شاہ ولا میں جہان یہ طے ہوا تھا کہ اب صارم کی شادی ثمراہ سے ہوگی وہی مسئلہ اب یہ تھا کہ ثمراہ کے گھر والوں سے بات کیسے کریں ۔۔۔
میں بول دونگا مجھے کوئی اور لڑکی پسند ہے۔۔
حارث نے اپنا آئیڈیا پیش کیا تو شمس صاحب بولے۔۔
بیٹا جی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی کی ایسے گھر میں شادی نہیں کرتے جہاں ان کی بیٹی کو ٹھکرایا جائے ۔۔
شمس صاحب بات ہی کر رہے تھے کہ انکا فون بجنا شروع ہوا۔۔
جی۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔۔
بولو بیٹا۔۔۔
خیریت۔۔۔
اتنی جلدی۔۔۔۔
ٹھیک ہے بہتر۔۔۔
ہاں ہم سب آجائیں گے۔۔۔
خدا حافظ۔۔۔
کیا ہوا شمس صاحب۔۔
کل کٹنے پر حنا بیگم شمس صاحب سے پوچھنے لگی۔۔۔
شایان بیٹے کی کال تھی ظفر صاحب نے ہم سب کو صبح اپنے گھر بلایا ہے۔۔۔۔۔
مگر اتنی جلدی کیوں بلایا ہے۔۔۔
حنا بیگم نے سوال کیا۔۔۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم مگر شایان کہہ رہا تھا کہ پاپا ثمراہ کی موجودگی میں بات نہیں کرنا چاہتے اسی لئے صبح بلایا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں ثمراہ اپنے کمرے میں لیٹی سونے کی کوشش میں لگی تھی مگر نیند تو جیسے کہیں دور ہی رہ گئی تھی۔۔۔
اف کیا ہے بھئی لیٹے لیٹے بھی بور ہوگئی ہوں۔۔۔
کیا کروں ۔۔۔ کیا کروں۔۔۔
کس سے بات کروں۔۔۔۔
صارم کو کال کرتی ہوں وہ ہی جاگ رہا ہوتا ہے ۔۔۔
مگر میں اس سے کہوں گی کیا ۔۔۔
خیر دیکھا جائے گا۔۔۔
دوسری بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی۔۔۔
اسلام و علیکم کیسے ہو صارم۔۔۔
میں تو ٹھیک ہوں آج تم نے اس نہ چیز کو کیسے یاد کر لیا۔۔۔
سامنے سے صارم کی چہکتی ہوئی آواز آئی تو اب ثمراہ کو پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اس نے اسے کیوں کی کال ۔۔
مگر اب کیا کریں۔۔
پہلے پہل صارم ثمراہ کو بلکل اچھا نہیں لگا تھا
ایک لوفر سے زیادہ وہ اسے کچھ سمجھ نہ پائی تھی۔۔
مگر جب اسے یہ پتہ چلا کہ وہ تو حد سے زیادہ کسی سے محبت کرتا ہے ۔۔
اسے تو بس تنگ کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ بول دیتا ہے تو اسنے صارم سے بات کرنا شروع کردی ۔۔
کیونکہ وہ شرارتی تھا مگر دل کا برا نہیں تھا۔۔۔
کہاں چلی گئی میڈم ۔۔۔
کہیں نہیں بس وہ میں نے انکل انٹی کی خیریت پوچھنے کے لئے کال کی تھی ۔۔
کیسے ہیں وہ۔۔
وہ تو خیریت سے ہیں پر تمہیں کیا ہوگیا آدھی رات کو کون کس کی خیریت لیتا ہے۔۔۔
ثمراہ سمجھ نہیں پائی کے صارم پھر اس سے مزاق کر رہا ہے اور وہ گڑ بڑا گئی۔۔۔
نہیں وہ میں بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی ۔۔۔
نہیں تم کہو تو میں تمہاری بات کرواتا ہوں ۔۔۔ رکو۔۔
ارے نہیں نہیں رات بہت ہورہی ہے میں صبح بات کرلو گی ۔۔۔
ثمراہ اب ڈر گئی تھی کہ کہیں صارم سب کو واقعی نہ جگہ دے ۔۔۔۔۔
اچھا بابا سوری میں بس بور ہورہی تھی اسی لئے کال کر لی اس وقت کوئی دوست نہیں جاگ رہی ہوتی اسی لئے تمہیں کال کی۔۔
تو میڈم میں بھی سو ہی رہا تھا۔۔
صارم نے اب کی بار جمائی لیتے ہوئے کہا تو ثمراہ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا جو رات کے 3 بجا رہی تھی۔۔۔۔
اوہ سوری وہ تم ہمیشہ جاگ رہے ہوتے ہو تو سوچا کہ آج بھی جاگ رہے ہونگے۔۔۔
ثمراہ نے صفائی دینی چاہی۔۔۔
ہاں جاگتا تھا مگر جس بات کی ٹینشن تھی وہ دور ہوگئی ہے تو اب سکون سے سورہا تھا۔۔۔۔ کسی سے ملنا تھا خوابوں میں تو سونا تو پڑے گا نہ۔۔۔
کس کے خواب دیکھتے ہو تم۔۔
ثمراہ نے صارم سے حیران ہو کے پوچھا۔۔جبکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کسی سے محبت کرتا ہے پھر بھی پوچھ بیٹھی
ہے میری ایک کیوٹی پائے جس سے میں مل نہیں سکتا مگر وہ روز میرے خواب میں آتی ہے۔۔
صارم نے جب محبت میں چور لہجے میں کہا تو ثمراہ نے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔۔
کیا تم اس سے اتنا پیار کرتے ہو کہ اسے اپنے خوابوں میں دیکھتے ہو۔۔
وہ تو میرے ساتھ ہر پل ہوتی ہے سائے کی طرح خوشبو کی طرح۔۔۔
ثمراہ کا صارم کی باتوں پر دل زور سے دھڑکا ۔۔۔۔
وہ صارم سے بات کرنا نہیں چاہ رہی تھی مگر وہ اس کی باتوں میں ایسا کھوئی کہ کچھ پل وہ بلکل خاموش رہی ۔۔۔۔
صارم کو لگا کہ وہ خاموش ہے کچھ بول نہیں رہی تو اس نے اپنا لہجا تبدیل کیا ۔۔۔
کہا گئی میڈم۔۔۔
نہیں کہیں نئی گئی۔۔۔ صارم کے زور سے بولنے پر ثمراہ چونک گئی ۔۔۔
اور ہاں سنو ۔۔
ہاں بولو۔۔۔
میرے بارے میں اتنا مت سوچا کرو محبت ہوجائے گی مجھ سے ۔۔۔
صارم کے شرارت سے بولنے پر ثمراہ نے ایک بیٹ مس کی اور بعیر کوئی جواب دیئے کال کاٹ دی۔۔۔
یہ بھلا مجھے کیا ہوگیا تھا ابھی۔۔۔
وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے وہ اسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔
میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں۔۔مجھے کیا۔۔۔
میری شادی اس کے بھائی سے ہوگی۔۔
پھر میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں۔۔
میں نے اسے کال کی ہی کیوں ۔۔۔۔
ثمراہ نے خود سے ہی نہ جانے کتنے سوال کئے مگر اسے ایک کا بھی جواب نہ ملا اور اس کی پوری رات آنکھوں میں کٹی۔۔۔
جبکہ کال کٹنے پر صارم کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ دوڑی۔۔۔
اب تو اسے اور بھی اچھی نیند آنی تھی کیونکہ خوابوں میں اسکا کوئی انتظار جو کر رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شاہ ولا کے مکین ظفر صاحب کے گھر موجود تھے۔۔۔
ساتھ میں جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ بھی وہیں تھیں۔۔۔
جی ظفر صاحب آپ کیا بات کرنا چاہتے تھے۔۔۔
شمس صاحب نے ظفر صاحب کو مخاطب کیا۔۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں اسی مہینے کے آخر میں یہ اگلے مہینے کی شروع میں ہی اپنے دونوں بچوں کی شادی کردوں ۔۔۔
لیکن بھلا ایسا کیا ہوا ہے کہ آپ اتنی جلدی کر رہے ہیں۔۔۔۔
شمس صاحب کے پوچھنے پر ظفر صاحب نے سب کو اپنی صحت اور آپریشن کے بارے میں بتا دیا ۔۔۔۔
ظفر صاحب کی باتوں جہاں سب افسوس سے سن رہے تھے وہیں شایان اور اسکی امی حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔۔
اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی گڑیا کو رخصت کردوں وہ اپنے گھر کی ہوجائے تو پھر میں اگر اس دنیا سے چلا بھی گیا تو مجھے کوئی افسوس نہ ہوگا۔۔۔۔
یہ کیسی بات کر ہے ہو ظفر اللّٰہ نہ کرے تم کہیں جاؤ اللّٰہ تمہیں لمبی زندگی دے تمہارا سایہ ہمیشہ تمہارے بچوں کے سروں پر سلامت رکھے۔۔۔
جاوید صاحب کی بات پر سب نے ہی آمین کہا۔۔۔
ٹھیک ہے ظفر صاحب ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ایک مسئلہ ہے۔۔
ہاں جی کہئے۔۔۔
شمس صاحب کی بات پر سبھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں ثمراہ بیٹی کی شادی حارث سے نہیں بلکہ صارم سے ہو۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔
شمس صاحب کی بات سن سبھی پریشان ہوئے۔۔
ہم جانتے ہیں ہم نے ہی حارث اور ثمراہ کی کی منگنی کی مگر یقین جانیں ہم نے ثمراہ کو صارم کے لیے ہی پسند کیا تھا مگر حارث بڑا تھا تو سوچا پہلے اس کی شادی ہونی چاہئے۔۔
شمس صاحب رشتے کوئی کھیل نہیں جو کبھی بھی بدل جائیں جاوید صاحب کے بولنے پر شمس صاحب نے وضاحت دی ۔۔۔
دیکھیں ہم جانتے ہیں یہ بات مگر حارث ابھی 5 سال تک شادی نہیں کرنا چاہتا اپنے بزنس کی وجہ سے وہ اسے اور اسٹیبلش کرنا چاہتا ہے جب کے صارم کا بزنس تو پہلے ہی کافی اسٹیبلش ہے ۔۔۔
یہ ہماری خواہش ہے ثمراہ کو ہمارے صارم کی دلہن ںنانا برائے مہربانی آپ اس بارے میں سوچئے۔۔۔
شمس صاحب نے ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر کہا کہ کہیں انہیں کوئی بات بری نی لگے اور وہ رشتہ ہی ختم نہ کر دیں ۔۔۔
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ظفر صاحب نے شمس صاحب کے فیصلے پر اپنی رضامندی دیدی۔۔۔
جاوید صاحب اور شایان کو اعتراض ہوا اس فیصلے پر لیکن وہ کچھ بولے نہیں۔۔۔
سب کی باہمی رضامندی سے اگلے مہینے کی شروع کی تاریخوں میں ہی ثمراہ اور صارم کی شادی طے پا گئی جب کے شایان نے اپنی شادی سے انکار کر دیا کہ پہلے آپ صحت یاب ہوجائیں پھر کرینگے شادی۔۔۔
شایان کے فیصلے پر جاوید صاحب بھی متفق تھے۔۔۔۔
سب نے ایک دوسرے کا منہ میٹھا کیا اور صارم تو پھولے نہیں سما رہا تھا کہ کل سے ہی سب یہی سوچ رہے تھے کہ سب کچھ کیسے ہوگا ثمراہ کے گھر والے کیسے مانیں گے۔۔۔۔ مگر سب کچھ بہت آسانی سے ہوگیا تھا ۔۔۔حارث اور ثناء اپنے بھائی کی خوشی میں خوش تھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کے جانے کے بعد عائشہ بیگم شایان اور جاوید صاحب نے ظفر صاحب کو اڑے ہاتھوں لیا۔۔۔
تم کیا مجھ سے بھی بڑے ہوگئے کہ اپنی صحت کے بارے میں اتنی بڑی بات تم نے سب سے چھپائی۔۔۔۔
جاوید صاحب سخت غصہ تھے اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کی اس حرکت پہ۔۔۔
ہاں تو آپ نے ہمیں بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔
اب کی بار عائشہ بیگم بولی۔۔۔
میں کسی سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا تھا سوائے ثمراہ اور فیز کے ۔۔
فیز ابھی چھوٹا ہے جب کہ ثمراہ حساس دل کی مالک ہے وہ یہ سب برداشت نہیں کرپاتی اسی لئے میں نے سب کو اس کی غیر موجودگی میں بلایا تا کہ ٹھیک سے بات ہو۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے پاپا لیکن آپ نے جو فیصلہ لیا ہے آپ کو نہیں لگتا ہمیں ایک بار ثمراہ سے پوچھنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔
وہ کیسے یہ برداشت کرے گی ابھی 3 ہفتے پہلے ہی اس کی منگنی حارث سے ہوئی تھی اور اب وہ اسی کے چھوٹے بھائی سے شادی کرے گی وہ بھی اتنی جلدی جب اسے سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہ دیا ہو۔۔۔
شایان کو رہ رہ کر اپنی بہن کا خیال آرہا تھا ۔۔۔۔
شایان ٹھیک کہہ رہا ہے ظفر تمہیں تھوڑا وقت لینا چاہئے تھا ۔۔۔
جاوید صاحب نے بھی اپنے بھائی کو سمجھانا چاہا۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے فیصلہ لینے میں جلدی کی ہے مگر بہت سوچ سمجھ کے ہی فیصلہ لہا ہے میں نے۔۔۔
میں ہمیشہ اپنی گڑیا کے لئے ایسا ہی جیون ساتھی چاہتا تھا جو اسے ہمیشہ خوش رکھے اسکا ہنسنا اسکا شوخ چنچل انداز اسکی معصومیت کو ختم نہ کرے اور صارم پوری طرح میرے معیار کے مطابق ہے وہ خوش رہنا بھی جانتا ہے اور اپنوں کو خوش کرنا بھی۔۔۔
اور میری بھی یہی خواہش تھی کہ صارم میرا داماد بنے۔۔۔مگر بیٹی والا ہوں اسی لئے یہ سب کہہ نہیں پایا ۔۔۔۔
وہ سب ٹھیک ہے ظفر صاحب ہمیں اپکے فیصلے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ اپکی جلد بازی پر اعتراض ہے ثمراہ کو کیسے راضی کریں گے اب۔۔۔
عائشہ بیگم نے جب اپنی فکر کی وجہ بتائی تو ظفر صاحب پر سکون ہوگئے یہ جان کے کہ کسی کو بھی صارم اور ثمراہ کی شادی پر اعتراض نہ تھا۔۔۔۔
اپ لوگ فکر نہ کریں ۔۔وہ میری بیٹی ہے میرا مان ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے پاپا ہمیشہ اس کے لئے بہترین کو ہی پسند کرینگے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول سے واپسی پر ثمراہ روز کی طرح کھانا کھا کے سو گئی تھی ۔۔۔
شام میں جب اس کی آنکھ کھلی تو کمرے سے باہر آکر دیکھا تو امی پاپا گھر میں موجود نہیں تھے ۔۔۔۔
فیز امی پاپا کہاں گئے۔۔
لاؤنج مین بیٹھے فیز کو دیکھا تو ثمراہ نے اس سے سوال کیا۔۔۔
شکر ہے آپی اپ اٹھی مجھے باہر جانا ہے کھیلنے دوستوں کے ساتھ مگر پاپا نے منع کیا تھا کی بہن کے اٹھنے سے پہلے باہر مت جانا۔۔۔۔۔۔ اب آپ یہاں بیٹھو اور میں چلا باہر ۔۔۔۔
اور ہاں امی پاپا مارکیٹ گئے ہیں ۔۔۔
ثمراہ جو اس سے دوبارہ امی پاپا کا پوچھنے والی تھی تبھی فیز اسے بتا کہ یہ جا وہ جا ہو گیا۔۔۔۔
ثمراہ کو امی سے کچھ چیزیں لینی تھی امی گھر پر نہیں تھیں تو وہ خود ان کے کمرے میں چلی گئی اپنی مطلوبہ چیز لینے ۔۔۔۔۔
مگر جب نظر ہسپتال کی فائل پر پڑی اور اس پر اپنے پاپا کا نام دیکھا تو وہ فائل دیکھے بغیر خود کو روک نہ سکی۔۔۔۔
فائل چیک کرنے کے بعد اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے ۔۔۔۔آخر سب نے مجھسے اتنی بڑی بات چھپائی ۔۔۔کیا سب مجھے اتنا کمزور دل سمجھ تے ہیں۔۔۔۔۔فائل بند کر کے وہ اپنے کمرے میں آگئی اور پھوٹ پھوٹ کے رودی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں ظفر صاحب نے ثمراہ سے بات کی۔۔۔
بیٹا ہم نے اگلے مہینے کی شروع میں تمہاری اور صارم کی شادی طے کردی ہے۔۔۔
پاپا کے الفاظ تھے یا لوہے کا سیسہ جو اس کے کان میں ڈالا جارہا تھا۔۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں پاپا ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔
ظفر صاحب نے آج صبح ہونے والی تمام باتیں اسے بتا دی سوائے اپنی بیماری کے۔۔۔
جبکی شایان اور عائشہ بیگم خاموشی سے ثمراہ کے تاثرات دیکھ رہے تھے۔۔۔
لیکن پاپا اتنی جلدی کیوں ۔۔۔۔
بیٹا آپ کو اپنے پاپا پہ بھروسہ ہے نہ میری ایک مجبوری ہے جو میں آپ کو ابھی نہیں بتا سکتا۔۔۔۔
ٹھیک ہے پاپا پہلے بھی آپ نے ہی فیصلہ کیا تھا مجھے نہ تب اعتراض تھا نہ اب ہے میں جانتی ہوں آپ میرے لئے بہترین کو ہی چنیں گے۔۔۔۔
ثمراہ کی بات پر جہاں شایان اور عائشہ بیگم مسکرا دیئے وہی ظفر صاحب نے فخر سے اپنی بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا اور ڈھیروں دعائیں دی۔۔۔۔۔
اور ثمراہ یہاں ان سوچوں میں گم تھی کہ صارم تو کسی اور سے محبت کرتا ہے وہ اور میں کیسے خوش رہ سکیں گے۔۔۔۔۔
صارم جب سے گھر آیا تھا اسی وقت سے بس مسکرائے جارہا تھا جسے دیکھ سبھی گھر والے خوش تھے۔۔۔
مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہا بڑی مما یہ سب اتنی آسانی سے ہو کیسے گیا۔۔۔
صارم نے کوئی پچاسیوں بار کہی بات ایک بار اور دہرائی۔۔۔
مما اپکا بیٹا پاگل ہوگیا ہے۔۔
حارث نے صارم کو اپنے آپ میں مگن دیکھ بولا۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا کہ 20 دن صرف 20 دن کے بعد میری شادی ہے۔۔۔۔
ہاں بیٹا جی آپ خیالوں میں رہیئے جبکہ ہمیں بہت سے کام ہیں 20 دن میں شادی کرنی ہے ۔۔۔شمس صاحب ساری تیاری کیسے ہوگی۔۔۔
ارے بیگم سب ہوجائے گا ۔۔۔۔
شمس صاحب نے حنا بیگم کو تسلی دی اور سب سے مخاطب ہوئے۔۔۔
صارم میاں اپنے خیالوں سے باہر آئے۔۔
تو میں نے فیصلہ لیا ہے کہ آپ اور ثناء گھر کے کاموں کے ساتھ شاپنگ کی زمے داری سمبھالیں گی شمس صاحب حنا بیگم سے بولے اور صارم آپ تمام مہمانوں کو انویٹیشن کی ذمہ داری کے ساتھ شاپنگ میں ہیلپ کریں گے ۔۔۔ باقی کام میں اور حارث سمبھال لینگے۔۔۔
شمس صاحب نے سب کو انکی زمہ داری دی اور خود آگے کے بارے میں سوچنے لگے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔