فجر کے وقت ثمراہ نے نماز ادا کی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئیے۔۔۔
صارم جو اسے غور سے دیکھ رہا تھا زیرو بلب کی روشنی میں بھی وہ صاف دیکھ سکتا تھا کہ ثمراہ کے چہرے پر آنسو تھے مگر چہرے پر سکون تھا۔۔۔
صارم اس وقت اٹھا اور خود بھی شاور لے کر نماز ادا کرنے کھڑا ہوگیا دونوں کا رشتہ اب مکمل ہوگیا تھا تو دونوں ہی اپنے رب کے حضور شکر ادا کر رہے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن بعد ثمراہ کو اسکے گھر جانا کچھ دنوں کے لئے کیوں نہ صارم نے اسے بتایا تھا کہ اسکے پاپا کی برین سرجری اسی ویک میں ہے تو وہ اپنے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔
صارم کمرے میں آیا تو دیکھا ثمراہ اپنے کپڑے بیگ میں رکھ رہی تھی پیلے رنگ کی پیروں کو چھوتی فراک میں وہ بہت فریش لگ رہی تھی کانوں میں چھوٹی چھوٹی جھمکی پہنے ناک میں بالی کی جگہ چھوٹی سی نازک ڈائمنڈ نوزپن پہنے ہوئے تھی اب اسکے چہرے پر صارم کو وہی ڈمپل دکھتے تھے جو اسنے پہلی بار جب اسے دیکھا تھا اس بچے سے بات کرتے ہوئے تھے
اب اسکی بیوی پھر سے اسکی کیوٹی پائے بن گئی تھی ۔۔۔
وہ اسے اپنے دل کی بات بتانا چاہتا تھا مگر ابھی اسکے پاپا کی برین سرجری ہوجائے پھر ہنی مون پر ہی وہ اسے اسکی سچی محبت کے بارے میں بتائے گا یہ سوچ وہ خاموش تھا۔۔۔
ثمراہ نے صارم کی طرف دیکھا جو صوفے پر بیٹھا شوخ نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔
ثمراہ نے صارم سے سوال کیا تو صارم نے گہرا سانس لے کر بولا۔۔۔
تم نہ کبھی کبھی میرا امتحان لیتی ہو۔۔
کیسا امتحان بھلا۔۔۔
ابھی تو ہم ایک دوسرے کو ٹھیک سے سمجھے بھی نہ تھے اور تم مجھے چھوڑ کے جارہی ہو۔۔۔
صارم کی بات پر ثمراہ خاموش ہوگئی۔۔
اچھا اچھا اب اداس نہ ہو میں جانتا ہو تم پریشان ہو اپنے پاپا کے لئے میں تمہیں کل چھوڑ آونگا تمہارے گھر ۔۔۔
ویسے بھی اب مجھے تمہارا ایڈریس اچھے سے یاد ہوگیا۔۔
ثمراہ جو اداس ہورہی تھی اپنے پاپا کیلئے اور صارم سے دور جانے پر وہ صارم کی اس بات پر ہنس دی۔۔۔
اتنے میں ہی سادہ روم میں آئی۔۔
صارم مجھے باہر جانا ہے اپنی فرینڈ کے گھر تم چلو گے ساتھ ۔۔۔
صارم جو ہاں کہنے ہی والا تھا ثمراہ نے اسے منع کردیا کہ صارم اور میں ابھی تھوڑا ٹائم ساتھ اسپینڈ کرنا چاہتے ہیں تمہیں باہر جانا ہے تو تم حارث کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔
سارہ کو ثمراہ کا منع کرنا برا لگا مگر وہ کچھ نہ بولی اور ان کے کمرے سے چلی گئی۔۔۔
اور صارم ثمراہ کی اس بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
ارے بیوی تم تو بڑی رومینٹک لگ رہی ہو مجھے اب تم سے ڈر لگ رہا ہے میں معصوم اور تم چالاک بلی۔۔۔ یا اللہ مجھے بچانا ۔۔۔
صارم نے ہاتھ اٹھا کے کہا تو ثمراہ پہلے ہنس دی پھر اسکا مطلب سمجھ کے اس کی طرف کشن دے مارا ۔۔۔
کیا کہا میں چالاک بلی ہوں اور تم کونسے چوہے ہو جو مجھسے ڈر جاؤگے۔۔۔
رکو ابھی بتاتی ہوں۔۔
دونوں اپنے کمرے میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے صارم آگے اور پیچھے ثمراہ آج دونوں ہی کھل کے ہنس رہے تھے اور بہت خوش بھی۔۔۔
بھاگتے بھاگتے ثمراہ کا پیر ڈس بیلینس ہوا اور وہ تقریباً گرتے گرتے بچی کیوں کہ صارم نے اسے گرنے نہ دیا ۔۔۔
ثمراہ کو اپنے مضبوط بازؤں میں اٹھائے وہ اسے بیڈ پر لے گیا اور اسے لٹا کر وہ خود بھی اس پر جھکتا چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے وقت ثمراہ اور ثناء ٹیرس پر چائے کے مزے لے رہی تھی جب اسے گاڑی سے اترتے ہوئے سارہ اور حارث کو اترتے ہوئے دیکھا تو اس کے دماغ میں ایک بات آئی جسے اس نے ثناء کے ساتھ شئیر کیا۔۔
آپی سارہ اچھی لڑکی ہے اور حارث کے ساتھ اچھی بھی لگتی ہے تو کیوں نہ ہم دادی پھوپھو سے بات کریں ان کے رشتے کی۔۔۔
ثناء نے پرسوچ انداز میں سر ہلا دیا۔۔۔
ثناء کے جانے کے بعد بھی ثمراہ ٹیرس پر ہی رک گئی تھی۔۔
اسے بارش کا موسم بہت پسند تھا اسی لئے وہ ٹھنڈی ہواؤں کا مزا لے رہی تھی جبکہ ثناء سب کے لئے پکوڑے بنانے چلی گئی تھی
صارم ثمراہ کو ڈھونڈتا ہوا ٹیرس پر چلا گیا۔۔
یہاں کیا کر رہی ہو تم۔۔
صارم نے ثمراہ سے سوال کیا ۔۔
دیکھو نہ موسم کتنا اچھا ہے کبھی بھی بارش ہوجائے گی ۔۔۔
تمہیں بارش پسند ہے؟؟
ثمراہ نے سوال کیا تو صارم بولا ۔۔۔ تمہیں بارش پسند ہے اور مجھے بارش میں تم۔۔۔
صارم نے کہا تو ثمراہ بلش کرنے لگی یہ دیکھ صارم اسکے تھوڑا قریب ہوا اور بارش شروع ہوگئی۔۔
ثمراہ نے پیلے رنگ کا فراک پہنا ہوا تھا جو اب بارش میں نہ مناسب لگ رہا تھا ۔۔ صارم کے سامنے وہ بار بار ڈوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اور پھر آخر کار تنگ آکر وہ نیچے جانے لگی ۔۔۔
وہ آگے بڑھی ہی تھی کے صارم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو یہ ہمارا روم نہیں ہے مسٹر صارم چھوڑو مجھے مگر وہ بھی صارم تھا ثمراہ کی نہ مانی۔۔
دیکھو کوئی آجائے گا۔۔
ثمراہ نے التجا کی تو مجبوراً صارم نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا
بارش میں دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ سارہ اوپر صارم کو بلانے آئی...
آو صارم تمہیں دادو بلا رہی ہیں۔۔
صارم جانے ہی لگا تھا کہ ثمراہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا بلکل ویسے جیسے صارم نے ثمراہ کو روکا تھا۔۔۔
ثمراہ نے سارہ کی طرف دیکھے بغیر ہی اسے کہا کے وہ چلی جائے اور دادو سے کہنا ہم تھوڑی دیر میں آرہے ہیں۔۔۔
یہ کہہ ثمراہ نے صارم کو اپنی طرف کیا جو حیران پریشان اپنی زوجہ محترمہ کو دیکھ رہا تھا جو ویسے تو اس سے شرماتی تھی پر سارہ کے سامنے اتنی محبت جتاتی تھی۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔
یہی دیکھ رہا ہوں کہ تم جل بھن کے بھی اتنی گوری کیسے ہو ۔۔ میرا مطلب ہے کہ میں سوچ رہا ہوں سارہ کو اپنے کمرے میں شفٹ کرلوں تا کہ تم مجھ سے ایسے ہی رومینس کرو ۔۔
کیا کہتی ہو۔۔
صارم نے شرارت سے کہا تو ثمراہ غصہ ہونے کے بجائے مسکرا دی۔۔جس سے صارم چونک گیا۔۔۔
بیوی تم ٹھیک تو ہو نا مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تم جل جل کے پاگل ہوگئی ہو ۔۔۔۔ تمہیں تو اس بات پر غصہ کرنا چاہئے تھا مگر تم مسکرا رہی ہو۔۔
میں کیوں مسکرا رہی ہوں اس کا مطلب تمہیں بہت جلدی پتہ چل جائے گا اور ہاں ری ایکشن چاہئے تھا نہ تمہیں۔۔ تو لو ری ایکشن۔۔
ثمراہ نے یہ بول کے ایک مکہ صارم کی ناک پہ مارا۔۔۔
اوئی ماں ۔۔۔۔۔ یہ کیا کیا تم نے بیوی اپنے شوہر پہ ہاتھ اٹھاتی ہو شرم نہیں آتی کیا ۔۔۔
یہ نہیں کے میاں کو پیار کرو تم الٹا مسکرا رہی ہو ۔۔
صارم بولے جارہا تھا اور ثمراہ ہنس رہی تھی ۔۔۔
تم نے کیا سمجھا میاں صاحب کے میں کوئی شرمیلی ٹائپ لڑکی ہوں غصہ آئے نہ تو منہ بھی توڑ دیتی ہوں ۔۔
اور ہاں آئندہ ایسی بات کی تو ابھی ہلکے مارا ہے۔۔۔
ثمراہ صارم کو وارننگ دیتی نیچے چلے گئی۔۔۔
جبکہ صارم ہاتھ پھیلائے بارش انجوائے کرنے لگا۔۔۔
مجھے کیا پتہ تھا کہ میری کیوٹ سی کیوٹی پائے اتنی خونخار ہے۔۔۔
صارم بیٹے تجھے بلی نہیں بلکہ شیرنی ملی ہے۔۔۔
صارم خود سے باتیں کرتا قہقہہ لگانے لگا۔۔۔
ثمراہ کے تیور تو وہ اسی دن سمجھ گیا تھا جب اسنے اس سے جاوید صاحب کے گھر کا ایڈریس پوچھا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔