ظفر صاحب نے جب ثمراہ کو آتے دیکھا تو خوشی سے سر شار ہوگئے ۔۔
اسلام و علیکم پاپا کیسے ہیں آپ اور آپ مجھے لینے کیوں نہیں آئے۔۔
اپنے پاپا کا ہاتھ پکڑے ثمراہ شکوہ کر رہی تھی۔۔۔
بھلا باپ بیٹی کے گھر آتا اچھا لگتا ہے کیا۔۔
یہ کیا بات کہہ دی آپنے پاپا کون سے زمانے میں جی رہے ہیں آپ۔۔
ثمراہ نے ظفر صاحب کو کہا تو وہ بات ہی ٹال گئے بھلا آج کل کے بچے کہاں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں
ثمراہ اب اپنے گھر آکر تھوڑی پر سکون تھی۔۔
مگر اسے رہ رہ کر صارم کی نظریں اس کا چہرا سب یاد آرہا تھا تو اس نے سب باتوں کو جھٹک انکھیں موند لیں تو اسکی نظروں میں وہی سب انے لگا صارم کا اسکے ماتھے پر پیار کرنا اسے چین پہنانا اسے خود کے قریب کرنا اور پھر وہ ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اور کچھ سوچتی اس نے اپنی انکھیں کھولی اور اپنی امی پاپا کے پاس چلی گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم اب سب کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا ۔۔
یہ کونسی رسم ہے بھلا کل ہی تو شادی ہوئی ہے اور میری دلہن کو لے بھی گئے سب۔۔
صارم کے یوں بولنے پر حارث نے اسے چپت لگائی بلکل ویسی جیسے ہم آپی کو لینے گئے تھے ۔۔ ہاں تو ہم آپی کو مس کر رہے تھے اسی لئے لینے گئے تھے
تو وہ لوگ کیا ثمراہ کو مس نہیں کر رہے تھے کیا۔۔
حنا بیگم کے بولنے پر صارم نے مزید کو بات نہیں کی اس ٹاپک پہ۔۔
کچھ یاد آنے پہ صارم بولا۔۔
بھئی تم کیوں آج صبح سے خاموش تھے۔۔
صارم حارث سے مخاطب ہوا تو اسنے کہا
ثمراہ ابھی مجھسے جھجک رہی تھی تو میں خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا اور اس کی جھجک بنتی بھی ہے جس طرح سے وہ اس گھر سے جڑی ہے وہ تھوڑا کامپلیکیٹڈ ہے تو ہمیں اسے تھوڑا وقت دینا چاہئے ایڈجسٹ ہونے کے لئے اور میں اس سے بات کروں گا مگر ابھی نہیں وہ تھوڑا کمفرٹیبل ہوجائے یہاں ۔۔۔
حارث کی بات پر سبھی متفق تھے ۔۔
اور ہاں مما آپ اپنے اس لاڈلے کو کچھ سمجھائیں زرا ۔۔۔ حارث بولا تو صارم اس کا مطلب سمجھ اسے ٹوک گیا۔۔
کہا سمجھائیں ہاں سمجھا ہوا ہوں میں ۔۔صارم نے حارث کو آنکھیں دکھائیں مگر حارث خاموش نہ ہوا ۔۔
مما اپنے کل بارات میں دیکھا تھا صارم کو کیسے اتاولا ہو رہا تھا یہ اسٹیج پر بیٹھا اور سب مہمان اسے ہی دیکھ رہے تھے جب کے یہ موصوف تو اپنی دلہن کو ڈھونڈنے میں لگے تھے۔۔۔۔
ہاں اور جب ثمراہ آئی تو کیسے یہ کھڑا ہوگیا تھا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھا دیا تھا اب ثناء نے بھی اسکی شکایت لگائی ۔۔۔
آپی آپ بھی مجھے تنگ کروگی۔۔
تنگ نہیں کر رہی تمہاری شکایت لگا رہی ہوں تا کہ تم کل کوئی ایسی حرکت نہ کرو ولیمہ والے دن
حنا بیگم بس بچوں کی بات پر مسکرا رہی تھیں تبھی شمس صاحب اور واسف لاؤنج میں آئے۔۔۔۔۔
صارم کو یوں آرام سے گپے لگاتے دیکھ شمس صاحب بولے
بیٹا صارم بہو کو گھر نہیں لاؤ گے کیا۔۔۔
کہاں بڑے پاپا کل لایا تو تھا آج پھر سب نے میری کیوٹی پائے کو واپس بھیج دیا ۔۔۔
صارم نے جب آہ بھر کے کہا تو جہاں سب نے قہقہہ لگایا وہیں شمس صاحب بس زیر لب مسکرا دئیے ۔۔۔
بیٹا یہ رسم ہوتی ہے ناشتے کے بعد دلہن میکے جاتی ہے جیسے ثناء آئی تھی۔۔۔
حنا بیگم نے صارم کو سمجھایا تو وہ چہک کے بولا۔۔
تو کیا میں اسے لینے چلا جاؤں۔۔
ہاں تو پھر کب جاؤ گے ۔۔۔ واسف نے بولا تو صارم جھٹ سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تیار ہونے کے لئے جبکہ اسکی بے صبری دیکھ سبھی خوش تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 بجے کے قریب صارم ظفر صاحب کے گھر پہنچا تو سب اس سے بہت پیار سے ملے اکلوتا داماد جو ٹہرا اس گھر کی لاڈلی بیٹی کا شوہر اسے کوئی اہمیت کیوں نہ دیتا بھلا ۔۔۔۔۔
ثمراہ نے جب کچن سے صارم کو دیکھا نیوی بلیو کلر کی شرٹ پہنے بلیک پینٹ کے ساتھ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور اس پہ اسکی وہ مسکراہٹ جب اسنے ثمراہ کو دیکھا تو دونوں کا دل زور سے دھڑکا ۔۔
ثمراہ کے دل پہ یہ محبت کی پہلی دستک تھی جسکے بارے میں وہ صبح سے سوچ رہی تھی اب وہ اسکے سامنے آیا تو اس کے دل نے اسے گواہی دی۔۔
ظفر صاحب کے گھر کھانے سے فارغ ہو کر صارم نے اجازت چاہی تو سب نے خوشی خوشی دونوں کو الوداع کہا۔۔
شاہ ولا جاتے ہوئے راستے میں صارم نے گاڑی روک دی۔۔
کیا ہوا گاڑی خراب ہوگئی ہے کیا ۔۔۔ ثمراہ نے صارم سے سوال کیا جو اسی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
گاڑی تو نہیں مگر میرا دماغ تھوڑا خراب لگ رہا ہے۔۔
صارم نے شرارت سے کہا تو ثمراہ نہ سمجھی میں اسے دیکھنے لگی
میں آدھے گھنٹے سے ڈرائیو کررہا ہوں مگر تم ہو کے مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کر رہی ہو ایسا کیوں بھلا۔۔۔
صارم کی بات اور اسکی شوخ نظروں کو دیکھ ثمراہ تھوڑی پزل ہوئی۔۔۔
نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے بس سمجھ نہیں آیا کیا بات کروں تو کچھ بولی ہی نہیں میں ۔۔۔
ثمراہ نے ہچکچاہٹ میں بولا تو صارم مسکرانے لگا ۔۔۔
ارے میں مزاق کر رہا ہوں بیوی تم تو سیریس ہوگئی۔۔۔
آگر آپ مذاق کر رہے ہیں تو اپنے گاڑی کیوں روکی۔۔۔
وہ اس لئے کیونکہ مجھے میری بیوی کے ساتھ آئسکریم کھانی ہے ۔۔
صارم نے گاڑی روکنے کی وجہ بتائی تو ثمراہ تھوڑی پر سکون ہوئی۔۔
دونوں آئسکریم کھانے لگے تو صارم نے بات کا آغاز کیا ۔۔۔
دیکھو بیوی اگر میں تم سے کچھ پوچھو تو کیا تم اسکا صحیح جواب دوگی۔۔
صارم نے سوال کیا تو ثمراہ نے ہامی بھرلی۔۔۔
ٹھیک ہے پوچھو۔۔۔
کیا تم اس شادی کے لئے راضی نہیں تھی میرا مطلب ہے کے کیا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو ۔۔۔
صارم نے سوال کیا تو ثمراہ کا چہرا سفید پڑ گیا کیوں جو کچھ وہ پوچھ رہا تھا اسکا جواب ہاں تھا ۔۔۔۔مگر اب وہ جواب شاید بدل رہا تھا ۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ ثمراہ نے صارم کو کوئی جواب نہ دیا الٹا اسی سے سوال کر دیا کیوں کہ جواب ابھی اس کے پاس نہیں تھا۔۔۔
تم ایسا کیوں پوچھ رہے ہو۔۔
کیوں کہ جب سے ہمارا رشتہ طے ہوا ہے میں نے تمہیں کھل کے ہنستا ہوا نہیں دیکھا جب تم دل سے ہنستی ہو تو تمہارے ان گالوں پہ ڈمپل پڑتا ہے ۔۔۔۔ جب بولنے پر آتی ہو تو شاید ہی تمہیں کوئی خاموش کروا سکتا ہے ۔۔۔
تم خوش رہتی تھیں خوشی ہو یہ غصہ وہ تمہارے چہرے پر دکھتا تھا مگر اب مجھے اس چہرے پر کچھ نظر نہیں آتا ۔۔
تم نے صبح کہا تھا نہ کہ میں تمہیں بیوی بیوی کیوں کہہ رہا ہوں کیونکہ مجھے ثمراہ تو کہیں دکھ ہی نہیں رہی ہے بس ایک لڑکی ہے جو میری بیوی ہے تو میں اسے بیوی ہی کہوں گا نہ ۔۔۔۔۔
صارم کی باتوں کو سن ثمراہ کی آنکھوں میں نمی آئی جسے وہ نظریں جھکا کی چھپا گئی۔۔
ہر لڑکی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ہم سفر اس کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دیہان دے اس کا خیال رکھے بلاشبہ صارم ایک پرفیکٹ ہسبینڈ تھا جو کہ ثمراہ کو شادی کے پہلے ہی دن اندازہ ہوگیا تھا مگر وہ اسکی محبت نہیں تھی یہ سوچ وہ اپنے جزباتوں کو قابو کرتی بولی۔۔۔
دیکھو صارم تم جانتے ہو ہمارا رشتہ کن حالاتوں میں جڑا میں پڑھنا چاہتی تھی مگر میری شادی ہوئی مجھے شادی پر اعتراض نہیں ہے مجھے بس یہ سب ایکسپٹ کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔۔۔
ثمراہ کا جواب سن صارم نے ایک اور سوال کیا
تو کیا مجھے میری دوست کبھی واپس ملے گی ۔۔۔
ضرور ملے گی اور بہت جلد ملے گی ۔۔۔۔
ثمراہ نے مسکرا کے کہا تو دونوں آئسکریم ختم کر کے گھر کیلئے روانہ ہوگئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات 10 بجے کے قریب وہ دونوں گھر پہنچے تو سب اس وقب لاونج میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے تو وہ دونوں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔۔۔
قریب 12 بجے حنا بیگم نے سب کو ڈانٹا ۔۔چلو اب سب سوجائو کل ولیمہ ہے اور بہت سے اور بھی کام ہیں تو سب اپنے اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔۔
تم چینج کرلو اور سوجائو کل کافی تھکا دینے والا دن ہے
فجر کے وقت ثمراہ کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ صارم اسے ویسے ہی اپنے حصار میں لئے سورہا تھا ۔۔۔
یہ دیکھ ثمراہ کی چہرے پر مسکان آئی۔۔
ارام سے اسکا ہاتھ خود پر ڈے ہٹا کر وہ وضو کرنے واشروم کی طرف بڑھ گئی۔۔
نماز ادا کی اور اپنے رب کے حضور ہاتھ اٹھا لئے ۔۔
اے دو جہانوں کے مالک میں تیری حقیر بندی ہوں تو نے جو کچھ بھی مجھے عطا کیا شاید میں اس لائق نہیں مگر تو مہربان ہے تو نے مجھے میری اوقات سے زیادہ نوازا میں تیرا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے ۔۔۔ تو نے مجھے اتنا اچھا شوہر دیا مجھے سمجھنے والا میرا خیال رکھنے والا بس اس کے دل میں میرے لئے محبت بھی ڈال دے مجھے اس سے محبت ہونے لگی ہے میں چاہ کر بھی اس سے دور نہیں رہ پاونگی تو ہمارے رشتے کو مضبوط کردے ۔۔۔۔ دعا سے فارغ ہو کے ثمراہ دوبارا بیڈ پر آکر لیٹ گئی جانے اسے کیا ہوا اس نے صارم کا ہاتھ خود پہ رکھا اور اسکے سینے پر سر رکھے آنکھیں موند لیں۔۔۔
صارم جو کب سے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا اسے خود کے قریب آتا دیکھ آنکھیں بند کر گیا تھا مگر اب جب ثمراہ اسکے سینے پر سر رکھے لیٹی تھی شاید یہ سوچ کہ کے وہ سورہا ہے یہ دیکھ صارم کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ دوڑی اور وہ انکھیں بند کئے دوبارہ سوگیا اب کی بار شاید اور بھی پر سکون ہو کے۔۔۔۔
صبح جب صارم کی آنکھ کھلی تو ثمراہ اسکے ہاتھ پر سر رکھے دنیا سے بے خبر سورہی تھی شاید کل سے زیادہ آج وہ سکون سے سوئی تھی۔۔۔
صارم نے اسے غور سے دیکھا سوتے ہوئے وہ کسی معصوم بچوں کی طرح لگ رہی تھی معصوم سی پیاری سی ۔۔۔
صارم نے اسکی چھوٹی سی ناک دبائی پھر ایک ایک کرکے اسکے چہرے کے نقوش کو چھو کر دیکھتا پھر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو صارم نے ایک ایک کرکے اسکی آنکھوں پر لب رکھ دئے جس سے وہ تھوڑا سا کسمسائی مگر جاگی ابھی بھی نہیں صارم اسکے بالوں سے کھیلنے لگا کبھی انھیں انگلی میں مروڑتا کبھی چہرے پر رکھتا کبھی اس سے ثمراہ کے چہرے پر مونچھیں بناتا صارم کو یہ سب کر کے خوشی ہورہی تھی آج اسکی صبح بہت خوبصورت تھی اسکی محبت اسکی کیوٹی پائے اسکے بہت قریب تھی اور رات میں اسنے اسکی طرف چھوٹا سہ ہی سہی مگر قدم بڑھایا جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ صارم بھی اس کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔۔۔
صارم کے اتنا تنگ کرنے پر ثمراہ غصے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
کیا ہوگیا ہے تمہیں میرے بال کوئی کھلونا ہے کیا جو تم ان بالوں سے کھیل رہے ہو ۔۔۔
ثمراہ نے غصے سے کہا کیوں کہ اسے سب سے زیادہ غصہ تب آتا تھا جب اسے کوئی گہری نیند سے اٹھاتا تھا ۔۔
میڈم 9 بج رہے ہیں اٹھنے کا ارادہ نہیں ہے کیا ۔۔
صارم نے پیار سے کہا تو ثمراہ نے اسکی طرف بے چارگی سے دیکھا۔۔۔
جسے دیکھ صارم نے ہنسی دبائی۔۔
بیوی تم اتنی دیر تک سوتی ہو تو اسکول کیسے جاتی تھی۔۔۔
صارم نے سوال کیا تو نے اسکو گھور کے دیکھا۔۔۔
ثمراہ جو فجر کے بعد ہی کہیں جا کر سکون سے سوئی تھی ابھی نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اونگ رہی تھی اسکی آنکھیں بھی ابھی کچی نیند کی وجہ سے گلابی ہورہی تھی جس سے وہ اس وقت صارم کو گھور رہی تھی۔۔۔
ثمراہ کے اس طرح سے گھورنے پر صارم نے پہلے گہرا سانس لیا پھر بولا۔۔۔
بیوی تمہیں کل بھی کہا تھا کہ مجھے اس طرح مت دیکھا کرو اور سزا بھگتنے کیلئے تیار رہو۔۔
ثمراہ جو کچھ بولنا چاہ رہی تھی صارم نے اسکے الفاظوں کا گلا گھونٹ دیا تھا۔۔۔
وہ دونوں اب ایک دوسرے میں گم تھے ثمراہ نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی کیونکہ صارم اسکا شوہر تھا اسے پورا حق تھا اس پر ۔۔۔ اسی وقت کسی نے دروازہ ناک کیا۔۔۔
دروازہ ناک کرنے پر جہاں صارم تھوڑا پیچھے ہوا وہیں ثمراہ اٹھی اور واشروم کی طرف بھاگی ۔۔۔
صارم نے دروازہ کھولا تو ملازمہ اس سے ناشتے کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔۔
صارم نے اسے واپس بھیج دیا کہ ناشتہ وہ سب کے ساتھ ہی کرینگے۔۔۔
اب وہ کمرہ بند کرکے واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔
واہ رے بچارے صارم کیا ٹائمنگ تیرے گھر والوں کی سب کو ناشتہ کھانا غلط وقت پہ ہی کیوں یاد آتا ہے ۔۔۔صارم نے رونی صورت بنائی۔۔
ثمراہ شاور لیکر باہر آئی اور ڈرائیر سے بال سکھانے لگی۔۔
صارم کی طرف دیکھا تو وہ بیڈ پر رونی صورت لئے بیٹھا تھا جسے دیکھ ثمراہ نے اپنی ہنسی روکی اور اس سے مخاطب ہوئی۔۔
صارم آپ بھی فریش ہوجائیں پھر ساتھ میں باہر چلینگے
تم ہی چلی جاؤ ناشتہ کرنے مجھے اب کہاں بھوک لگے گی ۔۔۔
صارم نے بہت افسوس سے کہا تو ثمراہ باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
کیسی بیوی ہو تم کل تم میرے بغیر چائے پی رہی تھی اور آج اکیلے ناشتہ کرنے جارہی ہو ۔۔۔۔ یہ نہیں کی شوہر کو منائیں اسے کہیں کہ سرتاج چلیے میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤ گی مگر نہیں یہاں تو جھوٹے منہ دوبارہ نہیں پوچھا جارہا ۔۔۔
صارم نے ثمراہ کو کمرے سے باہر جاتے ہوئے دیکھا تو تو ایک ہی سانس میں اتنا سب بول گیا۔۔۔
ثمراہ جو جانتی تھی صارم اسے ضرور روکے گا کیوں کے اسے ثناء نے بتایا تھا کہ وہ بھوک کا بہت کچا ہے بلکل بھوکا نہیں رہ سکتا تو وہ اب اسے ایسے اکیلے باہر تو جانے نہیں دیتا۔۔۔
میں نے اپ سے پوچھا تھا مگر آپ ہی نہیں آرہے تو میں تو جاؤنگی نہ ناشتہ کرنے ۔۔۔ کیوں کہ مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔
ٹھیک ہے تم چلو میں آرہا ہوں ۔۔
یہ کہہ صارم واشروم کی طرف چل دیا جب کہ ثمراہ روم سے باہر اگئی ۔۔۔
ڈائننگ ٹیبل پر صرف شمس صاحب اور حنا بیگم تھیں جب کے ثناء کچن میں ملازمہ کو ہدایت دے رہی تھی۔۔۔
ثمراہ اپنے ساس سسر کو سلام کرتی کچن میں آگئی۔۔۔
آسلام علیکم آپی کیا کررہی ہیں آپ۔۔۔
ثمراہ کے سلام کا جواب دیتی ثناء حیرت سے بولی۔۔
ارے ثمراہ تم یہاں کیا کر رہی ہو جاؤ ٹیبل پر سب کے ساتھ بیٹھو ناشتہ تقریباً تیار ہے سب کے لئے ۔۔۔
آپی کیا میں کوئی مہمان ہوں جو باہر بیٹھوں یہ میرا اپنا گھر ہے نہ ۔۔۔
ثمراہ نے پیار سے کہا تو ثناء نے اپنی پیاری سی بھابی کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو چندا مگر ابھی تمہاری شادی کو ایک دن ہی تو ہوا ہے تم آرام کرو آج تمہارا ولیمہ ہے ۔۔۔
آپی مگر میں آپ کے ساتھ یہاں کھڑی تو رہ سکتی ہوں نہ اور چھوٹے موٹے کام کرنے میں کیا جاتا ہے۔۔۔
اچھا اپنی امی کے ساتھ بھی کام کرواتی تھی۔۔۔
ثناء کے پوچھنے پر ثمراہ چہک کے بولی آپی میں نہ صرف سنڈے والے دن ڈٹ کے ناشتہ کرتی تھی اور اس دن تو میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتے کیلئے اتنا شور مچاتی تھی اور امی سے ڈانٹ بھی کھاتی تھی ۔۔۔۔
صارم جو حنا بیگم کے کہنے پر ثمراہ کو بلانے آیا تھا وہ کچن کے دروازے پر ہی رک گیا تھا کیونکہ اسنے آج اتنے دنوں کے بعد ثمراہ کو کھل کے ہنستے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔
صارم بے خود سہ ثمراہ کو دیکھ رہا تھا جب ثمراہ کی نظر صارم پر پڑی اور اسکی ہنسی ایک دم رک گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔