبوری میں شادی کی وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ہی صارم آفس چلا آیا انکھیں رات بھر جاگنے سے سرخ ہورہی تھی۔۔۔
وہ خود کو کام میں مصروف رکھنا چاہ رہا تھا اس کے پاس ایک کے بعد ایک گھر والوں کی کال آئی کہ وہ جلدی کیوں آگیا تو اسنے کام کا بہانا کر کے سب کو ٹال دیا۔۔۔
کل رات اسنے شاہویز کو ثمراہ کا ہاتھ پکڑتے دیکھا تھا اسکے یوں اٹھ کے جانے کی وجہ وہ یہی سمجھا تھا کہ ثمراہ کو شاہویز کا ہاتھ پکڑنا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا اسی لئے وہ وہاں سے چلی آئی مگر جو کچھ اس نے کار میں کہا اور پاپا سے بات کرونگی کا وہ مطلب سمجھ کے بھی سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔
اتنے میں شاہویز صارم کے آفس آیا اس سے ملنے۔۔۔
شاہویز صارم کا چہرا دیکھ اچھی طرح اندازہ لگا چکا تھا کہ صارم اور ثمراہ کے بیچ ضرور جھگڑا ہوا ہوگا۔۔۔
کیسے ہو یار ۔۔۔ شاہویز جوش سے بولا تو صارم اسکی طرف متوجہ ہوا
ٹھیک ہوں تم سناؤ۔۔
میں کیا سناؤ تم یہ بتاؤ کل تمہاری مسس کیوں اٹھ کے چلی گئی تھی۔۔۔
شاہویز نے سوال کیا تو صارم نے اسے دیکھے بغیر کہا۔۔
شاید تم اسے پسند ہی نہ آئے ہوں۔۔۔
صارم کے کہنے پر شاہویز ہنسا۔۔
اچھا پہلے تو کبھی میں اسے برا نہیں لگا روز مجھے دیکھتی تھی کل شاید تمہاری وجہ سے اٹھ کے چلی گئی ہوگی۔۔۔
اب کی بار صارم نے شاہویز کی طرف غور سے دیکھا ۔۔۔
کیا مطلب تم اسے پہلے سے جانتے ہو ۔۔۔ صارم کے پوچھنے پر شاہویز نے معصومیت سے کہا۔۔
ہاں ثمراہ ہی وہ لڑکی ہے جسے دیکھنے میں روز صبح سویرے اتنی دور اسکے اسکول جاتا تھا وہ بھی مجھے دیکھتی تھی مگر پھر وہ اچانک غائب ہوگئی ۔۔۔
جب وہ ایک ماہ اسکول نہ آئی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے کئے کتنی اہم ہے مگر کل جب اسے تمہاری وائف کے روپ میں دیکھا تو میں کچھ کہہ بھی نہ پایا اور اب کچھ ہو بھی تو نہیں سکتا تم بھی اس سے محبت کرتے ہو۔۔۔ شاید۔۔۔ وہ بھی تمہیں پسند کرتی ہو۔۔لفظ شاید کو شاہویز نے زور دے کر کہا ۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ شاہویز کو صارم سے دشمنی تھی وہ صارم کو صرف اس لئے تکلیف پہنچا رہا تھا کہ وہ ثمراہ کو پانا چاہتا تھا
صارم نے اس بات کا جواب نہ دیا بلکہ وہ شاہویز سے کام کے متلعق بات کرنے لگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دنوں کے بعد ثمراہ نے ہمت کرکے شام میں سب کے گھر انے کے بعد ظفر صاحب کے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔
پاپا ایک پوچھو ۔۔۔
ثمراہ نے بات کا آغاز کیا۔۔
بلکل بیٹا اب تمہیں کیا مجھسے اجازت مانگنے کی ضرورت ہوگی۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہے بس وہ پاپا میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ میں اپکی بیماری کہ بارے میں سب جانتی ہوں ۔۔۔ اور ابھی سے نہیں شادی سے پہلے سے جانتی ہوں۔۔۔
ثمراہ نے آج سب سے بات کرنے کا فیصلہ لیا ۔۔۔ اس کی بات سن سبھی حیران تھے کہ اسے کیسے پتہ چلا۔۔۔
تمہیں کس نے بتایا ۔۔۔ عائشہ بیگم نے سوال کیا۔۔۔
میں نے اپ کے کمرے میں ہاسپٹل کی رپورٹس کا لفافہ دیکھا تھا اسے کھول کے دیکھا تو پاپا کی برین کلاٹ کے بارے میں پڑھا۔۔۔
بولتے ہوئے ثمراہ کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔
پاپا کیا آپ مجھے اتنا کمزور سمجھتے ہو کہ اب آپ مجھ سے باتیں چھپاؤ گے اگر مجھے وہ ریپورٹس نہ ملتی تو شاید مجھے کبھی پتہ ہی نہ چلتا کہ 2 ہفتے بعد اپکا اپریشن ہے اور آپ نے آپریشن 2 مہینے ملتوی کیا میری شادی کیلئے۔۔۔ کیوں پاپا۔؟۔؟
وہ بیٹا مجھے نہیں معلوم کے میں واپس آؤنگا کہ بھی کہ نہیں اور اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو میں اپنی گڑیا کو وداع کیسے کرتا ۔۔۔
ظفر صاحب نے نرمی سے کہا۔۔۔
اپ ایسا کیوں سوچتے ہیں پاپا۔۔۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا دیکھنا آپ بلکل ٹھیک ہوجائینگے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایان نے صارم کو کال کر کے بلایا کہ پاپا کی آج سرجری ہے وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔
صارم ہاسپٹل پہنچا تو ثمراہ ظفر صاحب کے روم میں ہی بیٹھی تھی نظریں جھکائے غائب دماغی سے وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
صارم نے اسے دیکھا وہ پہلے والی ثمراہ بلکل نہیں تھی۔۔
گلابی چہرا اب زرد پیلا پڑا ہوا تھا انکھوں کے نیچے راتوں کو جاگنے کی وجہ سے دھبے تھے وہ جو ہمیشہ فریش رہتی تھی آج مرجھائی ہوئی تھی۔۔۔
صارم نے کرب سے ثمراہ کو دیکھا اور ظفر صاحب کی متوجہ ہوگیا۔۔۔
اسلام و علیکم انکل کیسے ہیں آپ ۔۔۔
صارم نے ظفر صاحب سے بات کی تو ثمراہ نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا پچھلے 1 مہینے میں وہ بھی کافی کمزور ہوگیا تھا ۔۔۔
ظفر صاحب نے سب کو باہر جانے کا کہا تو سب باہر اگئے اب کمرے میں بس صارم اور ظفر صاحب تھے۔۔۔
تم کیا ثمراہ سے ناراض ہو ۔۔۔ ظفر صاحب نے بات شروع کی تو صارم گھبرا گیا کہ کیا کہے۔۔۔
دیکھو میں جانتا ہوں کہ تم ثمراہ سے ناراض ہو کیونکہ وہ ایک مہینے سے ہمارے گھر پر ہے پر بیٹا یقین مانو میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ مجھے چھوڑ کے جانے کو تیار ہی نہ تھی۔۔۔
صارم تھوڑا پر سکون ہوا کہ سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ
ثمراہ اتنے دن سے اپنے پاپا کے گھر پر ہے اسلیے دونوں میں ناراضگی ہے جبکہ اس کے گھر میں بھی سب یہی سمجھ رہے تھے ۔۔۔
نہیں انکل میں اس سے ناراض نہیں ہوں۔۔
بیٹا تم اسے تھوڑا وقت دو وہ ابھی میرے لئے پریشان ہے دیکھا نہیں رو رو کہ کیا حالت بنا لی ہے اسنے۔۔۔
ظفر صاحب کا آپریشن چل رہا تھا ۔۔۔ سبھی گھر والے وہاں موجود تھے ۔۔۔ شمس صاحب اور حنا بیگم کو صارم نے فون کر کے بلا لیا تھا ۔۔۔
آپریشن تھیٹر کے باہر ہر کوئی ظفر صاحب کے لئے دعا گو تھا۔۔۔
4 گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر باہر آئے تو سب سے پہلے جاوید صاحب شایان اور صارم ڈاکٹر سے ملے۔۔۔
پاپا کیسے ہیں ڈاکٹر۔۔
شایان نے پوچھا۔۔۔
ظفر صاحب کا آپریشن کامیاب رہا ہے بس اب ہم 1 ہفتے انہیں آئی سی یو میں رکھیں گے اور پھر روم میں شفٹ کر دینگے ۔۔۔ بس آپ لوگوں کو انہیں پر سکون رکھنا ہوگا ۔۔۔
یہ کہہ ڈاکٹر چلے گئے۔۔
آپریشن تھیٹر کے باہر اب سبھی خوش تھے عائشہ بیگم اور ثمراہ شکرانے کے نفل ادا کرنے جارہے تھے تبھی ثمراہ کو چلتے وقت آنکھوں کے آگے اندھیرا دکھائی دیا
وہ شاید گر ہی جاتی اگر شایان اور صارم اسے نہ تھامتے۔۔۔
ثمراہ کو بے ہوش دیکھ سبھی گھبرا گئے۔۔
صارم اسے لئے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا باقی سب کو وہیں رہنے کا کہہ کر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔