ثمراہ نے سارہ کو منع کیا تو سارہ کندھے اچکا کر نیچے جانے لگی۔۔۔
کیونکہ اسے صارم اور ثمراہ کے رومینس کو دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا ۔۔۔ اصل میں نہ سارہ اور نہ ثمراہ ایک دوسرے کو کسی سے پرابلم نہیں تھی ثمراہ سارہ سے یوں کھچی رہتی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھتی تھی کہ صارم اور سارہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور سارہ ثمراہ سے اٹیچ اسلئے نہیں تھی کیونکہ ثمراہ اس سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھی۔۔۔
سیڑھیوں پر پانی کی وجہ سے پھسلن تھی تو سارہ جو جلدی جلدی نیچے آرہی تھی زور سے گری جس سے اس کا پیر مڑ گیا تھا۔۔۔
ثمراہ جب چینج کر کے نیچے آئی تو دیکھا کہ ثناء اور حنا بیگم کچن میں کام کررہے تھے شمس صاحب اخبار پڑھ رہے تھے جبکہ حارث سارہ کے پیر پر پٹی باندھ رہا تھا اور دادی پھوپھو دونوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔۔
حارث نے ہی اسے گرا دیکھا تو اسے لئے وہ لاؤنج میں اگیا اور صوفے پر بٹھا کے اس کے پیر پر بام لگا کے پٹی باندھ رہا تھا کیونکہ مما اور آپی کچن میں مصروف تھے۔۔۔
ثمراہ یہ منظر دیکھ مسکرا دی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
کیا بات ہے آج میری بیٹی مسکرا رہی ہے اور بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔
حنا بیگم نے پیار سے ثمراہ سے کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔۔
آنٹی میں کوئی مدد کروں۔۔
ثمراہ نے حنا بیگم سے پوچھا۔۔۔
تم میری بیٹی ہو یا بہو ۔۔۔
حنا بیگم نے الٹا اس سے ہی سوال کیا۔۔
آپ تو بلکل میری امی جیسی ہو تو میں آپکی بیٹی ہوئی نہ۔۔
تو پھر تم مجھے مما کہا کرو مجھے یہ آنٹی بلکل اچھا نہیں لگتا۔۔۔
حنا بیگم نے پیار سے حکم دیا تو ثمراہ نے انکی بات فوراً مان لی۔۔
جی ٹھیک ہے مما میں اپکی مدد کروں۔۔
ہاں بلکل یہ سب ڈشس ڈائننگ ٹیبل تک لے جاؤ۔۔
ثمراہ نےسامان لئے ڈائننگ ٹیبل سیٹ کی جب کے ایک پلیٹ میں وہ کھانا لئے سارہ کو اسکے روم میں ہی دے کر آگئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے صبح صارم نے ثمراہ کو اس کے گھر ڈراپ کردیا۔۔۔ اور شام میں آونگا کہہ وہ باہر سے کی آفس چلا گیا۔۔۔
ثمراہ دوپہر میں اسکول کی چھٹی ہونے سے پہلے ہی اسکول چلی گئی اپنی دوستوں سے ملنے۔۔۔
مس صنم تو اسے دیکھ حیران ہی ہوگئی۔۔۔
کیوں کہ وہ ایک مہینے کے بعد ان سے ملنے آئی تھی ۔۔۔
سارے اسٹاف نے اسے مبارک باد دی تو وہ سب سے مبارک باد وصول کرتی انچارج سے پرمیشن لے کر مس صنم کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔
تم نے شادی کرلی اور کسی کو بتایا بھی نہیں۔۔۔
مس صنم نے شکوہ کیا۔۔
ثمراہ نے انہیں سب کچھ بتایا اپنے ابو کی بیماری سے لے کر صارم سے شادی کا۔۔۔
تو کیا تمہاری شادی اس سے ہوئی ہے جس نے ہم سے ایڈریس پوچھا تھا۔۔
جی مس میری شادی اسی لوفر سے ہوئی ہے۔۔ ثمراہ نے یہ کہہ قہقہہ لگایا۔۔۔
لوفر سے یاد آیا تمہارا وہ عاشق دیوانہ ہورہا ہے ڈیڑھ مہینے سے تم اسکول جو نہیں آرہی تھی۔۔۔
کچھ دن پہلے پوچھ بھی رہا تھا مجھ سے تمہارا کہ تم کیوں نہیں آرہی اسکول۔۔۔
مجھے تمہاری امی سے تمہاری شادی کا پتہ چل گیا تھا پر اسے کچھ بھی بتانا میں نے مناسب نہ سمجھا۔۔۔
مس صنم نے ثمراہ کو اسی لڑکے کے بارے میں بتایا جو روز اسکول کے سامنے کھڑا ہوتا تھا۔۔۔
اسے کیا میں آؤ یا نہیں وہ ہوتا کون ہے میرے بارے میں پوچھنے والا۔۔۔
ثمراہ کو یہ سب سن کے غصہ آگیا۔۔۔
ثمراہ ہم اسکا مزاق اڑاتے تھے مگر وہ تمہارے بارے میں کافی سیریس ہوگیا ہے وہ ابھی بھی روز آتا ہے یہاں اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تمہارے بارے میں سیریس ہے جب اسنے تمہارے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔
مس آپ چھوڑے اس لوفر کی باتیں مجھے کیا وہ کچھ بھی کرے مجھے تو اسکا نام بھی نہیں پتہ اس کے بارے میں سن کے کیا کروگی۔۔۔
ثمراہ اور مس صنم دوسری باتوں میں مصروف ہوگئے تبھی ثمراہ کے موبائل پر صارم کی کال آنے لگی۔۔۔
اسلام و علیکم جی کہیئے۔۔۔
ثمراہ نے پوچھا تو صارم نے بے خود ہو کے جواب دیا۔۔
بیوی اتنے پیار سے بات نہ کرو قسم سے ابھی تمہیں اٹھا کے لے آونگا۔۔۔
اچھا بس بس یہ بتائیں فون کیوں کیا ہے۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا میں تمہیں مطلب ہوگا تو فون کرونگا ۔۔۔ ایسا سوچتی ہو تم میرے بارے میں ۔۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔
صارم کی اداکاری سن کے ثمراہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔ کہ ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔
میں اپنی دوست کے ساتھ ہوں اپکو کوئی کام نہیں تو تھوڑی دیر کے بعد کال کر لینا میں اپ سے فرصت سے باتیں کرونگی۔۔۔
اچھا رکو ۔۔ وہ آج میں آفس آیا تو میرے ایک فرینڈ نے ہم دونوں کو اپنے ہوٹل میں ڈنر کیلئے بلایا ہے وہ ہماری شادی میں نہیں آسکا اسی لئے ہمیں بلا رہا ہے۔۔۔
تم چلو گی۔۔۔ صارم نے اجازت چاہی تو ثمراہ نے مسکرا کے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے چلو گی مگر میں کوئی بھی ایسا ڈریس لیکر نہیں آئی جو کسی ڈنر میں پہن سکو آپ شام میں آتے وقت میرے وارڈروب سے کوئی بھی ڈریس لیتے آنا پلیز ۔۔۔
ٹھیک ہے میں 7 بجے تک آجاونگا پھر 8 بجے تک چلیں گے۔۔۔
صارم نے کہہ کر کال کاٹ دی جب کے ثمراہ مس صنم کے ساتھ گھر جانے کیلئے چل دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 بجے صارم ثمراہ کے گھر آگیا تھا وہ ثمراہ کو اسکا سامان دے کر اب شایان اور ظفر صاحب سے باتوں میں مصروف تھا ۔۔۔
ثمراہ ریڑی ہو کے باہر آئی تو سب ہی اسے دیکھ رہے تھے۔۔
پرپل کلر کی ساڑھی پہنے جس کے بلاؤز پر اسی رنگ کی ایمبرائیڈری ہوئی وی تھی اور ساڑھی نیٹ کی تھی کانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹاپس پہنے گلے میں خوبصورت سی مالا پہنے ہلکے میک اپ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔ عائشہ بیگم اسے لئے کچن میں چلی گئی وہ اسے کالا ٹیکہ لگایا کان کے پیچھے۔۔
امی یہ کیا کر رہی ہو آپ۔۔۔
ثمراہ نے اپنی امی کو اپنے لئے پریشان دیکھا تو بول پڑی۔۔
میری جان تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ کہیں تمہیں میری ہی نہ نظر لگ جائے اسی لئے کالا ٹیکہ لگا رہی ہوں تاکہ تم محفوظ رہو۔۔۔
افف امی ایسا کچھ نہیں ہوتا آپ میرے لئے ایسے ہی پریشان ہوجاتی ہو جب بھی اچھے سے تیار ہوتی ہوں۔۔۔
کیا کروں ماں ہوں نہ جانتی ہوں تمہیں نظر بہت جلدی لگتی ہے اور پھر بیمار بھی تو پڑھ جاتی ہو۔۔۔
اچھا امی میں چلتی ہو دیر ہورہی ہے۔۔۔
صارم کے ساتھ وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تو صارم گاڑی چلاتے ہوئے بار بار اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
کیا دیکھ رہے ہو کیا تم کو بھی مجھے کالا ٹیکہ لگانا ہے۔۔
میرا بس چلے نہ تو تمہیں کہیں دور لے جاؤ سب کی نظروں سے چھپا کر۔۔
صارم کے الفاظ کی شدت کو محسوس کر ثمراہ بلش کرنے لگی۔۔
ویسے اتنا تیار کیوں ہوئی ہو۔۔
سنو میاں میں بلکل زیادہ تیار نہیں ہوئی بس ہلکا سہ ہی تو میک اپ کیا ہے اور آپ یہ ساڑھی اتنی پیاری لائے ہو ۔۔۔
ثمراہ نے پیار سے اپنی ساڑھی کو دیکھ کے کہا۔۔۔
پتہ ہے یہ ساڑھی میں خود لے کے آیا تھا تمہارے لئے۔۔
صارم نے اسے بتایا تو ثمراہ حیران رہ گئی۔۔
آپ میرے لئے ساڑھی لائے جبکہ مجھے تو لگا تھا کہ آپ اس شادی سے خوش نہیں ہیں۔۔کیونکہ آپ تو کسی اور سے محبت کرتے ہیں نہ۔۔۔
ثمراہ نے کہا تو صارم نے اسے دیکھا جو اسکی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
تمہیں مجھے دیکھ کبھی ایسا لگا ہے کیا کہ میں اس شادی سے خوش نہیں۔۔۔ صارم اسکی بات پر اب سیریس ہوگیا تھا۔۔
دیکھو ثمراہ ہم دونوں کی اب شادی ہوچکی ہے ہم دونوں نے اپنی مرضی سے ہی ایک دوسرے کو قبول کیا اور ہم ساتھ میں خوش بھی ہیں تو پھر اب اس طرح کے سوال کا کیا مطلب ہے۔۔۔
یہ سن ثمراہ باقی راستے خاموش رہی کوئی جواب بھی نہ دیا جبکہ اب صارم بھی خاموش تھا کیوں کہ وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیا ثمراہ آج تک اسکی آنکھوں میں محبت دیکھ نہ پائی۔۔۔
ہوٹل پہنچ کے دونوں ہوٹل کے اندر گئے ثمراہ سر جھکائے اپنا پلو ٹھیک کرہی تھی جب صارم نے اسے کسے سے ملوایا۔۔۔
ان سے ملو ثمراہ یہ میرے کالج ٹائم سے فرینڈ ہیں ۔۔۔ اس ہوٹل کے مالک مسٹر شاہویز۔۔۔
ثمراہ نے سر اوپر اٹھا کے سامنے والے کو دیکھا تو اسکا چہرا سفید پڑھ گیا۔۔
سامنے والا شخص بھی اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا جبکہ صارم نے ثمراہ کا سفید پڑھتا چہرا دیکھا۔۔۔
ثمراہ کا سفید پرتا چہرا صارم دیکھ رہا تھا تبھی ثمراہ نے صارم کی طرف دیکھا ۔۔۔
کیا ہوا بیوی تم اتنا گھبرا کیوں گئی۔۔
صارم نے ثمراہ کے کان میں سرگوشی کی۔۔
نہیں توہ بس ایسے ہی وہ آج پہلی بار ساڑھی پہنی ہے نہ تو تھوڑی پرابلم ہورہی ہے۔۔۔
ثمراہ نے بات بنائی ۔۔۔
اندر لے کر جاؤگے یا یہی کھانا کھلاؤگے۔۔۔
صارم نے شاہویز سے کہا تو وہ ثمراہ کو نظروں کے حصار میں لیے ہوٹل کے اندر لے گیا۔۔۔
اب تینوں ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے صارم اور شاہویز دونوں نے ہی ثمراہ کیلئے چئیر پل کی تھی مگر ثمراہ صارم کی پل کی ہوئی چئیر پر بیٹھ گئی۔۔۔
یہ دیکھ شاہویز کن انکھیوں سے ثمراہ کو دیکھ مسکرانے لگا۔۔
ثمراہ تمہیں پتہ ہے شاہویز اور میری دوستی کالج میں ہوئی تھی اور پھر ہم یونی میں بھی ساتھ تھے۔۔ اس کے بعد میں نے پاپا کا بزنس سمبھالا اور شاہویز نے ایک چھوٹا سہ ہوٹل لیا تھا مگر کچھ ہی سالوں میں اس نے اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچ گیا۔۔۔
صارم ثمراہ کو اپنے دوست کے بارے میں فخر سے بتا رہا تھا جبکہ ثمراہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی وہ بس صارم کو دیکھ رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ اگر صارم کو یہ پتہ چلا کہ یہ لوفر مجھے تنگ کرتا تھا تو وہ کیا کرے گا۔۔۔
اور تمہیں پتہ ہے یہ پہلے تمہارے ہی ایریا میں رہتا تھا اب تو یہ DHA شفٹ ہو گیا ہے پر ابھی بھی روز وہ اسی ایریا میں جاتا ہے کیوں یہ پتہ نہیں
صارم نے بتایا تو ثمراہ خجل سی ہوگئی۔۔
اسے اس لوفر کا روز اسکول کے باہر آنا اور مس صنم کی بات یاد آگئی۔۔۔ اب وہ خود کو کوس رہی تھی کہ اس نے صارم کو آج یہاں آنے کیلئے ہاں ہی کیوں کہا۔۔۔
شاہویز صارم کی بات پر ہنس رہا تھا اور موبائل پر کچھ ٹائپ کررہا تھا۔۔۔
اتنے میں ویٹر وہاں سے کسی کیلئے کھانا لے کر جارہا تھا شاہویز نے بیچ میں پیر آڑا کے اسے ایسے گرایا کہ سارا کھانا صارم کے کوٹ پر گرا۔۔۔
اوہ۔۔۔ ایم سوری سر مجھسے گلتی سے ہوا صارم کو غصہ آیا تھا پر کچھ ویٹر کی گھبراہٹ کو دیکھ اور ثمراہ کو اسکا ہاتھ پکرتا دیکھ وہ غصہ بھول گیا۔۔۔
کوئی بات نہیں غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے مجھے واشروم تک لے جاو تاکہ میں اپنا کوٹ صاف کرلو۔۔۔
صارم نے ویٹر کو تسلی دی اور ثمراہ کو ابھی آتا ہوں کہہ وہ واشروم چلا گیا۔۔۔
شاہویز ثمراہ کو دیکھ مسکرا رہا تھا۔۔۔
ثمراہ نے اسے مسکراتا دیکھ رخ موڑ لیا۔۔۔
تو تم مجھے مل ہی گئی۔۔ پتہ ہے پچھلے ایک مہینے پریشان تھا میں کہ تم کہاں ہو کیسی ہو ۔۔۔
تم سے مطلب میں کہیں بھی رہو کیسی بھی رہوں۔۔۔
ثمراہ نے غصے سے کہا پر شاید سامنے والے پر تو کوئی اثر ہی نہ ہوا ۔۔۔
یہ تو تمہیں پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ میں کتنی دور سے تم سے ملنے آتا تھا صرف تمہیں دیکھتا تھا مجھے تمہاری ہنسی بہت پسند ہے۔۔۔ مگر کبھی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی کیوں کہ تم مجھے اتنے غصے سے دیکھتی تھی کہ میں کبھی کچھ بول ہی نہ پایا ۔۔۔ خیر ابھی بھی کوئی دیر نہیں ہوئی۔۔۔
شاہویز نے کہا تو ثمراہ کو اور غصہ آیا۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا کوئی دیر نہیں ہوئی میں شادی شدہ ہوں اور بہت خوش بھی ۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے میں جانتا نہیں ہوں کہ صارم کسی سے محبت کرتا ہے اسنے تم سے مجبوری میں شادی کی وہ اپنی بڑی مما اور بڑے پاپا کو منع نہیں کر سکتا تھا اسی لئے اس نے تم سے شادی کی۔۔۔
شاہویز سب کچھ جانتا تھا یہ بھی کہ صارم ثمراہ سے ہی محبت کرتا ہے بس اسے بتا نہیں پایا اسی بات کا فائدہ اب شاہویز اٹھا رہا تھا دونوں کے بیچ مس انڈرسٹینڈنگ پیدا کر کے۔۔۔
یہ بات میں جانتی ہوں تمہیں مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں اپنے کام سے کام رکھو
ثمراہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کے کہا تو شاہویز مسکرانے لگا اور جیسے ہی اسکی نظر صارم پہ گئی اس نے ثمراہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
شاہویز کی اس حرکت پر ثمراہ چونک گئی ابھی وہ اسکو تھپڑ مارتی کہ صارم آگیا۔۔۔
وہ سب دیکھ چکا تھا مگر پھر بھی کچھ نہ بولا۔۔
شاہویز نے صارم سے کہا کہ چلو کھانا آرڈر کرتے ہیں۔۔
صارم نے ارڈر کرنے کیلئے مینیو اٹھایا ہی تھا کہ ثمراہ بول پڑی۔۔
مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے گھر جانا ہے۔۔۔
کیا ہوا ثمراہ کھانا کیوں نہیں کھانا۔۔ صارم نے وجہ جاننی چاہی۔۔۔
میری مرضی آپ مجھے گھر ڈراپ کریں ابھی۔۔۔
ثمراہ یہ بول کے رکی نہیں بلکہ باہر کی طرف چل دی۔۔۔
کیا ہوا تمہاری وائف کو میری کمپنی پسند نہیں آئی کیا۔۔۔
شاہویز نے غصے سے پوچھا تو صارم سب جانتے ہوئے بھی کندھے اچکا کر چل دیا۔۔۔
شاہویز کو ثمراہ کا یوں اٹھ کے جانا اپنی بے عزتی لگا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔