ظفر صاحب کے گھر کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔
جاوید بھائی مجھے آپکی مدد درکار ہوگی شادی میں کیونکہ دن کم رہ گئے ہیں اور کام بہت زیادہ۔۔۔
یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو ظفر یہ بھی کیا پوچھنے کی بات ہے۔۔۔۔
معزرت چاہتا ہوں بھائی بس شادی اتنی جلدی طے کر تو دی مگر اب ہاتھ پیر پھول رہے ہیں اتنی جلدی سب کچھ کیسے ہوگا۔۔۔
میں چاہتا تھا میڑی گڑیا کی شادی بہت دھوم دھام سے ہو کسی بھی چیز کی کمی نہ ہونے پائے۔۔۔
ظفر صاحب کے بے چینی سے بولنے پر دور کھڑی انکی گڑیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اپنے باپ کی محبت دیکھ۔۔۔۔
جیسا تم نے سوچا ہے ویسا ہی ہوگا تم فکر مت کرو۔۔۔
جاوید صاحب نے شمس صاحب کو تسلی دی۔۔۔
ہاں تو بیگم آپ اور بھابی اریشہ کو ساتھ لے کر ثمراہ کی شاپنگ سمبھال لیں۔۔۔
ظفر صاحب بول ہی رہے تھے کہ بیچ میں انہیں عائشہ بیگم نے ٹوک دیا۔۔۔
آپ فکر نہ کریں ثمراہ کی ضرورت سا تقریباً سارا سامان موجود ہے بس تھوڑا بہت سامان لینا ہوگا جیسے کپڑے زیور وغیرہ۔۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم کی بات سن ظفر صاحب حیرت سے اپنی بیگم سے پوچھنے لگے۔۔۔بیگم یہ سب کب کیا آپ نے۔۔۔
جب وہ دس سال کی تھی ظفر صاحب تبھی سے میں تھوڑا تھوڑا سامان لے کر آرہی تھی اسکا کیوں کہ بیٹی کی شادی میں بہت سے کام ہوتے ہیں اور ایک ماں اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری اس کے بچپن سے شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔
آپ ٹھیک کہتی ہیں بیگم ۔۔۔۔
ظفر صاحب اور بولنا چاہ رہے تھے پر شایان نے انہیں بیچ میں ہی روک لیا کیوں کی وہ مزید ایموشنل ہونا نہیں چاہتا تھا اسکی بھی تو اکلوتی بہن کی شادی تھی ۔۔۔۔ پر وہ امی پاپا کو اور دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
پاپا آپ پریشان نہ ہوں سب کچھ ہوگا اور بہت اچھے سے ہوگا ۔۔۔۔۔ شایان کی بات پر سب وقتی مطمئن ہوگئے کیونکہ شایان جو کہتا تھا کر کے دکھاتا تھا وہ اپنے خاندان کا فخر تھا جاوید صاحب نے ایسے ہی اپنی اکلوتی بیٹی نہیں دے دی تھی۔۔۔۔۔
ثمراہ اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی اسے گھر والوں نے ہر طرح کے کاموں سے دور رکھا تھا اسے بس اپنے لئے شاپنگ کرنی تھی امی اور اریشہ کے ساتھ۔۔۔۔
وہ بیڈ پر لیٹی صارم کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیسے وہ ایک ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارے گی جو اس سے محبت ہی نہ کرتا ہو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت ہوا کے پروں کی طرح آڑ گیا اور نکاح کا دن آگیا۔۔۔
ظفر صاحب کی گھر دوپہر کے وقت نکاح کی تیاریاں جاری تھی۔۔۔
دوپہر میں نکاح تھا جب کہ شام میں مایوں کی رسم رکھی گئی تھی ۔۔۔۔ سارے فنکشن کمبائین رکھے گئے تھے ۔۔۔۔۔
چچی جان ثمراہ کے نکاح کا جوڑا آیا کیا ۔۔۔۔
بیٹا وہ صارم نے کہا تھا کہ نکاح کا جوڑا وہ خود لے کر آئے گا ۔۔۔۔۔ وہ بول ہی رہی تھی کہ فیز ایک باکس لئے گھر میں آیا۔۔۔۔
امی یہ صارم بھائی دے کر گئے ہیں کہہ رہے تھے آپ کو دے دوں۔۔۔
عائشہ بیگم نے فیز سے باکس لئے جب اسے کھولا تو دیکھا اس میں ایک نہایت ہی خوبصورت نفیس گولڈن کام والا سفید رنگ کا گاؤن تھا جسکا ڈوپٹہ لال رنگ کا تھا اور اسی میں ایک چٹ بھی تھی عائشہ بیگم نے اسے پڑھا۔۔۔
انٹی کچھ لوگ سمجھتے ہیں سفید رنگ کا جوڑا شادی میں نہیں پہنتے مگر یہ تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے نہ نکاح کے وقت سفید جوڑا پہننا اسی لئے یہ میں خودلے کر آیا ہوں اور امید کرتا ہوں آپ کو اور کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔
صارم کی سوچ پڑھ عائشہ بیگم خوشی سے سر شار تھیں بلاشبہ انکا داماد ایک بہت ہی سمجھدار اور دین کو سمجھنے والا انسان تھا جو سب سے محبت کرتا ہے۔۔۔
اریشہ وہ جوڑا ثمراہ کے پاس لے گئی ۔۔۔
دیکھو ثمراہ صارم بھائی تمہارے لئے کتنا خوبصورت نکاح کا ڈریس لے کر آئین ہیں۔۔۔
اپنے نکاح کا دریس دیکھ ثمراہ کی آنکھیں نم ہوگئیں کیونکہ وہ بھی ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ اپنے نکاح کے وقت وہ سفید جوڑا پہنے۔۔۔۔
اریشہ نے اسے تیار کیا ۔۔تیاری کے نام پر اسکا ہلکا سہ لائٹ پنک میک اپ کیا اور ریڈ لپ اسٹک لگائی جو اسکے ڈوپٹہ کے ہم رنگ تھی۔۔۔۔
مہمان آنا شروع ہوگئے تھے شاہ ولا کے سب مکین کی آمد کے بعد صارم اور ثمراہ کا نکاح پڑھایا گیا۔۔۔
مولوی جب ثمراہ کے پاس آیا نکاح کے لئے تو اسکی حالت عجیب ہوگئی اپنے ماں باپ کی جدائی بھائیوں سے دوری وہ کیسے برداشت کرے گی نکاح کے وقت شایان نے اپنے بڑے بھائی ہونے کی تمام ذمی داری بخوبی سنبھالی۔۔۔ اور ثمراہ کے ساتھ ہی بیٹھا نکاح کے وقت۔۔۔۔۔۔
آپ ثمراہ بنت محمد ظفر کا نکاح صارم شاہ ولدیت محمد شاہد سے ہونا قرار پایا ہے جسکا حق مہر دس لاکھ سکہ رائج الوقت ہے کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔
قاضی نے جب نکاح کے بول بولے تو ثمراہ کو اپنا آپ چھوٹتا محسوس ہوا اور وہ کانپتے لبوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کی طرف دیکھ بولی۔۔۔
قبول ہے۔۔۔۔۔
کیا آپکو قبول ہے؟
قبول ہے۔۔۔۔۔۔
کیا آپکو قبول ہے؟
قبول ہے۔۔۔۔۔۔
یہ الفاظ تھے یہ امتحان ۔۔۔ اسکے ماں باپ بھائیوں سے دوری کا فرمان وہ اپنے بھائی سے گلے لگے زاروقطار رونے لگی آنسؤں تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے کانپتے ہاتھوں سے اس نے نکاح نامے پر دستخط کئے ۔۔۔۔
سب کی آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے شایان ماں باپ کی حالت سمجھ رہا تھا اسی لئے وہ نکاح کے وقت ثمراہ کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا اور اب خود بھی آنکھیں بند کئے اپنی جان عزیز بہن کو گلے لگائے اپنے آنسوؤں کو روک رہا تھا کیونکہ اسی کو تو سب گھر والوں کو سنبھالنا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ صارم اپنے نکاح کے وقت جہاں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا مگر غم تو اسے بھی تھا اپنے ماں باپ کے نہ ہونے کا وہ مسکرا رہا تھا تا کہ کسی کو شک نہ ہو۔۔ مگر رہ رہ کر آج اسے اپنی ماں کی اپنے باپ کی یاد ستا رہی تھی جسے شمس صاحب سمجھ گئے تھے ۔۔۔۔۔
نکاح مکمل ہوا تو سب سے پہلے شمس صاحب نے صارم کو گلے لگا لیا اور مبارک باد دی ایسے ہی مبارک باد کا سلسلہ چلا ۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر بعد ثمراہ کو صارم کے ساتھ بٹھا دیا گیا جہاں سب مہمان ان دونوں کو مبارک باد دے رہے تھے ساتھ میں ان کی تصویر بھی لے رہے تھے وہیں دونوں کے گھر والے دل ہی دل میں دونوں کو ڈھیروں دعائیں دے رہے تھے۔۔۔
صارم کی نظر بار بار اپنی نئی دلہن پر جارہی تھی جو کہ خاموش بیٹھی تھی۔۔
اسی کے دئیے سفید گاؤن میں ملبوس لال دوپٹہ سر پہ سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا ہلکی سی جیولری پہنے لائٹ میک اپ پر رونے کی وجہ سے سرخ گال لئے وہ اسکا دل زور زور سے دھڑکا رہی تھی۔۔۔
جبکہ صارم کے جزبوں سے انجان ثمراہ کا دل اس وسوسہ میں گھرا تھا کہ کیا وہ کبھی صارم کے دل میں وہ جگہ بنا پائے گی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوں کا فنکشن کیونکہ ساتھ میں ہی تھا اسی لئے سب میرج ہال میں موجود تھے صارم اسٹیج پر بیٹھا اپنی دلہن کا انتظار کررہا تھا جب کہ حارث اور اس کے کزن اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے
۔۔۔۔
ثناء اور حنا بیگم مہمانوں سے مل رہی تھیں ۔۔
ثمراہ کو اسکی امی اور اریشہ ساتھ لئے اسٹیج تک آرہی تھیں اور صارم کی نظر تو مانو ثمراہ پر رک سی گئی تھی۔۔۔
پیلے اور گلابی کامبینیشن گرارے میں ملبوس ثمراہ ہم رنگ پھولوں کے زیور پہنے ہوئی تھی میک اپ سے پاک چہرے لئے وہ صارم کو کوئی پرنسس ہی لگی۔۔ جب کہ صارم نے بھی مہندیا رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا جس میں وہ خود بھی بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔
دونوں کو اسٹیج پر بٹھایا گیا تو ایک ایک کر سب نے ان دونوں کی مایوں کی رسم کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات والے دن صبح ہی ناشتے کے وقت سب خاموش تھے کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا تھا سب اپنے اپنے ضبط کو آزما رہے تھے کوئی بھی ثمراہ کے سامنے رو نہہں رہا تھا اور ثمراہ تھی کہ اسکے آنسو آج رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ظفر صاحب نے اسے گلے لگایا تو اس کے آنسوؤں میں اور روانی آگئی۔۔۔
پاپا میں آپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی وہاں ؟
ثمراہ کے الفاظ اس وقت سب کے دلوں کو چیر رہے تھے۔۔۔
بیٹا اپکے سسرال والے اتنے اچھے لوگ ہیں وہ آپ کو بہت پیار دینگے بلکل ہماری طرح۔۔۔
ظفر صاحب نے ثمراہ کو سمجھانا چاہا ۔۔۔
نہیں پاپا میں آپ لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔
ارے میرا بچہ یہ تو دنیا کی ریت ہے ہر بیٹی کو ماں باپ کا گھر چھوڑنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔
سب گھر والے ثمراہ کو تسلی دے رہے تھے ۔۔
بلاشبہ بیٹی کو رخصت کرنا جہاں ماں باپ کے لئے مان اور ثواب کا باعث بنتا ہے وہی یہ ماں باپ کے لئے سب سے بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اپنے جگر کے گوشہ کو اپنے سے دور کرنا کہاں آسان ہوتا ہے۔۔۔۔
شاہ ولا میں آج سب بارات کی تیاری میں مصروف تھے اور صارم اپنا کمرا سجوانے میں ۔۔
اس نے ثمراہ کے من پسند رنگ میں جو اس نے مال میں باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھا تھا پورا کمرا اسی لحاظ سے سیٹ کیا تھا نیوی بلیو اور وائٹ کمبینیشن کا کمرا اس وقت لال گلاب اور موتیے کو پھولوں سے سجا ہوا تھا جو کہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ ساری تیاری کو آخری بار دیکھ کے اب صارم تیار ہونے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرج ہال میں جب بارات آئی تو سب کی آنکھیں دلہے کو دیکھ کھل گئی ۔۔۔۔ بلیک شیروانی پہنے ساتھ میں ہم رنگ کلہہ پہنے چہرے پر نفاست سے کی ہوئی شیو کے ساتھ اپنی دلکش مسکراہٹ لئے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم نے دل ہی دل میں اپنے داماد کی نظر اتاری ۔۔۔۔
صارم کو اسٹیج پر بٹھایا گیا ۔۔۔۔
صارم کبھی گھڑی کو دیکھتا تو کبھی اس پاس مگر اسکی دلہن کو کوئی لے کر ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔
میرے مجنوں بھائی تھوڑا تو صبر کر اتنا بھی بے صبرا پن ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔
حارث جو اس کی بے چینی بھانپ چکا تھا اب اسے سمجھا رہا تھا کیوں کے سارے مہمانوں کی نظر اس وقت دلہے پر ہی تھی۔۔۔
یار حارث سب لوگ کہاں چلے گئے اتنی دیر ہوئی مجھے یہاں آئے ہوئے کوئی تو مجھے میری دلہن دکھا دو ۔۔۔
صارم کے اتاولے پن کو دیکھ حارث کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے مگر وہ پیار سے سمجھانے لگا ۔۔
صارم میرے بھائی ہمیں آئے ہوئے مشکل سے ابھی دس منٹ ہوئے ہیں تھوڑا صبر کر۔۔۔
اسی دوران صارم کی نظر سامنے سے آتی ہوئی اپنی دلہن پہ پڑی ۔۔
ڈارک مہرون رنگ کے لہنگے میں ملبوس خوبصورت جیولری پہنے نفاست سے کئے گئے میک اپ میں وہ کوئی گڑیا ہی لگی اسے صارم بے اختیار ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے بڑھا اور ثمراہ کو اسٹیج پر آنے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔۔
صارم کی اس حرکت پر جہاں سب ہنس دئیے وہیں ثمراہ کا چہرا شرم سے سرخ ہوگیا۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے صارم کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب دونوں نے ایک دوسرے کو محسوس کیا تھا ہاتھ تھامتے ہی صارم اور ثمراہ دونوں نے اپنی ایک ہرٹ بیٹ مس کی ۔۔۔۔
اگلے ہی پل صارم اسے اسٹیج پر لے گیا ۔۔۔
اریشہ اور ثناء نے مل کر ثمراہ وہ بٹھایا اور اسکا لہنگا سیٹ کیا۔۔۔
ہال میں موجود ہر انسان دونوں کو رشک سے دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل اور بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔
اسٹیج پر بیٹھے صارم ثمراہ کو دیکھنے میں مصروف تھا جب کہ ثمراہ اسکی نظروں کی تپس کو محسوس کرتی شرم سے اپنا سر جھکا گئی۔۔۔
ثمراہ کی اس حرکت پہ صارم کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔
اس میں کوئی شک نہ تھا کہ محبت سچی اور پاک ہو تو خدا بھی اپکی دعا پر کن فرما دیتا ہے صارم آج اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتا کم تھا آخر اسے اسکی محبت جو مل گئی تھی ۔۔۔
سب مہمان دلہا دلہن سے اسٹیج پر آکر مل رہے تھے اور فوٹو گرافر مہارت سے سب کی فوٹو لینے میں مگن تھا
اسی دوران رخصتی کا وقت ہوا تو ثمراہ کے گھر والوں نے نم آنکھوں سے اسے صارم کے ساتھ رخصت کردیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال سے واپسی پر حنا اور ثناء ثمراہ کو لئے صارم کے کمرے میں چلی گئی کیونکہ شمس صاحب نے کہا تھا کہ ساری رسمیں ہم صبح کرلینگے ابھی وقت بہت ہوگیا ہے۔۔۔
ثمراہ کو صارم کے کمرے میں چھوڑ جہاں حنا بیگم کام میں مصروف ہوگئی وہیں ثناء نے اپنی پوزیشن سنبھال لی ۔۔۔
کدھر دلہے میاں کہاں چلے۔۔
صارم جو اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ثناء کی آواز پر رک گیا۔۔۔
ایسے نہیں جاسکتے آپ۔۔۔
ثناء نے صارم کو چھیڑا ۔۔۔
پھر کیسے جائنگے۔۔۔۔
صارم بھی معصوم بنا ۔۔۔۔
پہلے میرا نیک دیں پھر جانا اندر۔۔۔
لو اتنا نیک بھائی ملا تو ہے آپ کو اور کیا نیک چاہئے۔۔۔
صارم بھی اب شرارت کے موڈ میں تھا ۔۔۔
جی نہیں مجھے میرا نیک دو اور جاؤ اپنی دلہن کے پاس ورنہ یہاں سے نو دو گیارہ ہوجاؤ۔۔۔۔
ثناء نے حکم دیا تو صارم نے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتا ہوا بولا آپی رہم کرلو اپنے معصوم بھائی پر ۔۔
صارم کے انداز پر ثناء نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔
نہیں میں نیک کے بغیر نہیں مانوں گی اسی وقت حنا بیگم حاضر ہوئی اور صارم کو باکس دیا۔۔۔
آپی یہ لیجئے آپ کا نیک۔۔۔
صارم نے وہ باکس ثناء کو تھما دیا ۔۔۔جب ثناء نے وہ باکس کھولا تو اس میں بہت ہی خوبصورت ڈائمنڈ کا نیکلیس
تھا ۔۔۔۔
اب تو جانے دیں بچارے کو۔۔۔
پیچھے سے حارث نے کہا تو ثناء مسکراتے ہوئے راستے سے ہٹ گئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم کے کمرے میں بیٹھی ثمراہ کی دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہورہی تھی ۔۔۔۔
صارم کمرے میں داخل ہوا تو اسے ایسا لگا کہ اسکی سانسیں ابھی رک جائینگی۔۔۔۔
صارم نے کمرا لاک کیا اور اسکے پاس آکر بیٹھ گیا دونوں نے ہی ایک ساتھ ایک دوسرے کو سلام کیا تو صارم مسکرانے لگا اور ثمراہ نے اپنا سر اور مزید جھکا لیا۔۔۔۔
صارم جو پتہ نہیں کیا کیا سوچے بیٹھا تھا کہ جب ثمراہ سے ملے گا تو اسے اپنا حال دل بتائے گا اسے وہ کتنا چاہتا ہے کب سے چاہتا ہے سب بتائے گا مگر اب جب وہ اسکے اتنے پاس بیٹھی تھی تو وہ کچھ بھی بول نہ پارہا تھا۔۔۔
ثمراہ جو صارم کے اتنے پاس بیٹھنے پر ہی اسے اپنی ہاتھ کی ہتھیلی نم ہوتی محسوس ہوئی۔۔
جب صارم کو کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اپنی جگہ سے آٹھا اور سائڈ ٹیبل کی دراز سے 2 مخملیں ڈبی نکالی اور ثمراہ کی طرف بڑھا دیں۔۔۔
یہ لو تمہاری منہ دکھائی کا تحفہ صارم نے ایک ڈبی میں سے ڈائمنڈ رنگ نکال کے ثمراہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔
ثمراہ نے کپکپاتا نازک ہاتھ صارم کے مضبوط ہاتھوں میں دے دیا صارم نے اسے انگھوٹی پہنائی ابھی وہ اسکا ہاتھ چومنے ہی لگا تھا کہ ثمراہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا ۔۔۔۔۔
صارم نے اس کی اس حرکت کو دیکھا اور انکھیں بند کرلیں۔۔۔
یعنی ابھی اسکا صبر تھوڑا اور آزمایا جائے گا مگر وہ پہلے ہی اس سب کے لئے تیار تھا۔۔۔
دیکھو گھبراؤ نہیں میں جانتا ہوں ہماری شادی بہت جلد بازی میں ہوئی ہے تمہیں شاید سوچنے کا موقع بھی نہ ملا ہو مگر یقین مانو میں تم پر یہ رشتہ زبردستی مسلط نہیں کروں گا میں سمجھ سکتا ہوں تمہارے جزبات تمہیں اس رشتے کو قبول کرنے کیلئے جتنا بھی وقت چاہئے میں تمہیں دونگا ۔۔۔
میں بڑی بڑی باتیں نہیں کرتا مگر میں تمہیں بہت خوش رکھونگا تمہارے دل کو سمجھونگا اور یقین مانو ہم بہت اچھی زندگی گزاریں گے ۔۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں وقت دونگا اس رشتے کے لئے۔۔مگر تم بھی وعدہ کرو کہ مجھے سمجھو گی ہمارے رشتے کو سمجھو گی اور اسے ضرور اپناؤ گی۔۔۔ثمراہ نے اثبات میں سر ہلایا تو
یہ کہہ کر صارم اٹھا اور ڈریسنگ روم کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔
اور ثمراہ کی کب کی رکی ہوئی سانس روانہ ہوئی۔۔۔
شادی سے پہلے اس کے جتنے بھی خدشے تھے وہ کافی حد تک دور ہوگئے تھے شادی کی پہلی ہی رات صارم نے اس پر یہ واضح کردیا تھا کہ اس کے لئے یہ رشتہ اہم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلے ہی وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے مگر وہ ہر حال میں اس رشتے کو نبھائے گا یہ سوچ ثمراہ اب پر سکون تھی۔۔۔
صارم نے اسے نہ صرف وقت دیا تھا ساتھ میں عزت بھی دی تھی ۔۔۔۔۔
صارم جب چینج کر کے واشروم سے باہر نکلا تو ثمراہ ابھی بھی بیڈ پر ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
تم بھی چینج کرلو اور آرام سے سو جاؤ صارم کے کہنے پر ثمراہ بیڈ سے اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رک گئی پہلے اپنی چوڑیاں اتاری پھر اپنے ڈوپٹہ کی پن نکالنے لگی۔۔۔۔
صارم نے جب ثمراہ کو اپنے ڈوپٹہ میں ہی الجھا دیکھا تو بولا۔۔۔
میں مدد کروں کیا ۔۔۔
ثمراہ جو اب کوفت کا شکار تھی اپنے جوڑے سے صارم کی بات پر معصومیت سے سر اثبات میں ہلا گئی۔۔۔
صارم مسکراتا ہوا اس کے ڈوپٹہ سے پن نکالنے لگا۔۔۔
ارے پارلر والی نے کیا سارے پن کے پیکٹ یہیں لگا دئیے کیا ۔۔۔
صارم کی بات پر ثمراہ مسکرا دی۔۔
وہ ڈوپٹہ اتنا ہیوی ہے اسے سیٹ کرنے کیلئے ہی اتنی پن لگائی ہیں ڈوپٹہ ہٹا کر اب وہ اس کی جولری اتارنے میں مدد کر ریا تھا جب ثمراہ اپنے زیور اور بھاری ڈوپٹہ سے آزاد ہوئی تو واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔
واش روم میں اسے پستئی رنگ کی نائٹی دکھی تو وہ شاور لئے نائٹی پہن کر باہر آگئی تب تک صارم سوچکا تھا تو وہ خود بھی اس کے برابر میں آکر لیٹ گئی اور جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی اس بات سے انجان کہ برابر میں لیٹے شخص کے لئے وہ امتحان بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔
ثمراہ کو واش روم سے نکلتا دیکھ صارم نے اپنی انکھیں بند کرلی تھیں جب وہ اس کے برابر میں آکر لیٹ گئی تو صارم اپنے جزباتوں پر قابو پاتہ رخ موڑ گیا کیوں کہ ایک تو موتیے اور گلاب کی خوشبو اور اوپر سے ابھی ابھی شاور لے کر آئی ثمراہ جس کے پاس سے ایک دلفریب خوشبو آرہی تھی اسکا دل بی ایمان کر رہی تھی اپنے آپ پر قابو پاتا وہ رخ موڑ کے لیٹ گیا اور بہت مشکل سے ہی نیند کی وادی میں گم ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جب ثمراہ کی آنکھ کھلی دیکھا صارم اسے کسی چھوٹے بچے کی طرح اپنی بانہوں میں لیا بے خبر سورہا تھا کہ اگر کہیں چھوڑا تو وہ اسے چھوڑ کے چلی جائے گی۔۔۔
صارم کو دیکھ ثمراہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور جلد ہی وہ مسکراہٹ غائب بھی ہوگئ یہ سوچ کر کے اس کے دل میں تو کوئی اور ہے اور وہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے وہ اسے کئی بار بتا چکا تھا ۔۔۔۔۔
آرام کے اسکا ہاتھ خود پر سے ہٹا کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی اپنے لئے ہلکے کام والا گلابی جوڑا نکالا اور واشروم کی طرف بڑھ گئی
واشروم سے باہر ائی تو کمرے سے باہر دیکھا تو اسے ملازمہ دکھی ۔۔
ملازمہ نے اس سے ناشتے کا پوچھا تو اس نے بس ایک کپ چائے ہی منگائی اور اپنے کمرے میں واپس اگئی اب وہ اپنے کمرے کو دیکھ رہی تھی غور سے پورا کمرا نیوی بلیو اور وائٹ کامبینیشن کا تھا جو اسے بہت پسند آیا تھا کیونکہ اسکا پسندیدہ رنگ نیوی بلیو ہی تھا ۔۔۔۔اتنے میں ملازمہ اسے چائے دے گئی اور وہ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر پینے لگی۔۔
صارم جو اٹھ چکا تھا اور ثمراہ کو دیکھ رہا تھا اچانک اسے شرارت سوجھی۔۔۔
سنو بیوی۔۔۔
وہ جو ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے کھڑکی کے پاس کھڑی صبح کی نرم دھوپ سے لطف اندوز ہورہی تھی اچانک صارم کی آواز پر مڑی۔۔ اور اسکے یوں بیوی کہنے پر ایک آئی برو آٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔
جی بولئے ۔۔۔
کیسی بیوی ہو تم ۔۔۔
اب میں نے کیا کردیا۔۔
میں نے تو سنا تھا کہ شادی کی صبح بیوی اپنے شوہر کو اپنی نرم خوشبودار اور گیلی زلفوں سے اپنے سر تاج کو پیار سے جگاتی ہے۔۔ پھر تھوڑا شرماتی ہے ۔۔۔۔ اور پھر شرم کے مارے اپنا منہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں چھپہ لیتی ہے ۔۔۔۔
مگر ایک تم ہو جگانا تو دور کی بات ہے صبح صبح چائے کے مزے لے رہی ہو اور پوچھ بھی نہیں رہی۔۔۔۔
ثمراہ جو صارم کو ایک دکھ کے مارے شوہر کے روپ میں دیکھ رہی تھی اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولی۔۔
یہ بھلا آپ کو کس نے بتائی یہ زلفوں والی فلاسفی۔۔۔
کسی نے بھی بتائی ہو اب کیا فائدہ میرے تو دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے نہ۔۔
اچھا بس آج کے لئے اتنی ایکٹنگ کافی ہے ۔۔۔۔
لڑکی ابھی تم نے ہمارے بہت سے روپ نہیں دیکھے ہمیں جان گئی نہ تو دیوانی ہوجاؤ گی۔۔۔
صارم نے گردن اکڑا کے کہا تو دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔۔۔
اچھا اب چائے تو پلادو۔۔۔
آپ سورہے تھے اسی لئے میں نے ایک کپ ہی مانگوایا تھا رکیں میں منگواتی ہوں۔۔۔
ثمراہ یہ کہہ کر کمرے سے جانے لگی اسی وقت صارم نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔
اس اچانک ہونے والی حرکت سے ثمراہ کچھ سمجھ نہ پائی اور صارم کے سینے سے جا لگی۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کی سانسوں کو محسوس کر رہے تھے ۔۔۔
صارم تو ثمراہ کے بدن سے آتی خوشبو میں کھو سہ گیا اور اپنا منہ اس کے بالوں میں چھپا لیا۔۔۔
جب دل بے ایمان ہونے لگا تو کل رات کیا ہوا وعدہ جو دونوں نے ایک دوسرے سے کیا تھا وہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔
صارم نے ثمراہ کے ماتھے پر اپنی محبت کی نشانی صبط کی تو ثمراہ کی دل کی دھڑکن اور بھی تیز ہوگئی ۔۔۔۔۔ اب صارم اسکے گلابی ہونٹوں کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کسی نی دروازہ ناک کیا۔۔۔۔
آواز پر جہاں ثمراہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی وہیں صارم سخت بد مزا ہوا ۔۔۔
دروازہ کھولا تو ملازمہ حنا بیگم کا پیغام لئے کھڑی تھی ۔۔
جی وہ بڑی بیگم آپکو اور دلہن بی بی کو ناشتے کے لئے بلا رہی ہیں ۔۔۔ ٹھیک ہے ہم آتے ہیں ۔۔۔۔
یہ کہہ کر صارم دروازہ بند کرتا واپس پلٹا تو ثمراہ پھر سے کھڑکی کی طرف منہ لئے اپنا شرم سے سرخ پڑتا چہرا چھپا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
صارم اسکو مسکراتا کر دیکھ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
صارم جب فریش ہو کے باہر آیا تو دیکھا ثمراہ اسی کے انتظار میں کھڑی تھی
بیوی بیٹھ جاؤ تمہیب سزا تھوڑی دی گئی ہے کھڑے ہونے کی۔۔۔
صارم اسے کھڑا دیکھ بولنے لگا اور ڈریسنگ مرر کے سامنے اپنے بال بنانے لگا۔۔
بیٹھو نہیں چلو سب ناشتے پر انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔
ثمراہ نے کمرے سے باہر قدم بڑھائے ہی تھے کہ صارم نے ایک بار پھر ثمراہ کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔
بیوی تم ایک چیز بھول رہی ہو ۔۔۔۔
صارم کی اس حرکت پہ جہاں وہ اپنا سر جھکا گئی تھی وہیں اس کے کچھ بھولنے پر اسکی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت چین تھی جس میں ایک نفیس اور خوبصورت ڈائمنڈ کا پینڈنٹ تھا ۔۔۔۔۔
اوہ اچھا لاؤ دو میں پہن لیتی ہوں۔۔۔۔
ثمراہ نے جب چین لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو صارم نے اسے تھام لیا ۔۔۔
میرا گفٹ ہے میں ہی پہناونگا۔۔۔
یہ کہہ صارم اسے چین پہنانے لگا ثمراہ نے جب شیشے میں صارم کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ اسے ہی شوخ نظروں سے دیکھ رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ کوئی پیار بھری گستاخی کرتا ثمراہ ایک دم اس سے دور ہوئی اور کمرے سے باہر ہی نکل گئی بغیر صارم کی طرف دیکھے۔۔۔۔۔
جب کے ثمراہ کی اس حرکت پہ صارم نے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔
کیوٹی پائے میں جانتا ہوں میں تمہیں تھوڑا تنگ کر رہا ہوں مگر یہ میری محبت ہے جس کا آج نہیں تو کل تمہیں احساس ہوہی جائے گا اور جب تمہیں بھی مجھسے محبت ہو جائے گی تب میں تمہیں بتاؤنگا کہ میں جس لڑکی کے بارے میں بات کرتا تھا وہ وہی ہے۔۔۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر سبھی موجود تھے ثمراہ حارث کو دیکھ دور ہی فریز ہوگئی تھی ۔۔۔
آؤ بیٹا وہاں کیوں کھڑی ہوگئی ۔۔
حنا بیگم کی پکار پر اسنے قدم بڑھائے ہی تھے کہ پیچھے صارم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے ڈائننگ ٹیبل پر لے گیا اور اسے ناشتہ سرو کرنے لگا۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ سب کو سلام کرتی وہ چئیر پر بیٹھ گئی مگر صارم کو مسلسل خود میں مصروف دیکھ اسنے باقی گھر والوں کو دیکھا جس میں سوائے شمس صاحب کے سبھی ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
یہ دیکھ ثمراہ تھوڑی خجل سی ہوئی۔۔۔
صارم ایک کام کرو اسے اپنے ہاتھوں سے کھلا بھی دو۔۔
ثناء نے شرارت میں کہا تو صارم نے ایسے اسے دیکھا کہ اتنا اچھا آئیڈیا پہلے کیوں نہیں دیا ۔۔۔ جب کہ ثمراہ نے صارم کو انکھیں دکھائی جو کہ نوالہ اس کی طرف بڑھا ہی رہا تھا۔۔۔
بھئی میری بہو کو تنگ مت کرو۔۔
حنا بیگم نے پزل ہوتی اپنی بہو کو دیکھا تو بولے بنا نہ سکی۔۔
مما ثمراہ بس اپکی بہو ہی نہیں ہے میری بھابی بھی ہے اور دیکھنا یہ میری بہن اور بیسٹ فرینڈ بھی بنے گی ۔۔۔ ٹھیک کہا نہ میں نے۔۔۔
ثناء کے یوں پیار سے بولنے پر ثمراہ نے مسکرا کے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔
حارث جو کہ ثمراہ کی جھجک کو واضح محسوس کر چکا تھا تو اس نے ابھی اس سے ہنسی مزاق نہیں کیا ۔۔۔۔
اس نے سوچ لیا تھا وہ ثمراہ سے بات کرے گا اور اسکی جھجک دور کرے گا آخر کو اب وہ اس کی بھابی تھی اور وہ کب تک ایسے اس سے پریشان رہے گی۔۔
سب لوگ ناشتے میں مصروف تھے اسی وقت عائشہ بیگم شایان اور اریشہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی جنہیں دیکھ جہاں سب خوش ہوئے وہیں ثمراہ کی آنکھیں نم ہوئی اور وہ اپنی امی کے گلے لگ گئی۔۔۔
ناشتے سے فارغ اب سب خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد شایان نے ثمراہ کی طرف دیکھ کے بولا۔۔ چلیں ثمراہ تو صارم جو مسکرا رہا تھا وہیں رک گیا اور وہ شایان کو دیکھنے لگا ۔۔۔
عائشہ بیگم نے سب سے سجازت چاہی اور ثمراہ کو ساتھ چلنے کا کہا تو وہ اپنا بیگ لینے کیلئے روم میں اگئی اور پیچھے پیچھے صارم بھی وہیں اگیا۔۔
کہاں جارہی ہو تم ۔۔۔۔
ثمراہ کو جانے کی تیاری کرتا دیکھ صارم نے پوچھا ۔۔
امی کے ساتھ جارہی ہوں۔۔
وہ تو مجھے بھی پتہ ہے کیوں جارہی ہو کل ہی تو آئ ہو اور آج واپس ۔۔
ہاں تو ولیمہ کل ہے اسی لئے آج جارہی ہوں آپ مجھے لینے رات کو ائینگے نہ۔۔۔
سنو بیوی اب تم میری ہو۔۔ جاؤ جا کر کہہ دو سب سے کہ کہیں نہیں جارہی میں تم۔۔
میں کیوں ایسا کہوں بھلا اور یہ کیا آپ مجھے صبح سے بیوی بیوی کہہ رہے ہیں میرا نام ہے وہ لیں کیا بیوی بول رہے ہیں۔۔۔
اور رہی بات جانے کی تو آپکو تو خوش ہونا چاہئے اب آپ اپنی اس محبت سے بات کر پائینگے جائیں اس کے ساتھ ٹائم اسپینڈ کریں مجھے کیوں روک رہیں ہیں۔۔
ثمراہ کی باتوں کو سن صارم کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ ابھری۔۔۔
بیوی تمہیں اس لئے کہتا ہوں کہ تمہیں جتانا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور مطلب تم اچھے سے سمجھ سکتی ہو دوسرا یہ ہے کی مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تم جیلس ہورہی ہو۔۔۔۔
صارم نے اسے کمر کے گرد دائرہ بنا کے خود کے قریب کرلیا تھا ۔۔۔
ایک تو صارم کی قربت اور دوسرا اس کی باتیں ۔۔۔ ثمراہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی بغیر پلکیں جھپکائے ۔۔۔
ابھی وہ صارم کی بات کا جواب دیتی صارم نے اسکی بات اس کے لبوں پہ ہی روک دی اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک گستاخی وہ کر ہی بیٹھا ۔۔۔
جب وہ اس سے دور ہوا تو دیکھا ثمراہ کا چہرا شرم سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔
بیوی اگر آیندہ تم نے مجھے ایسے دیکھا تو یاد رکھنا اس سے بھی بڑی سزا دونگا۔۔۔
ثمراہ جو اسے لال چہرا لئے حیرت سے دیکھ رہی تھی صارم کی بات سن ڈر کے واش روم کی طرف بڑھ گئی جب کے صارم ہنستا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
اپنا بیگ اس شال لئے جب ثمراہ نیچے آئی تو حنا اور ثناء سے مل کہ اس نے شمس صاحب سے اجازت لی جانے کی اور بغیر صارم کی طرف دیکھ وہ اپنی امی کے ہمراہ چل دی ۔۔۔
ثمراہ کو اپنی طرف نہ دیکھتا صارم دل ہی دل میں مسکرا دیا کہ اتنا ڈر کہ میری طرف دیکھ بھی نہیں رہی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔