ولیمے کا فنکشن بہت دھوم دھام سے ہوا صارم نے رائل بلیو کلر کا ڈنر سوٹ پہنا تھا جس میں اسکی سفید رنگت اور بھی چمک رہی تھی جبکہ ثمراہ نے سلور کلر کی میکسی جس پر وائٹ کام تھا اور ڈوپٹہ صارم کے ڈریس میں میچ رائل بلیو کلر کا تھا خوبصورتی سے کئے گئے میک اپ اور لائٹ سی جیولری میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی بارات کے ڈریس اور جیولری کی نسبت آج وہ خود کو بہت کمفرٹیبل سمجھ رہی تھی ۔۔۔
حال میں موجود سب ہی مہمان ان دونوں کو رشک سے دیکھ رہے تھے دونوں اسٹیج تک پہنچے تو صارم نے ثمراہ کا ہاتھ پکڑ اسے اوپر اسٹیج پر جانے کیلئے سہارا دیا اور دونوں اسٹیج پر جاکر بیٹھ گئے ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد صارم کو اس کے دوست اسٹیج سے لے گئے جبکہ ثمراہ اریشہ سے باتیں کرنے لگی۔۔۔
اریشہ سے بات کرتے ہوئے ثمراہ کی نظر صارم پر گئی جو کسی لڑکی سے بہت کھلکھلا کر باتیں کر رہا تھا۔۔
ثمراہ جو صارم کو کسی لڑکی سے بات کرتا ہوا دیکھ رہی تھی اب اس تجسس میں تھی کہ وہ لڑکی آخر ہے کون۔۔ اسی سوچ میں گھری تھی اس وقت حنا بیگم ایک اچھی عمر کی عورت کو لئے اسٹیج پر آئیں۔۔۔
ثمراہ بیٹا ان سے ملو سے یہ ہی شمس صاحب کی پھوپھو۔۔۔۔انیسہ بیگم نام ہے ان کا ۔۔
آسلام علیکم دادی پھوپھو۔۔۔۔
ثمراہ نے احترام سے سلام کیا تو پھوپھو میں مصنوعی پیار سے جواب دیا۔۔۔
وعلیکم السلام جیتی رہو بیٹا ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔۔
پھوپھو نے جواب دیا اور کسی کو ڈھونڈنے لگی پھر کسی کو بلایا۔۔۔
حنا بیگم تو کسی اور مہمان سے ملنے چلی گئی جبکہ انیسہ بیگم اب کسی لڑکی کو لئے اس کی طرف بڑھی ۔۔۔
ثمراہ کو حیرت ہوئی جب اسنے دیکھا وہ وہی لڑکی تھی جو کچھ دیر پہلے صارم سے ہنس ہنس کے بات کر رہی تھی ۔۔۔
بیٹا یہ میری پوتی ہے سارہ تمہاری ہی عمر کی ہے۔۔۔
ثمراہ نے اس سے ہاتھ ملایا ۔۔۔
جی اور میں صارم کی بیسٹ فرینڈ بھی ہوں۔۔
سارہ کے الفاظ نے اب کی بار ثمراہ کو اسے غور سے دیکھنے پر مجبور کیا۔۔۔
سفید رنگت لئے بھورے بال جو شاید اسنےکلر کروائیں ہوں تیکھے نقوش والی سارہ اسے پہلے تو بہت اچھی لگی تھی مگر اب جب کہ اسنے صارم کی بیسٹ فرینڈ ہونے کا دعویٰ کیا تو اب ثمراہ شاید ہی اسے پسند کرے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے کی تقریب ختم ہوئی تو سب گھر واپس آگئے ۔۔۔
ثمراہ جو اپنے روم میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی۔۔۔
کیا پتہ یہ ہی وہ لڑکی ہو جسے صارم محبت کرتا ہے دیکھا نہیں کتنا خوش لگ رہا تھا اس کے ساتھ ۔۔۔
اور اب تو وہ کچھ دن یہیں رہے گی اپنی دادی پھوپھو کے ساتھ ۔۔۔
اب میںں کیا کروگی۔۔۔
ثمراہ مسلسل سارہ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ۔۔
آج ہی اسنے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے رشتے کو اور صارم کو ایکسیپٹ کرے گی ۔۔۔
صارم چاہے کسی سے بھی محبت کرے وہ اسے اتنا پیار کرے گی اسکا اتنا خیال رکھے گی کہ وہ سب کو بھول جائے گا مگر یہ کیا ہوا ۔۔۔
وہ تو ہمارے ہی گھر آگئی ہے ۔۔
ثمراہ کا موڈ بری طرح خراب ہوگیا تھا اسنے کپڑے چینج کئے منہ دھویا اور سونے کیلئے لیٹ گئی کیونکہ ابھی وہ صارم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
صارم جب کمرے میں آیا تو اسکی متاعِ جاں اسکے ارمانوں پر پانی پھیرے سورہی تھی
یہ دیکھ صارم نے گہری سانس لئے واشروم کی طرف بڑھ گیا شاور لے کر واپس آیا اور ثمراہ کو اپنے حصار میں لئے سوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح جب صارم کی آنکھ کھلی تو دیکھا ثمراہ کمرے میں نہیں تھی اس نے باہر آکر دیکھا تو وہ کچن میں آپی کے ساتھ مصروف تھی ۔۔۔
یہ دیکھ وہ واپس کمرے میں گیا اور فریش ہو کہ آیا تو سب ناشتہ کر رہے تھے وہ بھی ایک چئیر پر بیٹھ گیا سارہ جو اسکے برابر میں بیٹھنے ہی والی تھی اسی وقت ثمراہ وہاں آکر بیٹھ گئی ۔۔۔
سارہ کا موڈ خراب ہوا تھا جبکہ ثمراہ کے چہرے پر ہنسی تھی جیت جانے کی مگر صارم چونک گیا۔۔۔
یہ کیا میری بیوی جیلس ہو رہی ہے سارہ سے مگر کیوں ۔۔۔
ابھی وہ اسی سوچ میں تھا تب ثمراہ نے اسے ناشتہ سرو کیا ۔۔۔
صارم ناشتہ کرنے لگا۔۔اور نظر ثمراہ پہ ہی تھی کیونکہ وہ بار بار سارہ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
کمرے میں واپس آکر صارم یہ ہی سوچنے لگا کہ یہ سب ہوکیا رہا تھا آج۔۔۔
کہیں بیوی سارہ کو میری محبت تو نہیں سمجھ رہی ۔۔۔
صارم اسی سوچ میں تھا کہ ثمراہ کمرے میں آئی۔۔
آپ کیوں ایسے یہاں سے وہاں ٹہل رہے ہیں ۔۔۔
ثمراہ نے صارم کو ایسے ٹہلتے ہوئے دیکھا تو پوچھ بیٹھی۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی اور یہ بھلا تم کیوں مجھسے منہ بنا کہ پھر رہی ہو
میں نے آپ سے کب کھلکھلا کھلکھلا کے بات کرلی جو اب آپکو ایسا لگ رہا ہے کہ میں منہ بنا کہ پھر رہی ہوں۔۔۔
بیوی مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم جیلس ہورہی ہو۔۔
صارم نے شرارت سے کہا تو ثمراہ سٹپٹا گئی۔۔
میں بھلا کس سے جلو گی جلیں میرے دشمن مجھے کیا کوئی یہاں رہے یہ کہیں اور جائے میری بلا سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا کہ کون تم سے بات کرتا ہے کون تمہیں دیکھتا ہے ۔۔۔
ثمراہ اپنی ہی دھن میں بولے جارہی تھی تو صارم نے اسے گلے لگا کیا کیونکہ وہ اسکی بے چینی بھانپ چکا تھا اور اپنی محبت کو وہ تکلیف میں نہ دیکھ پایا۔۔۔
صارم نے اسے اتنی زور سے گلے لگایا کہ ایک منٹ تو ثمراہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی مگر اسنے صارم کو کچھ نہ کہا ۔۔۔
ہنی مون پہ چلیں کیا کہیں دور سب سے دور جہاں اور کوئی نہ ہو صرف تم اور میں ۔۔۔
ثمراہ ہاں کہنا چاہتی مگر اسے اپنے پاپا کی برین سرجری یاد آئی جو کہ اسکی شادی کے بعد تھی۔۔
نہیں ہم ابھی کہیں نہیں جاسکتے ۔۔۔
ثمراہ نے صارم سے الگ ہو کر کہا تو صارم سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
پاپا کی برین سرجری ہوجائے وہ ٹھیک ہوجائیں پھر چلیں گے ۔۔۔
اپنے پاپا کے متعلق جو ثمراہ نے کہا تو صارم حیران رہ گیا کیوں کہ ظفر صاحب نے منع کیا تھا کہ کچھ بھی ثمراہ کو پتہ نہ چلے ۔۔۔
تمہیں کیسے پتہ اپنے پاپا کے بارے میں۔۔۔ صارم نے سوال کیا۔۔
میں نے پاپا کی رپورٹس دیکھی تھی جب وہ شادی کی شاپنگ میں بزی تھے ۔۔۔
ثمراہ کی آنکھوں میں نمی آنے لگی جواب دیتے ہوئے تو وہ صارم کا ہاتھ چھڑا کے باہر چلی گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے بہو یہ صارم بیٹے کی شادی اتنی جلدی میں کیوں کردی۔۔
انیسہ بیگم نے کہا تو حنا بیگم نے انہیں وجہ بتائی اسی وقت ثمراہ جو نیچے آرہی تھی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گئی۔۔
بس پھوپھو وہ صارم نے ہی ضد کی تو ہم نے اسکی خوشی کیلئے کردی شادی۔۔
حنا بیگم نے سچ کہا تھا بس ظفر صاحب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا مگر ثمراہ کو یہ لگا کہ وہ اصلی وجہ نہیں بتانا چاہتی اسی لئے صارم کا نام لے لیا ۔۔۔
اپنی ساس پر اسے بے انتہا پیار بھی آیا کہ کیسے انہوں نے بات بنا کے بات ہی ختم کردی کیوں کہ اگر وہ سہی وجہ بتاتی تو پتہ نہیں دادی پھوپھو کیا سوچتی۔۔۔
لیکن بی بی اتنی بھی کیا جلدی تھی میں تو اپنی سارہ کو صارم کے لئے سوچے بیٹھی تھی ۔۔۔
دونوں بچے ایک دوسرے کو اتنے اچھے سے جانتے تھے خوش رہتے ساتھ میں۔۔
پھوپھو یہ سب تو اللّٰہ کی مرضی ہے نہ جو جس کے نصیب میں ہو اسی سے ہوتی ہے شادی
ارے بی بی چھوڑو آج کل کے بچوں نے تو نصیب کو ہی بدل دیا ہے۔۔
ثمراہ اور سن نہ پائی اور نیچے آکر سب کے ساتھ بیٹھ گئی
اے بہو یہ کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے اپنا۔۔
پھوپھو نے ثمراہ کو دیکھ کر کہا تو ثمراہ خود کو ہی دیکھنے لگی ۔۔
کیا ہوا دادی پھوپھو میں نے کیا کردیا۔۔۔
ارے بی بی تم نے کچھ کیا ہی تو نہیں 2 دن ہوئے تمہاری شادی کو یہ کیا پھیکے رنگ کا جوڑا پہنی وی ہو نہ سنگار کیا نہ زیور پہنا نہ کام والا جوڑا تم تو نئی نویلی دلہن لگ ہی نہیں رہی ۔۔۔۔
ثمراہ نے حیرت سے پہلے ثناء کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی پھر حنا بیگم کو جو اسی کی طرف پیار سے دیکھ رہی تھی۔۔
پھوپھو آج کل کی لڑکیاں کہاں یہ بھاری بھرکم جوڑے پہنتی ہیں اور پھر آج کل فیشن بھی تو نہیں ہے نہ ان سب ۔۔حنا بیگم نے اپنی بہو کی سائڈ لی۔۔
بہو نئی نویلی دلہن تو سجی سنوری ہی اچھی لگتی ہے ۔۔۔تیار رہو تاکہ میاں کا دل لبھاؤ ۔۔۔
دادی پھوپھو کی بات سن ثمراہ کا چہرا لال ہوگیا۔۔
ہاں بی بی شرماؤ نہیں ورنہ تم شرماتی رہ جاؤگی اور تمہارا مرد کسی اور کی طرف ہوجائے گا۔۔۔
صارم جو کب سے ثمراہ کی کلاس ہوتی دیکھ رہا تھا وہ ثمراہ کا لال چہرا دیکھ خوش ہورہا تھا مگر اب اسکے چہرے کا رنگ دوبارہ بدلتا دیکھا تو اب وہ سب کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔۔۔
کیا ہوگیا دادو کیوں میری بیوی پہ غصہ کر رہی ہو آپ۔۔
صارم نے لاڈ سے کہا تو پھوپھو بات بدل گئی ۔۔
ارے نہیں بیٹا میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ بہو کو تھوڑا تیار ہو کہ رہنا چاہیئے
دادو مجھے یہ ایسے ہی اچھی لگتی ہے میں نے منع کیا ہے اسے کے زیادہ تیار نہ ہوا کرے دیکھو زرا اسے سادگی میں اتنی اچھی لگتی ہے اسے کیا ضرورت میک اپ کی۔۔۔
صارم نے ثمراہ کا چہرا نظروں میں لیتا ہوا بولا تو سب نے اسکی ہامی بھری سوائے انیسہ بیگم کے۔۔۔
رات میں ثمراہ غصے میں اپنا وارڈروب سیٹ کرنے لگی ۔۔۔ باہر تو وہ شام میں کچھ نہ بولی مگر اب اسکا ارادہ صارم سے خوب جھگڑنے کا تھا مگر وہ تھا جسے اپنی کزن سے فرصت ہی نہیں تھی ابھی بھی وہ اسے لئے کہیں باہر لے کر گیا تھا شام سے ہی ۔۔۔
وہ گیا تو پھوپھو کے کہنے پر تھا کیونکہ ولیمہ کے بعد سے ہی حارث دبئی چلا گیا تھا بزنس کے سلسلے میں ۔۔۔
رات 11 بجے کے قریب صارم واپس آیا تو ثمراہ پورا وارڈروب پھیلائے بیٹھی تھی۔۔۔
یہ تم اتنی رات کو کیا کر رہی ہو بیوی۔۔
جب تم اتنی رات باہر گھوم سکتے ہو تو میں اس وقت اپنا کام نہیں کر سکتی بھلا۔۔۔
ثمراہ نے غصے سے اپنا ڈریس پھینک کے کہا تو صارم انکھیں بڑی کر کے حیرت سے اسے دیکھا جو بھپری شیرنی بنی ہوئی تھی۔۔۔
خیریت بیوی اتنا غصہ کس بات کا ۔۔۔
میں کیوں غصہ کروگی بھلا میں ہوں ہی کون اور کس کے لئے ہوں میں یہاں۔۔
میرے لئے ہو نہ تم۔۔
نہیں تم تو باہر جائو گھومو پھرو میں ہوں نہ یہاں رہنے کیلئے تمہاری دادی پھوپھو کی باتیں سنو۔۔
تو نہ سنو نہ اگنور کرو ہاں میرے لئے کبھی تیار ہوجایا کرو تھوڑا۔۔۔
صارم نے پیار سے کہا تو ثمراہ اور بگڑ گئی۔۔۔
کیوں ہوں میں تمہارے لئے تیار دیکھ نہیں رہے کے میں کتنا پریشان ہوں پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور ہر کوئی مجھے ہی بول رہا ہے ۔۔
آج تمہادی دادی پھوپھو نے کہا کہ میں پھیکے رنگ کے کپڑے پہنتی ہوں کل ولیمہ میں مجھے کچھ عورتیں کہہ رہی تھی کے مجھ پہ سہاگنوں والا روپ ہی نہیں آیا آب کیا میں مارکیٹ سے خرید کے لاؤ سہاگن کا روپ۔۔۔
ثمراہ کو احساس ہی نہ ہوا وہ کیا کہہ گئی تھی مگر جب احساس ہوا تو شاید بہت دیر ہوگئی تھی۔۔۔
صارم نے اسے اپنے حصار میں لیا اور اسکی چہرے کو نظروں میں لئے بولا۔۔
بیوی بات سنو۔۔ سہاگن والے روپ کیلئے سہاگن بننا پڑتا ہے اور تم تو مجھے اپنے قریب بھی آنے نہیں دیتی دور دور بھاگتی ہو پھر کیسا روپ ۔۔۔
ثمراہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور چہرا سرخ ہوگیا۔۔۔
صارم اس کے چہرے پر اپنی شددتیں وار رہا تھا وہیں ثمراہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس سے دور نہ جا پائی صارم کی محبت نے اسے ہارنے پر مجبور ہی کردیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔